برطانیہ: پانچ لاکھ محنت کشوں کی ملک گیر ہڑتال، جدوجہد تیز ہو!

|تحریر: سوشلسٹ اپیل، ترجمہ: یار یوسفزئی|

یکم فروری کو برطانیہ کے اندر پوری دہائی کی سب سے بڑی ہڑتال ہوئی، جس میں 5 لاکھ محنت کشوں نے حصہ لیا۔ عالمی مارکسی رجحان (آئی ایم ٹی) کے برطانوی سیکشن سوشلسٹ اپیل نے ملک بھر میں منعقد ہونے والے ہڑتالی احتجاجی مظاہروں میں شامل ہو کر کئی احتجاجی مظاہرین سے محنت کشوں سے مالکان کے حملوں اور ٹوری حکومت کے یونین مخالف بل کے خلاف ان کی لڑائی کے حوالے سے بات چیت کی۔

انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

یکم فروری بروزِ بدھ، برطانیہ بھر میں 5 لاکھ محنت کش ہڑتال کر رہے تھے۔ باہمی تعاون کے ساتھ منائے جانے والے دہائی کے سب سے بڑے اس ایکشن ڈے میں ہزاروں افراد نے نہ صرف بہتر اجرتوں اور حالاتِ کار کا مطالبہ کیا، بلکہ ٹوری حکومت کے یونین مخالف بل کے خلاف بھی لڑے۔

اساتذہ سے لے کر ریل گاڑی کے ڈرائیوروں تک اور سرکاری ملازمین سے لے کر یونیورسٹی کے عملے تک، محنت کشوں نے اپنا کام چھوڑ کر دھرنے دیے، جن میں سے کئی پہلی دفعہ متحرک ہوئے۔

اس کے بعد ملک بھر میں قصبوں اور شہروں کے اندر ریلیاں اور مارچ بھی منعقد کیے گئے، جن میں سارے یونینز کے محنت کش اکٹھے ہوئے۔

پچھلے سال جنم لینے والی ہڑتالی لہر کے آغاز کے بعد موجودہ ڈے آف ایکشن سب سے بڑی پہلی مشترکہ ہڑتال تھی۔ مگر یہ آخری نہیں ہوگی، اور آخری ہونی بھی نہیں چاہیے۔

ٹریڈ یونین قائدین کو اس تحرک کا فائدہ اٹھا کر اسے عوامی تحریک کی قیادت کرنے کے لیے استعمال کرنا ہوگا، نہ صرف یونین مخالف بل کے خلاف، بلکہ ٹوری حکومت اور سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف بھی۔

سوشلسٹ اپیل کے کارکنان نے ہڑتال میں شامل محنت کشوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کرنے کے لیے دھرنوں اور مظاہروں میں شرکت کی۔

ایڈن برگ سے لے کر فالماؤتھ تک، مانچسٹر سے لے کر شیفیلڈ تک، نارویچ سے کارڈف تک، اور کئی دیگر علاقوں میں، ہمارے کامریڈز دھرنوں اور ریلیوں میں شریک ہوئے اور محنت کشوں کے ساتھ تحریک کے لیے مستقبل کے راستے کے بارے میں بحث کرتے رہے۔ نیچے ملک بھر سے کچھ رپورٹیں پیش کی جا رہی ہیں۔

لندن

لندن بھر تنظیمی کی برانچوں سے کامریڈز نے صبح کے وقت قریبی دھرنوں اور مقامی ریلیوں میں شرکت کی۔ بعد میں وہ پورٹلینڈ پلیس چلے گئے جہاں نیشنل ایجوکیشن یونین (این ای یو) کی جانب سے منعقد کردہ مارچ میں ہڑتال کرتے تمام یونینز کے محنت کش شامل ہوئے، جو ویسٹ منسٹر جانے کے لیے تیار تھے۔

اطلاعات کے مطابق صبح کے وقت مظاہروں سے پہلے بڑی تعداد میں محنت کش اکٹھے ہوئے، اور عوام کی بڑی تعداد ہڑتال کی حمایت کر رہی تھی۔ ہڑتالی محنت کشوں کے جذبے جوان تھے، اور کئی تقاریر میں افراطِ زر سے مناسبت نہ رکھنے والی اجرتوں اور محنت کشوں پر حکومتی حملوں کی مذمت کی گئی۔ ہمارے کامریڈز قیمتی بحث مباحثوں میں شریک ہوئے اور اپنے علاقوں میں ہڑتال کرتے اساتذہ کے ساتھ رابطے قائم کیے۔

