گوجرانوالہ: بیکن ہاؤس میں جونیئر عملے کی حالت زار

|رپورٹ:ریڈ ورکرزفرنٹ، گوجرانوالہ|

کسی بھی ادارے میں کام کرنے والے محنت کش ہی اس ادارے کی اصلی صورت حال سے آگاہ ہوتے ہیں۔ بیکن ہاؤس گوجرانوالہ کا جونیئر عملہ ا س وقت دس ممبران پر مشتمل ہے۔ پور ے سکول کی صفائی اس عملے کے ذمے ہے۔ سکول کے چوبیس کمروں اور دیگر جگہوں کو ملا کر جن میں باورچی خانہ، اساتذہ کے غسل خانے، بچوں کے غسل خانے، باغیچے، کھیل کا میدان وغیرہ شامل ہیں، کی صفائی یہ عملہ کرتا ہے۔ سکول اگر ساڑھے سات بجے شروع ہوتا ہے تو اساتذہ کو سوا سات اور جونیئر عملے کو پونے سات بجے بلایا جاتا ہے کہ وہ سکول شروع ہونے سے پہلے پورا سکول چمکا دے۔عملے کے جو لوگ دور دراز جگہوں سے آتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ انہیں طلوع آفتا ب سے پہلے ہی گھر سے نکلنا پڑتا ہے تاکہ وقت پر سکول پہنچ سکیں ان میں خواتین بھی شامل ہیں ۔ چونکہ وہ لوکل آتی جاتی ہیں اس لیے انہیں مختلف مسائل سے دوچار ہونا پڑتا ہے،اس کے علاوہ ان کے بچے سکول جاتے ہیں تو انہیں ان کے لیے بھی ناشتہ اور ان کا یونیفارم تیار کرنا ہوتاہے، گھر کے دیگر امور سر انجام دینے ہوتے ہیں جس کے لیے انہیں صبح چار بجے تک جاگنا پڑتا ہے۔ رات دیر تک گھر کے کاموں میں جتے رہنے اور علی الصباح جاگنے کے باعث ان کی طبیعت بھی آئے روز خراب رہتی ہے ۔ سکول سے ذرا سی دیری پر انہیں بے عزت کرنا اور تنخواہ کاٹنے کی دھمکیاں دینا معمول کی بات ہے۔ جونیئر سٹاف کا کہنا ہے کہ ان پر جو انچارج مقرر کیا گیا ہے وہ بغیر کسی لحاظ کے ہروقت کتوں کی طرح ان پر بھونکتا ہے۔ اکثر بغیر کسی معاوضے کے اوقات کار سے زیادہ کام لیا جاتا ہے اور گیٹ پر آرڈر دیا جاتا ہے کہ جب تک اندر سے آرڈر نہ ہو کسی کو بھی باہر جانے نہیں دیا جائے اور پھر چار یا پانچ بجے اندر سے رہائی کا آرڈر آتا ہے۔ کبھی کبھی تو اندھیرا بھی ہو جاتا ہے اور جونیئر عملے کی جو محنت کش خواتین اکیلی گھروں کو جاتی ہیں انہیں بہت مسئلہ ہوتا ہے کیونکہ اندھیرا ہونے کے بعدد ور علاقے میں جا نے کے لیے بمشکل ہی کوئی رکشہ یا گاڑی ملتی ہے۔ اس کے بعد تھکن سے چور ان محنت کش خواتین کو گھر جا کر بھی کام کرنا پڑتا ہے اور اپنے شوہر اور باقی گھر والوں کی باتیں الگ سننا پڑ تی ہیں۔ ان محنت کش خواتین کا کہنا ہے کہ ان کے بچے بھی ان کے انتظار میں بھوکے بیٹھے رہتے ہیں کہ کب ان کی ماں گھر واپس آئے اور کب انہیں کھانا بنا کر کھلائے۔

