پمز اور لیڈی ریڈنگ ہسپتال کے بچہ و زچگی وارڈز کی بندش۔۔ محنت کش خواتین کی مشکلات میں مزید اضافہ

|رپورٹ: ریڈ ورکرز فرنٹ|

7 مئی 2020ء تک پورے پاکستان میں شعبہ صحت کے 500 محنت کشوں میں کرونا وائرس کی تشخیص ہو چکی ہے۔ غیرموثر اور عقل سے عاری اقدامات پر نظرِ ثانی کے بجائے ریاست نے کرونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لئے پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (PIMS)، اسلام آباداور لیڈی ریڈنگ ہسپتال، پشاور کے بچہ و زچگی وارڈ بند کر دیے۔ محنت کش طبقے کو معاشی و سماجی تباہی میں دھکیلنے کے بعد اب ریاست محنت کش خواتین اور بچوں کے قتلِ عام کی راہ ہموار کر رہی ہے۔

روزِ اول سے کرونا وائرس وباء کے خلاف ریاستی نااہلی اور مزدورر دشمن پالیسیاں واضح ہیں۔ ایک طرف اپنے طبقے کی صحت اور دولت کے تحفظ کے لئے حکمران ہر ممکن اقدامات کر رہے ہیں تو دوسری طرف پاکستان کی عوام کو بے یارومددگار بھوک یا بیماری سے مرنے کے لئے چھوڑ دیا گیا ہے۔ اس پر ستم ظریفی یہ ہے کہ پورے ملک میں شعبہ صحت کی نمائندہ تنظیموں نے جہاں بھی حفاظتی سامان اور درکار وسائل کی عدم دستیابی اور کرونا وائرس کے خلاف غیر موثر پالیسیوں پر احتجاج کئے ہیں وہاں انہیں پولیس سے لے کر عدالت تک ہر ریاستی ادارے نے نہ صرف ذلیل و خوار کیا ہے بلکہ اب کسی مسئلے کی نشاندہی پر خوفناک قانونی کاروائیوں کی دھمکیاں دے کر جبری طور پر خاموش بھی کروا رہے ہیں۔ لیکن ہر چار دن بعد شعبہ صحت کی حمایت میں ٹی وی اور اخبارات میں ایک آدھ گانا چلا کر اور تالیاں بجوا کر اپنے کالے کرتوتوں پر پردہ بھی ڈالا جا رہا ہے۔

سرکاری ہسپتالوں میں عام عوام اور محنت کش طبقہ ہی اپنا علاج کرانے آتا ہے۔ ملک کی غلیظ مڈل کلاس اور کرپٹ اشرافیہ نے بیماری اور مفلسی کے سمندروں میں اپنے لئے فائیو سٹار نجی ہسپتالوں کے جزیرے بنا رکھے ہیں جہاں غریب آدمی کو جھاڑوو مارنے کی دیہاڑی تو شاید مل جائے لیکن علاج معالجے کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ دہائیوں سے سرکاری ہسپتالوں کا بجٹ کاٹا جا رہا ہے اور اب صحت کا کل بجٹ جی ڈی پی کے دو فیصد سے بھی کم چکا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ہر سال لاکھوں لوگ قابلِ علاج بیماریوں سے مر رہے ہیں جبکہ دائمی بیماریوں کے مریضوں میں آئے دن اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ دہائیوں سے جاری اس عوامی قتل عام پر اکتفا کرنے کے بجائے منافع کی ہوس میں اندھے دولت کے پجاری حکمران شعبہ صحت کی مسلسل نجکاری بھی کر رہے ہیں جس میں خیبر پختونخواہ اور پنجاب کے تمام سرکاری ہسپتال نجی شعبے کو دے دیے گئے ہیں اور اب صحت کا پورا ملکی انفرسٹرکچر ہی تباہ و برباد ہو کر منہدم ہونے کو ہے۔

اس ساری صورتحال میں سب سے پسماندہ اور زبوں حالی کا شکار غریب خواتین اور ان کے بچے ہیں۔ پدر شاہی طبقاتی سماج میں سب سے زیادہ استحصال کا شکار خواتین اور بچے ہی ہوتے ہیں۔ لیکن ریاستِ پاکستان خاص طور پر ایک منفرد مجرم ہے جس نے دانستہ طور پر مذہبی اور سماجی روایات کو ڈھال بنا کر خواتین کی صورتحال اور مسائل پر 70 سالوں میں کوئی توجہ نہیں دی اور اسے بھی محنت کش طبقے کو دبانے اور اس کے استحصال میں مزید اضافے کا ایک ذریعہ بنایا ہے۔ یونیسف کے اعدادوشمار کے مطابق دورانِ زچگی خواتین کی شرح اموات ہر 1 لاکھ زچگیوں میں 140 اور پانچ سال سے کم عمر بچوں میں شرح اموات ہر 1 ہزار میں 70ہے۔ یہ اعداددوشمار کرونا وائرس وباء اور موجودہ خوفناک معاشی بحران کے آغاز سے پہلے کے ہیں لیکن پھر بھی اگر موازنہ کیا جائے تو جنوبی ایشیاء میں یہ اعدادوشمار سب سے زیادہ ہیں۔ اب ان مختلف ہسپتالوں میں ان شعبوں کی بندش سے ان اعداد وشمار میں کئی گنا اضافہ ہوسکتا ہے۔

پوری دنیا میں شعبہ صحت کے تمام اہم شعبوں کو جاری رکھنے کے لئے محکمہ صحت کے ملازمین پالیسیاں اور لائحہ عمل بنا رہے ہیں اور اس حوالے سے پاکستان میں بھی یہ عوامی ذمہ داری اب شعبہ صحت کے ملازمین کے کندھوں پر آن پڑی ہے۔ ریڈ ورکرز فرنٹ ریاست کی ہٹ دھرمی، غفلت، نااہلی اور بے حسی کی شدید ترین مذمت کرتے ہوئے مطالبہ کرتاہے کہ شعبہ صحت کا بجٹ فوری طور پر کم از کم جی ڈی پی کے 10 فیصد کیا جائے، شعبہ صحت کے تمام ملازمین کو درکار حفاظتی سامان فوری طور پر مہیا کیا جائے، سرکاری ہسپتالوں کے ملازمین کے ساتھ مل کر موثر اقدامات بنائے اور لاگو کئے جائیں، تمام نجی ہسپتالوں، کلینکس اور ہوٹلوں کو ہنگامی بنیاوں پر قومی تحویل میں لیتے ہوئے عوام کو مفت اور معیاری سہولیات کی فراہمی یقینی بنائی جائے۔

Comments are closed.