برطانیہ کا طوفان انگیز ریفرنڈم

تحریر:|ایلن ووڈز|
ترجمہ: |انعم پتافی-ولید خان|
23جون کو برطانوی عوام نے ایک تاریخ ساز فیصلہ دیا۔ چالیس سالوں تک یورپی یونین کا حصہ رہنے کے بعد اب اس سے الگ ہونے کا فیصلہ سنا دیا۔ برطانیہ ہی نہیں بلکہ یورپ اور دنیا بھر میں اس کے دوررس اثرات مرتب ہوں گے۔
BrexitCameronResigns - Socialist Appeal UKریفرنڈم کا نتیجہ برطانوی انتظامیہ کے لیے ایک تباہ کن عدم اعتماد کا ووٹ ثابت ہوا۔ سٹاک مارکیٹیں جو ایک دن قبل تک حمایتی ووٹ کی امید کے ساتھ بلندی پر تھیں دھڑام ہونی شروع ہو گئیں۔ اخراج کے حق میں پڑنے والے ووٹ52فیصد تھے جبکہ اس کے خلاف 48فیصدووٹ پڑے۔ انگلینڈ اورویلز نے برطانوی اخراج کے حق میں بھرپور ووٹ دیا۔ جبکہ سکاٹ لینڈ نے اس کے خلاف بھاری ووٹ دیا۔ ووٹوں کا ٹرن آؤٹ بھی بہت زیادہ رہا۔ یہ سکاٹ لینڈ میں67فیصد، ویلز میں72فیصد جبکہ انگلینڈ میں 73فیصد رہا۔
ایک بار پھر رائے عامہ سے متعلق تجزیہ نگاروں کے تجزیے غلط ثابت ہوئے۔ آخری منٹ تک یہ کہا جاتا رہا کہ انتہائی کم مارجن سے جیت ہو جائے گی۔ لیکن رائے عامہ کے مہتمم گزشتہ سال کے الیکشن کی طرح اس بار بھی غلط سمجھ بوجھ کا شکار ہوئے۔ اس کی وجہ اتنی ہے کہ یہ لوگ نیچے سماج میں پنپ رہی بے اطمینانی کی سنجیدگی اور گہرائی کو بھانپ ہی نہیں سکے۔
حکمران طبقات اور ان کے سیاسی نمائندوں کے لیے یہ نتائج اعصاب شکن ثابت ہوئے ہیں۔ ان کو ذرہ برابر ان حقائق کاادراک نہیں کہ نیچے سماج میں عام لوگوں پر کیا بیت رہی ہے! رائے عامہ کے تجزیوں کے سامنے آنے پر بھی ان کا رویہ نا سمجھی کا حامل تھا۔ سٹاک مارکیٹیں اوپر کو بھاگی جارہی تھیں اور پونڈ کا استحکام زیادہ مضبوط ہو رہاتھااور ایک مرحلے پر تو یہ ڈالر کے مقابلے میں1.5 ہو چکاتھا۔ جونہی ریفرنڈم کے نتیجے کی خبریں آنا شروع ہوئیں مارکیٹیں دھڑام ہونے لگیں اور پونڈ1985ء کے بعد کی کم ترین سطح پرآگیا۔ یہ ابھی ابتدائی علامات ہیں جو آنے والے دنوں میں برطانیہ کی معیشت پر گہرے اور شدید اثرات مرتب کریں گی۔ اور جس کے اثرات یورپ اور دنیا بھر کو متاثر کریں گے۔ اس نتیجے کے سیاسی اثرات تو فوری سامنے آگئے، ڈیوڈ کیمرون کی ساکھ منہدم ہوگئی اور اس نے اعلان کیاہے کہ وہ اکتوبر میں مستعفی ہو رہاہے۔ لیبر پارٹی میں دائیں بازو کے بلیرائٹ جو کہ پارلیمان کا حصہ بنتے چلے آرہے ہیں، ان کے لئے بھی نتائج غیرمتوقع ثابت ہوئے ہیں۔ یہ دائیں بازو کے حامی، پس پردہ یورپی سرمایہ داروں اور بنکاروں کی حمایت کے لیے پُر عزم تھے، لیکن انہیں بہت حیرت ہوئی جب بشمول روایتی لیبر پارٹی ووٹرز کے، محنت کش طبقے کے ایک بڑے حصے نے ان کے دانت کھٹے کر دیے۔
کیوں؟
’’اخراج‘‘ کے حق میں ووٹ دینے والوں نے ایسا بہت سی مختلف وجوہات کی بنیا د پر کیا۔ کچھ نے ترقی پسند ی اور کچھ نے منفی ردعمل کے طور پر کیا۔ شمال کی سابقہ صنعتی اور کان کن آبادیوں کا غصہ سب پر عیاں ہے جو گزشتہ کئی سالوں سے معاشی گراوٹ، بیروزگار ی اورغربت کا شکار چلے آ رہے ہیں اور انہیں دیوار کے ساتھ لگایا جا رہا ہے۔ یہ آبادیاں خود کوبہت دوربیٹھے سیاسی طبقے، جو لندن کے حکومتی ایوانوں میں بیٹھ کر ان پر حکمرانی کرتے ہیں۔ یہ لوگ خاص کر یورپی یونین کے ہیڈ کوارٹربرسلز کی بیوروکریسی سے خود کو بیگانہ محسوس کر تی ہیں، جنہوں نے ان کے لیے کبھی کچھ بھی نہیں کیا۔
جب حمایتی حلقہ، یورپی یونین میں رہتے خوشحالی کی بات کرتا تو محنت کش طبقے کی وسیع پرتیں اپنا کاندھا جھٹکا دیتیں۔ انہوں نے دیکھا ہے کہ کس طرح امیر لوگ مزید امیر ہوئے ہیں، جبکہ یہ اور ان کے خاندان مزید غریب ہوئے ہیں۔ ’’امیروں کے کلب ‘‘ یورپین یونین کے فوائدچند لوگوں کو ہی میسر ہوئے، جب کہ اکثریتی لوگ اس سے محروم ہی رہے ہیں۔ اس ناانصافی کے بڑھتے ہوئے احساس نے اسٹیبلشمنٹ کے خلاف غم و غصے کو پیدا کیا، جس کا واضح اظہار گزشتہ دن کے نتائج کی صورت میں سامنے آیا ہے۔
نتائج نے معاشرے کی جڑوں میں پنپنے والی گہری بے چینی کو آشکار کیا ہے۔ اس سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ سیاسی اشرافیہ عام لوگوں کے جذبات سے کس حد تک کٹ چکی ہے۔ یہ ایک عالمی مظہر ہے۔ جس کا اظہار 2014 ء میں سکاٹش علیحدگی پر ہونے والے ریفرنڈم میں، دسمبر 2015 ء میں سپین کے عام انتخابات میں، یونان میں سائیریزا ، سپین میں پوڈیموس کے ابھار، امریکی ڈیموکریٹک پارٹی کے ابتدائی الیکشن میں برنی سینڈر ز کی حمایت اور ایک منتشر انداز میں سہی پر امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ کے ابھا ر سے بھی ہوتا ہے۔
کم اجرتوں پر گزارہ کرنے والے اکثریتی برطانوی شہریوں کے لیے یورپی یونین کے حمایتی کیمپ کی یہ دلیل کہ یورپی یونین کی ممبر شپ کا مطلب خوشحالی اور معیار زندگی میں اضافہ ہے، محض ایک خالی گھنٹی کے سوا اور کچھ بھی نہیں۔ ان لوگوں کے لیے یورپی یونین کا خوشحالی کاوعدہ مکمل دھوکہ اور فریب تھا۔
سرمایہ دارانہ بحران کے نتائج بھگتنے والے لوگو ں کو حمایتی کیمپ کی آواز ایسی محسوس ہوئی جیسے لندن میں رہنے والے درمیانے طبقے کے خوشحال سیاستدانوں کی دلجمعی کی جائے۔ یہ ایک مختلف سیارے پر بسنے والوں کی ایسی آواز تھی جس کی مشکل زبان عام لوگوں کی سمجھ میں ہی نہیں آتی۔ مڈل کلاس اکثریت پر مبنی لیبر پارٹی کے بلیئر ائٹ دائیں بازو کے پارلیمانی ممبران کی حیرت یہ بھی واضح کر رہی ہے کہ یہ برطانیہ کی حقیقی صورتحال سے کس حد تک آگاہی رکھتے ہیں۔ اور یہی لوگ خود کو عظیم حقیقت نگار بھی سمجھتے ہیں!
