کرونا بحران: اسباق اور فرائض

|تحریر: پارس جان|

دو روز قبل کسی دوست نے ازراہِ تفنن یا شاید اظہارِ تشویش کی غرض سے ایک فیس بک اسٹیٹس اپ لوڈ کیا جو کچھ یوں تھا کہ ’آئندہ BC کو قبلِ مسیح کی بجائے قبلِ کرونا پڑھا جائے‘۔ شدید مبالغے کے باوجود یہ ایک جملہ اس وقت انسانوں کو درپیش بھیانک صورتحال کی درست عکاسی کر رہا ہے۔ کرونا نے بلاشبہ معیشت سے لے کر اجتماعی نفسیات تک ہر سماجی مظہر کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ اکیسویں صدی کی ’جدت زدہ‘ انسانیت کی یہ لاچاری، اضطراب اور ہیجان المناک ہی نہیں بلکہ سبق آموز بھی ہے۔ اس لئے موجودہ صورتحال سے نبردآزما ہونے کی پہلی شرط اس کا درست ادراک ہے۔ اور درست ادراک کی لازمی شرط یہ ہے کہ اس تمام تر ہیجانی ماحول کی آہنی گرفت سے آزادانہ، انسانیت کے اجتماعی تاریخی ورثے سے استفادہ حاصل کیا جائے۔ ڈر اور شعور ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔ ایک خوفزد ہ شخص اپنی کھوپڑی میں ذخیرہ شدہ خوف کی دیگر کھوپڑیوں کو ترسیل کے علاوہ کسی مفید اور تخلیقی سرگرمی کا اہل نہیں رہتاکیونکہ اپنے ارد گرد سب کو خوفزدہ دیکھ کر ہی اسے روحانی طمانیت حاصل ہو سکتی ہے۔ تمام تر خطرات اور مہلک مضمرات اپنی جگہ مگر حقیقت یہ ہے کہ انسانوں کو پہلی دفعہ ایسی صورتحال کا سامنا نہیں کرنا پڑ رہا بلکہ ساری انسانی تاریخ نہ صرف اسی طرح کے انسانی المیوں سے بھری پڑی ہے بلکہ ان کے انسداد اور روک تھام کے لیے انسانوں کی ان تھک محنت اور اس محنت کی اجتماعیت کے بلبوتے پر ہربظاہر قدرتی آفت پر انسانیت کی بالآخر فتح ساری انسانی تاریخ کا اہم ترین خاصہ ہے جسے کسی بھی صورت میں فراموش نہیں کرنا چاہیے۔ موجودہ بحران کو بھی تاریخی عمل کے اسی تسلسل کے ایک المناک دورانیے کے طور پر یاد رکھا جائے گا مگر اہم سوال یہ ہے کہ اس بحران سے نکلنے کے بعد انسانیت کس سمت میں آگے بڑھتی ہے، اس کا انحصار بڑے پیمانے پر ہونے والے انسانی جانوں کے ضیاع سے سیکھے گئے اسباق پر ہو گا۔ ’تاریک راہوں میں مارے جانے والے‘ ہمارے یہ ہزاروں یا شاید لاکھوں بہن بھائی اپنے باشعور ہم عصروں کے کندھوں پر اپنی بے وقت اور رقت آمیز اموات کے انتقام کا فریضہ لاد کر رخصت ہوں گے۔ آنے والی نسلوں کے سامنے سرخرو ہونے کے لیے ہماری نسل پر ایک ایسی بغاوت فرض ہو چکی ہے جو کسی بے سمت افراتفری کی بجائے ایک منظم، مستعد اور مرصع تحرک کے ذریعے ایک محفوظ، مستحکم اور روح پرور انسانی مستقبل کی ضمانت فراہم کر سکے۔

ادویات ساز کمپنیاں ہر سال نزلہ، زکام اور کھانسی کی ادویات کی فروخت سے اربوں ڈالر کے منافع بٹوررہی ہیں۔ جی ہاں ’منافع‘۔ ہمارے معاشرتی جسم کا یہی وہ جینیاتی تناقض ہے جو انسانیت کی بقا کے سامنے ایک اژدہا بن کر پھنکار رہا ہے۔

