بلوچستان: نئے سال کے آغاز پر دُکی اور کوہلو میں کوئلے کی کانوں میں چار کان کن ہلاک۔۔مالکان، ٹھیکیداروں اور کرپٹ بیوروکریسی کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کیا جائے!

|رپورٹ: ریڈ ورکرز فرنٹ، بلوچستان|

نئے سال کے آغاز پر بلوچستان کے ضلع دُکی کے علاقے چمالانگ میں واقع کوئلے کی کان میں مٹی کا تودہ گرنے سے 2 کان کن ہلاک ہو گئے ہیں، جبکہ کوہلو کے علاقے نوہشم میں کوئلہ کان بیٹھنے سے دو کان کنوں کی ہلاکت ہوئی۔

پولیس کا کہنا ہے کہ چاروں افراد کی لاشیں کوئلہ کان سے نکال کر ہسپتال منتقل کردی گئی ہیں۔

واضح رہے کہ بلوچستان کے مختلف علاقوں میں سینکڑوں کی تعداد میں کوئلے کی کانیں ہیں اور کانوں میں اکثر گیس بھرنے، مٹی کے تودے گرنے اور دھماکوں کے باعث حادثات کے واقعات معمول بن چکے ہیں۔

پاکستان سینٹرل مائنز لیبر فیڈریشن کے مطابق ملک میں کانوں کے حادثات میں سالانہ اوسطاً 200 ہلاکتیں ہوتی ہیں۔

ریڈ ورکرز فرنٹ روز اول سے یہ مطالبہ کرتا آرہا ہے کہ بلوچستان بھر کی کوئلہ کانوں میں جتنے بھی حادثات اور واقعات کے نتیجے میں محنت کشوں کی اموات ہوتی ہیں ان تمام تر واقعات کے ضمن میں کول مائننگ کے شعبے سے منسلک تمام تر ذمہ داران کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرنا ناگزیر بن چکا ہے۔ مگر یہ حق صرف اور صرف ان محنت کشوں کی جمہوری طور پر منتخب ہونے والی قیادت کے پاس ہونا چاہیے جو کہ حقیقی طور پر محنت کشوں کے نمائندہ ہوں۔ کیونکہ اس وقت کول مائنز سے منسلک تمام تر محنت کشوں کی حالت زار کے اوپر ایسی درجن بھر ٹریڈ یونینز، فیڈریشنز اور این جی اوز کی غلاظتوں سے بھرپور تنظیمیں ہیں جو کہ ان محنت کشوں کی ہلاکتوں پر نہ صرف مگرمچھ کے آنسو بہاتے ہیں، بلکہ اپنی جیبوں کو گرم کرنے کے لیے کول مائنز مالکان، کرپٹ بیوروکریسی، سیکورٹی ادارے اور نااہل حکمرانوں کی لئے دلالی کا کام کرتے ہیں۔ اور ایسے تمام تر حادثات و واقعات کے نتیجے میں ان ہلاک شدہ محنت کشوں کی لاشوں کے ساتھ صرف دو لاکھ روپے رکھ کر لواحقین کے حوالے کرتے ہیں اور تمام تر ذمہ داری سے جان چھڑا لیتے ہیں۔ جبکہ درحقیقت ان تمام تر واقعات کے نتیجے میں ہلاک ہونے والے محنت کشوں کی ہلاکت کو قتل کہنا درست ہوگا۔ کیونکہ محنت کشوں کے لیے ایسے حالات ہوتے ہیں کہ جہاں پر کانوں کے اندر جانے کے لیے ان کو زندگی اور موت کے سوال کا بلاواسطہ سامنا کرنا پڑتا ہے۔

مزید برآں بلوچستان بھر میں مائننگ شعبہ سے تعلق رکھنے والے محنت کشوں کی اکثریت افغانستان، اور خیبرپختونخوا سے ہوتی ہے، جبکہ بلوچستان کے نوجوانوں نے بھی بیروزگاری کی دلدل سے نکلنے کے لیے اس خونخوار شعبے کی طرف رُخ کرنا شروع کر دیا ہے۔ ان کول مائنز کے اندر محنت کشوں کو اگر حفاظتی تدابیر کے شدید فقدان کا سامنا کرنا پڑتا ہے، تو ساتھ ہی ساتھ کول مائنز کے اندر ٹھیکیداری کی لعنت بھی محنت کشوں کے اوپر مسلط کر دی گئی ہے جس کے ذریعے منافعوں کی خاطر محنت کشوں کی محنت کا بدترین استحصال کیا جاتا ہے۔

اگر صحیح معنوں میں بلوچستان بھر کی ان کول مائنز کا جائزہ لیا جائے تو ان کو بین الاقوامی لیبر قوانین سے ہٹ کر ریاست مدینہ کے نام نہاد لیبر قوانین کے مطابق بھی مکمل طور پر بند کر دیا جائے گا، مگر ان تمام تر مزدور دشمن اقدامات کے باوجود بلوچستان بھر میں سالانہ لاکھوں ٹن کوئلہ نکال لیا جاتا ہے جس میں محنت کشوں کا خون ہر حال میں شامل ہوتا ہے۔

ریڈ ورکرز فرنٹ یہ مطالبہ کرتا ہے کہ ان واقعات کے نتیجے میں ہلاک ہونے والے محنت کشوں کے قتل کا مقدمہ کول مائنز مالکان، ٹھیکیداروں اور کرپٹ بیوروکریسی کے خلاف درج کیا جائے، جبکہ قتل ہونے والے محنت کشوں کے لواحقین کی ہر طرف سے مالی امداد کو ممکن بنایا جائے۔ اس کے علاوہ محنت کشوں کو کان کنی کے حوالے سے تمام تر حفاظتی تدابیر فی الفور مہیا کی جائیں اور جن کوئلہ کانوں کی حالت خراب ہوچکی ہے ان کو فی الفور بند کیا جائے۔ جبکہ کان کنوں کی ایک ایسی نمائندہ کمیٹیوں کا انتخاب کیا جائے جو پورے بلوچستان میں تمام کول مائنز کا غیر جانبدارانہ جائزہ لینے کا مکمل طور پر اختیار رکھتی ہوں، اور کول مائنز کی تحقیقات کرنے کے حوالے سے کان کنوں کی زندگی کو ترجیحی بنیادوں پر سامنے رکھ لیں، تاکہ روزانہ کی بنیاد پر ہونے والی ہلاکتوں کی روک تھام کی جا سکے۔

Comments are closed.