دوسری طرف برطانیہ کے دائیں بازو کے رہنما قدرتاََ جذباتی ہوتے ہیں۔ عارضی طور پر ہی سہی لیکن ریفرنڈم مہم نے برطانوی سیاست کے محور کودائیں جانب دھکیل دیا ہے۔ اس کے باوجود کہ فوری طور پروہ مقاصد حاصل نہیں کر سکے، لیکن ٹوری قیادت کے اندر تھیچرائٹ دائیں بازو کے لوگ اپنی رجعتی پالیسیوں کا دباؤ ڈالتے رہیں گے۔
UKIP کے نائجل فراج، جسے ایک رات قبل لگا کہ وہ ہار جائیں گے، اس نے کہا کہ ’’یہ خواب دیکھنے کی جرات کرو کہ سلطنتِ برطانیہ کی آزادی صبح ابھرنے کو ہے‘‘۔ فراج کا خواب جلد ہی برطانوی لوگوں کے لیے بھیانک خواب میں بدل جائے گا۔ ابھی اس کے منہ سے بات نکلی ہی تھی کہ UKIP کے ابھرتے سورج کو کالے بادلوں نے گھیر لیا۔
ٹوری پارٹی میں بحران
IDS-Cameron ’’خدا جسے برباد کرنا چاہتا ہو، پہلے اسے پاگل کر دیا کرتا ہے‘‘۔ ڈیوڈ کیمرون اور کنزرویٹو پارٹی کی قیادت کی قبر کے لیے یہ ایک مناسب کتبہ ہے۔ دہائیوں پر محیط شرمناک پستی نے یورپ میں برطانیہ کی وقعت کو دوسرے درجے کی بے زمین طاقت تک گھٹا کر رکھ دیا ہے۔ اس بے مزہ سچائی کو کنزرویٹو پارٹی کی قیادت نے کبھی قبول نہیں کیا اور ابھی تک یہ برطانیہ کی سابقہ عظمت کی بحالی کے خواب دیکھتے ہیں۔ بورس جانسن کی فخریہ شیخی کہ 23جون2016ء’’ برطانیہ کایوم آزادی ‘‘ ہوگا، واضح کرتی ہے کہ یہ لوگ حقیقت سے کتنے دور ہیں۔ اب حقیقت انہیں ایک تلخ سبق سکھانے والی ہے۔
آج کے برطانوی حکمران طبقے اور اس کے سیاسی نمائندوں کا دنیا پر حکمرانی کرنے والے ان دُور اندیش حاکموں سے کوئی تعلق نہیں جن کا تذکرہ ٹراٹسکی نے ماضی میں کیا تھا۔ یہ جاہل، بیوقوف اور کم فہم ہیں۔ اس حساب سے وہ سرمایہ داروں اور بینکاروں کے بہترین عکاس ہیں کہ جنہیں اپنی ناک سے آگے کچھ نظر نہیں آتا اور جو سٹے بازی ، قلیل مدتی وسعت نظر اور طفیل خوری کے عادی ہوچکے ہیں۔ برسلز نہیں، یہی لوگ آج برطانیہ پر حکمرانی کر رہے ہیں اور کل بھی کریں گے۔
کنزرویٹو پارٹی کے لیڈر کیمرون میں بھی اُس طبقے کی کئی خصلتیں موجود ہیں جس کی یہ نمائندگی کرتے ہیں۔ اپنے یاروں سٹی ٹریڈرز کی طرح، انہیں بھی جوئے کی لت لگ چکی ہے۔ لیکن وہ حصص پر جوا لگاتے ہیں ، ٹوری پارٹی کے لیڈر ز پوری قوم کی تقدیروں پر جوا لگاتے ہیں۔ اس نے سکاٹش ریفرنڈم پر بھی بے رحم جوا لگایا اور بہت مشکل سے جیتا۔ اب اس نے برطانیہ کی یورپی یونین کی رکنیت پر اس سے بڑا جو ا لگایا اور ہار گیا۔ برطانیہ اور ٹوری پارٹی کے لیے اس کے نتائج ناقابل فہم ہوں گے۔
سب سے پہلا شکار کیمرون خود ہے۔ قدیم رومن شرفا کی طرح، اپنے گناہوں کی تلافی کی خاطر یہ اپنی ہی تلوار پر گر گیا۔ تضحیک شدہ ٹوری لیڈر نے ڈاؤننگ سٹریٹ میں صبح آٹھ بج کر پندرہ منٹ پر بیان دیا، جس وقت سٹاک مارکیٹ آغازپر 500 پوائنٹ کا ریکارڈ شدہ سب سے بڑا غوطہ کھا چکی تھی۔ اپنے الوداعیہ بیان میں اس نے کہا کہ ’’ میں وزیر اعظم کی حیثیت سے آنے والے ہفتوں اور مہینوں میں جہاز کو برابر رکھنے کی خاطر وہ سب کچھ کروں گا جو میں کر سکتا ہو ں ۔ لیکن مجھے نہیں لگتا کہ میرا اِس جہاز کا کپتان بنے رہنا درست ہے، جو ہمارے ملک کو اس کی اگلی منزل تک لے جائے گا۔ ‘‘
ٹوری پارٹی میں دراڑیں
برطانوی اخراج کے حامی کیمپ کے لیڈرز، خوفناک حد تک رجعتی ہیں۔ یہ روایتی دائیں بازو کے چھوٹے ٹوری اینگلینڈرکے رحجان کی بہترین نمائندگی کرتے ہیں جو ہمیشہ سے موجود رہا ہے۔ یہ ٹوری کے عام ووٹرز کے خیالات اور تعصبات کی نمائندگی کرتے ہیں، جس میں چھوٹے دکاندار، ریٹائرڈ کرنلز، اسٹیٹ ایجنٹس اور دیگر رجعتی پرتیں شامل ہیں، جنہیں ماضی میں ٹوریز کے شاہی حاکم سخت کنٹرول میں رکھتے تھے۔ اس باؤلے شاونسٹ ہجوم کومارگریٹ تھیچر نے کھلا چھوڑا تھا جس کا اپنا تعلق اسی پرت سے تھا۔
جس طرح دائیں بازو پر مبنی پارلیمانی لیبر پارٹی کا اپنی محنت کش طبقے پر مبنی بنیادوں سے رابطہ کٹ گیا ہے، اُسی طرح پارلیمان میں موجود کنزرویٹو پارٹی کی قیادت۔ ۔ جنابکیمرون اور وزیر خزانہ او س بورن کی طرح اونچے قد والے اشرافیہ کے لوگ۔۔ بھی اپنی پارٹی کے عام لوگوں سے کٹ چکے ہیں جو کہ ایک مختلف طبقے سے آئے ہیں اور جن کی نفسیات بھی مختلف ہے۔
ٹوری لیڈرز بڑے بنکوں، اجارہ داریوں اور سٹی آف لندن کی نمائندگی کرتے ہیں اوریہ دائیں بازو کے جنونیوں کو ان کے حلقے کی پارٹیوں میں حقارت آمیز انکساری سے دیکھتے ہیں۔ یہ ایک کمزور جگہ تھی جسے مائیکل گوواور بورس جانسن جیسوں نے بڑی مہارت سے استعمال کیا۔ دائیں بازو کی تھیچر اوریورو سکیپٹک (یعنی یورپ کی بڑھتی ہوئی طاقت کی مخالفت کرنے والے) پر بیعت کرنے والے گوو جیسے لوگ، عام لوگوں کی رائے کا زیادہ سچا اظہار ہیں جو پر جوش انداز میں اپنے دائیں بازو کے اصولوں پر قائم رہتے ہیں۔ جونسن اور گوو نے بارہا کہا ہے کہ ان کے کیمرون کو ہٹا کر وزیر اعظم بننے کے کوئی مقاصد نہیں ہیں ، لیکن کوئی بھی ان پر یقین نہیں کرتا۔ انتہائی شدید اور ذاتی مہم کے بعد دراڑیں موجود رہیں گی اور مزید شدت اختیار کریں گی۔ خاص مقام پر آ کرپارٹی کی ظاہری تقسیم بھی ایک الگ امکان بن جائے گی۔
