چمن: ریاستی جبر کی شدید مذمت کرتے ہیں، پُرامن احتجاج کرنے والوں کا خون رائیگاں نہیں جائیگا!

|منجانب:ریڈ ورکرز فرنٹ، کوئٹہ|

جمعرات،30جولائی کوبلوچستان کے سرحدی شہر چمن میں ہونے والے واقعہ کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ اب تک کی اطلاعات کے مطابق اس میں تین لوگوں کے قتل کی تصدیق سامنے آ رہی ہے جبکہ بیس کے قریب زخمی بھی ہیں۔صوبائی حکوت اس آڑ میں نام نہاد قومی سلامتی کا راگ آلاپتے ہوئے ہمیشہ کیطرح ایسے واقعات کودشمن قوتوں کیجانب سے سامراجی منصوبے سی پیک کیساتھ جوڑنے کی کوشش کرتے ہوئے ریاستی اداروں کی غنڈہ گردی کو چھپانے کی ناکام کوشش کررہی ہے۔

واضح رہے کہ چمن جوکہ پاک افغان بارڈر پر ایک کاروباری شہر ہے، جہاں پر بارڈر کیساتھ صوبے بھرکے لاکھوں کے قریب عوام کا روزگار جڑا ہوا ہے، مگر وفاقی حکومت نے گزشستہ پانچ مہینوں سے چمن بارڈر کو مکمل طور پر سیل کیا ہے، جسکی وجہ دہشتگردی بتائی جارہی ہے۔ حکومت کے اس فیصلے کیخلاف چمن شہر میں عام عوام برسرِاحتجاج تھے جنہوں نے احتجاجی دھرنا دیا تھا، اور یہ احتجاجی دھرنا گزشستہ دو مہینوں سے جاری تھا۔ بارڈر کی بندش کیوجہ سے دونوں اطراف میں لوگ پھنس چکے تھے، جبکہ ہزاروں کے قریب خاندان نانِ شبینہ کو ترس گئے ہیں۔ احتجاجی دھرنے کا صرف ایک مطالبہ تھا کہ چمن بارڈر کے تجارتی راستے کو 2مارچ کی پوزیشن پر بحال کیا جائے مگرحکومت نے مسلسل ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کیا، اور گزشتہ روز خود حکومت نے اعلان کیا کہ 2دن کے لئے جذبہ خیر سگالی کی بنیاد پر تجارتی راستے کو کھول دیا جائے گا مگرآج پھر راستے کو بند کیا گیا جس کی وجہ سے ہزاروں لوگ جس میں بچے، خواتین شامل تھیں پھنس گئے اور اس گرمی کے موسم میں لوگوں کو سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔ اس دوران ایف سی نے نہتے اور بیگناہ شہریوں پر اندھا دھند فائرنگ شروع کردی جس کے نتیجے میں 3افراد  شہید اور درجنوں افراد زخمی ہونے کی اطلعات موصول ہو رہی ہیں۔

پاکستانی الیکٹرانک میڈیا پر اس حوالے سے کوئی خبر نہیں چلی ہے،اور جہاں تک خبریں اآرہی ہیں اسکو پاک افغان بارڈر پر تنازعہ پیش کیا جاریا ہے، جبکہ اس وقت اطلاعات کا ایک اہم ذریعہ سوشل میڈیا ہے جہاں سے اس واقعہ کی بہت سی ویڈیوز بھی گردش کر رہی ہیں جو میڈیا کے مؤقف کی نفی کرتی ہیں۔ لیکن اس عمل کو روکنے کے لیے اس علاقے میں فون اور موبائل کی سروس کو بند کر دیا گیا ہے۔ ایسے واقعات سے نہ صرف ریاستی اداروں کی بوکھلاہٹ کے واضح ثبوت ملتے ہیں بلکہ عام عوام پر اسطرح کے اندھادھند فائرنگ سے ان سیکیورٹی اداروں کے حوالے سے نام نہاد پروپیگنڈا بھی واضح ہوتا ہے کہ فلاں سیکیورٹی ادارے میں ہماری قومیتوں کے لوگ ہیں لہٰذا وہ ہم پر جبر نہیں کرینگے۔ جبکہ ریاست اور اُن کے اداروں سے ایسے توقعات رکھنا محض بیوقوفی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ کیونکہ ریاست محض ایک طبقے کا دوسرے طبقے پر جبر کرنے کا ایک آلہ ہوتا ہے۔ اور اس ضمن میں ریاستی اداروں پر تنقید اور احتساب کا عمل نہ کرنے کے لیے بارڈر پر پاک افغان سیکیورٹی فورسز کے درمیان فائرنگ کے تبادلے کا ذکر کیا جارہا ہے، جوکہ ایک بار پھر اصل حقائق اور واقعات سے توجہ ہٹانے کی ایک سازش ہے۔