لندن کے مظاہرے واقعی میں بہت بڑے تھے، جہاں ہڑتال کرنے والوں اور ان کے حامیوں نے پورٹلینڈ پلیس کو پورا بھر دیا۔ جوش و جذبہ عروج پر تھا، جہاں این ای یو، پبلک اینڈ کمرشل سروسز یونین (پی سی ایس)، ریل اینڈ میری ٹائم یونین (آر ایم ٹی)، اسوسی ایٹڈ سوسائٹی آف لوکوموٹیو انجینئرز اینڈ فائرمین (اے ایس ایل این ایف) اور یونیورسٹی اینڈ کالج یونین (یو سی یو) کے تحت منظم محنت کش نعرہ بازی کرتے رہے۔

ہمارے درجنوں کامریڈز لوگوں کے ساتھ ہڑتالوں کے متعلق بات چیت کرتے رہے، جنہوں نے تمام سطحوں پر تعاون بشمول یونینز کی مشترکہ ہڑتالی کمیٹیوں کی ضرورت؛ اور افراطِ زر کی مناسبت سے اجرتوں میں اضافے اور ارب پتیوں کی دولت پر قبضہ کرتے ہوئے خدمات کے شعبوں میں سرمایہ کاری کے مطالبوں پر بات کی۔

ہڑتالی محنت کشوں نے ان باتوں سے اتفاق کیا، جن میں سے کئی کا کہنا تھا کہ وہ ایسے پروگرام کی حمایت کریں گے۔ متحد ہونے اور ہڑتالوں کو بڑھانے کی واضح خواہش دکھائی دے رہی تھی اور جدوجہد کو اپنے انجام تک پہنچانے کا ارادہ بھی موجود تھا۔

مارچ میں ہمارے کامریڈز نے پرجوش نعرہ بازی کی، جنہوں نے اتحاد اور لڑاکا پن کی ضرورت پر زور دیا، اور کئی مظاہرین اور تماشائیوں نے ان کے نعروں کا جواب دیا۔

وائٹ ہال کے مقام پر مارچ ختم ہونے کے بعد ہم نے محنت کشوں کے ساتھ بات چیت جاری رکھی اور ان کے ساتھ اس ہڑتال کی اہمیت، عمومی سیاسی صورتحال اور محنت کش طبقے کے لیے آگے کے راستے کے حوالے سے تبادلہ خیال کیا۔

مانچسٹر

یکم فروری کو سینٹ پیٹرز سکوائر جاتے ہوئے ماحول کو تبدیل ہوتا ہوا دیکھا جا سکتا تھا۔ مظاہرین کا جوش و خروش محسوس کیا جا سکتا تھا جب ٹریڈز یونین کانگریس (ٹی یو سی) کے مارچ میں ہزاروں محنت کش متحد ہو کر کھڑے تھے، جبکہ سب شرکاء کے بیچ رجائیت پسندی واضح تھی۔

”احتجاج کرنے کے حق کی حمایت کرو، اپنی یونین کی حمایت کرو، یکجہتی“ جیسے نعروں کا تالیاں اور سیٹیاں بجا کر بھرپور جواب دیا جا رہا تھا۔ مظاہرین میں سے بڑی عمر رکھنے والے شرکاء نے دیکھا کہ مظاہروں اور ہڑتالوں کی سطح 80ء کی دہائی سے کچھ زیادہ مختلف نہیں تھی۔

جب ہم نے ناردرن کوارٹر میں مارچ شروع کیا تو تماشائیوں نے مارچ کی ریکارڈنگ کی اور دیکھ کر مسکراتے رہے، جبکہ دفاتر میں کام کرنے والے افراد نے چھتوں سے ہاتھ ہلا کر اظہارِ یکجہتی کی۔

عوام کی اکثریت بلاشبہ ہماری حمایت کر رہی ہے، اس کے باوجود کہ میڈیا ہڑتال کرنے والوں کے خلاف پراپیگنڈا کر رہی ہے اور اساتذہ کو خود غرض کہہ رہی ہے۔ حکمران طبقہ اپنے منافعوں کی ہوس کے لیے ہمیشہ ہمیں تقسیم کرنے کی کوشش کرتا رہے گا، مگر عام لوگوں کا حقیقی نقطہ نظر اب واضح ہے۔