اپنے آغاز سے ہی ریفرنڈم مہم کے لہجے میں شدت موجود تھی۔ ٹوری لیڈرز کی سرِ عام ایک دوسرے کی تضحیک اور جھوٹ بولنے کی الزام تراشیوں جیسے زہریلے ذاتی حملے معمول بن گئے تھے۔ ان آپسی حملوں نے ٹوری پارٹی کے ان گہرے زخموں کو ہرا کردیا جوکہ اب آسانی سے بھر نے والے نہیں ہیں۔
کنزرویٹو پارٹی واضح طورپر اب دو شدید متحارب حصوں میں تقسیم ہو چکی ہے۔ ایک طرف نام نہاد ترقی پسند ٹوریز ہیں جن کی نمائندگی کیمرون اور اوس بورن کر رہے ہیں۔ ان کے مخالفوں میں ، جن کی عام ٹوری کارکنوں میں مضبوط بنیادیں موجود ہیں، دائیں بازو کے آزاد منڈی کے حامی تھیچر اسٹ ہیں، جن میں مائیکل گوو، ایان ڈنکین سمتھ، اس کے ساتھ ساتھ لندن کے سابقہ مئیر بورس جانسن جیسے لوگ شامل ہیں۔ آخری نام، ٹوری پارٹی کے مستقبل کے لیڈر کے لیے زیادہ پسندیدہ ہے۔
بورس جانسن
twosidesofthesamecoin-socialist appeal britainایک کھلے مزاج کا حامل، تشہیر چاہنے والا انا پرست ، اشرافیہ کے سکول ایٹن کا سابقہ طالبعلم ، بورس جانسن بڑے مقاصد رکھنے والا ایک آدمی ہے۔ یہ ایک کھلا راز ہے کہ وہ وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کے جوتوں میں پاؤں رکھنے کے لیے پَر تول رہا ہے۔ لندن کے مئیر کی پوزیشن سے ہٹنے کے بعد اس نے برطانوی اخراج کی مہم میں خود کو قیادت کی پوزیشن پر لانے لیے کافی ساز باز کی ہے، جسے وہ واضح طور وزیراعظم ہاؤس میں قدم رکھنے کا پہلا پتھر سمجھتا ہے۔
بدھ22 جون کو دی گارڈین جریدے میں شائع ہونے والے مائیکل کوکیرل کے آرٹیکل سے جانسن میں اصولوں کی عدم موجودگی بالکل واضح نظر آتی ہے ، جس میں ہم پڑھتے ہیں کہ’’(فروری میں ) اپنا ذہن بنانے کے لیے آکسفورڈ شائر کی طرف بھاگا۔ اسی وجہ سے اس نے ڈیلی ٹیلی گراف ایک قابل ستائش کالم تحریر کیا۔ اس نے دو مضمون لکھے، ایک یورپی یونین میں رہنے کی حمایت میں اور دوسرا اخراج کی حمایت میں۔ دونوں مجوزہ تحریریں دیکھنے والے ایک شخصنے مجھے بتایا کہ یورپی یونین کے اندر رہنے کے لیے بنایا گیا کیس زیادہ مضبوط اور قائل کرنے والا تھا۔
ریفرنڈم مہم کے دوران ہونے والے مذاکرے میں جب میں نے یہ بات اس کے سامنے رکھی تو وہ بوکھلا کر باتیں بنانے لگ گیا۔ اس نے کہا کہ ’مجھے تمہارے ذرائع کے بارے میں تو علم نہیں لیکن یہ سچ ہے کہ میں نے دو مضمون لکھے تھے۔ دوسرا مضمون یہ کہتا تھا کہ یورپی یونین جس طرح سے چل رہا تھا اس پر میرے اعتراضات سے قطع نظر ، اپنی پارٹی اور وزیر اعظم کا ساتھ دینے کے لیے بہتر یہی ہے کہ ہم یورپی یونین کے اندر ہی رہیں۔ اور آخر میں مجھے لگا کہ یہ کوئی زیادہ اچھی وجہ نہیں ہے‘۔ ‘‘
بورس جانسن صرف ایک اصول جانتا ہے اور وہ بورس جونسن کا کیرئیر کا ہے۔ وہ یوروسکیپٹک (یورپی یونین کی بڑھتی ہوئی طاقت کی مخالفت کرنے والے) گاڑی پر اس لیے سوار ہوا تاکہ وہ عام ٹوری ووٹرز اور پارلیمانی پارٹی کے یوروسکیپٹک دھڑے کی خوشامد کرکے حمایت حاصل کر سکے۔ اس حربے نے اچھا کام کر دکھایاہے۔ نتائج کا اعلان ہونے سے گھنٹوں پہلے ٹوری پارٹی کے اخراج کے حق میں مہم کرنے والے اہم لیڈروں نے ڈیوڈ کیمرون کو دستخط شدہ خط لکھا، جس میں کہا گیا کہ اسی کو ہی وزیر اعظم رہنا چاہیے۔ یہ ایک نپا تلا حربہ تھا جس کا مقصد پارٹی لیڈر سے اپنی وفادار ی پر روشنی ڈلوانا تھا۔ یہ وہی وفاداری ہے جو جولییس سیزر سے اس کے دوست بروٹس نے خنجر گھونپنے سے ذرا دیرپہلے دکھائی تھی۔
جانسن اس مہم سے پہلے ہی اپنا مقصد حاصل کرچکا ہے یعنی ٹوری پارٹی کے دائیں بازو کی خوشامد کر تے ہوئے اور ڈیوڈ کیمرون کی جگہ لینے کے لیے خود کو بہتر پوزیشن میں لا کر، کہ جب وہ اکتوبر میں اپنی پارٹی لیڈر شپ کی پوزیشن سے مستعفی ہوجائے گا۔ اس نقطہ نظر کی خاطر وفاداری کے ایک چھوٹے سے دکھاوے نے اس کا کچھ نہیں بگاڑا، بلکہ ٹوری پارٹی کی قیادت کی نظروں میں مستقبل کے حوالے سے اس کی وقعت بڑھ گئی۔
نائجل فراج
Nigel Farageبرطانوی اخراج رحجان کے انتہائی دائیں بازو پر نائجل فراج موجودہے جو یو کے انڈیپینڈنٹ پارٹیUKIP کا لیڈر ہے اور کئی سالوں سے اپنی متعصب، یورو اور مہاجرین مخالف مؤقف پر زور دے رہا ہے۔ ابھی کچھ عرصہ پہلے تک بھی سبھی معزز سیاستدان اس سے فاصلے پر رہتے تھے۔ لیکن یورپین یونین کی ریفرنڈم مہم نے اسے برطانوی سیاست میں کلیدی کردار عطا کر دیا ہے۔ اس سے مستقبل پر سنجیدہ اثرات مرتب ہوں گے۔
ابھی ریفرنڈم سے ایک ہفتہ پہلے ہی فراج نے فخر یہ انداز میں ایک بڑا پوسٹر آویزاں کیا، جس میں بڑی تعداد میں مہاجرین اور پناہ گزینوں کو دکھایا گیا تھا(جن میں سبھی کے چہروں کا رنگ بھورا اور سیاہتھا) جس کا نعرہ ’’ ٹوٹنے کا مقام ‘‘تھا ۔ نسل پرستی کے جذبات کو ابھارنے کی کاوش پر مبنی اور بمشکل ہی چھپ سکنے والے اس متعصب ہتھکنڈے کا مقصد بے روزگاری اوررہائش کی قلت کے بحران کی حقیقی وجوہات سے مزدوروں کی توجہ ہٹانا تھا۔ تمہارے پاس نوکریاں نہیں ہیں؟ مہاجرین پر الزام لگاؤ۔ تمہارے پاس گھر نہیں ہیں؟ مہاجرین پر الزام لگاؤ۔ صحت کی سہولیات بحران میں ہیں؟ مہاجرین پر الزام لگاؤ!
