چین: الیکٹرک گاڑیاں بنانے والی فیکٹریوں میں مزدورں نے ہڑتال کر دی، طبقاتی جدوجہد کے نئے دور کا آغاز!

|تحریر: لوسین ڈی، ترجمہ: عبدالمجید پنہور|

28مارچ سے 2 اپریل کے درمیان، ہزاروں چینی محنت کشوں نے BYD کی الیکٹرانک فیکٹریوں میں ہڑتال کر دی، جو کہ فارچون گلوبل 500 میں ایک دیوہیکل اور دنیا کی سب سے بڑی الیکٹرک گاڑیاں بنانے والی کمپنی ہے۔

انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

ہڑتالوں نے ایک بار پھر چینی سرمایہ داروں کی جانب سے محنت کشوں کے بے انتہا استحصال کو قائم رکھنے میں چینی ’کمیونسٹ پارٹی‘ کے کردار کو بے نقاب کر دیا۔ چین کی طبقاتی جدوجہد کے مرحلے میں داخلے کی یہ ایک چھوٹی سی جھلک ہے۔

محنت کشوں پر حملے ہڑتال کابا عث بنے

جن فیکٹریوں میں ہڑتالیں ہوئی ہیں، ستمبر 2023ء میں بی وائے ڈی کمپنی کے اختیار میں دے دی گئی تھیں۔ اس سے پہلے یہ فیکٹریاں امریکی ملٹی نیشنل کمپنی جابیل (Jabil) کی ملکیت تھیں۔ پرانی تنخواہیں اور مراعات برقرار رکھنے کے وعدے کے باوجود، بی وائے ڈی نے محنت کشوں پر متعدد حملے کیے اور جان بوجھ کر ان کی آمدن میں کمی کی اور ان کے حالات مزید بدتر کیے۔

بی وائے ڈی کی جانب سے اک نئے حملے اور کارکردگی کی بنیاد پر دی جانے والی تنخواہوں میں کٹوتی، جس میں سالگرہ الاؤنس میں سے 4.1 ڈالر کی کٹوتی بھی شامل ہے، کے بعد 28 مارچ کے دن ہزار سے زائد محنت کشوں نے جیانگسو (Jiangsu) کے شہر ووشی (Wuxi) میں واقع بی وائے ڈی فیکٹری میں ہڑتال کر دی۔ 31 مارچ کے دن بی وائے ڈی کے محنت کشوں نے چینگدو (Chengdu) اور سیچوان (Sichuan) میں بھی ہڑتال کر دی جہاں انہوں نے بی وائے ڈی کے ساتھ کام نہ کرنے والے محنت کشوں کی تلافی کے لیے پرانی جابیل انتظامیہ کی جانب سے چھوڑے گئے ایک سو ملین یوآن کے معاوضہ کی بابت سوال کیے کہ مزدوروں کے وہ پیسے کہاں گئے؟

درحقیقت، ووشی (Wuxi) میں فیکٹری کے محنت کشوں نے بی وائے ڈی کی جانب سے طے کردہ ہفتہ وار لازمی 40 گھنٹوں کے اوقات کار کے خلاف پہلے 2024ء میں بھی ایک ہڑتال کی تھی لیکن وہ کامیاب نہیں ہو سکی تھی۔

چین میں حکومت کی جانب سے مقرر کردہ کم از کم اجرتیں زندہ رہنے کے لیے درکار معقول اجرتوں سے مضحکہ خیز حد تک کم ہیں۔ مثال کے طور پر شنگھائی (Shanghai)، جہاں باقی چین کی نسبت سب سے زیادہ تنخواہ دی جاتی ہے، میں بھی 2024ء میں کم از کم ماہانہ تنخواہ 2690 یوآن (370 ڈالر) ہے جو کہ زندہ رہنے کے لیے درکار 5132 یوآن (707 ڈالر) کا تقریباً آدھا بنتا ہے۔

لہٰذا مزدوروں کو اپنے گزر بسر کے لیے اوور ٹائم کرنا پڑتا ہے۔ بی وائی ڈے کی جانب سے اوور ٹائم پر پابندی، جیسے کہ مزدوروں کو دوسری نوکری کرنے سے منع کرنا، درحقیقت مزدوروں کو زبردست زائد پیداوار کے دوران بغیر معاوضے کے برطرف کرنے کے اقدامات تھے۔ اوور ٹائم کے بغیر اور آمدن میں کمی کے باعث محنت کشوں کو 3000 سے 4000 یوآن یا اس سے بھی کم تنخواہ پر گزارہ کرنے کے لیے چھوڑ دیا گیا تاکہ وہ خود ہی مجبور ہو کر نوکری سے مستعفی ہو جائیں۔

