برطانیہ: کوربن کے خلاف دائیں بازو کے حملے ناکام، مقبولیت میں اضافہ

تحریر:| ایڈم بوتھ|
ترجمہ: |فاروق بلوچ|
جیرمی کوربن کو بطور لیبر راہنما گزشتہ ستمبر میں انتخاب کے بعد سے لگاتار حملوں کا سامنا ہے، مگر لیبر ارکان کے درمیان اس کی حمایت کو نقصان نہیں پہنچایا جا سکا ہے۔ یو گوو(YouGov) کے تازہ ترین سروے کے مطابق جیرمی کوربن اب لیبر پارٹی میں انتخابات کے وقت سے زیادہ مقبول ہے۔ اسٹیبلشمنٹ میں موجود کوربن مخالف عناصر کی الہامی پیشین گوئیوں کے برعکس کوربن کی قیادت میں لیبر پارٹی کو ملنے والے انتخابی نتائج کے سبب پارٹی کے پتوار پر جیرمی کوربن کی پوزیشن مستحکم ہے۔ ان حقائق کے سبب پارلیمانی لیبر پارٹی میں ٹونی بلیر کا دھڑا اضطراب کا شکار ہے۔
17Jeremy-Corbyn_Global-Justice-Now مئی کو منظر عام پر آنے والے یو گوو کے تازہ ترین اعداد و شمار لیبر پارٹی کے ارکان کے حقیقی مزاج کو عیاں کرنے میں قابل قدر اہمیت رکھتے ہیں۔ ٹوری پریس اور ذرائع ابلاغ کوربن کیخلاف کیچڑ اچھالنے کے لامتناہی حملوں میں مصروف ہیں، مگر کوربن کی حمایت میں آہستگی کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے۔ یقیناًذرائع ابلاغ کی کوربن کی طرف بول و براز کا سیلاب اگلنے کی وجہ سے عوام کا اسٹیبلشمنٹ کے اہم اداروں پر سے اعتماد اٹھتا جا رہا ہے۔
لیبر پارٹی کے اندرونی و بیرونی مخالفین کی طرف سے حملوں کے طوفان کا سامنا کرنے کے باوجود کوربن اب پہلے کے مقابلے میں ایک مضبوط پوزیشن میں ہے۔ اِس سروے کے دوران لیبر پارٹی کے قائد کے طور پر جیرمی کوربن کی کارکردگی پر لیبر پارٹی کے ارکان کے اعتماد میں 66 فیصد سے 72 فیصد کا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ (جبکہ وہ ارکان جنہوں نے لزکینڈل کے حق میں رائے دی، انکی اکثریت کا خیال ہے کہ وزیراعظم کے طور پر ڈیوڈ کیمرون کی کارکردگی جیرمی کوربن کے بطور لیبر پارٹی راہنما کی نسبت زیادہ بہتر رہی ہے۔ لگتا ہے کہ ٹونی بلئیر کا دھڑا غلطی سے لیبر پارٹی میں شامل ہو گیا ہے!)۔ لیبر پارٹی کی قیادت حاصل کرنے سے قبل ہی جیرمی کوربن کو دائیں بازو کے ممبران پارلیمنٹ نے اندرونی بغاوت کی دھمکیاں دی تھیں، اس کے باوجود جیرمی کوربن اپنے مخالفین کی توقعات اور تنقید کو غلط ثابت کرتا آرہا ہے۔ اولڈہیم ضمنی انتخاب میں لیبر پارٹی کی متاثر کن فتح ہو یا شام میں بمباری کے معاملے پر پارلیمنٹ میں رائے دہی ہو یا پھر تازہ ترین مقامی و علاقائی انتخابات، جیرمی کوربن کا قد مسلسل اونچا ہو رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ٹونی بلیر کا دھڑا ایک جمہوری طور پر منتخب ہونے والے قائد کو برباد کرنے کے بہانے تلاش کرنے میں ابھی تک ناکام چلا آرہا ہے۔
یوگوو کے حالیہ سروے کے مطابق لیبر پارٹی کے اراکین مجموعی طور پر حالیہ مقامی اور علاقائی انتخابات میں پارٹی کی کارکردگی سے بہت خوش ہیں۔ 11 فیصد کے مقابلے میں 67 فیصد ارکان نے رائے دی کہ پارٹی نے انتخابات کے دوران بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔
دریں اثنا پارٹی کی ذیلی پرتوں کو بھی جیرمی کوربن پہ مکمل اعتماد ہے کہ وہ پارٹی کو 2020ء کے انتخابات میں فتح دلوانے میں کامیاب ہو جائے گا۔ 53 فیصد ارکان کو اِس بات کا یقین ہے کہ اگلی حکومت لیبر پارٹی کی ہی ہو گی۔ جبکہ 60 فیصد ارکان نے تجویز دی کہ کوربن اگلے عام انتخابات میں لیبر پارٹی کی قیادت کے لیے موزوں ترین آدمی ہے اس کی نسبت صرف 42فیصد لوگوں کا خیال ہے کہ لیبر پارٹی صرف اسی صورت جیت سکتی ہے اگر کوربن کو لیڈرشپ سے ہٹا دیا جائے۔