یہاں ہمارے پاس برطانوی اخراج کی مہم کا مکمل متن آ چکا ہے۔ اس رجعتی پیغام کے ساتھ سامنے آنے والے باقی تمام اسباب واقعاتی نوعیت کے ہیں ، جیسا کہ ملکی سا لمیت، جمہوریت اور برسلز کی مداخلت کا خاتمہ وغیرہ۔ مائیکل گوو سے جب اس پوسٹر بارے پوچھا گیا تو اس نے کہا کہ ’’ جب میں نے اسے دیکھا تو میں لرز گیا‘‘۔
لیکن جیسا کہ ایک ٹی وی انٹرویوکرنے والے نے بھی سوال کیا کہ محض لرز جانا تو ایک ذاتی ردعمل ہے، جسے کھلے عام مذمت میں نہیں بدلا گیا۔ یہ چھوٹا سا واقعہ درست طور پر گوو اور فراج کے مابین تعلقات کو اچھی طرح ظاہر کرتا ہے۔ یو کے انڈیپنڈنٹ پارٹی کی جانب سے اس قسم کے ڈھکے چھپے نسل پرستانہ تعصب پر مبنی پیغام کا آنا یقیناًکوئی نئی بات نہیں۔ لیکن جس طرح سے بڑی سیاسی پارٹیاں اس ناقابل قبول زہر کو قبول کرنے لگی ہیں، یہ طرز ضرور نئی ہے۔ برطانوی سیاست میں زہریلے ماحول کو متعارف کروایا جا رہا ہے۔
جس طریقہ کار کے تحت مہاجرین مخالفت، غیر ملکیوں سے نفرت، نسل پرست تعصبات قابل قبول بن چکے ہیں، وہ کچھ اس طرح سے ہے۔ نائجل فراج نسل پرستی سے قریب تراپنے خیالات کو زیادہ کھل کر سامنے رکھتا ہے، اگرچہ وہ اپنی بات برٹش نیشنل پارٹی اور دیگر فاشسٹ گروہوں کی نسبت زیادہ مکار ی اور عیاری کے انداز میں رکھتا ہے۔ اگرچہ جانسن اور گوو ، فراج اور اس کے متعصب خیالات کی کھل کر حمایت نہیں کر سکتے لیکن خاموشی سے اس کی طرف سرک رہے ہیں، اسی کے پیغام کو بڑی عیاری اور دبے لفظوں میں دہراتے ہیں، لیکن سرے عام کی اس کی ’’ زیادتیوں‘‘ پر احتجاج کرتے ہیں۔
چینل 4نیوز پر جب فراج سے پوچھا گیا کہ ٹوری پارٹی کے مائیکل گوو اور بورس جانسن جیسے ارکان پارلیمنٹ جو پہلے آپ کی مذمت کیا کرتے تھے اب وہ بھی آپ کی مہاجرین مخالف باتوں کو دہرا رہے ہیں ، تو اس پر یو کے انڈیپنڈنٹ پارٹی کے لیڈر نے خوشی کا اظہار کیا۔ جب اس سے، اُس افواہ کے متعلق مزید سوال کیا گیا کہ بورس جانسن آپ کو آنے والی نئی حکومت میں عہدہ دینے کو تیار ہے تو اس نے احتجاج کیا اورکہا کہ اسے ایسی کسی بات کا علم نہیں۔ لیکن یہ بات واضح ہے کہ پس پردہ ایسی تجاویز پر بات کی جا رہی ہے۔
اب کیا؟
برطانوی اخراج کی کامیابی کے بعد لسبن معاہدے کے آرٹیکل نمبر 50 کے تحت یورپی یونین سے علیحدگیوں کے سلسلے میں تیزی آجائے گی، (معاہدہ لسبن نے یونین سے علیحدگی چاہنے والے ممبران کے لیے اختتام کی شق متعارف کروائی تھی، معاہدہ برائے یورپی یونین کے آرٹیکل نمبر 50 کے تحت)۔ لیکن یہ ایک نا معلوم دیا ر ہیں۔ ایسی چیز پہلے کبھی نہیں ہوئی اوریہ کبھی ہونے بھی نہیں والی تھی۔ علیحدگی کا عمل طویل اورکٹھن ہوگا، جس میں کم از کم دوسال تک ’’طلاق‘‘ کی شرائط پر مذاکرات ہوں گے۔ لیکن عام طور پرجیسا کہ سب جانتے ہیں کہ طلاق کا عمل انتہائی متنازعہ، گرم مزاج اور تلخ تجربہ ہوا کرتا ہے۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ اخراج کے حق میں مہم کرنے والے کہہ رہے ہیں کہ فوری طور پر ایسا کرناضروری تو نہیں ۔ وہ مئی 2020ء میں ہونے والے برطانوی عام انتخابات تک اسے ٹالنے کو ترجیح دیں گے ۔ بحرحال یہ فیصلے مکمل طور پر ان کے ہاتھ میں نہیں ہیں۔ اگر برطانیہ اخراج کے حق میں ووٹ دیتا ہے تو عمومی طور پر یورپی یونین مخالف دھڑا، اس عمل کے آگے بڑھنے کے حوالے سے بہت زیادہ پرامید ہے۔ اب ہم برطانیہ کی یورپ مخالفت میں تلخ حقیقت کو دیکھیں گے۔
برطانیہ کے جہاز سے باہر چھلانگنے پر یورپین لیڈر ز کا ردعمل صدمے ، غصے اورخفگی کی صورت میں ہو گا۔ یہ سوچنا کہ ایک بار الگ ہونے کے بعد برطانیہ یورپ سے تعاون اور دوستی پر مبنی تعلقات استوار کرے گا، سراسر خام خیالی ہے۔ سادہ سی سچائی یہ ہے کہ انجیلا مرکل اور دیگر یورپی لیڈرز برطانیہ کے ساتھ کوئی رعایت برتنے کی گنجائش ہی نہیں رکھتے، اگر وہ چاہیں بھی تو نہیں کر سکتے۔ پہلے ہی پورے بر اعظم میں یورپ کی بڑھتی طاقت کی مخالفت میں پنپنے والے جذبات عمومی طور بڑھ رہے ہیں۔ رائے شماری کے مطابق فرانس میں برطانیہ سے زیادہ یورپی یونین مخالفت موجود ہے۔ میرین لی پن ریفرنڈم کا مطالبہ کر رہی ہے۔ دیگر یورپی یونین مخالف پارٹیاں بھی اس پر عمل کریں گی۔ یہ عمل حتمی طور پر یورپی یونین کے ٹوٹنے کی طرف لے جائے گا۔
اسی وجہ اگر برسلز برطانیہ کو کوئی آسانی مہیا کرتا ہے تو اس سے دوسروں کو بھی اسی رستے پر چلنے کا اعتماد مل جائے گا۔ اس لیے یہ نا ممکن ہے۔ برطانوی حکمران طبقے کو جلد ہی احساس ہو جائے گا کہ وہ اب بے آسرا ہو چکے ہیں۔ محنت کش اور غریب لوگ سب سے زیادہ اس جھٹکے کو محسوس کریں گے۔
علیحدگی مخالف دھڑے کی شدیدمعاشی بحران کی پیشین گوئی حقائق پر مبنی ہے۔ برطانیہ کے اندر بحران تیا ر ہو رہا ہے جو سب سے زیادہ محنت کشوں پر اثر انداز ہوگا۔ دوسری طرف، جلد ہی جانسن اور دیگر علیحدگی پسند لوگوں کے ملک پر ’’ واپس کنٹرول حاصل کرلینے‘‘ کے وعدے بے بنیاد ہوتے نظر آئیں گے۔ مذاکرات ہی اس بات کا تعین کریں گے کہ آیا برطانیہ یونین میں رہے بغیر، یورپ کی سانجھی منڈی کا حصہ رہ سکتا ہے یا نہیں، جیسا کہ اس وقت ناروے کر رہا ہے۔ بحر حال اس کا مطلب یہ ہوگا کہ برطانیہ کو پھر بھی مزدوروں کی آزادانہ نقل و حمل کو بھی قبول کرنا پڑے گا۔
دیگر راستوں میں، کینیڈا کی طرز پر آزاد تجارتی سودا، سوئیزر لینڈجیسا باہمی معاہدہ، یا پھر ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کی رکنیت پر ملنے والے تجارتی معاہدے کی بنیادی شرائط کی طرف واپسی ہوگی۔ لیکن ان سب راستوں کے لیے طویل اور مشکل مذاکرات کرنا ہوں گے، جس کے ساتھ ساتھ بے روزگاری اورمعیار زندگی میں کمی بھی در آئے گی۔
برطانوی اخراج کے حامی حصے نے پہلے ہی قلیل مدتی معاشی بحران کا اشارہ دے دیا ہے۔ بورس جانسن لوگوں کے خوف کو یہ کہہ کر کم کرنے کی کوشش کررہا ہے کہ پونڈ میں تو ’’ قدرتاََاتار چڑھاؤ آتے رہتے ہیں‘‘۔ بحرحال موجودہ اتار چڑھاؤ کا رخ واضح طور پر نیچے کی طرف جا رہا ہے۔ اور کرنسی پر سٹے بازی کرنے والا کروڑ پتی، جارج سورس تنبیہ کر رہا ہے کہ اس کے اثرات 1929ء کے کریش سے بڑھ کر ہوں گے۔
