کیا دانشوروں میں ’’درمیانے‘‘ ممکن ہیں؟

|تحریر: صبغت وائیں|

کوئی وقت تھا جب سوشلسٹ ہونا ہی دانش مندی اور دانشوری مانا جاتا تھا۔ تب دانشور کہلوائے جانے کے شوقینوں نے جوق در جوق سوشلسٹ کہلوانا شروع کر دیا تھا۔ ان کی باقیات میں سے کچھ گلی سڑی شکل میں ابھی بھی باقی ہیں۔ جو کہ ٹی وی پر مختلف چینلوں میں، اخبارات میں، سوشل میڈیا میں اور بعض اجتماعات میں اور ’’ترقی پسند مصنفین‘‘ کے اجلاسوں میں خاص طور پائے جاتے ہیں۔ مگر اب یہ لوگ سوشلسٹ کہلوانا پسند نہیں کرتے۔ بلکہ یہ لوگ خود کو ’’ترقی پسند‘‘، ’’لیفٹ‘‘ (یا بائیں بازو) کے دانشور، لبرل، لبرل ڈیموکریٹ، تکثیریت پسند(Pluralist)،عملیت پسند یا نتائجیت پسند(Pragmatist)، تجربیت پسند (Empiricist)، وغیرہ کہلوانا پسند کرتے ہیں، اور خود کو سوشلسٹ، مارکسسٹ اور کمیونسٹ نہیں کہلواتے بلکہ اس کے ساتھ ’’سابقے‘‘ کا سابقہ لگا کر لکھتے ہیں۔ بہت سے ایسے نام مل جائیں گے جو یوں بڑھکیں مارتے نظر آتے ہیں، گویا سارا مارکسزم ان کو گھٹی میں ملا تھا جس کو بڑے ہوتے ہی انہوں نے چھوڑ دیا اور عقل و دانش کی راہ پر آ نکلے۔
لیکن سوویت یونین کے انہدام کے بعد ایک تو بہت سے واقعتاً پڑھے لکھوں کی سمجھ میں کچھ نہیں آیا اور وہ فارغ ہو گئے تو دوسری طرف ان ’’دانشوروں‘‘ نے بوریا بستر وہاں ڈالنے کے لیے رختِ سفر باندھا جہاں اب انہیں’’ توے پراتیں‘‘ نظر آ رہی تھیں۔ اس پر بہت لمبی بحث کی ضرورت نہیں۔ ہمارے تو دیکھتے ہی دیکھتے ان لوگوں نے سوشلزم کو خود سے یوں دور کیا جیسے ہمارے علاقے میں نون لیگ کے الیکشن ہار جانے کے بعد موٹر سائیکلوں اور کاروں کے پیچھے سے شیر کے نشان والی پلیٹیں۔ 
البتہ ایک مسئلے کا سامنا پھر بھی ان کو درپیش رہا۔ وہ یہ کہ ٹی وی چینلز پر، خاص طور پہ جب سے ہمارا میڈیا آزاد ہوا ہے، تب سے، ٹی وی کی سکرین پر جس بندے کو چار باتیں ذرا منطقی اور سائنسی انداز میں کرنا آتی ہیں، اس کا تعلق سوشلزم سے رہا ہوتا ہے، تو بہت سے ایسے لوگ بھی خود کو سوشلزم کے ’’سابقے‘‘ بتانا شروع ہو گئے جن کا سوشلزم سے دور کا بھی تعلق نہیں رہا تھا۔
خیر ان میں سے بہت سوں کی ان حرکتوں کی وجہ اس وقت سمجھ آ جاتی ہے جب ہم اپنی تنظیموں میں آنے والے ان لوگوں کو دیکھتے ہیں، جو جانے کیا جان کر سوشلسٹوں میں آ کر اٹھنے بیٹھنے لگتے ہیں، اور تنظیموں کو وقتی طور پر جوائن بھی کر لیتے ہیں۔ لیکن کچھ دیر بعد جب ان کو علم ہوتا ہے کہ یہاں ایک تو محنت کرنا پڑے گی، دوسرے یہاں پڑھنا اور تعلیم حاصل کرنا پڑے گا، کچھ ملنے کی بجائے چندے وغیرہ دینا پڑیں گے،اور چوتھے یہ کہ عملی جد وجہد بھی کرنا پڑے گی۔ پروگراموں میں اور احتجاجوں وغیرہ میں شرکت۔ تو ان کے ایڈونچر کے غبارے سے ہوا نکل جاتی ہے اور بعض دھیرے دھیرے دور ہو جاتے ہیں اور بعض ایک دم سے غائب۔ ۔ ۔ لیکن ایسے ساتھیوں کو جب میں خود کو ’’سابقہ مارکسسٹ‘‘ یا ’’سابقہ سوشلسٹ‘‘ کہتے سنتا ہوں، تو ہنسی تو آتی ہی ہے، لیکن اس سے بہت سے ’’سابقہ سوشلسٹوں‘‘ کی سابقیت کا اندازہ بھی ہو جاتا ہے۔
اب دیکھیں تو لکھنے والے دانشور، دانشوروں کو لیفٹ اور رائٹ میں تقسیم کرتے نظر آتے ہیں ۔ کیسے؟ 
شاید کچھ کو ان کے دعووں سے اور کچھ کو ان کی تحریروں کی بنا پر۔
بعضے توایسے ہیں کہ ان دو کو یعنی لیفٹ اور رائٹ کو ناگزیر قرار دے رہے ہیں گویا ان کاوجود معاشرے کے لیے ضروری ہے۔ جیسے ظلم اس لیے ضروری ٹھہرے کہ یہ نہ ہو تو ہمیں انصاف کا علم کیسے ہو پائے گا۔۔۔ وغیرہ۔
لیکن سب سے زیادہ مضحکہ خیز صورت حال تب نظر آتی ہے جب کوئی لکھنے والا خود کو ’’لیفٹ‘‘ اور ’’رائٹ‘‘ سے ماورا قرار دیتے ہوئے دونوں پر تحقیرانہ سی نگاہ ڈالتا جذبہ ترحم سے بھرپور ہر دو کو ہوش کے ناخن لینے کی صلاحیں دیتا نظر آتا ہے۔ ’’ہم تو دونوں سے ہی مایوس ہیں‘‘۔ ۔ ۔ ارے بھائی آپ کون ہیں؟ 
تو اکثر ایسے جواب ملتے ہیں۔۔۔: ’’بھئی ہم تو محدود نہیں ہونا چاہتے‘‘۔ ۔ ۔ ’’ہم تو غیر جانب دار ہیں‘‘۔۔۔ ’’ہم نے دونوں کو دیکھ لیا ہے‘‘۔۔۔’’ہم نے تو درمیانی راہ تلاش کر لی ہے۔۔کرنی ہے۔۔ کر رہے ہیں۔ ۔ بتانی چاہیے‘‘۔۔ وغیرہ
لیکن ہم نے پوچھا ہے کہ آپ ہیں کون؟ بھئی آپ بھی تو کسی دھڑے میں آتے ہوں گے۔ لیفٹ کے نہیں تو رائٹ کے، ورنہ پھر کیا ہیں؟
’’درمیانے‘‘؟
کوئی ان سے یا کسی سے پوچھے۔ ۔ ۔ یا ہمیں بتائے کہ کیا ’’درمیانے‘‘ ممکن ہیں؟
بعض ’’دانشور‘‘ لیفٹ کے مقابلے میں جمہوریت کو لے آتے ہیں۔ کہ دیکھیں ایک جانب لیفٹ ہے اور دوسری جانب جمہوریت۔ گویا لیفٹ کے فیصلے کہیں اوپر سے آتے ہیں۔ ۔ ۔ اور جمہوری ملکوں میں فیکٹریوں اور کمپنیوں کے مالکان کو ووٹ دے کر چناؤ کے ذریعے چنا جاتا ہے۔
ضروری ہے کہ مختصر الفاظ میں بات کر ہی دی جائے کہ رائٹ اور لیفٹ ہے کیا۔
ہم نے جو دیکھا ہے، جو پڑھا اور جانا ہے اس کے مطابق سرمایہ دارنہ طرز پیداوار کے حامل معاشروں میں جن لوگوں کی حکومت ہوتی ہے اور جو حکومتیں بناتے ہیں اور جو اس صلاحیت کے حامل ہیں کہ ان کو حکومت مل سکے۔ جیسے کہ ہمارے تجزیے کے مطابق جو دولت پیدا کر نے کے ذرائع کے قابض ہیں اور محنت کشوں سے کام لے کر دولت پیدا کرواتے ہیں۔ وہ اور انکے مفاد کی خاطر نظریات گھڑنے اور پھیلانے والے اور وہ دانشور جو کہ چاہتے ہیں کہ سب کچھ ایسے ہی رہے۔ یا معمولی خرابیاں نظام ہی کے اندر رہتے ہوئے تبدیل ہو جائیں ،رائٹ کے بندے ہیں۔