ہم سمجھتے ہیں کہ پاک افغان بارڈر کو مناسب سیکیورٹی کیساتھ مکمل طور پر کاروباری مقاصد اور تجارتی لین دین کے لیے کُھلا رکھا جائے، کیونکہ بارڈر کے دونوں اطراف میں نہ صرف ایک ہی قوم آباد ہے بلکہ بارڈر کے کُھلا رکھنے سے عوام کا معاشی قتل بھی روکا جاسکتا ہے۔

جبکہ پرامن احتجاج کسی بھی شخص کا بنیادی جمہوری حق ہے اور اس کو سلب کرنا بد ترین ریاستی جبر کا اظہار ہے۔ اسی طرح پر امن مظاہرین پر گولیاں چلا کر ان کو قتل کرنا ظلم اور نا انصافی کی انتہا ہے جس کی کوئی بھی وضاحت ناقابل قبول ہے اور اس کی آزادانہ تحقیقات کرواتے ہوئے مجرموں کو قانون کے مطابق سزادینی چاہیے۔ اس سے پہلے بھی ایسے بہت سے واقعات رونما ہو چکے ہیں جن میں کسی بھی ذمہ دار کو قرار واقعی سزا نہیں دی گئی۔ ان تمام تر واقعات سے ریاستی جبر کی ہولناکیوں میں نہ صرف اضافہ ہورہا ہے بلکہ ریاستی جبر ایک گھناونی شکل اختیار کر رہی ہے۔

اس پورے واقعے کی آڑ میں پشتون قوم پرست پارٹیوں کا کردار بھی واضح ہے، کہ چمن شہر میں احتجاجی دھرنا عام عوام کیطرف سے دیا جارہا تھا جوکہ ان سیاسی پارٹیوں کو مسترد کرنے کا واضح پیغام تھا، جبکہ ان تمام تر پارٹیوں کے نمائندے محض شرم کی خاطر اس دھرنے میں شرکت کرتے تھے۔ اور اس دھرنے نے ایک بار پھر تاریخ کے کوڑے دان کا حصہ بننے والے قنوطیت پسندوں کی اُن گھسی پٹی دلیلوں کا پردہ فاش کیا جوکہ طلبہ سیاست سمیت ایسے ایشوز پر روایتی قیادتوں کی دوبارہ احیاء کی بات کرتے ہوئے عوام دشمنی کا واضح ثبوت دیتے ہیں۔

چمن کے واقعہ سے نظر آتا ہے کہ ریاستی جبر انتہاؤ ں تک پہنچ چکا ہے اور کسی بھی قسم کی تنقید، احتجاج یا مطالبے کو قبول نہیں کیا جاتا۔ لیکن آج تک ننگے جبر کے ذریعے کہیں بھی پائیدار امن قائم نہیں کیا جا سکا اور نہ ہی کسی بھی خطے کی عوام کو لا امتناعی طور محکوم رکھا جا سکتا ہے۔ اس تمام تر جبر کیخلاف تحریکیں ابھرنا ناگزیر ہے۔ لیکن ان تحریکوں کو خطے کے دیگر حصوں کے ساتھ طبقاتی بنیادوں پر جوڑنے کی ضرورت ہے اور امریکی سامراج اور اس کے تمام گماشتوں کے خلاف آواز بلند کرتے ہوئے قومی جبر کے ساتھ ساتھ مہنگائی، بیروزگاری، لاعلاجی اور ناخواندگی کے خلاف بھی آواز بلند کرنی ہوگی۔ ان تمام مسائل کا حل کسی بھی صورت طبقاتی بنیادوں پر قائم سرمایہ دارانہ نظام میں موجود نہیں۔

Comments are closed.