یہ تنبیہات پہلے ہی سچ ثابت ہونا شروع ہو چکی ہیں۔ سٹاک مارکیٹ ریفرنڈم کے بعد کی صبح اپنے آغاز کے پہلے پانچ منٹوں میں 500 پوائنٹس سے کریش کر گئی ہے۔ گراوٹ نے برطانیہ کی 100 بڑی لسٹڈ کمپنیوں کے124 ارب پونڈ اڑا کر رکھ دئیے۔ اگر اسی گراوٹ پر ہی دن کا اختتام ہوتا ہے تو پھر یہ انڈیکس کی تاریخ میں گراوٹ کا سب سے بڑا دن ہوگا۔ یہ آ ئندہ آنے والے واقعات کے حوالے سے ایک چتاونی ہے۔
برطانوی معیشت سکڑے گی۔ پونڈ اور گھروں کی قیمتوں کی طرح، کاروباری سرمایہ کاریاں گریں گی۔ اس کا مطلب ہوگا کہ درآمدی اشیاء مہنگی ہو جائیں گی اورجس سے قیمتوں میں اضافہ ہوگا۔ دوسرے الفاظ میں برطانیہ کے محنت کش طبقے کو علیحدگی پسند وں نے دھوکہ دیا ہے، ویسے ہی جیسے علیحدگی مخالفوں نے دیا ہے۔ دونوں صورتوں میں حکمران طبقہ اِن سے اپنے نظام کے پیدا کئے گئے بحران کی قیمت وصول کرے گا۔
سکاٹ لینڈ پر اثرات
اس ریفرنڈم کے نتائج نے سکاٹ لینڈ کے مستقبل پر گہرے اور دور رس اثرات ڈالنے ہیں۔ اس نے سکاٹ لینڈ کو برطانیہ سے الگ کرنے والی دراڑوں کو مزید گہرا کر دیا ہے۔ سکاٹ لینڈ کے 68فیصد لوگوں نے برطانیہ کے یورپی یونین میں رہنے کے حق میں ووٹ ڈالا۔ تما م 32 علاقائی کونسلز نے علیحدگی مخالفت میں ووٹ ڈالا ہے۔ ’یورپ میں مضبوط سکاٹ لینڈ ‘کی مہم چلانے والوں نے کہا ہے کہ سکاٹ لینڈ میں علیحدگی مخالف اکثریت ’’ غیر معمولی ‘‘ تھی۔
لیکن یہ نتائج سکاٹ لینڈ میں جوابوں سے کہیں زیادہ سوالوں کو جنم دیں گے۔ مسئلہ یہ ہے کہ پورے برطانیہ نے سکاٹ لینڈ کی یورپی یونین میں رہنے کی مرضی کے بر خلاف علیحدگی کا ووٹ دیاہے۔ سکاٹش حکومت کی سیکریٹری برائے امور خارجہ فیونا ہسلوپ نے کہا ہے کہ ’’سکاٹ لینڈ کے مفادات کے تحفظ‘‘ کے لیے ’’تمام تجاویز پر غور کیا جارہا ہے‘‘او ر دھمکی دی ہے کہ اگر برطانیہ نے ، سکاٹ لینڈ کے لوگوں کی مرضی کے خلاف فیصلہ کیا تو اس کے’’ نتائج‘‘ بھی بھگتنے پڑیں گے۔
سکاٹ لینڈ کی وزیرِ اول نکولا سٹروجن نے کہا کہ سکاٹ لینڈ نے یورپی یونین میں رہنے کے لیے’’ مضبوط اور واضح ووٹ ‘‘دیا ہے۔ محترمہ سٹروجن نے کہا، ووٹ نے واضح کر دیا ہے کہ’’ سکاٹ لینڈ کے لوگ اپنا مستقبل یورپی یونین کے حصے کے طور پر دیکھتے ہیں‘‘۔ اس نے یہ بھی اشارہ دیا کہ یہ نتیجہ سکاٹ لینڈ کی آزادی کے لیے ایک اورریفرنڈم کو ایجنڈے پر ڈال دے گا۔ سابقہ وزیرِ اول ایلکس سالمنڈ نے زیادہ زور دے کر کہا کہ اسے لگتا ہے کہ اب آزادی کا دوسرا ریفرنڈم ہونا چاہیے۔
سالمنڈ نے بی بی سی کو بتایا کہ ’’ اب سٹروجن کو مینی فیسٹو لے کر آگے بڑھنا ہوگا ، آپ کو یاد ہوگا، مینی فیسٹو کہتا ہے کہ اگر ایسا مواد موجود ہو اور حالات میں بڑی اہم تبدیلیاں آئی ہوں توسکاٹش پارلیمنٹ کو سکاٹش آزادی پر دوسرا ریفرنڈم کروانے کی اجازت ہوگی ، جیسا کہ اب سکاٹ لینڈکو اس کے لوگوں کی مرضی کے خلاف یورپی یونین سے باہر دھکیلا جا رہا ہے۔ اب یہ ہو گیا ہے اور مجھے یقین ہے کہ نکلولا اپنے مینی فیسٹو کی پاسداری کرے گی‘‘۔
پس ، کیمرون کی بے ڈھنگی چال نے سلطنتِ برطانیہ کو خطرے میں ڈال دیا ہے، جس کے نتیجے میں عظیم برطانیہ چھوٹے سے انگلینڈ میں بدل کر رہ جائے گا۔
رجعتی مضمرات
برطانوی اخراج کی فتح انقلابیوں یا بائیں بازو کے متحمل رحجانات کو مضبوط نہیں کرے گا، جیسا کہ کچھ بہکے ہوئے لوگوں نے تصور کیا تھا، اس کے برعکس یہ عارضی ہی سہی لیکن برطانیہ سمیت پورے یورپ میں رجعتیت کی فتح ہے۔ جو اس پر خوشیاں منا رہے ہیں وہ میرین لی پن ، جرمنی کی آلٹرنیٹ فار جرمنی، دیگر رجعتی شاونسٹ اور مہاجرین مخالف ہیں۔ نیشنل فرنٹ پارٹی کی لیڈر میرین لی پن نے فرانس میں ریفرنڈم کا مطالبہ کیا ہے، جیسا کہ انتہائی دائیں بازو نے ہالینڈ اور دیگر ممالک میں کیا ہے۔
برطانوی اخراج سے پھیلنے والی معاشی تباہی کی دلیل کے جواب میں مخالف حصے نے مہاجرین مخالف پراپیگنڈہ شروع کر رکھا ہے۔ ہر دن مزاج زیادہ بھدا اور زہریلا ہو رہا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اسی مزاج نے، لیبر پارٹی کی ممبر پارلیمنٹ جو کوکس کے وحشیانہ قتل میں کردار ادا کیا ہے۔
نائجل فراج کے مہاجرین مخالف جذبات میں اس کا نسل پرست اور تعصب پر مبنی پیغام لپٹا ہوا ہے ۔ مہاجرین مخالف جذبات کے باوجود ، بحر حال، فراج خود فاشسٹ نہیں ہے، لیکن یہ یقینی طور مستقبل میں فاشزم کی رفتا ر بڑھائے گا۔ برطانیہ میں فاشسٹ تنظیموں کی طاقت اور اہمیت کو بڑھانا سراسر غلط ہے، جو کہ اس وقت بہت ہی چھوٹی، ہاں البتہ زہریلی، سیاست کے کناروں پر چھوٹے موٹے گروہوں کی صورت میں ہیں۔ مہاجرین مخالف دھڑے کا بمشکل ہی چھپ سکنے والا نسل پرست لہجہ یقینی طور پر مستقبل میں ایسے رحجانات کو پروان چڑھانے کاماحول مہیا کرے گا۔
محنت کشوں کیلئے سنگین نتائج
no-more-austerity_credit-socialist-appealجیسے کہ کوئی بھی اندازہ لگا سکتا تھا، رخصتی کے ووٹ کو بلیرائٹ لیبر پارٹی میں جیرمی کوربن کے خلاف ایک نئی تحریک ابھارنے کیلئے استعمال کر رہے ہیں۔ ان بلیرائٹ ممبر پارلیمنٹ کا مؤقف یہ ہے کہ برطانیہ کو یورپی یونین کے اندر رکھنے کے حوالے سے کوششیں ’’کم تر گرمجوشی‘‘ کا شکار تھیں۔ بیچارہ جیرمی! اگر اسے موسمی حالات کیلئے موردِ الزام ٹھہرایا جا سکتا تو اس کے مخالفین ایسا ضرور کرتے۔ دائیں باو کے کٹر بلیرائٹ کی ہر ممکن کوشش ہے کہ کسی طرح سے بھی کوربن سے چھٹکارا حاصل کیا جا سکے۔
لگاتار دہرائے اس الزام کے خلاف کہ یورپی یونین میں رہنے کیلئے کوربن کی تحریک ’’بے دلی‘‘ کا شکار تھی، کوربن نے جواب دیا:’’بہت سارے ایسے لوگ ہیں جو یورپی یونین سے خوش نہیں تھے۔ میں جس نکتہ نظر پر زور دے رہا تھا وہ یہ تھا کہ یورپ سے ہمیں بہت ساری حاصلات ملی ہیں۔۔ خاص طور پر کام کی جگہ کے حالات اور ماحولیات کے تحفظ کے حوالے سے۔۔ لیکن بہت سارے ایسے مسائل بھی ہیں جو سنجیدگی سے غور طلب ہیں۔۔ خاص طور پر برطانیہ میں معاشی عدم مساوات۔۔ اسی وجہ سے میرا موقف یہ تھا کہ ہمیں یورپی یونین میں رہتے ہوئے یورپی یونین میں تبدیلیاں اور اصلاحات لانے کی ضرورت ہے‘‘۔