مزید نعروں میں ٹوری حکومت کے مستعفی ہونے اور عام انتخابات کا مطالبہ کیا گیا۔

جب ہم نے اپنے بینر اور پلے کارڈز لے کر سڑکوں کو بھر دیا تو اس ہڑتال سے بھی بڑے پیمانے کی تحریک چلانے کی ضرورت پر زور دیا جا رہا تھا، جبکہ عام ہڑتال کے حق میں لگائے جانے والے نعرے بھی بلند ہوتے گئے جب ہم نے سینٹ پیٹرز سکوائر کی جانب واپسی کی۔

برمنگھم

بدھ کی صبح، اہم تجارتی مرکز، برمنگھم پوری طرح دھرنوں کی لپیٹ میں لگ رہا تھا۔ شہر بھر میں 40 سکولوں، درجنوں ٹرین سٹیشنوں، یونیورسٹیوں اور حتیٰ کہ بین الاقوامی ایئرپورٹ کے محنت کش ہڑتال کر رہے تھے۔ ان میں سے کئی پہلی مرتبہ صنعتی جدوجہد میں شامل ہو رہے تھے۔

ایک دھرنے میں سوشلسٹ اپیل کے کارکن نے میگا فون اٹھا کر کہا کہ یہ محض اجرتوں کے حوالے سے ایک اتفاقی جدوجہد نہیں، بلکہ یہ بحران زدہ نظام کی عکاسی ہے، اور اس نے سکولوں اور کارخانوں میں سے منافع خوروں کو باہر پھینکنے کا پیغام دیا۔

دوپہر کو سوشلسٹ اپیل کے کارکنان سنٹرل لائبریری کے باہر 500 محنت کشوں کے ساتھ ریلی اور مارچ کے لیے شامل ہو گئے۔ ہماری مارکسسٹ سوسائٹی کو اس پر فخر ہے کہ طلبہ کو سب سے بڑی تعداد میں لانے والے ہم تھے۔ یہ اس سے پچھلی شام برطانوی سرمایہ داری کے بحران پر منعقد ہونے والے ایک پروگرام کے ذریعے ممکن ہوا، جس میں این ای یو کے نمائندے نے شروع میں مختصر بات کی اور طلبہ کو جدوجہد میں شامل ہونے کی طرف مائل کیا۔

پوری ریلی میں عام ہڑتال کا نعرہ ہر کسی کے زبان پر تھا، جبکہ تقریر کرنے والے پرجوش انداز میں ایک روزہ عام ہڑتال کی بات کر رہے تھے، اور مظاہرین کے نعروں اور پلے کارڈز میں بھی اس کی تائید ہو رہی تھی۔

دن کا اختتام ہڑتال کے حق کے تحفظ کے حوالے سے ایک چھوٹی ریلی کے ساتھ ہوا۔ اس میں یونین کے مختلف مقررین سمیت سوشلسٹ اپیل کے کارکنان نے بات کی۔

ہمارے کامریڈ نے ان صنعتی جدوجہدوں کو سیاسی نوعیت دینے کی ضرورت پر بات کی، تاکہ محض بہتر حالات اور اجرتوں کے لیے نہیں لڑا جائے بلکہ سوشلسٹ نظریات کے گرد متحرک ہونے کی کوشش کی جائے۔ شرکاء نے اس بات کی بھرپور تائید کی۔

مظاہرین ہماری تحریک کی تاریخ سے اسباق اخذ کرنے کی ضرورت بھی واضح طور پر سمجھ رہے تھے؛ چاہے پینٹن ویل فائیو (1972ء میں دھرنے کی پابندی کی خلاف ورزی کرنے پر قید کیے جانے والے یونین کے پانچ نمائندے) ہوں یا کان کنوں کی ہڑتال، ہم خود کو محض پارلیمانی میدان میں لڑنے تک محدود نہیں کر سکتے۔

نارویچ

نارویچ میں کامریڈز یونیورسٹی آف ایسٹ اینگلیا کے دھرنے میں شریک ہوئے۔ یہاں ملکی سطح کے مسائل سے زیادہ مقامی حالات پر بحث ہو رہی تھی، جہاں سینکڑوں عملہ اراکین کو اگلے چند مہینوں میں برطرفی کا خطرہ درپیش ہے۔