مزاحمت کرنے پر ریاستی جبر

ان بار بار کے حملوں اور ذلت کے باوجود ریاست مزدوروں کو دباتی ہے، اس میں حیرانی کی کوئی بات نہیں کہ بی وائے ڈی نے ہی اس تند و تیز مزاحمت کو بھڑکایا ہے۔ دلچسپ اور غور طلب بات یہ ہے کہ یہ ہڑتالیں ایک چھوٹے سے وقفے سے لگاتار ایک ساتھ ہوئیں ہیں، جو ممکنہ رابطہ کاری یا حتیٰ کہ 1000 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع فیکٹریوں کے درمیان منظم عمل کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔

ہڑتالوں کی ایک اور اہم خصوصیت ہڑتالی محنت کشوں کا لڑاکا جوش و خروش اور ان کی دانش مندی تھی۔ چینگدو (Chengdu) کے محنت کشوں نے کمپنی کی جانب سے مذاکرات کے لیے 10 نمائندوں پر مشتمل وفد بھیجنے کی پیشکش کو مسترد کر دیا، جو بکے ہوئے، پولیس کاروائی میں ملوث یا چور دروازوں سے مذاکرات کرنے والے گروہ ہو سکتے تھے۔ جبکہ اس کے برعکس محنت کشوں نے مل کر اکٹھے اور کھلے عام بی وائے ڈی سے مقابلہ کرنے پر اصرار کیا۔ مزید براں انتظامیہ کا کوئی نمائندہ مجتمع محنت کشوں کو ڈرانے یا دھمکانے کے لیے میگافون سے چِلاتا تو محنت کش اس کا مذاق اڑاتے اور کہتے کہ، ”تمہار اکیا مسئلہ ہے؟ اتنا غرور مت کرو!“۔ ایک مزدور نے تو تمسخر اڑاتے ہوئے پوچھا کہ، ”کیا تم کوئی کام کرتے ہو یا نہیں؟“

چینی سرمایہ داری میں ایک دیوہیکل اجارہ دار کمپنی کے محنت کشوں کی جانب سے اتنے بڑے پیمانے پر مزاحمت اور طبقاتی شعور کے مظاہرے کے خطرے کو چینی کمیونسٹ پارٹی اچھی طرح جانتی تھی۔ یہ ہڑتالیں اپنے آغاز ہی سے خوفناک پولیس گردی کی زد میں رہیں۔ ووشی میں بی وائے ڈی کی جانب سے اعلان کردہ چھٹی اور خوف و دہشت کی وجہ سے ہڑتال 29 مارچ کے بعد ختم ہو گئی۔

تاہم چینگدو میں بی وائے ڈی کے دھوکوں اور دھمکیوں کی ناکامی کے بعد پولیس اور اسپیشل یونٹس کے ذریعے بزور طاقت ہڑتال کو توڑا گیا، جنہیں 2 اپریل کے دن محنت کشوں کو گرفتار کرنے اور فیکٹری کو قبضے میں لینے کے لیے تعینات کیا گیا تھا۔ گرفتار شدہ مزدوروں کی تعداد ابھی واضح نہیں ہے، لیکن گرفتار شدہ مزدوروں کو لے جانے کے لیے کم از کم ایک پولیس بس کا استعمال کیا گیا۔

طبقاتی جنگ کا نقارہ

اگرچہ بی وائے ڈی کے محنت کشوں کو عارضی شکست ہوئی ہے، لیکن تاریخ کچھ بھی ضائع نہیں کرتی۔ ہڑتال کا تجربہ، مزدوروں کی یکجہتی، کمپنی کا دوغلا پن اور حکومت کی وحشت نے ہزاروں محنت کشوں کے شعور پر دیرپا نقوش چھوڑے ہیں، ہڑتال کرنے والوں پر بھی اور ان مزدوروں اور نوجوانوں پر بھی جنہوں نے قریب سے ان واقعات کو دیکھا۔

نہ صرف یہ کہ بی وائے ڈی اور حکومت نے اپنے حقیقی طبقاتی مفادات کو ظاہر کیا، جو کہ محنت کشوں کے مفادات سے متصادم ہیں، بلکہ ریاست کے ماتحت چلنے والے آل چائنا ٹریڈ یونین فیڈریشن کی قیادت بھی ایک بار پھر مکمل طور پر سرمایہ داروں کے دلالوں کے طور پر بے نقاب ہو گئی ہے۔ محنت کشوں نے فیڈریشن کے مقامی صدر کو اچھی طرح پہچانا اور اس کی سرزنش کی جو بی وائے ڈی ایجنٹس کے ساتھ مل کر مزدوروں کی مزاحمت کو ختم کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔

اسی طرح جب 2024ء میں بی وائے ڈی نے نام نہاد ”مزدور نمائندگان کی کانفرنس“ کا معاملہ اٹھا کر محنت کشوں کو تذبذب میں ڈالنے کی کوشش کی تو محنت کشوں نے جواب دیا کہ، ”کس کی نمائندگی اور کون ہیں مزدوروں کے نمائندگان؟“ وغیرہ۔

کافی محنت کشوں نے حقیقی ٹریڈ یونین اور مزدوروں کی لڑاکا تنظیموں کی ضرورت کو لازمی طور پر محسوس کیا ہے۔ یہ بات سمجھنا کہ اس طرح کی موجودہ تنظیمیں چینی کمیونسٹ پارٹی اور چینی سرمایہ داری کی ہی لعنتیں ہیں، ہر اول محنت کشوں کو، اگر ابھی تک ایسا نہیں ہوا ہے تو، انقلابی نتائج اخذ کرنے پر مجبور کرے گی۔ درحقیقت بی وائے ڈی کی حالیہ حوصلہ افزا ہڑتالیں مستقبل کی طبقاتی جدوجہد کی ایک چھوٹی سی جھلک ہے۔ چین میں تیز ہوتا زائد پیداوار کا بحران شعوری یا غیر شعوری طور پر مختلف شعبوں کے محنت کشوں کو جدوجہد کی طرف دکھیل رہا ہے۔

فوکسکون (Foxconn) کی مثال لیجیے۔ 2024ء سے اب تک کٹوتیوں، جبری برطرفیوں اور مختلف حملوں کے خلاف چار ہڑتالیں ہو چکی ہیں۔ پچھلی دو ہڑتالیں صرف ایک ہفتے میں ہوئی ہیں۔ 26 مارچ کے دن شنسی (Shanxi) کے شہر تائیوان (Taiyuan) میں اور دوسری یکم اپریل کے دن حنان (Henan) کے علاقے ژنگژو (Zhengzhou) میں، جہاں پہلے بھی 2020ء میں لاک ڈاؤن مخالف مظاہروں میں محنت کشوں کی پولیس کے ساتھ جھڑپیں ہوئی تھیں۔

بی وائے ڈی اور فوکسکون کے محنت کش درست سمت میں آگے بڑہ رہے ہیں۔ محنت کش بڑے پیمانے پر منظم اور متحد جدوجہدوں کے ذریعے ہی دیوہیکل سرمایہ دارانہ اجارہ داریوں سے لڑ سکتے ہیں، جس سے اتحاد کو تقویت ملے گی اور سرمایہ دارانہ حکومت اور سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف اس سے بھی بڑی لڑائیوں کی بنیاد فراہم ہو گی۔ جیانگجن (Chongqing) ٹرک ڈرائیوروں کی حالیہ فتح، جنہوں نے تعمیراتی فضلہ ہٹانے کے کام پر دو کمپنیوں کی اجارہ داری قائم کرنے کی حکومتی پالیسی کے خلاف کامیاب احتجاج کیا، نے ہمیں ایسی جدوجہدوں کی طاقت کی ایک جھلک دکھائی ہے۔

جیسے جیسے چین امریکی تجارتی جنگ شدت پکڑ رہی ہے اور زائد پیداوار کے تضادات تیز ہو رہے ہیں، ویسے ہی چین میں سرمایہ داری بھی ہنگامہ خیز حالات میں داخل ہو رہی ہے۔ سرمایہ داروں کی جانب سے چینی محنت کش طبقے پر تجارتی جنگ کی قیمت چکانے کا دباؤ بڑھ رہا ہے۔ اگر کمپنیاں اپنی پیداواری سطح برقرار رکھتی ہیں اور اپنی مصنوعات علاقائی یا امریکہ کے علاوہ دیگر غیر ملکی منڈیوں میں بھیجتی ہیں، پھر بھی ممکنہ طور پر قیمتوں اور اسی طرح اجرتوں میں کٹوتیاں ہوں گی، جس کے باعث پہلے سے متاثر محنت کشوں کی قوت خرید مزید کمزور ہو گی۔ اس سے مزید مزاحمت جنم لے گی۔

ایک صدی قبل بڑھتے ہوئے چینی محنت کش طبقے نے شاندار انقلابی طوفان کی قیادت کی تھی اور ہفتوں، مہینوں اور کچھ ہی سالوں میں طاقتور یونینز اور حتیٰ کی سوویتیں تخلیق کر ڈالی تھیں۔ آنے والا تند و تیز طبقاتی جدوجہد کا دور اس سے بھی زیادہ لمبا اور طلاطم خیر ہو گا۔ ایک بار پھر چین کا محنت کش طبقہ، جو کہ دنیا کا سب سے بڑا محنت کش طبقہ ہے، اپنی انقلابی میراث کا دعویدار بنے گا اور عالمی سوشلسٹ انقلاب میں اپنا فرض پورا کرے گا۔

Comments are closed.