لیبر پارٹی کے لیڈر(کوربن) کے برعکس، پارٹی کے پارلیمنٹ میں موجود ممبران سرمایہ دار یورپی یونین کے حوالے سے بہت پرجوش تھے۔ اس معاملے میں ان کی کیمرون، اوسبورن اور لندن شہر، جہاں تمام بینکوں کے مرکزی دفاتر ہیں، کے ساتھ مکمل مفاہمت تھی۔ لیکن وہ لیبر پارٹی کے ووٹروں کی امنگوں سے پہلے بھی اور اب بھی مکمل طورپر کٹے ہوئے ہیں۔
Corbyn and Blairites - Socialist Appeal UKیہ آسودہ متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے دو کوڑی کے خود غرض سمجھ ہی نہیں سکتے کہ اس وقت عام محنت کشوں میں لندن کی سیاسی افسر شاہی اور بشمول لیبر پارٹی کے دائیں بازو ٹولے سے کتنی شدید نفرت اور عدم اعتماد کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اب بہت سارے محنت کش بلیرائٹ ممبران پارلیمنٹ اور ٹوریز (Tories) کو ایک ہی تھالی کے چٹے بٹے سمجھتے ہیں۔ ریفرینڈم کمپین میں اس حقیقت پر پر مہر ثبت ہو چکی ہے کہ ایسا ہی ہے۔
بلیرائٹ ٹولے اور کنزرویٹو پارٹی (Conservative Party) دونوں میں سیاسی طور پر فرق کرنا اب مشکل ہے۔ وہ مشترکہ سماجی طبقے سے تعلق رکھتے ہیں، مشترکہ مراعات یافتہ زندگی کے مزے لوٹتے ہیں، مشترکہ کلبوں کے ممبران ہیں اور مشترکہ طبقے کی نفسیات رکھتے ہیں۔ ریفرنڈم کے دوران وہ خوشی خوشی کیمرون اور اوسبورن کے شانہ بشانہ کمپین چلاتے رہے، ایسے سیاست دان جن سے محنت کش طبقہ کٹوتیوں اور منصوبہ بند کفایت شعاری کی پالیسیوں کی وجہ سے شدید نفرت کرتے ہیں۔۔ ایسی پالیسیاں جن کو عمومی طور پر لیبر کا دائیں بازو ٹولہ تسلیم کرتا ہے۔
کوربن کے حامی عام ممبران جو کہMomentum نامی کمپین میں منظم ہیں، انہوں نے آج مندر جہ ذیل اعلامیہ جاری کیا ہے:
’’ہم تسلیم کرتے ہیں کہ بہت ساری وجوہات کی بنا پر لوگوں نے ’’رخصتی‘‘ کیلئے ووٹ دیا۔ اس ووٹ میں زیادہ تر اس غم و غصے کی عکاسی تھی جو گزشتہ کئی سالوں میں مختلف عوامی گروہوں میں صنعت کی زوال پذیری اور اس کے نتیجہ میں محفوظ روزگار کے کھو جانے سے پیدا ہوا ہے۔ ایسے بہت سارے محنت کشوں کے عوامی گروہ ہیں جنہیں کئی سالوں سے حکمران نظر انداز کر رہے ہیں۔ کروڑوں لوگوں نے ’’اخراج‘‘ کیلئے ووٹ ڈالتے ہوئے بے لگام سرمایہ دارانہ عالمگیریت کے خلاف ووٹ ڈالا ہے جس کی وجہ سے معیارِ زندگی یا تو جمود کا شکار ہے یا پھرگر رہا ہے جبکہ زندہ رہنے کے اخراجات بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ ہم محنت کشوں کے بڑے مالیاتی و تجارتی اداروں کی اجارہ داری، منصوبہ بند کفایت شعاری اور دور بیٹھی اشرافیہ، چاہے وہ برطانوی، یورپی یا عالمی ہو، کے حوالے سے شک و شبہات اور تحفظات میں اور ساتھ ہی ایک ایسا ملک جس میں محنت کشوں کے پاس کنٹرول ہو، کے مطالبے میں شامل ہیں۔ بہت سارے ’’اخراج‘‘ کو ووٹ ڈالنے والے لوگ ایسے ہیں جو کہ عام طور پر لیبر پارٹی کو ووٹ ڈالتے ہیں یا پھر وہ محنت کش ہیں جن کی لیبر پارٹی کو نمائندگی کرنی چاہئے۔ اب یہ پارٹی اور محنت کش تحریک کا فریضہ ہے کہ ملک کی عوام کو یہ باور کرائے کہ صرف ان کے پاس محنت کشوں کو اپنی زندگیوں، کام کی جگہوں اور سماجی گروہوں پر کنٹرول حاصل کرنے کا پروگرام موجود ہے۔ لیبر پارٹی کو اب واشگاف الفاظ میں بتانا پڑے گا کہ وہ کس طرح سے اپنی پالیسیوں کے ذریعے معیارِ زندگی بہتر کر سکتے ہیں جس کے نتیجے میں اجرتیں بڑھیں گی، رہائشی بحران پر قابو پایا جائے گا اور لوگوں کی اپنے کام کی جگہ پر اور سماجی گروہوں میں زیادہ موثر انداز میں بات سنی جائے گی۔ اگر ہم ایسا نہیں کرتے تو پھر ہم نا صرف ان پالیسیوں کو فروغ دینے میں ناکام ہو جائیں گے جن سے محنت کشوں کو فائدہ پہنچے بلکہ ہم دائیں بازو کی معاونت کے مرتکب ہوں گے جو ہمارے مسائل کیلئے صاحبِ اقتدار کے بجائے تارکینِ وطن کو موردِ الزام ٹھہراتے ہیں۔ اخراج کمپین نے اپنے تئیں ان نسل پرست، رجعتی عناصر کو تقویت بخشی ہے جو صرف نفرت اور جھوٹی امید کا چورن بیچ رہے ہیں۔ ہمیں تارکینِ وطن کو موردِ الزام ٹھہرانے کی روش کے خلاف جدوجہد کرتے ہوئے بھاری اکثریت کی ضرورتوں اور امنگوں پر اپنی کوششیں صرف کرنی ہیں اور اپنی عوام کو ایک اصل امید و یاس کا پروگرام دینا ہے۔ اگرچہ ہم یورپی یونین چھوڑ دیں گے، ہماری تحریک بہرحال عالمگیر تحریک ہے۔ ہمیں تمام یورپ میں موجود اپنے دوستوں اور ساتھیوں کے ساتھ منصوبہ بند کفایت شعاری کے خلاف، موسمی تبدیلیوں کے حل اور مستقل مزاج معیشت جس میں تمام یورپ کی عوام کو روزگار میسر ہو ، کیلئے جدوجہد جاری رکھنی ہے‘‘۔
اس اعلامیے میں جن جذبات کا اظہار کیا گیا ہے ان میں سے بہت ساروں سے ہم متفق ہیں۔ لیکن اب وقت آ گیا ہے کہ ’’ مومینٹم‘‘ تحریک کو یہ احساس ہو کہ پارلیمنٹ میں موجود لیبر پارٹی کے دائیں بازو کے حواریوں نے جیرمی کوربن کے خلاف جنگ کا اعلان کر دیاہے اور یہ ٹولہ اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھے گا جب تک اسے ہٹا نہیں دیا جاتا۔ ٹوری پارٹی (Tory) کا بحران، جو اب ریفرنڈم کے نتیجے میں زیادہ شدت اختیار کر گیا ہے، کی وجہ سے ہو سکتا ہے کہ مستقبل قریب میں عام انتخابات کرا دیئے جائیں۔ لیبر پارٹی کا دایاں بازو ان انتخابات سے پہلے اپنی بد نیت اور گھٹیا کمپین میں تیزی لا کر کوربن کو ہٹانے کی ہر ممکن کوشش کرے گا۔
برطانیہ میں اب کچھ عرصے کیلئے سیاسی عدم استحکام نا گزیر ہے۔ ابھی سے عام انتخابات کرانے کا مطالبہ زور پکڑنا شروع ہو گیا ہے تاکہ دونوں پارٹیوں کے ممبرانِ پارلیمنٹ اپنی اپنی تجاویز سامنے رکھیں کہ آگے کرنا کیا ہے۔ کنزرویٹو پارٹی (Conservative Party) کے پچھلی نشستوں کے ممبر پارلیمنٹ جیکب۔ موگ(Jacob-Mogg) نے کہا ہے کہ خزاں کے مہینوں میں (ستمبر، اکتوبر، نومبر) میں عام انتخابات کا ہونا ’’بعیدالقیاس‘‘ نہیں ہے۔ کچھ لوگوں نے مارچ یا جون 2017ء میں نئے انتخابات کے ہونے کو زیادہ بہتر امکان قرار دیا ہے۔
جب سے کوربن لیبر پارٹی کا لیڈر منتخب ہوا ہے، اس وقت سے میڈیا میں اس کے خلاف پارلیمنٹ کے بلیرائٹ دھڑے کی معاونت سے تندوتیز کمپین ہو رہی ہے جس کے مطابق کوربن ’’ناقابلِ منتخب‘‘ ہے۔ حکمران طبقے کیلئے یہ مسئلہ بالکل الٹ ہے۔ ٹوری حکومت شدید غیرمقبول ہے اور اوپر سے نیچے تک دھڑوں میں بٹی ہوئی ہے۔ یہ واقعی ایک ریفرنڈم تھا، یورپی یونین کے خلاف نہیں بلکہ کیمرون کی حکومت کے خلاف۔ نتیجہ سب کے سامنے واضح ہے۔