یونیورسٹی مالکان کے اس اقدام کے خلاف غم و غصّے کا اظہار دھرنے کی تعداد سے ہو رہا تھا۔ پچھلی ہڑتالوں کی نسبت تعداد کافی زیادہ تھی، جبکہ طلبہ کی حمایت بھی بڑھ گئی تھی۔

عملے کے اراکین ہمارے کامریڈز کی شرکت پر بہت خوش تھے، اور ہمارے ”یونین مخالف قوانین کا خاتمہ کرو“ اور ”کٹوتیاں اور برطرفیاں نا منظور“ جیسے نعرے کافی مقبول ہوئے۔

ہم نے عملے کے ساتھ مشترکہ جدوجہد کی ضرورت پر بات کی۔ پورے دھرنے میں اس کی واضح حمایت دیکھنے کو ملی، جبکہ یو سی یو کے برانچ چیئر نے کہا: ”یہ محض ایک ملازم کا سوال نہیں، یہ محض ایک یونین کا سوال نہیں، یہ مزدور تحریک کا سوال ہے۔“

اس کے بعد ہم نے ہڑتال کے حق کے تحفظ کے حوالے سے کیے جانے والے این ای یو کے مظاہرے میں شرکت کرنے کے لیے شہر کا رخ کیا۔ یہ جوش اور رجائیت سے بھرپور مظاہرہ تھا، جس کا اظہار 2 ہزار کی شرکت سے ہو رہا تھا، جو ماضی قریب میں نارویچ کے اندر مظاہرے کی سب سے بڑی تعداد تھی۔

کیمبرج

یکم فروری سے پچھلے والے ہفتوں کے دوران، ہماری کیمبرج مارکسسٹ سوسائٹی اپنے اجلاسوں میں یونائیٹ اور یو سی یو کے ممبران کو دعوت دیتے رہے تھے تاکہ طلبہ کو مزدور تحریک کے حوالے سے آگاہی دے کر متحرک کر سکیں، جس میں کافی دلچسپی دکھائی جانے لگی اور بحث مباحثوں کا آغاز ہوا۔

پھر ہمیں بھی ٹریڈ یونینز اور دیگر طلبہ مارچ اور ریلی کی حمایت میں طلبہ کو متحرک کرنے میں مدد کرنے کے لیے دعوت دیتے رہے۔ ہم نے پلے کارڈز بنانے کا ایک سیشن رکھا جو بہت ہی کامیاب رہا۔

یکم فروری کو ہمارے کامریڈز یو سی یو، اے ایس ایل ای ایف اور این ای یو کے دھرنوں میں شامل ہوئے۔ تعداد اور جوش و جذبہ کافی زیادہ تھا، جو اجرتوں کی بڑھوتری کے لیے اور ہڑتال کے حق پر حکومتی حملوں کے خلاف لڑنے کے عزم کا اظہار تھا۔

ہمارے کچھ کامریڈز نعرے لگانے والے ایک مظاہرے میں بھی شامل ہوئے جو آر ایم ٹی اور این ای یو کے دھرنوں کے سامنے گزرا اور جوش و جذبہ بڑھانے کا باعث بنا۔ بڑے مارچ کی جانب جاتے ہوئے جوش و جذبہ مزید بڑھتا جا رہا تھا اور تعداد میں اضافہ ہو رہا تھا۔

پھر ہم اس مظاہرے میں شریک ہوئے جو کئی افراد کے مطابق ان کے لیے ”کیمبرج کا سب سے بڑا مظاہرہ تھا“، جس میں 1 ہزار 500 افراد نے مارچ کیا اور کنگز پریڈ کی سڑک کامیابی کے ساتھ بند کی۔

شرکت کرنے والے محنت کش اور طلبہ کہہ رہے تھے کہ مختلف یونینز کی مشترکہ لڑائی ان کے لیے کافی متاثر کن ہے، مگر وہ اس بات کو بھی سمجھ رہے تھے کہ اس جدوجہد کو آگے بڑھانا ضروری ہے۔

