کاروانِ بھٹو یا ’’سوداگرانِ بھٹو‘‘؟

|تحریر: پارس جان|

ذوالفقار علی بھٹو کی برسی کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے پارٹی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے عمران خان کی کٹھ پتلی حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا۔ فرطِ جذبات میں وہ یہاں تک کہہ گئے کہ ’ایک لات مار کر جب چاہوں تمہاری حکومت گرا دوں گا ‘۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ حکومت اٹھارویں ترمیم کا خاتمہ کر کے واپس ون یونٹ جیسا نظام نافذ کرنا چاہتی ہے۔ پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے بھی نہایت جارحانہ زبان استعمال کرتے ہوئے اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کی دھمکی لگا ڈالی۔ دو دن بعد عمران خان نے شمالی قبائلی علاقہ جات کی عوام سے خطاب کرتے ہوئے ان دھمکیوں کو گیدڑ بھبکیاں قرار دے دیا۔ عمران خان نے چیلنج کیا کہ آصف علی زرداری صرف ایک ہفتہ کنٹینر میں گزار کر دکھا دیں۔ خان نے طنزاً پیپلز پارٹی کو دھرنا دینے کی صورت میں کھانے اور کنٹینرز وغیرہ کا اہتمام کرنے کی دعوت بھی دے ڈالی۔ ان کے خیال میں آصف علی زرداری کو لانگ مارچ کی بجائے جیل جانے کی تیاری کرنی چاہیے۔ یہ تمام تر نورا کشتی اس وقت جاری ہے جب حکومت آئے روز عوام پر مہنگائی بم اور ٹیکسوں کے میزائل داغ رہی۔ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مسلسل اضافے اور روپے کی قدر میں بتدریج کمی نے عوام کے لیے سانس لینا تک اجیرن کر دیا ہے۔ ڈالر 143 روپے کا ہو چکا ہے۔ افراطِ زر لگ بھگ دس فیصد تک پہنچ چکا ہے۔ اور یہ حکومت اور اپوزیشن دونوں عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے ایک دوسرے پر الزام تراشیوں کے ذریعے حقیقی جمہوریت کی نقاب کشائی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ 

پاکستان پیپلزپارٹی کے مرکزی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے حال ہی میں سندھ میں ایک احتجاجی ٹرین مارچ کی قیادت کا ’شرف‘ بھی حاصل کیا۔ یہ ٹرین مارچ کراچی سے شروع ہوا تھا اور لاڑکانہ اسٹیشن پر اختتام پذیر ہوا۔ یہ ٹرین آٹھ بوگیوں پر مشتمل تھی جن میں سے ایک بوگی بلاول بھٹو زرداری اور ایک صحافیوں کے لئے مختص کی گئی تھی۔ باقی ٹرین پر جیالوں کا راج تھا۔ رستے میں بلاول بھٹو زرداری نے حیدرآباد اور سکھر سمیت درجنوں اسٹیشنوں پر جیالوں کی ’کثیر‘ تعداد سے جذباتی اور ’انقلابی‘ خطاب بھی کیا۔ اس مارچ کے عزائم اور مقاصد کے بارے میں مختلف باتیں سیاسی و صحافتی حلقوں میں گردش کرتی رہیں۔ پیپلزپارٹی کے ذمہ داران کی طرف سے بھی مختلف بیانات سننے میں آئے۔ زیادہ تر لوگوں کے خیال میں یہ مارچ مبینہ طور پر مہنگائی کے خلاف احتجاج ریکارڈ کرانے کے لئے منظم کیا گیا۔ کچھ کا کہنا یہ بھی تھا کہ اپریل میں ذوالفقار علی بھٹو کی برسی کی تقریب میں زیادہ سے زیادہ عوامی شرکت کو یقینی بنانے کی غرض سے کیے جانے والے اس مارچ کو پیپلزپارٹی کی عوامی رابطہ مہم قرار دینا چاہیے۔ لیکن شاید ہی کوئی ذی شعور اس حقیقت سے انکار کر سکتا ہے کہ یہ مارچ پیپلزپارٹی کی قیادت کے اس مخصوص ردعمل کا تسلسل ہے جس کا آغاز نیب کی طرف سے آصف علی زرداری اور فریال تالپور سمیت دیگر پارٹی قائدین کے خلاف کی جانے والی کاروائیوں سے ہوا تھا اور جس میں شدت حال ہی میں نیب کے مقدمات کراچی سے اسلام آباد منتقل کرنے کے بعد دیکھنے میں آئی۔ حکومتی وزرا کی طرف سے اس مارچ کا شدید تمسخر اڑایا گیا اور وزیراطلاعات نے تو اسے ’ابو بچاؤ مارچ‘ کا نام دے دیا۔ یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ وزیرِاطلاعات فواد چوہدری کے اپنے ’سیاسی والدین‘ کی ایک طویل فہرست ہے جس میں خود پیپلزپارٹی کی حالیہ قیادت کا نام بھی شامل ہے اور آئندہ بھی اس کے احیاء کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔ تاہم یہ مارچ بہرحال کرپشن اور لوٹ مار سے جمع کی گئی دولت کے تحفظ کے لئے سندھ کی عوام کو ہمیشہ کی طرح ڈھال بنانے کی ایک اور کوشش کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں۔

اس مارچ کے دوران تمام سٹیشنوں پر استقبالیہ کیمپوں کا انعقاد کیا گیا تھا جن میں پیپلزپارٹی کے شعبہ نشر و اشاعت کے مطابق ہزاروں کی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے اداس اور بدحواس کارکن اس مارچ کو بہت بڑی کامیابی قرار دے رہے ہیں۔ وہ لوگ بھی جو خود کو بائیں بازو کا حصہ قرار دیتے ہیں مگر پیپلزپارٹی کو آج بھی محنت کش طبقے کی پارٹی سمجھتے ہیں، وہ لوگ بھی بہت خوش دکھائی دے رہے ہیں اور اسے سندھ کی بیداری سے تعبیر کر رہے ہیں۔ صورتحال کا گہرائی میں جائزہ لینے سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ یہ لوگ زمینی حقائق سے کس حد تک لاتعلق ہیں۔ مارچ کے دوران ایک اسٹیشن پر لگائے گئے کیمپ میں ایک ٹی وی رپورٹر نے چند خواتین کا انٹرویو کیا۔ اس رپورٹر کے مطابق وہ استقبالی کیمپ چیئرمین کا قافلہ گزر جانے کے بعد خود پارٹی قیادت کے خلاف ایک احتجاجی کیمپ کی شکل اختیار کر چکا تھا۔ وہاں پر موجود خواتین و حضرات اس بات پر سراپا احتجاج تھے کہ مذکورہ کیمپ کے منتظمین نے ان سے فی کس دو ہزار روپے طے کیے تھے مگر ابھی تک انہیں صرف دو سو روپے فی کس موصول ہوئے ہیں۔ یہ نام نہاد بائیں بازو کے کارکنان جو کہ موقع پرستی یا رومانویت کی دلدل میں غرق ہو چکے ہیں وہ اس طرح کے تمام حقائق یا انکشافات کو اسٹیبلشمنٹ کی سازش قرار دے کر کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر لیتے ہیں۔ زمینی حقائق سے جڑے ہوئے لوگ بخوبی جانتے ہیں کہ صرف پیپلزپارٹی ہی نہیں بلکہ تمام پارٹیاں اپنے اپنے دوراقتدار میں اپنے جلسوں کی رونق بڑھانے کے لئے سرکاری وسائل کے بے دریغ استعمال کو اپنا جائز حق اور عوام کا دیا ہوا مینڈیٹ سمجھتی ہیں۔ پنجاب میں تحریک انصاف کی حالیہ حکومت اور نواز لیگ کی سابقہ حکومتوں کا بھی یہی وطیرہ رہا ہے۔ کراچی میں ایم کیو ایم نے اس عمل کو اپنی انتہا تک پہنچا دیا تھا۔ اس حالیہ مارچ کے لیے بھی تمام ضلعی انتظامیہ کے افسران اور مقامی پارٹی قائدین کو ایسی ہی ہدایات ملی ہوں گی۔ جو لوگ موجودہ قیادت کو بھٹو کا تسلسل سمجھ رہے ہیں انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ پارٹی کی نامیاتی ساخت میں سب سے بنیادی فرق جہاں شمولیت کرنے والے عوام کی مقدار کا ہے وہیں ان کے معیار کا بھی ہے جہاں محنت کش طبقے کی اکثریت کی جگہ اب درمیانے طبقے کے موقع پرستوں نے لے لی ہے۔ ستر کی دہائی میں یا اسی کی دہائی میں محنت کش طبقے کے لوگ خود پیسے خرچ کر کے پارٹی کی تقریبات اور احتجاجوں میں شرکت کیا کرتے تھے مگر اب کرائے کے شرکا کی اکثریت زیادہ ہوتی ہے۔ محنت کش طبقہ اول تو بالکل ان پارٹیوں سے قطع تعلق کر چکا ہے لیکن اگر ان میں سے کچھ شریک ہوتے بھی ہیں تو وہ اپنے فوری مفاد کو ہی مدنظر رکھتے ہیں اور چند روپوں یا بریانی کی ایک پلیٹ کے عوض چند ایسے نعروں کا جواب دے کر بری الذمہ ہو جاتے ہیں جن میں ان کی اپنی دلچسپی، اعتبار اور یقین نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔ اور جہاں تک کرپشن کا تعلق ہے تو وہ اس حد تک پارٹی کے ڈھانچوں میں سرایت کر چکی ہے کہ کرائے پر اکٹھے کیے گئے غریب لوگوں کے مقررہ معاوضوں میں بھی خردبرد معمول کا حصہ بن چکی ہے۔ جب تک یہ مارچ مکمل ہوا ہو گا ان کرائے کے شرکا کو منظم کرنے والے بہت سے سیاسی ٹھیکیدار بھی لکھ پتی سے کروڑ پتی بننے کے سفر کے اندر اہم سنگ میل عبور کر چکے ہوں گے۔

پارٹی کے گلنے سڑنے کا یہ عمل کوئی حالیہ رجحان نہیں بلکہ اس کا آغاز پارٹی کی پہلی حکومت میں ہی ہو چکا تھا جب چور دروازے سے جاگیرداروں کی ایک بہت بڑی تعداد پارٹی قیادت پر براجمان ہو گئی اور مرکزی قیادت نے بھی اس عمل کی خوب حوصلہ افزائی کی۔ یہی جاگیردار اس قیادت کے قتل میں برابر کے حصے دار تھے۔ آنے والی قیادت نے باقی ماندہ جاگیرداروں کو بھی پارٹی میں خوش آمدید کہنا جاری رکھا اور انہی جاگیرداروں کے ذریعے اسٹیبلشمنٹ نے پارٹی کے رگ و ریشے تک کامیاب نقب زنی کی۔ رہی سہی کسر سرمایہ داروں اوربالخصوص نودولتیوں کی بڑی تعداد میں آمد نے پوری کر دی۔ اکثر لوگ آصف علی زرداری پر ہی اس پارٹی کی موجودہ حالت کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں یہ بلاشبہ آصف علی زرداری کے ساتھ بہت بڑی زیادتی ہے۔ آصف علی زرداری محض اس عمل کی تکمیل کی شخصی تجسیم بن کر سامنے آیا۔ اگر وہ نہ بھی آتا اور گزشتہ قیادت ہی پارٹی کی سربراہی کرنے کے لیے زندہ رہتی، تب بھی صورتحال زیادہ مختلف نہ ہوتی۔ بلاول بھٹو بھی اگر واقعی ایسی کوئی خواہش رکھتا بھی ہو کہ پارٹی کو واپس ستر کی دہائی والی کیفیت میں واپس لے جایا جائے تب بھی وہ اس کا اہل نہیں۔ اور اس سے ایسی توقع رکھنے والے تاریخی عمل سے بالکل نابلد ہیں اور وقت کا پہیہ پیچھے کی طرف گھمانا چاہتے ہیں۔ یعنی وہ مختلف شکل میں ہی سہی سماج میں موجود رجعتی قوتوں کے سانجھے دار ہی بن چکے ہیں۔ یہ بات اپنی جگہ ایک ٹھوس حقیقت ہے کہ بلاول بھٹو زرداری کی طرف سے ابھی تک کوئی ایسا قدم نہیں اٹھایا گیا جس کی بنیاد پر یہ خوش فہمی جنم لے سکے کہ وہ واقعی ایسی کوئی خواہش رکھتا بھی ہے۔ رومانویت پسند اپنی کھوکھلی اور لایعنی خواہشات کو کوئی معنی دینے کے لئے ان خواہشات کو بلاول کی شخصیت میں تلاش کرنے میں لگے رہتے ہیں۔ حالیہ مارچ سے اور کچھ ہو نہ ہو البتہ فوری فائدے کے طور پر آصف علی زرداری اور فریال تالپور کو اسلام آباد میں عبوری ضمانت دے دی گئی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کی مبینہ سازشوں کا ڈھنڈورا پیٹنے والے یہ دیکھنے سے بالکل قاصر ہیں کہ پارٹی قیادت کی حالیہ چستیاں اور پھرتیاں اسٹیبلشمنٹ سے معرکہ آرائی کی نیت سے نہیں ہیں بلکہ اسٹیبلشمنٹ کو یہ یقین دلانے کے لئے ہیں کہ وہ آج بھی ان کے لئے اتنے ہی کارآمد ہیں اور دونوں کو ایک دوسرے کی پہلے سے کہیں زیادہ ضرورت ہے۔ اس لیے اس قسم کی نورا کشتیاں پورے نظام کو لے ڈوبنے کا باعث بن سکتی ہیں۔

نظام کی ممکنہ ناکامی سے سب سے زیادہ خوفزدہ اس وقت عالمی سطح پر بھی نیو لبرلزم کے پالیسی ساز ہیں اور مقامی سطح پر انہی کے کاسہ لیس دیسی لبرلز اس وقت بہت پریشان ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ محنت کشوں کے استحصال اور مظلوم اقوام، اقلیتوں اور دیگر پسماندہ سماجی پرتوں کے وحشیانہ جبر پر مبنی یہ نظام ایسے ہی چلتا اور پھلتا پھولتا رہے تاکہ ان کے وظیفے بھی نہ صرف جاری رہیں بلکہ ان میں ہر آنے والی نسل کے ساتھ اضافہ بھی ہوتا رہے اور ان کی آئندہ نسلوں کا مستقبل بھی محفوظ ہو جائے۔ موجودہ سیاسی سیٹ اپ میں وہ بلاول بھٹو زرداری کو ہی اپنا ممکنہ مسیحا سمجھتے ہیں۔ ان میں سے زیادہ شاطر اور چالاک لوگ نظام کو بچانے کے لیے بلاول بھٹو زرداری اور مریم نواز میں مستقبل میں عملی اتحاد کے خواب بھی دیکھ رہے ہیں۔ ایسے اتحاد کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جاسکتا۔ حال ہی میں لاہور جیل میں بلاول بھٹو زرداری کی نواز شریف سے ہونے والی ملاقات کو اس حوالے سے اہم پیشرفت کہا جا رہا تھا۔ لیکن اگر ایسا اتحاد بن بھی جاتا ہے تو یہ کوئی عوام دوست کردار ادا کرنے کی بجائے ماضی کے میثاق جمہوریت کی طرز پر درپردہ قوتوں کے رحم و کرم پر ہی ہو گا اور عوام پر مزید حملے کرنے کے لیے اسے ایک نئے خواب اور سراب کے طور پر استعمال کیا جائے گا۔ حال ہی میں بلاول نے نواز شریف کو سندھ آنے کی دعوت بھی دی ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ اس کا این آئی سی کراچی میں بہترین علاج بھی کروایا جائے گا۔ یہ بھی عوام کو سیدھا سیدھا پیغام ہے کہ یہ ہسپتال اور تمام ریاستی ادارے اب صرف سرمایہ داروں کی خدمت پر ہی مامور ہوں گے۔ ہر روز سینکڑوں نہیں ہزاروں سندھ کے غریب ہاری معمولی قابل علاج بیماریوں سے سسک سسک کر مر جاتے ہیں کبھی ان میں سے کسی کو بھی علاج کروانے کی دعوت دینا تو درکنار کبھی ان کی عیادت تک کی جسارت بھی نہیں کی گئی۔ الٹا جو لوگ سب کے لئے مفت علاج کا مطالبہ کرتے ہیں ان کو بیوقوف اور دیوانے قرار دے دیا جاتا ہے۔ یاد رہے کہ یہ مرکزی اور تمام صوبائی حکومتیں تعلیم اور علاج کی نجکاری کی پالیسی پر اپنے اپنے طریقے سے عمل پیرا ہیں اور خاص طور پر سندھ میں یہ عوامی ادارے انہی لبرلز خواتین و حضرات کی این جی اوز کے حوالے کیے جا رہے ہیں۔ اسی سے بلاول بھٹو زرداری سے ان لبرلز کی لگائی گئی توقعات کی بنیادیں آشکار ہو جاتی ہیں۔ سندھ میں نواز شریف اگر دورہ کرتا بھی ہے تو یہ سرمایہ داروں اور حکمران طبقات کا محنت کش طبقے کے خلاف طبقاتی جنگ کے ایک نئے مرحلے کے آغاز کا اعلان ہو گا اور سامراجی قوتوں کو یہ سوچنے کی دعوت ہو گی کہ اگر وہ اس ناپسندیدہ ریاستی مشینری کو اپنے مزید تابع کرنا چاہتے ہیں تو ہماری پشت پناہی کو مزید تیز تر کیا جائے۔ اسٹیبلشمنٹ کے داخلی تضادات اس طرح کے اتحادوں کو بننے سے پہلے ہی توڑ بھی دیتے ہیں اور نئی سے نئی غیر متوقع شکلیں بھی نمودار ہو سکتی ہیں۔ لبرلز کے ساتھ ساتھ کچھ سابقہ نام نہاد انقلابی بھی اس قسم کی ممکنہ تشکیلات میں اپنے لیے ’’جائز ‘‘ مقام تلاش کرنے میں زیادہ سے زیادہ بیتاب اور ہلکان ہوئے جا رہے ہیں۔

خواتین کے عالمی دن کے موقع پر کیے گئے متنازعہ عورت مارچ کی منتظمین کو ریاست کے انتہائی دائیں بازو یعنی ملاؤں کی طرف سے جب دھمکیاں موصول ہوئیں تو وہ بھی پناہ ڈھونڈنے بلاول بھٹو زرداری کے دربار میں حاضر ہوئیں۔ بلاول بھٹو زرداری نے انہیں ہر ممکن تعاون کی یقین دہانی بھی کروا دی۔ اس یقین دہانی کے بعد سوشل میڈیا پر درمیانے طبقے کے خود فریب لبرلز نے بلاول کی شان میں قصیدے پڑھنے میں زمین آسمان کے قلابے ملا دیئے۔ مارکس وادیوں نے اس وقت بھی تنبیہ کی تھی یہ لبرلز اپنے خمیر میں خود حد درجے کے توہم پرست ہیں جو حسبِ ضرورت عوام دوستی یا لبرل کا چوغہ پہننے کے ماہر ہیں۔ چند ہی دن بعد پارٹی کے شریک چیئرمین کی مولانا فضل الرحمن سے بھی ملاقات ہوئی جس میں حکومت مخالف تحریک چلانے کے لئے مشترکہ لائحہ عمل طے کرنے کی ضرورت پر اتفاق کیا گیا۔ یہی فضل الرحمان اس عورت مارچ کے سب سے بڑے ناقدین میں سے بھی ہے۔ ماضی میں بھی پیپلزپارٹی فضل الرحمان سمیت دیگر تمام رجعتی قوتوں سے بھی اتحاد کرتی رہی ہے۔ فضل الرحمان کا نام مولوی ڈیزل بھی پیپلزپارٹی کے دور میں ہی پڑا تھا۔ آج بھی اقتدار کے ایوانوں تک رسائی حاصل کرنے کے لئے اگر اس پارٹی قیادت کو طالبان سے بھی اتحاد کرنا پڑے تو یہ لمحے بھر کی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کریں گے۔ درمیانے طبقے کے کچھ سیاسی ٹھیکیداران حال ہی میں بلاول بھٹو زرداری کی طرف سے کالعدم تنظیموں کے خلاف استعمال کی جانے والی زبان سے بہت متاثر دکھائی دے رہے ہیں۔ وہ یہ بھلے ہی بھول جائیں کہ یہ طالبان پیپلزپارٹی کی حکومت میں ہی بنائے گئے تھے لیکن عوام اب ان سب حقائق سے باخبر ہوتی جا رہی ہے۔ وہ سمجھ رہے ہیں کہ یہ قیادتیں لوٹ مار میں زیادہ سے زیادہ حصہ حاصل کرنے کے لئے عوامی نعرے بازی کو استعمال کرتے ہیں اور اندر سے ان سے زیادہ عوام دشمن اور رجعتی کوئی نہیں۔ یہ کوئی اتفاقیہ امر نہیں کہ حال ہی میں سندھ میں ہندو بچیوں کے اغوا کے بڑھتے ہوئے واقعات پر پیپلزپارٹی کی خاموشی ٹوٹنے کا نام ہی نہیں لے رہی۔ یہ بھی ذہن نشین کر لینا چاہیے کہ بلاول بھٹو زرداری نے جو کالعدم تنظیموں کے بارے میں بیانات دیئے ہیں وہ درحقیقت ان بنیاد پرستوں کے خلاف نہیں بلکہ ریاست کے مخالف دھڑے کو بلیک میلنگ ہے کہ اگر آپ ان کالعدم تنظیموں کے قائدین کو محفوظ راستے دے سکتے ہو تو ہمارے ساتھ مفاہمت میں کیا مضائقہ ہے۔ ایسے وقت میں جب فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی طرف سے بلیک لسٹ ہونے کے خطرات منڈلا رہے ہیں یہ بلیک میلنگ خاصی مؤثر ثابت ہو سکتی ہے اور اس کے اثرات نظر آنا شروع بھی ہو گئے ہیں۔

تمام’’پڑھے لکھے‘‘ جیالوں کی خوش فہمیوں کے برعکس پیپلزپارٹی کی قیادت کا حالیہ ٹرین مارچ پیپلز پارٹی کی مضبوطی یا استحکام کی بجائے اس کی کمزوری اور قیادت کی بد اعتمادی کی غمازی کرتا ہے۔ بھٹو کے ٹرین مارچ سے تو کجا اس کا موازنہ بے نظیر کے کیے گئے ٹرین مارچ سے کرنا بھی بہت بڑی بیوقوفی ہو گی۔ سب سے پہلے تو یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ پارٹی نے خود ہی اس مارچ کو سندھ تک محدود کر کے اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے پارٹی کے سیاسی کردار کو سندھ تک محدود کر دینے کے فیصلے پر سر تسلیم خم کر لیا ہے۔ اسے کسی حد تک پارٹی قیادت کی’’حقیقت پسندی‘‘ بھی کہا جا سکتا ہے کہ اپنے معذرت خواہان کے برعکس وہ جانتے ہیں کہ ان کی کیا حیثیت اور’’اوقات‘‘ ہے۔ لیکن اس سے بھی بڑھ کر اہم بات یہ ہے کہ اس دفعہ پارٹی قیادت کو یقین ہو چکا تھا کہ ریاستی اداروں کے داخلی تضادات کی موجودہ کیفیت میں اپنی موجودگی کا احساس دلانے کے لئے اور زیادہ مراعات سے مستفید ہونے کے لئے گڑھی خدا بخش میں عوامی جلسے کا انعقاد کرنے کے لئے انہیں سر توڑ کوشش کرنی پڑے گی۔ لوگوں کے پاس اگرچہ ابھی تک پیپلز پارٹی کے علاوہ اور کوئی آپشن نہیں ہے اور گرینڈ الائنس کا کردار پیپلزپارٹی میں موجود وڈیروں کے کردار سے بھی زیادہ بہیمانہ اور رجعتی ہے لیکن اس کے باوجود جیالوں کا’’والہانہ پن‘‘ انحطاط پذیر ہو چکا ہے۔ اس لیے سندھ کی عوام کو اپنے سیاسی مزارعین سمجھنے والوں کو بھی اب دوبارہ سندھ میں رسمی سا ہی سہی مگر تحرک پیدا کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی تاکہ گڑھی خدا بخش میں منعقد کیے جانے والے عوامی اجتماع کے پیچھے چھپا جا سکے۔یہ الگ بات ہے کہ تمام تر کوششوں کے باوجود اتنے بڑے پیمانے پر شمولیت ممکن نہیں ہو سکی جس کی توقع کی جا رہی تھی۔ سندھ کے وڈیروں کے سندھ کی عوام کی طرف رویے کا مکروہ چہرہ اس وقت بے نقاب ہو گیا تھا جب سندھ اسمبلی کے سپیکر آغا سراج درانی نے برملا ایک عوامی اجتماع میں کہہ دیا تھا کہ ہم عوام کے ووٹوں پر پیشاب کرتے ہیں۔ موجودہ نام نہاد اور مبینہ انقلابی پارٹی قیادت نے اس وقت اسی آغا سراج درانی کے دفاع میں بیانات داغ دیئے تھے جب اسے اسلام آباد میں نیب کی طرف سے گرفتار کر لیا گیا۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری دونوں کا جھکاؤ سندھ کی عوام کی طرف نہیں بلکہ ان پر ظلم ڈھانے والے وڈیروں کی طرف ہے۔ اسٹیبلشمنٹ دشمنی کا ناٹک کرنے والے اصل میں اسٹیبلشمنٹ کے اتنے سگے اور جمہوریت کے اتنے وفادار ہیں کہ آج تک کبھی جبری طور پر گمشدہ کیے جانے کی مذمت تک نہیں کر سکے۔ اس کے برعکس مزدوروں پر حسب ضرورت واٹر کینن یا یہاں تک کہ گولیاں چلانے سے بھی گریز نہیں کیا جاتا۔اسی ٹرین مارچ کے اگلے دن کراچی میں احتجاج کرنے والے اساتذہ پر بد ترین تشدد اس پیپلز پارٹی کے اصل چہرے کو بے نقاب کرتا ہے۔ حقیقت میں پارٹی کا عوام دشمن چہرہ مکمل طور پر بے نقاب ہو چکا ہے۔ سندھ میں عوام پیپلزپارٹی اور اسٹیبلشمنٹ میں کچھ زیادہ تمیز نہیں کرتے۔ خاص طور پر اگر طلبہ کی بات کی جائے تو وہ تمام اداروں میں رینجرز اور دیگر ریاستی اداروں کی طرف سے یرغمال بنائے جانے کے عمل میں پیپلزپارٹی کو بجا طور پر برابر کا ذمہ دار سمجھتے ہیں۔ ایسی صورت حال میں اگر واقعی اس قسم کے ٹرین مارچ کے ذریعے سندھ کے بحرسیاست میں ہلکی سی موج بھی بیدار ہو گئی تو اسے سونامی بننے میں بھی شاید زیادہ دیر نہ لگے اور اس سونامی میں بہہ جانے والی طاقتوں میں ریاستی مشینری کے ساتھ ساتھ پیپلزپارٹی کا نام بھی سرفہرست ہو سکتا ہے۔

Comments are closed.