بلوچستان: خاران میں لاک ڈاؤن کے بعد محنت کش بدحال، خوراک نہ ملنے سے ایک بچے کی ہلاکت!

|رپورٹ: نمائندہ ورکرنامہ|

کرونا وائرس کی وجہ سے لاک ڈاون کے بعد ملک بھر کا محنت کش طبقہ اس وقت انتہائی کسمپرسی کا شکار ہے۔ بالخصوص ایسے مزدور جو کہ دیہاڑی پر کام کرتے ہیں یا پھر انفارمل اکانومی کے ساتھ منسلک ہوتے تھے، وہ مزدور اس وقت زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔ مگر ان مزدوروں کے حوالے سے حکومت بلوچستان سمیت پورے پاکستان کے اندر کوئی طریقہ نہیں بنایا گیا ہے کہ جس کی بنیاد پر اس مزدور طبقے کا کوئی پرسان حال ہے۔بلوچستان کے اندر، بالخصوص تفتان بارڈر کی بندش کے بعد غیر رسمی معیشت کے ساتھ جڑے ہوئے تمام مزدور اور چھوٹے تاجر اس وقت شدید مشکلات کے شکار ہیں۔

تین دن پہلے بلوچستان کے ضلع خاران میں ہوٹل پر کام کرنے والے ایک مزدور کا بچہ غذائی قلت کی وجہ سے بیمار پڑا جبکہ دوسری طرف علاج نہ ملنے کی وجہ سے شیرخوار بچہ جان کی بازی ہار گیا۔ اس بچے کا بڑا بھائی جو ایک ہوٹل میں دیہاڑی کا کام کرتا ہے لیکن لاک ڈاؤن کی وجہ سے گزشتہ 9 دنوں سے اس کی دیہاڑی بند تھی، گھر میں ایک وقت کی روٹی بھی میسر نہیں تھی۔ بچے کے دودھ کے پیسے نہ ہونے کی وجہ سے پانی میں چینی ملا کر خوراک کی طرح دینے سے بچہ بیمار ہوکر جان کی بازی ہار گیا۔
ریڈ ورکرز فرنٹ اس ضمن میں یہ مطالبہ کرتا ہے کہ اس بچے کے قتل کا واقعہ حکمرانوں کے خلاف درج کیا جائے، اور مذکورہ متاثرہ خاندان کو ہر حوالے سے سہولیات اور بنیادی ضروریات فراہم کرکے ان کی دادرسی کی جائے۔

اس کے علاوہ چند دن پہلے تفتان بارڈر سے چالیس کے قریب خاران کے باشندے واپس لائے گئے جو کہ ایران میں مزدوری کرتے تھے۔ ایران سے واپس آنے کے بعد سے ان کے گھروں میں کسمپرسی کا عالم ہے اورکھانے کو روٹی بھی موجود نہیں۔ خاران کے اکثریت لوگ ایران میں مزدوری کر کے اپنا گزر بسر کرتے ہیں۔ ابھی بھی بہت سے لوگ ایران میں پھنسے ہوئے ہیں۔ نمائندہ ورکرنامہ کے مطابق اس کا ایک ہمسایہ ایران میں پھنسا ہوا ہے، وہاں ایران میں بھی اُس کا مزدوری کا کام کرونا کی وجہ سے رُکا ہوا ہے، اِس لیے وہ گھر بھی پیسے نہیں بھیج پا رہا ہے، اب اُس کے گھر میں بھی غربت کی وجہ سے بہت سخت حالات ہیں۔

انتظامیہ اور عوامی نمائندے کسی قسم کی کوئی بھی مدد نہیں کر رہے ہیں۔ ہسپتال میں بھی علاج کا نظام رُکا ہوا ہے کیونکہ ابھی ہسپتال صرف کرونا کے لیے کھلے ہیں اور کرونا سے متعلق بھی ہسپتال میں کوئی سہولیات نہیں ہیں۔ طبی عملے کے پاس بھی کوئی حفاظتی کِٹس نہیں۔ چند روز قبل تفتان سے آئے ہوئے لوگوں کی سکریننگ کرنے کے لیے ڈاکٹرز نے سرجیکل لباس پہنا ہوا تھا۔ ماسک اور سینیٹازر جیسی چیزیں ملنا تو ناممکن جیسی بات ہے۔

ریڈ ورکرز فرنٹ حکومت بلوچستان سے یہ مطالبہ کرتا ہے کہ لاک ڈاون کے شروعات میں انہوں نے مزدوروں کے ساتھ وعدہ کیا تھا کہ وہ دیہاڑی دار مزدوروں کو پندرہ ہزار روپے ماہانہ الاؤنس دیں گے، جبکہ ایسے مزدور جو کہ انفارمل سیکٹر کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں ان کو اپنے مالکان سے 17 ہزار پانچ سو روپے دلوایا جائے گا۔ مگر ہمیشہ کی طرح اب تک حکمران طبقہ کے وعدے صرف وعدے ہی ہیں۔ اس پر فوری عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے۔ اس کے علاوہ ریڈ ورکرز فرنٹ یہ مطالبہ کرتا ہے کہ بلوچستان کے دور دراز اور مضافاتی علاقوں میں فی الفور قرنطینہ سینٹرز بنائے جائیں، جبکہ ان سنٹرز میں کام کرنے والے طبی عملے کو حفاظتی آلات کی فراہمی یقینی بنائیں۔

Comments are closed.