بعض شرکاء نے یہ تک کہا کہ ایک عام ہڑتال کرنے کی ضرورت ہے! اظہارِ یکجہتی کے طور پر شریک یونائیٹ کے ایک رکن کا کہنا تھا کہ ”محنت کشوں نے بہت برداشت کیا ہے“ اور بالآخر انہوں نے مزاحمت شروع کی ہے۔

کئی افراد جن سے ہم نے بات کی ہمارے نظریات اور نعروں کے ساتھ متفق تھے اور سوشلزم کے لیے جدوجہد میں شریک ہونے کے حوالے سے دلچسپی دکھا رہے تھے۔

شیفیلڈ

یکم فروری کے ایکشن ڈے کی تیاری کے سلسلے میں ایک رات قبل شیفیلڈ کے کامریڈز نے یونیورسٹی آف شیفیلڈ اور شیفیلڈ ہالم یونیورسٹی کی مشترکہ میٹنگ کی۔

ہم نے پانچ مختلف راستوں کا انتخاب کیا تاکہ دوپہر کی ریلی سے پہلے جتنے زیادہ دھرنوں میں ممکن ہو شرکت کریں۔

صبح کے وقت ہم شہر بھر میں پھیل گئے اور این ای یو، یو سی یو، پی سی ایس اور اے ایس ایل ای ایف کے دھرنوں میں شرکت کی۔ دو اور تین کے گروہوں میں تقسیم ہو کر ہم محنت کشوں کے ساتھ ان کے حالات اور اپنے نظریات پر تبادلہ خیال کرتے رہے۔ پھر دوپہر کو ہم شہر کے مرکز میں اکٹھے ہوئے، جہاں 1 ہزار محنت کشوں کے ساتھ ہم مارچ اور ریلی میں شامل ہو گئے۔

مجموعی طور ایک حوصلہ افزا صورتحال تھی۔ اگرچہ ہم نے جن محنت کشوں سے بات کی ان کی اکثریت پہلی مرتبہ ہڑتال کر رہی تھی، مگر ان کا رویہ لڑاکا اور پرجوش تھا۔ کامریڈز کے سامنے یہ واضح تھا کہ سارے محنت کش ناکارہ نظام سے تنگ آ چکے ہیں۔

کئی شرکاء کا کہنا تھا کہ ہڑتال مخالف بل انہیں جدوجہد آگے بڑھانے سے نہیں روکے گا بلکہ انہیں لڑائی مزید سخت کرنے پر مائل کرے گا۔ سرکاری شعبوں کی مشترکہ ہڑتال اور حتیٰ کہ عام ہڑتال کے امکانات کو سراہا گیا۔

ہر طرف ایک ہی سوال جواب طلب تھا کہ محنت کش طبقے کے لیے اگلا قدم کیا ہونا چاہیے۔

یورک

سوشلسٹ اپیل کے کارکنان نے یکم فروری کو مختلف دھرنوں کا رخ کیا اور ہر جگہ ان کا خیر مقدم کیا گیا۔

این ای یو کے دھرنے میں کامریڈز کے لیے قابلِ غور بات یہ تھی کہ اساتذہ کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کی جا رہی تھی، جبکہ مقامی والدین ہڑتال کرتے ہوئے عملے کو چائے اور بسکٹ پیش کر رہے تھے۔ طلبہ اپنے اساتذہ کے ساتھ شامل ہونے کے لیے آئے اور ان سے پوچھا کہ ان کی کس طرح مدد کریں۔

دوپہر کو شہری مرکز میں ٹی یو سی کے ریلی میں کامریڈز بھرپور انداز میں شریک ہوئے۔ یونین کے تقریباً 500 عام اراکین اکٹھے ہو کر اپنے ساتھیوں کے متاثر کن تقاریر سنتے رہے۔ شرکاء کی رجائیت پسند توانائی کو محسوس کیا جا سکتا تھا، جو پوری ریلی کے دوران نعرہ بازی کر رہے تھے۔

متعدد محنت کشوں کے ساتھ ہم نے دلچسپ گفتگو کی، جن میں سے کئی نے کہا کہ وہ لمبے عرصے سے ہڑتال کرنے لیے تڑپ رہے تھے۔

