کامریڈ حفیظ کی جدوجہد کو لال سلام!

|لال سلام|

آج دن کا آغاز کامریڈ حفیظ کی اچانک ہم سے ہمیشہ کے لیے بچھڑ جانے کی افسوسناک خبر کے صدمے سے ہوا۔ کامریڈ حفیظ کئی سالوں سے مارکسزم کے سائنسی نظریات کی بنیاد پر سوشلسٹ انقلاب کا ایک بیباک سپاہی تھا۔ ثقافتی اور مادی طور پرکشمیر جیسے پسماندہ علاقے سے تعلق رکھنے کے باوجود کامریڈ حفیظ نے مارکسزم جیسے جدید سائنسی نظریات کی شعوری جدوجہد میں خود کو شعوری اور ثقافتی طور پر اس قدر بلند کیا کہ وہ جرأت کا استعارہ بن گیا۔ کشمیر کی ثقافتی پسماندگی کا سب بڑا اظہار سیاست میں شخصیت پرستی کی شکل میں ہوتا ہے۔ کامریڈ حفیظ کے بلند سیاسی شعور کا ثبوت یہ ہے کہ اس نے اپنی تمام تر سیاسی زندگی کے دوران ہمیشہ شخصیات کی بجائے نظریات کو مقدم رکھا۔ تنظیم کی داخلی لڑائیوں اور دھڑے بندیوں کے موقعوں پر جہاں ظاہری طور پر بلند نظریاتی معیار رکھنے والے افراد بھی شخصیت پرستی کی غلاظت میں گر جاتے، وہاں کامریڈ حفیظ ہمیشہ درست نظریاتی موقف پر کھڑا ہو جاتا۔ گزشتہ کافی عرصے سے کامریڈ حفیظ اپنی ذاتی زندگی میں شدید نوعیت کے مسائل سے دوچار تھا اور عملی سیاست کے لیے وقت نہیں نکال پا رہا تھا لیکن اس کے باوجود وہ کبھی نظریات کی سچائی اور جدوجہد کے حوالے سے متزلزل نہیں ہوا۔ اس کے برعکس وہ بہت زیادہ محنت اور کوشش کرتا رہا کہ کسی طرح اپنے ذاتی اور خاندانی مسائل کو صرف اس حد تک حل کرے تاکہ متحرک سیاسی کردار ادا کر سکے۔ اس سے جب کبھی رابطہ ہوتا وہ ہمیشہ پہلے اس بات پر شرمندگی کا اظہار کرتا کہ مسائل کی وجہ سے سرگرم کردار ادا نہیں کر پا رہا لیکن ساتھ ہی انتہائی پر امید اور پرجوش انداز میں جلد ہی ان مسائل سے چھٹکارا پا کر جدوجہد میں عملی شرکت کا یقین دلاتا۔ یہ انتہائی افسوسناک ہے کہ کامریڈ اپنے بچوں اور خاندان کی بنیادی ضروریات کی تکمیل کی کوششوں میں بھی کچھ زیادہ کامیاب نہیں رہا۔ کامریڈ حفیظ کی موت بظاہر حرکت قلب رک جانے سے ہوئی لیکن حقیقت میں ان گنت محرومیوں اور غربت کے مسائل بے شمار لوگوں کی طرح اس کی موت بھی ایک قتل ہے جس کا ذمہ دار یہ غیر انسانی سماج ہے۔ وہ ایسا کامریڈ تھا جس نے مارکسزم کے نظریات کو جس حد تک سمجھا اتنا ہی اس پر عملدرآمد کیا۔ سماج کی سبھی فرسودہ روایات و اقدار کو دھتکار کر انقلابی آدرشوں کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنائے رکھا۔ انقلابی جدوجہد میں شریک ہونا اس کا جزوقتی مشغلہ نہیں تھا بلکہ اس کا واحد شوق اور مقصد حیات تھا۔ شدید غربت اور خاندانی مسائل نے کامریڈ کو سخت ذہنی دباؤ کا شکار کر رکھا تھا مگر اس کے باوجود وہ ہمیشہ چہرے پر مسکراہٹ لیے ہوتا تھا۔ کامریڈ حفیظ کی انقلابی جدوجہد کے ساتھ پر خلوص وابستگی کبھی کم نہیں ہوئی بلکہ اکثر اپنے ساتھیوں کے ساتھ سخت تلخ لڑائی بھی اس وجہ سے ہو جاتی تھی کہ کامریڈ تنظیم کے کام کی بڑھوتری میں سنجیدہ کردار ادا نہیں کر رہے۔ کامریڈ حفیظ کو جس انقلابی جدوجہد میں سرگرمی سے حصہ لینے کا شوق تھا اور جس انقلاب کی تبدیلی کا خواب لیے وہ آج ہم سے بچھڑ گیا وہ نسلِ انسانی کی بقا اور ہر قسم کے ظلم وجبر، استحصال اور طبقاتی تفریق سے پاک ایک حقیقی انسانی سماج کا خواب تھا۔ کامریڈ حفیظ ہم سے بچھڑ گیا لیکن اس کا خواب زندہ ہے اور اس سماج کی سوشلسٹ تبدیلی کی جدوجہد میں مصروف ہر انقلابی کی صورت میں وہ زندہ رہے گا۔ اس کی جدائی کا دکھ اس سماج کی تبدیلی کی جدوجہدکو تیز کرنے کا موجب بنے گااور کامریڈ حفیظ سمیت سبھی بچھڑنے والے کامریڈوں کو حقیقی خراج تحسین پیش کرنے کا بہترین طریقہ یہی ہے کہ اس غیر انسانی سماج کی تبدیلی کے عمل کو تیز تر کیا جائے اور سوشلسٹ انقلاب کی جدوجہد کوتیز کیا جائے۔

Comments are closed.