جونیئر عملہ اس بات کی بھی شکایت کرتا ہے کہ انہیں گرمیوں کی تعطیلات بھی کم سے کم ملتی ہیں، دو یا زیادہ سے زیادہ تین ہفتوں کی چھٹیاں ملتی ہیں اور اس دوران بھی جب سکول والوں کا دل چاہے انہیں بلا لیا جاتا ہے۔ بیمار ہونے کی صورت میں بھی کوئی رعایت نہیں برتی جاتی۔ مالکان کی حد درجہ کوشش ہوتی کہ ملازم بیماری کی حالت میں بھی ڈیوٹی پر حاضر ہو،ہاں البتہ ٹانگ بازو ٹوٹ جائے تو چھٹی دینے کا سوچا جا سکتا ہے۔ انکریمنٹ کی بات کریں تو وہ بھی مالکان کی مرضی کے مطابق لگایا جاتا ہے۔ جونیئر عملہ سارا سال جانوروں کی طرح کام کرتا ہے اور انکریمنٹ بس پانچ یا آٹھ سو روپے لگایا جاتا ہے، اگر مالکان نے کبھی اپنا دل بڑا کیا تو انکریمنٹ ایک ہزار تک جا سکتا ہے۔ پھر بھی یہ جونیئرعملے کی سارے سال کی محنت کے آگے کچھ بھی نہیں۔ کبھی کبھی تو انکریمنٹ لگایا ہی نہیں جاتا۔ کھانا کھانے کے لیے بھی جونیئر عملے کو بس پندرہ منٹوں کا وقت دیا جاتا ہے جن میں پانچ منٹ تو کھانا گرم کرنے میں لگ جاتے ہیں اور دس منٹوں میں مشکل سے ہی کھانا کھایا جاتا ہے۔ عملے کے اکٹھے بیٹھ کر کھانا کھانے پر بھی پابندی ہے کہ وہ آپس میں کوئی بات نہ کر سکیں۔ جو محنت کش خواتین آیا ہونے کا کام کرتی ہیں انہیں بچوں کے والدین بہت تنگ کرتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ آیا ان کے بچوں کو باقی سب بچوں سے بڑھ کر پیار کرے۔ ذرا سی کمی بیشی کی صورت میں والدین سیدھا پرنسپل کو شکایت کرتے ہیں، وہ یہ بھی جاننے کی کوشش نہیں کرتے کہ اصل معاملہ کیا ہے۔حتیٰ کہ جب بچے سکول آتے ہیں تو انہیں ان کی گاڑیوں سے اتارنا اور ان کے بستوں سمیت انہیں ان کی جماعتوں میں چھوڑ کر آنا بھی جونیئر عملے کی ذمہ داری ہے کیونکہ بقول والدین کے، ان کے بچوں کو بستہ اٹھانے کی ’’ عادت‘‘ نہیں ہے۔ اگر دیکھا جائے توجونیئر عملے سے کئی کئی کام کروائے جاتے ہیں لیکن تنخواہ انہیں صرف ایک کام کی ہی دی جاتی ہے۔ چونکہ ان سب کاموں کے لیے مالکان مزید عملہ رکھیں تو مالکان کو انہیں تنخواہ بھی دینی پڑے گی اسی لیے وہ ( مالکان) اپنا منافع بچانے کے لیے نیا عملہ بھرتی کرنے کی بجائے پہلے سے موجود عملے کو مونڈتے ہیں اور ان کا استحصال کرتے ہیں۔ 

ادارے سے باہر کا کوئی بھی انسان یہی خیال رکھتا ہو گا کہ بیکن ہاؤس جیسے اونچی سطح کے اداروں میں کام کرنے والا تگڑی تنخواہ لیتا ہے لیکن ادارے میں کام کرنے والے محنت کش ہی ادارے کے اندر حقیقی صورت حال سے واقف ہوتے ہیں۔ ہم ریڈورکرز فرنٹ کے توسط سے محنت کشوں کے ساتھ روا اس تمام ظلم و جبر اور استحصال کی شدید مذمت کرتے ہیں۔ ان تمام مزدور دشمن اقدامات کا جواب محنت کش طبقہ اپنی جدوجہد کے ذریعے ہی دے سکتا ہے۔ جن اداروں میں محنت کش طبقہ کام کرتا ہے، ان اداروں میں محنت کشوں کی یونین ، محنت کشوں کے ساتھ ظلم و استحصال کے خلاف موثر اور مضبوط ہتھیار ثابت ہو سکتی ہے جس کے ذریعے وہ اپنے مطالبات منوا سکتے ہیں اور طبقاتی جدوجہد کی راہ پر چل کر محنت کش طبقہ سوشلسٹ سماج کی تشکیل کی طرف بڑھ سکتا ہے۔

Comments are closed.