برطانیہ میں بریگزٹ بحران: غالب امکانات کیا ہیں؟

تحریر: راب سیول|

ترجمہ: ولید خان|

بریگزٹ کے پر انتشار مذاکرات ایک ایسا بھونڈا مذاق بن چکے ہیں جن میں ہر کوئی اپنا اپنا راگ الاپ رہا ہے۔ لیکن یہاں اس بھونڈے تماشے سے زیادہ بہت کچھ داؤ پر لگا ہوا ہے۔ برطانوی وزیر اعظم تھیریسامے ایک ایسے سیاسی طوفان میں گھری ہوئی ہے جو اس کی حکومت کو برباد کرنے کے در پے ہے۔ ’’چاپلوس‘‘ اور ’’غدار‘‘ کے شور شرابے میں وہ انتہائی بے بسی میں ’’آسان نہیں لیکن درست فیصلے‘‘کا وعدہ کر رہی ہے۔

بڑے کاروباروں کے لئے تباہی

اس وقت صرف حکومت ہی نہیں بلکہ برطانوی سرمایہ داری اور اس کا یورپ سے 44 سالہ پرانا تعلق بھی داؤ پر لگا ہوا ہے۔ بریگزٹ طویل عرصے سے انحطاط پذیر برطانوی معیشت اور بڑے کاروباروں کے لئے تباہ کن ثابت ہو گا۔ یورپ ان کی کلیدی منڈی ہے۔ ان کی سپلائی چینیں (Supply Chains) یورپ میں ہیں۔ ان کے منافعوں کا ایک بڑا حصہ یورپ میں ہے۔

یورپی منڈی اور محصولاتی یونین کو چھوڑنا برطانوی سرمایہ داری کی موت ہے۔ اس کا مطلب یہ ہو گا کہ موجودہ آزاد تجارت کی منڈی برطانوی اشیا اور خدمات کے شعبے کے لئے محصولات سے بھرپور تحفظاتی منڈی میں تبدیل ہو جائے گی۔ یہ رکاوٹیں برطانوی کاروبار کو تباہ و برباد کر دیں گی جس کا نتیجہ 2008-09ء کے معاشی بحران سے زیادہ تباہ کن ثابت ہو گا۔

برطانیہ کے ٹویوٹا پلانٹ کے ڈائریکٹر مارون کوک نے حال ہی میں بیان دیا کہ ’’میرا خیال ہے اگر مارچ کے آخر میں برطانیہ یورپی یونین سے نکل جاتا ہے تو ہماری فیکٹری میں پیداوار بند ہو جائے گی، بندش کا دورانیہ گھنٹوں، دنوں، سالوں، حتیٰ کہ مہینوں ہو سکتا ہے۔‘‘
یہی وجہ سے کہ بڑے کاروباروں کی راتوں کی نیندیں حرام ہوئی پڑی ہیں۔ بڑے سرمایہ دار دن رات نمبر 10(وزیر اعظم کی سرکاری رہائش گاہ) پر سر پیٹ رہے ہیں۔ لیکن ٹوری پارٹی اتنی گل سڑ چکی ہے کہ وہ حقیقت میں پاگل ہو چکی ہے۔ یاد رہے کہ بریگزٹ ریفرنڈم اور ووٹ سابق ٹوری قائد اور وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کی کارستانی تھی۔

ٹوری بریگزٹ پسند آپے سے باہر ہو چکے ہیں کیونکہ ان کے اعصاب پر دن رات ماضی کی برطانوی سلطنت کے خواب چڑھے ہوئے ہیں۔ جب سابق وزیر خارجہ بورس جانسن کو سخت گیر بریگزٹ کی بڑے کاروباروں کی طرف سے مخالفت سے متعلق آگاہ کیا گیا تو اس کا سادہ جواب تھاکہ’’کاروبار جائیں جہنم میں‘‘۔ یہ زبان ایک نام نہاد عقل مند، کاروبارپسند پارٹی کی تو ہر گز نہیں۔

طبقۂ بالا کا دباؤ

حکمران طبقے کے لئے سخت گیر بریگزٹ ناقابل برداشت ہے۔ وہ اپنی منڈی اور منافعوں کو تباہ وبرباد ہوتا نہیں دیکھ سکتے۔ بڑے کاروبار اپنی پوری قوت اوراثرورسوخ استعمال کرتے ہوئے سخت گیر بریگزٹ سے بچنے کی کوشش کریں گے۔ یہ حالیہ ’’عوامی ووٹ‘‘ مارچ کی درپردہ حقیقت ہے ، یعنی بڑے کاروبار اس طریقے سے مے حکومت اور کوربن کی لیبر پارٹی پر دباؤ ڈال رہے ہیں۔کم از کم وہ محصولاتی یونین میں رہنا چاہتے ہیں، چاہے اس کا نتیجہ ٹوری پارٹی کی ٹوٹ پھوٹ میں نکلے۔ آج کل ٹوری پارٹی کی اکثریت بڑے کاروباروں کے مفادات سے بے بہرہ ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ سرمائے کے حکمت کار دن رات درپردہ کام کر رہے ہیں تاکہ اپنے مفادات کا تحفظ کرتے ہوئے ایک سخت گیر بریگزٹ سے بچا جا سکے۔ ان کے لئے کوئی بھی ’’عارضی بندوبست‘‘ قابل قبول ہے کیونکہ حقیقت میں عارضی کا مطلب مستقل ہی ہو گا۔ ان کی خواہش ہے کہ وہ یورپی منڈی اور محصولاتی یونین میں ایک لامتناہی ’’عبوری دور‘‘ کے ذریعے رہیں۔ یعنی، ان کی کوشش ہے کہ بریگزٹ بس برائے نام ہی ہو۔