ہم اپنے ساتھ مارکسی لٹریچر لے کر گئے تھے جس میں کافی دلچسپی دکھائی گئی، خصوصاً نوجوان محنت کشوں کی جانب سے۔ مارکسی نظریات میں محنت کشوں کی دلچسپی واضح طور پر کافی بڑھ گئی ہے جبکہ ان کی جدوجہد نئی انتہاؤں کو پہنچ رہی ہے۔

ریلی کے بعد ہم پورے یورک شہر میں مارچ کرتے رہے، اور سیاحوں کے لیے دلچسپ نظاروں کا باعث بنتے رہے! یورک کے اندر منظم محنت کش طبقے میں جوش و جذبہ عروج پر ہے، اور یہ ابھی محض شروعات ہے۔

کارڈف

بڑے ایکشن ڈے کے لیے کارڈف کے کامریڈز متحرک ہو کر کارڈف یونیورسٹی کیمپس میں یو سی یو کے دھرنے میں اور بعد ازاں شہر کے مرکز میں ہڑتال کے حق کے لیے کی جانے والی ریلی میں شریک ہوئے۔

دھرنوں میں شرکاء کا رویہ رجائیت پسند اور مزاحمتی تھا، جو اپنے مطالبات پورے نہ ہونے کی صورت جدوجہد جاری رکھنے کا کہہ رہے تھے۔ دھرنا کرنے والے تقریباً 150 محنت کش یونیورسٹی سے شہری مرکز کی جانب مارچ میں شریک ہوئے۔

کارڈف میٹ سے وابستہ یو سی یو کے ایک نمائندے، جو کارڈف یونیورسٹی کے دھرنوں میں شرکت کرنے آیا تھا، نے ہم سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اپنے مطالبات منوانے کے لیے مشترکہ جدوجہد کو بڑھانے کی ضرورت ہے۔

ہمارے کامریڈز نے یہ بات کی کہ مشترکہ جدوجہد کس طرح ٹوری حکومت اور ان کی یونین مخالف قانون سازی کو للکار سکتی ہے۔ ہم نے جن سے سیاسی جدوجہد کی ضرورت پر بات کی، انہوں نے ہمارے ساتھ اتفاق کیا۔

ریلی کے دوران ہمارے کامریڈز بکھر گئے تاکہ جتنے زیادہ لوگوں سے ممکن ہو بات کی جا سکے۔ ہم ایسے کئی محنت کشوں اور طلبہ سے ملے جو ہماری باتوں میں دلچسپی لے رہے تھے۔

مزید برآں، شام کو ہم نے کارڈف مارکسسٹ سوسائٹی کی میٹنگ رکھی، جس میں یو سی یو سے دو اراکین شریک ہوئے اور ہڑتالی لہر اور صنعتی جدوجہد پر ہمارے تناظر کے اوپر بحث ہوئی۔

اپسویچ

اپسویچ میں ہمارے کامریڈز این ای یو اور اپسویچ ڈسٹرکٹ ٹریڈز کونسل کے منعقد کردہ بڑے مظاہرے میں شریک ہوئے۔ یو سی یو کے دھرنے سے بارہ بجے مظاہرہ شروع ہوا، اور شرکاء کی تعداد بڑھتے ہوئے 400 ہڑتال کرنے والوں اور ان کے حامیوں تک پہنچ گئی۔ متعدد این ای یو اراکین سے بات کر کے یہ معلوم ہوا کہ پوری کاؤنٹی سے محنت کش ہڑتال میں شرکت کے لیے آئے تھے۔

این ای یو اور یو سی یو کے نمائندوں نے متعدد مختصر تقاریر کیں، جس کے بعد اپسویچ کے مرکز میں ریلی کے لیے ہڑتال کرنے والوں اور ان کے حامیوں نے مارچ کیا۔

ریلی میں یو سی یو، این ای یو، یونائیٹ اور یونائیٹ کمیونٹی کے نمائندوں نے تقاریر کیں۔

ہمارے کامریڈ نے سوشلسٹ اپیل کی نمائندگی کرتے ہوئے تقریر کی، جس کے دوران ہم نے سارے شعبوں کے بیچ ہڑتال کی جدوجہد جوڑنے کی اہمیت پر بات کی، جیسا کہ اس دن کیا گیا تھا۔

ہڑتال مخالف قانون سازی کے خلاف لڑنے اور ٹوری حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے عام ہڑتال کے پیغام کا شرکاء نے نعرے لگا کر جواب دیا!

Comments are closed.