یوگوو کے حالیہ سروے سے تو یہی لگ رہا ہے کہ لیبر پارٹی میں ٹونی بلیر کے دھڑے سمیت سب کو یقین ہو گیا ہے کہ جیرمی کوربن اب اپنی جگہ سے ہلنے والا نہیں۔ نیو یارکر میگزین کو حال ہی میں انٹرویو دیتے ہوئے لیبر پارٹی کا اہم راہنما پیٹر مینڈلسن یہ اعتراف کرنے پہ مجبور ہو گیا، ’’ہم ایک ایسی صورتحال سے دوچار ہیں کہ جیرمی کوربن برطانیہ میں ملکی انتخابات جیتنے سے تو قاصر ہے مگر پارٹی میں اسکی پوزیشن مستحکم ہے۔‘‘ مگر ٹوری پارٹی کے اندر علیحدگی اور سکینڈلوں کے جاری بحران اور آسٹیریٹی مخالف لیبر راہنما جیرمی کوربن کی دن بہ دن بڑھتی مقبولیت سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے کہ پیٹر مینڈلسن سمیت ٹونی بلیر کا دھڑا 50 فیصد سچا ثابت ہو گا۔ یعنی جیرمی کوربن پارٹی میں بھی مستحکم ہے اور عام انتخابات میں بھی فتح حاصل کرے گا۔
یوگوو کے حالیہ سروے کے مطابق اگر جیرمی کوربن کو کسی بھی طرح اسکے عہدے سے ہٹا دیا جائے تب بھی وہ ری الیکشن میں ان 64فیصد افراد کے ووٹ لے کر کسی بھی پارٹی پوزیشن کے لئے دوبارہ جیت سکتا ہے جن کا کہنا ہے کہ وہ بائیں بازو کے ایم پی کو ووٹ دیں گے۔ گزشتہ سال ستمبر کے انتخابات میں کوربن کے حاصل کردہ 49.5 فیصد ممبران کے ووٹوں کی نسبت یہ ایک بھاری اضافہ ہے اور یہ لیبر پارٹی کے الحاق شدہ اور رجسٹرڈ حامیوں سے حاصل کردہ 59.5 فیصد ووٹوں کی بھاری اکثریت سے بھی بڑا اضافہ ہے۔
یہاں تک کہ اگر مخصوص بیوروکریٹک افعال اور سازشوں کے ذریعے جیرمی کوربن کے نام کو بیلٹ پیپر سے ہٹانے کی کوششیں رنگ لے بھی آئیں تب بھی ممبران ٹونی بلیر کے امیدواران کو ووٹ نہیں دیں گے۔ اعدادوشمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ جیرمی کوربن کا اسٹریٹی مخالف اتحادی جان میکڈونل دائیں بازو کے ہیلری بین اور چکا امیونا جیسے راہنماؤں سے زیادہ مقبول ہے۔
یہ واضح ہے کہ لیبر پارٹی کوربن کے انقلاب اور اس کے جنگ مخالف اور آسٹریٹی مخالف موقف کی وجہ سے لیبرپارٹی میں لاکھوں نئے اراکین کی شمولیت سے تبدیل ہو چکی ہے۔ مگر یہ بھی واضح ہے کہ یہ تبدیلی ابھی تکمیل پذیر نہیں ہوئی۔ سب سے بڑھ کر، جیسا کہ حالیہ واقعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ پارلیمانی لیبر پارٹی ابھی بھی کیرئیرسٹوں اور بدمعاشوں سے بھری پڑی ہے جو نئی لیبر قیادت اور اس کے بائیں بازو کے پروگرام کو قبول کرنے سے انکاری ہیں۔ یہ خواتین و حضرات کوربن کو کمزور کرنے کی یا اس کا تختہ الٹنے کی کوششوں سے باز آنے والے نہیں ہیں۔ فی الحال یہ لوگ پیچھے ہٹنے اور اپنے زخموں کو چاٹنے پر مجبور ہیں، لیکن ابھی انہیں مکمل شکست نہیں ہوئی۔ فی الوقت یہ لوگ اپنا وقت گزار رہے ہیں اور جیسے ہی وہ محسوس کریں گے کہ اب رخنہ ڈالنے کا صحیح وقت آ گیا ہے یہ ضرور اپنی حرکتوں پر اتر آئیں گے۔