سب سے پہلے تو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ موجود ہ بحران ہر گز ناگزیر نہیں تھا بلکہ اس سے بہت آسانی سے محفوظ رہا جا سکتا تھا۔ اگر ہم اس بنیادی نکتے پر متفق ہوں تو ظاہر ہے کہ ہم پھر لازمی طور پر یہ سوچنے پر مجبور ہوں گے کہ وہ کون سے عوامل یا محرکات ہیں یا وہ کون سے لوگ ہیں جو اس بحران کے ذمہ دار ہیں۔ اور اگر ہم نے ان ذمہ داران کی درست نشاندہی کر لی تو ظاہر ہے کہ انہیں سبق سکھانے کی اجتماعی کاوش بھی ناگزیر ہو جائے گی۔ اسی لیے ذمہ داران کا یہ طرزِ عمل عین فطری ہو گا کہ وہ پوری کوشش کریں گے کہ موجودہ بحران کو ہر صورت اور ہر قیمت پر ناگزیر، ناگہانی یا قدرتی آفت قرار دے دیا جائے۔ لیکن ایسا ہر گز نہیں ہے۔ کہا یہ جا رہا ہے کہ اس سے پہلے اس طرح کی وبا 1918ء میں یورپ ہی کے ایک ملک سپین سے شروع ہوئی تھی اور اس میں پانچ کروڑ انسانی جانیں ضائع ہو گئی تھیں۔ مگر اسے ایک صدی سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے۔ اور ہم یہ جانتے ہیں کہ اس ایک گزشتہ صدی میں انسانو ں نے سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں وہ کارہائے نمایاں سر انجام دیئے ہیں کہ جو اس سے قبل تصور کرنا بھی محال تھا۔ نیوکلیئر اور سٹیلائٹ ٹیکنالوجی سے لے کر ٹیلی کمیونیکیشن اور سوشل میڈیا تک، بحیثیتِ مجموعی انسانیت نے آگے کی طرف بہت سی معیاری جستیں لگائی ہیں۔ میڈیسن کے شعبے میں ہی دیکھ لیں کہ اسی عرصے میں انسانوں نے پینسلین (Penicillin) دریافت کی جس کے بعد دوسری عالمی جنگ میں ہونے والی ہولناک تباہی کے باوجود جس میں پانچ کروڑ سے زائد لوگ لقمہِ اجل بن گئے تھے، دنیا کی آبادی میں کئی گنا اضافہ ہو چکا ہے۔ اور اب جینیات کا شعبہ بھی بہت زیادہ ترقی کر چکا ہے۔ تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کرونا جیسے وائرس کے آگے اتنا ترقی یافتہ اور سائنس اور تکنیک سے لیس انسان بے بس اور لاچار کیوں ہے؟ کرونا کو بھی تھوڑی دیر کے لیے رہنے دیجیے بلکہ یہ سوچیے کہ نزلہ، زکام اور کھانسی جیسی وبائیں آج تک ختم کیوں نہیں ہو سکیں؟ ہلکا سا بھی سوچ وچار ہم پر یہ حقیقت آشکار کر دیتا ہے کہ دال میں کچھ کالا ضرور ہے بلکہ ساری دال ہی کالی ہو چکی ہے۔ 4G کے دور میں زندہ رہنے والے نوجوانوں کو اس جواب سے مطمئن نہیں کیا جا سکتا کہ نزلہ اور زکام لاعلاج امراض ہیں۔ خود سرمایہ داروں کا اخبار ’اکانومسٹ‘ لکھ رہا ہے کہ اگر 2003ء میں پھیلنے والے کرونا وائرس سارس(SARS) کے بعد اس حوالے سے تحقیقات جاری رکھیں جاتی تو آج ہم اس نئے کرونا وائرس اس نبٹنے کے لیے کہیں زیادہ تیار ہوتے۔ مگر جو بات وہ لکھنا بھول گئے یا نہیں لکھنا چاہتے وہ یہ ہے کہاس کی وجہ اس سارے عرصے میں بالعموم فلاح عامہ کے تمام شعبوں بالخصوص صحت کے شعبے کو ’غیر ضروری‘ قرار دے کر ان پر مسلط کی جانے والی جبری کٹوتیاں ہیں جن کے باعث ایسی تحقیقات کرنے والے کئی ادارے بے کار ہو کر رہ گئے جبکہ اسی اثنا میں عوامی ٹیکس کے پیسوں سے سرمایہ داروں، بینکوں اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کو اربوں ڈالر ے بیل آؤٹ پیکج دئیے گئے۔ حقیقت یہ ہے کہ ادویات ساز کمپنیاں ہر سال نزلہ، زکام اور کھانسی کی ادویات کی فروخت سے اربوں ڈالر کے منافع بٹوررہی ہیں۔ جی ہاں ’منافع‘۔ ہمارے معاشرتی جسم کا یہی وہ جینیاتی تناقض ہے جو انسانیت کی بقا کے سامنے ایک اژدہا بن کر پھنکار رہا ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال یہ ہے کہ حالیہ رپورٹس کے مطابق جرمن سائنس دانوں نے کرونا کی ویکسین کے کامیاب تجربے کا انکشاف کیا ہے مگر جرمن ریاست نے واضح طور پر اعلان کر دیا ہے کہ وہ یہ ریسرچ اس کے کاپی رائٹس کے ’آفاقی اصول‘ کے تحت اپنے پاس ہی رکھیں گے اور دیگر ممالک کو نہیں دیں گے۔ بنیادی بات یہ ہے کہ اس وقت کرونا اتنا بڑا عفریت بن کر سامنے آیا ہے کہ اس کی ویکسین کی طلب اپنے عروج پر ہے اور اجارہ دار کمپنیاں ایسے میں اس سے زیادہ سے زیادہ منافع بٹورنے کی کوشش کریں گی۔ یہی اس سرمایہ دارانہ نظام کا اصل چہرہ ہے کہ اس میں عوام کی بھاری اکثریت کو ہر بنیادی ضرورت سے لے کر اہم مراعت تک سب کچھ لڑ کر ان طفیلیے حکمران طبقات سے چھین کر حاصل کرنا پڑتا ہے۔ مختصر یہ کہ، یہ کرونا بحران آج کے جدید عہد میں سرمایہ دارانہ نظام کی متروکیت کے باوجود اس کے تسلط کی پیداوار ہے اور یہ کوئی عذاب نہیں بلکہ حکمران طبقے کا تاریخی جرم ہے جس کو کسی صورت میں معاف نہیں کیا جانا چاہیے۔

ویسے تو اس وقت موت کے خوف نے دنیا بھر میں آبادی کی اکثریت کو اپنے شکنجے میں لیا ہوا ہے مگر مذہبی اشرافیہ شاید اس وقت سب سے زیادہ خوفزدہ ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ حالیہ بحران نے صرف ان کی جان ہی نہیں بلکہ ’دکان‘ کو بھی شدید خطرات سے دوچار کر دیا ہے۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ کرونا بحران نے عہدِ حاضر میں مذہبی اشرافیہ کی فروعیت اور لایعنیت کو بھی مکمل طور پر بے نقاب کر دیا ہے۔ ہم نے پہلے بھی کئی دفعہ دیکھا ہے کہ کلونجی اور کھجوروں کو تمام مہلک امراض کی شافی دوائیں قراردینے والے ملاں اپنی ہلکی سی تکلیف میں بھی جدید لیبارٹریوں اور دیگر طبی سہولتوں سے آراستہ مہنگے ترین ہسپتالوں کے پرائیویٹ کمروں میں پائے جاتے ہیں۔ ان کا یہی دوغلا پن بری طرح ایکسپوز ہو چکا ہے۔ یہودیوں، عیسائیوں، ہندوؤں اور مسلمانوں کی تمام عالمی مقدس عبادت گاہیں ویران پڑی ہیں اور آبادی کی بھاری اکثریت اپنی زندگی کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے ملاؤں، پیروں اور عاملوں وغیرہ کی بجائے گوگل سے زیادہ رجوع کر رہے ہیں اور ان کا جھکاؤ مذہب کی بجائے سائنس کی طرف زیادہ ہے۔ دورافتادہ دیہی آبادیوں میں بھی جیسے جیسے حالیہ بحران کی معلومات پہنچ رہی ہیں تو لوگ اس کے علاج کے بارے میں دریافت کررہے ہیں جو کہ بدقسمتی سے ابھی تک ناپید ہے۔ اور ظاہر ہے کہ جب ان کو علاج وغیرہ میسر نہیں ہو گا تووہ پھر ’مرتا کیا نہ کرتا‘ کے مصداق واپس دیسی، روحانی یا دیگر مذہبی ٹوٹکوں کی طرف رجوع کر سکتے ہیں لیکن ایسا کرتے ہوئے ان کی بے دلی اور بیزاری اندھے کو بھی نظر آ جائے گی۔ یوں خود سائنس پر لٹکتی ’منافع‘ کی تلوار ہی لوگوں کو واپس رجعت کی طرف دھکیل دینا چاہتی ہے کیونکہ اس کی اپنی بقا اس سے متصل ہے۔ یہی آج کے عہد کا اصل بحران ہے جو اگر حل نہ ہوا تو وقفے وقفے سے کرونا جیسے بھیانک امتحان ہم پر مسلط کرتا رہے گا۔

ان تمام انسانی جانوں کے ضیاع کی ذمہ داری مذہبی اشرافیہ سے زیادہ لبرل اشرافیہ اور ان کی روح ’سائنس‘ کے خداؤں یعنی مالکان پر عائد ہوتی ہے۔ یہ دونوں جو بظاہر ایک دوسرے کے متضاد نظر آتے ہیں دراصل ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں کیونکہ دونوں اسٹیٹس کو کے وظیفہ خوار ہیں۔

جہاں ایک طرف مذہبی اشرافیہ سراسر ننگی ہو چکی ہے وہیں ان کے لبرل حریف بھی منہ چھپاتے ہی نظر آ رہے ہیں کیونکہ وہ ایک مجرد طریقے سے سائنس کو ہر مرض کی دوا بنا کر پیش کر دیتے ہیں۔ ان سے کسی بھی مسئلے کی بابت اگر سوال کیا جائے تو جواب یہی ملتا ہے کہ ’تمام مسائل کی جڑ مذہب ہے، جب تک لوگ مذہب کو چھوڑ کر سائنس کی طرف نہیں آتے کوئی مسئلہ حل نہیں ہو گا‘۔ بہت سارے تو یہ کہنے میں بھی عار محسوس نہیں کرتے کہ ’سائنس پہلے ہی تمام مسائل حل کر چکی ہے، یہ تو لوگوں کی جہالت ہے کہ وہ اس سے استفادہ حاصل نہیں کرتے‘۔ موجودہ بحران نے ثابت کر دیا ہے کہ سائنس خود بخود تمام مسائل کو حل نہیں کرتی بلکہ اگر اس کے منتظمین اسے انسانی فلاح کے لیے استعمال نہ کریں تو وہ بہت سارے مسائل کو مزید پیچیدہ بھی کر دیتی ہے۔ یہ درست ہے کہ بالآخر انسانیت حالیہ بحران سے نکل آئے گی مگر اس کے لیے کتنے انسانوں کی بلی چڑھانی ہو گی، کوئی بھی وثوق سے نہیں بتا سکتا۔ ان تمام انسانی جانوں کے ضیاع کی ذمہ داری مذہبی اشرافیہ سے زیادہ لبرل اشرافیہ اور ان کی روح ’سائنس‘ کے خداؤں یعنی مالکان پر عائد ہوتی ہے۔ یہ دونوں جو بظاہر ایک دوسرے کے متضاد نظر آتے ہیں دراصل ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں کیونکہ دونوں اسٹیٹس کو کے وظیفہ خوار ہیں۔ حالیہ بحران میں ملاؤں کی اچھی خاصی تعداد نے مذہبی اجتماعات پر بندش اور دیگر حکومتی فیصلہ جات کو عین ’شرعی‘ قرار دے کر اپنی ’حقیقت پسندی‘اور صورتحال سے مطابقت کی آمادگی ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ مفتی تقی عثمانی نے تو ایک ٹی وی ٹاک شو میں مصافحہ نہ کرنے کو بھی جائز اور وقت کی اہم ضرورت قرار دے دیا ہے۔ دوسری طرف دیسی لبرل عبادت گاہوں کی ’ویرانی‘ سے خوب لطف اندوز ہو رہے ہیں اور بار بار مذہبی جہالت پر لعن طعن تو کر رہے ہیں مگر دوسری طرف جدید سائنس کی ’کاہلی‘ پر کبوتر کی طرح آنکھیں بند کیے ہوئے ہیں اور اپنے حقیقی آقا یعنی امریکی اور برطانوی حکمران طبقے کے حالیہ بحران سے نمٹنے کی عدم فعالیت اور انتہائی بے حسی پر مبنی رویے پر مجرمانہ خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ سچ کہا جائے تو اس وقت اپنے طرزِ عمل اور فکر میں ملاں کچھ لبرل لبرل اور دیسی لبرل کچھ ملاں ملاں سے دکھائی دے رہے ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ آج کے عہد کے مسائل کا حل مذہب کے پاس نہیں بلکہ سائنس ہی کے پاس ہے مگر یہ محض آدھا سچ ہے۔ مکمل سچ یہ ہے کہ سائنس خود سماج کی ایک مٹھی بھر اقلیت کے تصرف اور ملکیت میں ہے۔ یہی وہ طبقہ ہے جو ذرائع پیداوار یعنی زمین، مشین، تکنیک سمیت سب کا مالک ہے۔ حکومتیں اور ریاستیں اس کی لونڈیاں اور داشتائیں ہیں اور یہی وجہ ہے کہ وہ کسی بھی مصیبت کی گھڑی میں عوام کو ریلیف دینے میں بری طرح ناکام دکھائی دیتی ہیں۔یہ ایک وائرس بھی ان کی نا اہلی پر دل کھول کر قہقہے لگا کر اور کتنے معصوموں کو موت کی نیند سلا کر رخصت ہو جائے گا۔

اگر یہ بحران افریقہ، مشرقِ وسطیٰ یا جنوبی ایشیا سے شروع ہوتا اور یہ وائرس صرف انہی پسماندہ ممالک میں ہی موت بانٹتا تو شاید مغرب زدہ لبرل دانشوران اسے بھی متاثرین کی ہی جہالت قرار دے دیتے مگر چین، جو کہ دنیا کی دوسری بڑی معیشت ہے، وہاں سے شروع ہونے کے بعد کرونا نے سب سے زیادہ تباہی یوروزون کی تیسری بڑی معیشت اٹلی میں پھیلائی جہاں اس کی شرحِ اموات چین سے بھی تین گنا زیادہ یعنی 6 فیصد تک جاپہنچی۔ اور اب یہ تمام ترقی یافتہ دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیتا چلا جا رہا ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ اسے ایک عالمی وبا قرار دے دیا گیا ہے۔ اگرچہ، ان ممالک میں کچھ امرا بھی اس اسے متاثر ہوئے ہیں مگر مرنے والوں کی بھاری اکثریت غریب عوام پر مشتمل ہے۔ اور وہی حکومتیں جو اپنی ہی لوٹ مارکی ہوس کے باعث دیوالیہ ہو جانے والے بینکوں اور ملٹی نیشنل کمپنیوں پر ہر مصیبت کی گھڑی میں دستِ شفقت رکھنا اپنا فرض سمجھتی ہیں اور ان کے لیے قومی خزانے کے منہ بلا دریغ کھول دیتی ہیں، عوام کو موجودہ بحران سے نکالنے کے لیے تمام وسائل بروئے کار لانے میں چوں و چراں سے کام لے رہی ہیں۔ وجہ وہی ہے کہ یہ ریاستیں بھی در حقیقت ذرائع پیداوار کے مالکان کی ہی ملکیت ہیں مگران کے مالکان نے ان پر ’سب کے لیے‘ کا بورڈ لگایا ہوا ہے۔ لیکن اپنے منافعوں کے تحفظ کے لیے وہ یہ بورڈ ہمیشہ عین اس وقت اتار دیتے ہیں جب سب کو اس قومی اثاثے کی شدید ضرورت ہوتی ہے۔ اس دفعہ بھی ایسا ہی دیکھا گیا ہے۔