بہت زیادہ امکانات ہیں کہ قلیل مدت کیلئے جانسن یا گوو ٹوری پارٹی کی قیادت میں آ جائیں اور ایک نئی کنزرویٹو حکومت بنا لیں۔ اس کے بعد وہ محنت کشوں پر حملہ آور ہوں گے۔ کم منصوبہ بند کفایت شعاری کے بجائے ہم اس میں اور زیادہ اضافہ دیکھیں گے۔ بہت سارے لوگ اخراج کے ووٹ کو منصوبہ بند کفایت شعاری کے اختتام کے طور پر دیکھ رہے ہیں لیکن ان کی امیدوں پر پانی پھر جائے گا اور انہیں دھوکے کا صدمہ برداشت کرنا پڑے گا۔ اس کے نتیجے میں محنت کش اور زیادہ مشتعل ہو کر عمل کے میدان میں اتریں گے اور طبقاتی جدوجہد ایجنڈے پر پہلے سے زیادہ ٹھوس انداز میں واپس آئے گی۔
اگر عام انتخابات ان حالات میں کرائے جاتے ہیں تو بہت زیادہ امکانات ہیں کہ لیبر پارٹی جیت جائے۔ اس امکان کے بارے میں سوچنا بھی حکمران طبقے کو خوفزدہ کر رہا ہے۔ حکمران طبقہ اس امکان کو ظاہر ہونے سے روکنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگائے گا۔ پارلیمنٹ میں موجود لیبر پارٹی میں اپنے پٹھوؤں کے ذریعے وہ زمین و آسمان ہلا دیں گے کہ کسی طرح ایسے کسی انتخابات سے پہلے کوربن سے چھٹکارا حاصل کیا جائے۔ اگر وہ اس میں کامیاب نہیں ہوتے تو یہ ممکن ہے کہ بلیرائٹ پارٹی میں دراڑ ڈالتے ہوئے علیحدہ ہو کر ٹوری پارٹی کے کیمرون دھڑے کے ساتھ الحاق کر لیں۔ دوسری طرف یہ ہی واضح نہیں ہے کہ کنزرویٹو پارٹی اپنی اکائی کو برقرار رکھ بھی پائے گی یا نہیں۔
جیرمی کوربن نے واضح کہہ دیا ہے کہ ’’ٹھہرے رہو‘‘ (Remain) کمپین کی شکست کی ذمہ داری اس پر عائد نہیں ہوتی اوراس پر وہ استعفیٰ نہیں دے گا ۔ یہ الزام واضح طور پر لیبر پارٹی کے دائیں بازو پر عائد ہوتا ہے کہ محنت کش طبقے کی نظروں میں ساکھ برباد ہو چکی ہے۔ ہم نے یہ سکاٹ لینڈ میں ہوتے دیکھاجہاں دائیں بازو نے لیبر پارٹی کو تباہ کر دیا اور اب ہم یہ سرحدکے اس پار ہوتا دیکھ رہے ہیں۔
اب وقت آ گیا ہے کہ مومینٹم تحریک واضح ہو کہ وہ کیا کر رہی ہے اور کدھر جا رہی ہے۔ اب بہت ضروری ہو گیا ہے کہ لیبر کے دائیں بازو کی اینٹ کا جواب پتھر سے دیا جائے۔ مومینٹم کو سب سے پہلے ان تمام لیبر ممبرانِ پارلیمنٹ کی ردِ نامزدگی کی کمپین شروع کرنی چاہئے جو مستقل کوربن کی مخالفت، اس کی تذلیل اور اس پر حملے کر رہے ہیں جس کی وجہ سے وہ لیبر پارٹی میں دراڑیں ڈالتے ہوئے اس کی ساکھ کو برباد کر رہے ہیں اور ٹوری پارٹی کی معاونت اور ان سے ساز باز کر رہے ہیں۔ یہی وہ واحد طریقہ ہے جس کے ذریعے لیبر پارٹی اپنے آپ کو ترو تازہ کرتے ہوئے عدم اعتماد کی شکار رجعتی ٹوری پارٹی کے مدِمقابل بائیں بازو کا متبادل بن کر عوام میں اتر سکتی ہے۔
کیا نہیں کرنا؟
ایک پرانی کہاوت ہے:’’جو آدمی شیر پر سواری کرتا ہے وقت آنے پر اس کیلئے اترنا محال ہو جاتا ہے‘‘۔ ریفرنڈم کمپین کے دوران ہم نے ایک یونائیٹڈ فرنٹ (United Front)کا ابھار دیکھا۔ اس فرنٹ میں بے شرم کھلی رجعت کی آواز حاوی تھی۔ نائجل فراج کے کھلے نسل پرست پیغامات کوگوو اور جانسن نے شرافت کا لبادہ اوڑھاجن کی پھر کچھ لیبر سیاست دانوں نے پشت پناہی کی جو خود خوفناک رجعتیت، جس میں قوم پرستی کی آمیزش تھی ، میں ڈوبے پڑے تھے۔ یہ اس فرسودہ وراثت کی گھٹیا باقیات ہیں جو سٹالنزم ترکے میں چھوڑ گئی ہے۔
ان رجحانات میں کچھ بائیں بازو کے گروہوں کو شامل کرنا ضروری ہے جو اپنے آپ کو مارکسسٹ کہتے ہیں۔ انہوں نے برطانیہ کے اخراج کیلئے عجیب و غریب منطق اور بحث مباحثوں سے حمایت کرنے کی کوشش کی۔ ان سے ایک سادہ سوال کرنے اور سادہ جواب حاصل کرنے کا ہمارا حق ہے: کس طرح سے برطانیہ کے اخراج کی حمایت کر کے برطانوی محنت کش کے طبقاتی شعور کو آگے بڑھایا گیا؟ ہم اس سوال کا جواب بڑی دلچسپی سے سننا چاہیں گے۔ ہم ایک لمحے کیلئے بھی نہیں سمجھتے کہ اس کا کوئی مثبت جواب ہو گا۔
کچھ لوگوں نے یہ توجیہہ پیش کی ہے کہ برطانوی اخراج کی کمپین افسر شاہی کے خلاف تھی اور خاص طور پر کیمرون حکومت کے خلاف تھی۔ اس میں سچائی کا تھوڑا سا عنصر موجود ہے لیکن بہرحال یہ لفاظی کی بہترین مثال ہے کہ بڑی سچائی کو نظر انداز کر کے چھوٹی سچائی پر تکیہ کر لیا جائے۔ یہ سچ ہے کہ کیمرون حکومت سے محنت کش طبقے کو شدید نفرت ہے اور ان کی دلی خواہش ہے کہ کسی طرح بھی اس حکومت پر حملہ کر کے اور کمزور کر کے حکومت سے نکال دیا جائے۔ یہ ایک ترقی پسند قدم ہے اور اس کی ہم بھرپور حمایت کرتے ہیں۔ لیکن صرف کیمرون کی حکومت کا تختہ الٹنے کا سوال کر دینا ہی کافی نہیں۔ سب سے بڑھ کر سوال یہ ہے کہ اس کا متبادل کیا ہو گا۔ اس نکتہ پر نام نہاد بائیں بازو کے حواریوں کے جھوٹ اور فریب پر مبنی دلائل کی قلعی کھل جاتی ہے۔
اگر گوو یا جانسن کنزرویٹو پارٹی کی قیادت سنبھالتے ہیں تو انہیں فوراً کٹوتیوں اور منصوبہ بند کفایت شعاری کی پالیسیوں کو اور زیادہ تیز کرنا پڑے گا۔ یہ پالیسیاں پہلی مرتبہ کیمرون اور اوسبورن نے لاگو کی تھیں۔ انہوں نے ابھی سے اس ضمن میں ڈھکے چھپے اشارے دے دیئے ہیں جو کہ ریفرنڈم کی کمپین کے وعدوں کے برخلاف ہے۔ یہ تھیچر (Thatcher) کی طرز پر آزاد منڈی کی معیشت کے حامی ہیں۔ انہوں نے قومی اثاثوں کی نجکاری کی کمپین کو تیز تر کر دیا ہے، قومی صحت کی سہولت کی نجکاری کو آگے بڑھانا ہے اور محنت کشوں کے حقوق پر اور زیادہ شدید حملے کرنے ہیں۔
جو کوکس (Jo Cox) کے قتل کے بعد برطانوی اخراج کے حامی ان بائیں بازو کے دانشوروں نے فوری طور پر احتجاج کیا کہ وہ اپنے آپ کو نسل پرستی اور غیر ملکیوں سے نفرت سے علیحدہ رکھتے ہیں اور نسل پرستی کے خلاف کمپین کی حمایت کرتے ہیں۔ لیکن یہ سب کرناکیسے ممکن ہے جبکہ وہ اس کمپین میں فعال کردار ادا کر رہے ہیں جو نسل پرستی اور غیر ملکیوں سے نفرت سے رچی ہوئی ہے؟ یہ سیاسی طور پر ایسا ہی ہے جیسے دائرے کو چوکور ثابت کرنے کی کوشش کرنا۔