اِس دوران ٹونی بلیر کا دھڑا ضمنی اطراف سے گولہ باری جاری رکھے گا اور کوربن کے حامیوں میں افراتفری و انتشار پھیلانے کی تمام کوششیں کرتا رہے گا۔ حال ہی میں بائیں بازو کے درمیان نام نہاد ’’یہود دشمنی‘‘ کی مہم بھی دائیں بازو کی طرف سے ہونے والی کوششوں کا ایک حصہ ہی ہے۔لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ کوربن مخالف اسی گڑھے میں گر جائیں جو انہوں نے کوربن کیلئے کھودا ہے۔ ٹونی بلیر کا دھڑا آگ سے کھیل رہا ہے اور عین ممکن ہے انکے ہاتھ اپنی آگ سے جل جائیں کیونکہ پارٹی کی نچلی پرت کے کان کوربن کے خلاف ہونے والی سازشوں کی کہانیاں سن سن کر پک گئے ہیں۔ درحقیقت یوگوو سروے کے اعداد و شمار کے گراف بلیئر کے ممبران پارلیمنٹ کے خلاف غصے کا اظہار کرتے ہیں کیونکہ لیبر پارٹی کے71 فیصد ارکان کے خیال میں پارٹی کے اندر دھڑا بندی موجود ہے اور 61 فیصد ارکان کی رائے کے مطابق یہ دھڑا بندی کوربن مخالف عناصر کی وجہ سے ہے۔
لیبر پارٹی کے اراکین کوربن کے حامیوں کے خلاف ہونے والی پراگندہ مہم جوئی کی اصلیت کو خوب سمجھتے ہیں، کیونکہ یوگوو سروے کے مطابق صرف 5 فیصد ارکان ہی ’’یہود دشمنی‘‘ کی کہانی کو سچ سمجھتے ہیں۔ جبکہ 49 فیصد اراکین کا خیال ہے کہ لیبر پارٹی میں ’’یہود دشمنی‘‘ جیسا کوئی مسئلہ نہیں ہے اور یہ سب کچھ ذرائع ابلاغ کی طرف سے پھیلایا گیا ہے اور اِسے جیرمی کوربن کے خلاف ایک حملہ کے طور پہ دیکھتے ہیں۔ جبکہ 35 فیصد اراکین کی رائے میں پارٹی کے اندر ’’یہود دشمنی‘‘ کا عنصر موجود ہو سکتا ہے مگر پھر بھی اس معاملے کو میڈیا اور بلیرائٹوں کو پاگل پن سے استعمال نہیں کرنا چاہئے تھا۔
VoteforCorbynبہر حال یہ صرف کچھ وقت کی بات ہے۔ اس وقت تک جب ٹونی بلیر کے ممبران پارلیمنٹ کو، جو پارٹی اور پارٹی کی جمہوری قیادت خلاف ہیں، پارٹی کی ہر پرت کی جانب سے بغاوت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ کوربن مخالف عناصر کے کھیل کو ختم کرنے کا وقت آ گیا ہے۔ دائیں بازو کے عناصر کو اپنی بکواس بند کرنی ہو گی یا پھر وہ پارٹی سے دفع ہو جائیں! پارٹی کے ممبران کو جمہوری طریقے سے فیصلہ کرنے دیا جائے کہ پارلیمنٹ میں اْنکی نمائندگی کون کرے گا!
یوگوو کے حالیہ سروے کے ذریعے جیرمی کوربن کو اپنے مخالفین کا منہ بند کروانے اور لیبر پارٹی کو فاتح بنانے کا موقع ملا ہے۔ اس سروے سے واضح ہوتا ہے کہ بائیں بازو کی لیڈرشپ کی حمایت ایک متحرک ترین اور تازہ دم پرت کر رہی ہے، جو حال ہی میں سیاسی سرگرمیوں میں شامل ہوئے ہیں۔ مثال کے طور وہ اراکین جنہوں نے گزشتہ سال قیادت کے چناؤ کے انتخابات میں ووٹ استعمال کیا تھا، 69 فیصد اراکین کا خیال ہے کہ کوربن بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ جبکہ ایسے اراکین جنہوں نے گزشتہ عام انتخابات میں لیبر پارٹی کو ووٹ نہیں دیا تھا ان کی 84 فیصد کی رائے بھی کوربن کے حق میں ہے۔ اِسی طرح 2015ء سے پہلے اور 2015ء کے بعد کے اراکین جو کوربن کے حامی ہیں بالترتیب 61 فیصد اور 85 فیصد ہیں۔ جبکہ لیبر پارٹی کے 71 فیصد وہ حامیان بھی کوربن کے حق میں ہیں جنہوں نے ابھی تک لیبر پارٹی میں باضابطہ شمولیت اختیار نہیں کی۔
اس سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ کوربن کو اپنی مہم کے دوران کون کون سے کام کرنے ہونگے؛ لیبر پارٹی کے محض دیرینہ کارکنان کی حد سے آگے بڑھنا ہو گا، اِس نئی اور تازہ دم پرت کی حوصلہ افزائی کرنی ہو گی اور اِنکو منظم کرنا ہو گا۔ تاکہ لیبر پارٹی میں جس تبدیلی کے عمل کا آغاز ہوا ہے وہ مکمل ہو سکے۔ سوشلسٹ مقصد کیلئے ایک جرات مندانہ جنگ میں اتحاد پیدا کرنا ہوگا۔ ہم ٹوریز کو لات مار کر باہر نکال سکتے ہیں۔ آسٹریٹی اور سرمایہ داری کے مصائب کا خاتمہ کر سکتے ہیں۔

Comments are closed.