2008ء کے بحران کے بعد سے کٹوتیوں اور معاشی حملوں کے تواتر اور تسلسل کے باوجود سرمایہ داری معاشی بحران سے باہر نکلنے کی بجائے ایک نئے زوال کی طرف بڑھ رہی ہے اور نجی مالکان چاہتے ہیں کہ کرونا سے عوام کو محفوظ رکھنے کی غرض سے قومی ریاستیں اپنے وسائل سوچ سمجھ کر ’ضائع‘ کریں تاکہ آئندہ ممکنہ مشکل وقتوں میں وہ تمام وسائل ان کی اپنی نجات کے لیے موجود ہوں۔ موجودہ حکومتیں وسائل کی کمی کا رونا رو کر عوام کوزیادہ سے زیادہ قربانی دینے کے لیے تیار رہنے پر مجبور کر رہی ہیں۔ یہ بات کسی حد تک درست بھی ہے کہ عالمی معاشی بحران کی ایک مسلسل دہائی کے بعد زیادہ ترریاستیں دیوالیہ پن کے دہانے پر پہنچ چکی ہیں اور اگر 2008ء سے قبل اس طرح کا بحران آتا تو شاید زیادہ تر ریاستیں اس کا سامنا کرنے کے لیے بہتر تیاری کر پاتیں۔ مگر اب عوام یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہیں کہ آخر ریاستوں کے دیوالیہ پن کے ذمہ دارکون ہیں؟ مسلسل ایک دہائی معیارِ زندگی اور بنیادی ضرورتوں پر سمجھوتہ کرنے کے باوجود اب پھر موت انہی کے حصے میں کیوں؟ ان کے ہسپتال اور صحت کی سہولیات کون ہڑپ کر چکا؟ قومی ریاستوں کے ساتھ ساتھ اقوامِ متحدہ اور آئی ایم ایف جیسے تمام سامراجی ادارے بھی انہی مالکان کے پالتو غلام ہیں اور وہ بھی تمام وسائل بروئے کار لانے سے کترا رہے ہیں۔ اس کی واضح مثال کرونا بحران سے نمٹنے کے لیے آئی ایم ایف کی طرف سے مختص کی جانے والی رقم ہے۔ صرف 50 ارب ڈالر کی رقم موت کے اس خوفناک حملے کا مقابلہ کرنے کے لیے موت کے منہ میں بلکنے والے دنیا بھر کے غریب عوام کے ساتھ ایک بھونڈا مذاق ہے۔ چین اور جنوبی کوریا کی طرز پر اگر تمام وسائل بروئے کار لائے جائیں تو دنیا بھر سے چند مہینوں نہیں بلکہ ہفتوں میں ہی کرونا کا خاتمہ کرنا ممکن ہے۔ یہ دونوں ریاستیں بھی اپنے مخصوص تاریخی پسِ منظر کے باعث یہ کر پائی ہیں مگر سرمایہ دارانہ بنیادوں پر مزید آئندہ کسی بحران سے نمٹنے کی ان کی گنجائش بھی شاید ختم ہو چکی ہے۔

کرونا بحران دراصل اس بیمار سرمایہ دارانہ نظام کا بحران ہے جس میں محنت کشوں کو علاج معالجے کی سہولیات فراہم کرنے کے لیے پیسے نہیں مگر سرمایہ داروں اور بینکوں کو اربوں ڈالرز کے بیل آؤٹ پیکج دئیے جا رہے ہیں