یہ سچ ہے کہ ہمیں یورپی یونین کے ان قوانین سے متعلق کوئی خوش فہمی نہیں جنہوں نے برطانوی مزدوروں کے حقوق کا تحفظ کیا۔ لیکن یہ بھی اٹل سچ ہے کہ جیسے جیرمی کوربن کہتا ہے کہ دائیں بازو کے ٹوری سب سے پہلے یورپ سے علیحدہ ہونے کے بعد اسے ایک بہانہ بنا کر ان قوانین کی چتا جلا دیں گے۔ ان کے نزدیک یہ قوانین غیر ضروری اور تنگی کا باعث ہیں خاص طور پر وہ قوانین جن میں ہفتہ وار کام کے اوقات کار، کم از کم اجرت، پنشن، چھٹیاں اور اسی قسم کے دیگر حقوق کا تحفظ ہے۔
یہ کس طرح سے دائیں بازو کی سیاست کی طرف رجحان ہے؟ یہ سوائے ان نام نہاد ’’ مارکسیوں‘‘ کے جو رجعتی برطانوی اخراج کی کشتی پر پرجوش انداز سے سوار ہو گئے، ہر ایک کیلئے ایک معمہ ہے۔ اب انہیں اپنے ان اقدامات کے نتائج کی ذمہ داری لینی پڑے گی۔
مارکسسٹوں کا کیا رویہ ہونا چاہئے؟
cameron lies credit socialist appealاس سوال کا جواب بڑا آسان ہے۔ ہر وہ قدم ترقی پسند ہے جو محنت کش طبقے کے طبقاتی شعور کو بلند کرے ۔ ہر وہ قدم رجعتی ہے جو اس شعور کو پست کرے۔ کس طرح سے برطانوی اخراج کی حمایت نے برطانوی محنت کشوں کے شعور کو بلند کیا؟ برطانوی اخراج کی کمپین کی رجعتیت سب پر واضح تھی۔ اس کی تمام تر بنیاد غیر ملکیوں سے نفرت، تارکینِ وطن کے خلاف جذبات اور واضح نسل پرستی کی حمایت پر تھی۔ اس کمپین نے طبقاتی شعور کو نہیں جھنجوڑا بلکہ اپنی بنیاد محنت کشوں کی سب سے پچھڑی ہوئی اور رجعتی پرتوں پر تھی۔ اس کماش کی کمپین کی حمایت، کسی بھی شکل و صورت میں، اس طرح سے پیش نہیں کی جا سکتی کہ اس نے طبقاتی شعور کو اجاگر کیا ہے بلکہ یہ ایک سیدھی سادی موقع پرست کمپین تھی جس کے ذریعے سماج کی پچھڑی ہوئی پرتوں میں حمایت تلاش کی گئی۔ لیکن جیسا کہ ٹراٹسکی نے بیان کیا ہے، فوری شہرت حاصل کرنے کیلئے عمومی بہاؤ میں بہہ جانا یقینی طورپر مستقبل میں بڑی تباہی کی تیاری کرنا ہے۔
ایک بات طے ہے۔ یہ سارا معاملہ حکمران طبقے اور ٹوری پارٹی کے دو دھڑوں کے درمیان کشمکش کا معاملہ تھا۔ اس سارے معاملے کے دونوں اطراف رتی برابر بھی ترقی پسند اقدام کا پہلو نہیں اور یہ ضروری نہیں ہے کہ جب بھی حکمران طبقے میں کشمکش ہو تو ہر مرتبہ محنت کش طبقے نے کسی نا کسی کی طرفداری کرنی ہے۔ یہ صحیح ہے کہ بہت سارے عوامل تھے جن کی وجہ سے برطانوی اخراج کے حق میں محنت کشوں کی وسیع پرتوں سمیت بڑی تعداد میں عوام مائل ہوئی۔ افسر شاہی اور ان کے سیاسی حواریوں جن میں ٹوری اور لیبر پارٹی کا دایاں بازو دونوں شامل ہیں، سے لوگ شدید متنفر اور بیگانہ ہیں۔ لوگوں میں، خاص طور پر ان علاقوں میں جہاں بے انتہا غربت اور بیروزگاری ہے، اب یہ بات رچ بس چکی ہے کہ’’وہ ہمارے نمائندے نہیں‘‘۔
بہت سارے لوگوں نے کل ووٹ اس بات پر نہیں دیا کہ برطانیہ کو یورپی یونین میں رہنا چاہئے کہ نہیں بلکہ ان کا ووٹ ٹوری حکومت اور اس کے اقدامات کے خلاف احتجاج کا ووٹ تھا۔ یہ ایک ایسا قدم ہے جو قابلِ فہم، درست اور فطری طور پر ترقی پسند عمل ہے۔ لیکن محنت کش طبقے کے سب سے زیادہ فطری ترقی پسند عمل کو بھی غلط رنگ دے کر رجعتی عمل کیلئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
انیسویں صدی میں کارل مارکس بھی کچھ اسی قسم کی صورتحال سے دوچار تھا جب برطانوی حکمران طبقے میں تجارتی تحفظ یا آزاد تجارت کے سوال پر دراڑیں پڑ گئی تھیں۔ مارکس نے اس سوال پر غوروفکر کیا اور اس نتیجے پر پہنچا کہ آزاد تجارت کا اصول تجارتی تحفظ سے زیادہ ترقی پسند ہے لیکن پھر بھی اس نے رائے دی کہ محنت کش طبقہ کسی بھی حکمران دھڑے کی طرفداری کرنے سے اجتناب کرے۔ یہ ایک بڑا ٹھوس طبقاتی نکتہ نظر ہے اور ایسا ہے جس پر آج ہمیں پابندی کے ساتھ جمے رہنا چاہئے۔
میںیہاں وہی بات دہراؤں گا جو میں نے اپنے آخری مضمون میں کہی تھی:’’برطانوی اخراج یا نکلنے میں سے کسی کمپین میں رتی برابر بھی ترقی پسند عنصر شامل نہیں۔ یہ دونوں کمپین حکمران طبقے اور ٹوری پارٹی کے دو دھڑوں کے درمیان کشمکش کی عکاس ہیں۔ ان میں سے کسی کا بھی محنت کش طبقے سے کچھ لینا دینا نہیں۔ ہمارا بھی ان سے کوئی سروکار نہیں‘‘۔
ریفرنڈم ہمیں الیکشن کی طرح کہانی کا کچھ حصہ بتاتے ہیں، لیکن صرف کچھ حصہ۔ یہ ایک ایسی تصویر کی طرح ہوتے ہیں جو عوام کی اس وقت، اس لمحے میں ذہنی عکاس ہوتے ہیں۔ لیکن پوری تصویر کو دیکھنے کیلئے ہمیں پورے عمل کو سمجھنا لازمی ہے۔ سمندر کی لہروں کی طرح ہم صرف سطح کو دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ نتائج کو ان کی اصلیت میں جاننے کیلئے ہمیں سطح سے نیچے اترنا پڑتا ہے۔ اعدادوشمار کے نیچے دیکھ کر ہی ہم ان گہرے عوامل کو جان سکتے ہیں جو پوری قوت کے ساتھ برطانوی سماج کی گہرائی میں کار فرما ہیں۔
صرف ایک آزاد طبقاتی نکتہ نظر ہی ایسا ہے کہ جس کے نتیجے میں ہم ذہنی پریشانی کی اس دھند میں اصل حقائق تک پہنچ سکتے ہیں۔ بیروزگاری اور رہائش کے بحران کی اصل وجہ سرمایہ داری ہے اور ٹوری پارٹی کی یہ کوشش ہیں کہ بحران کا تمام تر بوجھ محنت کشوں اور سماج کی غریب ترین پرتوں پر ڈالا جائے۔
اگر کوربن نے یورپی یونین کی مخالفت میں اصولی مؤقف رکھا ہوتا، اس کی طبقاتی اصلیت پر واضح بات کی ہوتی اور ایک عالمی اور سوشلسٹ متبادل پیش کیا ہوتا تو آج ہمیں جوپریشانی اور اضطراب عوام کی وسیع پرتوں میں دیکھنے کو مل رہا ہے وہ نہ ہوتا۔ اس کے بجائے سارا معاملہ ایک لاحاصل بحث کے ارد گرد گھومتا رہا کہ محنت کش سرمایہ دارانہ یورپی یونین میں رہیں گے یا اس سے باہر۔
سارا معاملہ غلط انداز میں چلایا گیا۔ سچ تو یہ ہے کہ اس سے محنت کشوں کو کوئی فرق نہیں پڑتا کہ برطانیہ یورپی یونین میں رہے یا نا رہے۔ دونوں صورتوں میں سرمایہ دار طبقہ محنت کشوں کے معیارِ زندگی اور حقوق پر حملے کرتا رہے گا۔ اصل متبادل یہ ہے کہ کٹوتیوں اور منصوبہ بند کفایت شعاری کے خلاف برطانیہ، یورپ اور پوری دنیا کے سماجوں کی سوشلسٹ تبدیلی کی جدوجہد کی جائے۔ اس کی شروعات لیبر پارٹی میں بلیرائٹ دائیں بازو کو ہرا کر، کوربن کو مضبوط کرتے ہوئے ایک بائیں بازو کی لیبر حکومت کو منتخب کر کے کی جائے۔ یہی روشن مستقبل کی واحد امید ہے۔

24جون، 2016

Comments are closed.