دانشور وغیرہ کا ذکر اس لیے کیا ہے کہ رائٹ ہو یا لیفٹ اس کا ذکر انہی کے لیے ہو گا جو کہ اس مبارزت میں آئیں گے جو کہ نظریاتی سیاست میں تحریر یا تقریر سے کی جاتی ہے۔
ان رائٹ والوں کے برعکس لیفٹ والے وہ ہیں جن کے سامنے اس طبقے کا مفاد ہے جو کہ محنت کر کے کسی اور کے لیے دولت پیدا کرتے ہیں۔خواہ وہ ڈاکٹر ہوں یا انجینئر، مزدور ہوں یا چوکیدار۔
لیفٹ والے اس طبقے کے مفاد کی خاطر جس کو ہم محنت کش کہتے ہیں، جو تنخواہوں پر کام کرتا ہے، یا محنت مزدوری سے چھوٹے کاروبار چلاتا ہے، لکھتے اور بات کرتے ہیں، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ اسی طبقے کے لیے سرمایہ داری کے نظام کو اکھاڑ پھینکنے کی بات کرتے ہوئے محنت کش اکثریتی طبقے کے ہاتھ میں اقتدار دینے کی بات کرتے ہیں، اور عملی جدوجہد کرتے ہیں۔
اب ایسے میں اگر کوئی ’’درمیانوں‘‘ کی بات کرے تو ہمیں کیسے سمجھ آئے گی؟
یعنی وہ لوگ جو حکمران بھی نہیں، نہ حکمرانوں کے تنخواہ دار ہیں نہ ہی حکومتی دلالوں سے ان کا کچھ لینا دینا ہے، لیکن اسی کے ساتھ ساتھ ان کو ان لوگوں سے بھی کوئی غرض نہیں جو محنت کشوں کے حقوق کی جنگ میں ان کا ساتھ دے رہے ہیں؟
وہ کہتے ہیں کہ ہم غیر جانبدار ہیں، اور ہم نے کسی طبقے کا ساتھ نہیں دینا۔ یہ دونوں غلط ہیں؟
ایک طرف اربوں انسان غربت، جہالت، بے روزگاری، مہنگائی، بھوک اور بغیر چھت کے جانوروں سے بدتر زندگی گزارتے ہوئے ان سرمایہ داروں کی چھیڑی ہوئی جنگوں میں موت سے بچنے کی کشمکش میں مبتلا ہیں اور دوسری طرف چند لوگ اپنی عیاشیوں میں مصروف انسانیت کو تماشا بنائے ہیں۔ یہاں کچھ ’’دانشور‘‘ غیر جانبدار رہ کر تماشا دیکھنے کو اعلیٰ تر دانشوری ثابت کرنے میں کوشاں ہیں۔
تو فیصلہ کیجیے کہ آخری تجزیے میں ان ’’درمیانوں‘‘ کی ’’درمیانگی‘‘ کا فائدہ کس پارٹی کو ہوا؟
وہ جو اپنی دولت کی بنا پر حکمران ہیں، یا وہ جوغربت کی چکی میں پسنے والے اپنے جیسے انسانوں کے حقوق کی خاطر تحریر و تقریر سے جنگ لڑ رہے ہیں؟
ظاہر ہے کہ ایسی حالت میں غیر جانبدار رہنے اور دونوں کو لعن طعن کرنے سے بھی فائدہ اسی طبقے کو ہو گا جو کہ دولت اور اختیارات پر قابض ہیں۔
تو کیا ’’درمیانے‘‘ واقعی درمیانے ہیں؟
یا یہ رائٹ والوں ہی کا ایک بہروپ ہیں؟

Comments are closed.