کھوکھلی دھمکیاں اور دھوکے

تمام کھوکھلی دھمکیوں اور دھوکوں کے باوجود نظر یہی آ رہا ہے ایک ایسا معاہدہ ہو جائے گا جو بڑے کاروباروں کو مطمئن کر سکے۔ سخت گیر یا ’’ بغیرمعاہدہ‘‘ بریگزٹ صرف مذاکراتی چال ہے تاکہ فریقین کو ڈرایا جا سکے۔ کاروبار کبھی بھی اس نتیجے پر آمادہ نہیں ہو سکتا۔ وہ کبھی بھی سکون سے لیٹ کر اپنے گلے نہیں کٹوائیں گے۔

اس کے برعکس، ایک معاہدہ ہو گا اور مے برسلز کے مطالبات مانے گی۔ ابھی تک برطانیہ نے ہر موڑ پر یورپی یونین کے تمام مطالبات مانے ہیں۔ جب دستخط کرنے کا وقت آئے گا تو مے ایک بار پھر سب کچھ مانے گی۔ لیکن اسے اپنی پارٹی میں حمایت حاصل کرنے کے لئے وقت درکار ہے۔
فنانشل ٹائمز کے مطابق،’’عبوری دور کو طوالت دینے کا خیال مسز مے کے لئے مسائل سے بھرپور ہے۔ اس کا مطلب یہ ہو گا کہ اگلے انتخابات، جنہیں ہر صورت 2022ء کے وسط میں منعقد ہونا ہے، کے نزدیک تک برطانیہ عملی طور پر یورپی یونین کا حصہ ہے اور صرف برائے نام ہی بریگزٹ ہوا ہے۔‘‘
یہ بغیر تکلیف کے عمل نہیں ہو گا۔ بریگزٹ تحریک کو مے کے ’’دھوکے‘‘ کی بھاری سیاسی قیمت ہو گی۔ لیکن جب بڑا کاروبار کہے گا کہ کان پکڑو، تو وزیر اعظم کان پکڑے گی۔ غالب امکانات یہی ہے کہ یورپی کونسل کے ساتھ دسمبر تک معاہدہ ہو جائے گا۔ لیکن اس کے بعدسیلاب کے لیے دروازے کھل جائیں گے اور قیامت کا آغاز ہو گا۔

نیا باب

برسلز کے ساتھ معاہدے کا مطلب ٹوری پارٹی میں کھلی خانہ جنگی ہے۔ ابھی سے ٹوری ممبران پارلیمنٹ ’’قتل کی بو‘‘ اورمے’’اپنا پھندہ ساتھ لے کر آئے‘‘ کی چہ مگوئیاں کر رہے ہیں۔ یورپ کے ساتھ کوئی بھی ’’نرم‘‘ معاہدہ ٹوری پارٹی کو توڑ کر رکھ دے گا جس کے نتیجے میں تقریباً 100 یا شاید اس سے زیادہ ٹوری اپنی ہی حکومت کے خلاف ووٹ ڈالیں گے۔ ’’بغیرمعاہدہ‘‘ صورتحال میں لیبر پارٹی پر معاہدے کی حمایت کے لئے دباؤ ڈالا جا سکتا ہے لیکن لیبر ممبران پارلیمنٹ کا ایک حصہ اس کے خلاف ہی ووٹ دے گا۔ بارنیئر پہلے ہی کوربن سے مل کر اسے دلاسے دے چکا ہے۔سکاٹ لینڈکی SNP اور لبرل ڈیموکریٹس ’’بغیرمعاہدہ‘‘ بریگزٹ کو روکنے کے لئے ایک نرم بریگزٹ کی حمایت کریں گے۔

اگر لیبر مخالفت میں بھی ووٹ ڈالتی ہے تو ٹوری قائدین کو یقین ہے کہ لیبر باغیوں کے ذریعے ٹوری مخالفین سے بالا تر ووٹ کے لیے مقررہ تعداد پوری کی جا سکتی ہے۔ لیکن اگر تھیریسا مے ووٹ کے نتیجے میں کسی طرح سے بچ بھی جائے تو حکومت اپنی اکثریت کھو دے گی۔ برطانوی زیر کنٹرول شمالی آئرلینڈ کی اتحادی پارٹیDUP مخالفت کرے گی، کیونکہ ان کے بریگزٹ کے بعدجمہوریہ آئرلینڈ کے ساتھ سرحد کے حوالے سے شدید تحفظات موجود ہیں جو یورپی یونین کا ممبر ہے۔ برطانیہ کے یورپی یونین میں ہونے کے باعث یہ سرحد عملی طور پر ختم ہو چکی تھی لیکن بریگزٹ کے بعد یہ پھر عملی طور پر آمد و رفت میں رکاوٹ اور آبادی کی تقسیم کا باعث بنے گی۔

اس کے علاوہ ٹوریوں کی ایک پرت پاگل ہو جائے گی۔ ایسی صورتحال میں مے کی حکومت کا فوری خاتمہ ہو سکتا ہے۔یعنی نئے انتخابات اور کوربن کی لیبر حکومت کے قوی امکانات ہیں۔ برطانیہ میں ایک نیا باب کھل رہا ہے۔ یہ باب برطانوی بحران میں ایک نئے دور کا آغاز ہو گا۔ بریگزٹ کے بحران سے بچنے کے بعد برطانوی سامراج کو ایک نئے بحران کا سامنا ہو گا، عالمی تجارتی جنگ اور نیا عالمی معاشی بحران۔اور سرمایہ دار اس خوفناک طوفان سے بچ نہیں سکتے۔

Tags: × × ×

Comments are closed.