یاد رہے کہ 2008ء کے بحران کے بعد جب مالیاتی اداروں نے دیوالیہ ہونا شروع کیا تو ان کو دیئے جانے والے بیل آؤٹ کا اگر کرونا بحران سے نمٹنے کے لیے مختص کی گئی رقم سے موازنہ کیا جائے تو اس سماج کی طبقاتی بنیادیں سر تا پا عریاں ہو کر ہمارا منہ چڑانے لگتی ہیں۔ اس وقت کے امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نے 3 اکتوبر 2008 ء کو دیوالیہ ہونے والے بینکوں کے لیے 700 ارب ڈالر کے بیل آؤٹ پیکج کا اعلان کیا تھا جسے بعد ازاں ایمرجنسی اکنامک سٹیبلائزیشن ایکٹ آف 2008ء کے نام سے کانگریس سے منظورکروا لیا گیا۔ چین نے بھی وقت پڑنے پر 582 ارب ڈالر کا یکمشت ایک Stimulus Package دیا تھا۔ باقی ماندہ ریاستوں نے بھی دل کھو ل کر سخاوت کا مظاہرہ کیا تھا۔ عوام کے ٹیکسوں کی یہ رقم ڈکارنے کے باوجودیہ طفیلیے بینکار اپنے مردار نظام کا کوئی ایک مسئلہ بھی حل نہیں کر پائے۔ سونے پر سہاگہ یہ ہے کہ کرونا وائرس کے باعث بحران میں شدت آنے کی بنا پر پھر یہ طفیلیے سرمایہ دار اپنی اپنی ریاستوں سے مزید بیل آؤٹس لے رہے ہیں اور امریکی فیڈرل ریزرو بینک نے 1500ارب ڈالر کے ایک پیکج کا اعلان بھی کر دیا ہے۔ اس کے علاوہ صرف امریکن ایئرلائنز کے مالکان50 ارب ڈالر کے پیکج کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ قوی امکان ہے کہ ٹرمپ ان پر مہربان ہو جائے گا اور اسی طرح دیگر مالکان کی بھی استطاعت سے بڑھ کر معاونت کی جائے گی جبکہ عوام کی بھاری اکثریت کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جائے گا۔ یہ تمام حقائق چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ حال ہی میں اس وبا میں ہلاک ہونے والوں کا قاتل وائرس اصل میں کرونا نہیں بلکہ یہ نجی ملکیت اور اس کی تھانیداری کرنے والی قومی ریاست ہے۔ان دونوں کے خاتمے کی جدوجہد وقت کی اہم ترین ضرورت بن کر سامنے آئی ہے۔

وقت اورحالات نے ایک دفعہ پھر ثابت کر دیا ہے کہ یہ نظام صرف پسماندہ اور تیسری دنیا میں ہی نہیں بلکہ ترقی یافتہ دنیا میں بھی اپنی طبعی عمر پوری کر چکا ہے۔ مملکتِ خداداد میں جمہوریت کو ہرمرض کی دوا قرار دینے والوں کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں اور زمین پر جنت سمجھی جانے والی ریاستوں میں بوڑھی جمہوریت کی اکھڑتی ہوئی سانسیں گننا شروع کر دینا چاہیے۔ اب دنیا کے کونے کونے میں سرمایہ داری کے خلاف جدوجہد اور مزاحمت کو منظم کرنا ہو گا۔ کارل مارکس کے وہی پرانے الفاظ جدید انسانیت کا نصب العین بن کر عالمی سیاست کے گنبد میں گونج رہے ہیں کہ ’دنیا بھر کے محنت کشو ایک ہو جاؤ‘۔ بائیں بازو کے وہ دولے شاہ کے چوہے جو آج بھی بین الاقوامیت کے مارکسی نظریئے کو رد کرکے آج کے عہد میں بھی ہر ملک میں ایک دوسرے سے الگ الگ سوشلزم کی تعمیر کے امکانات کا پرچار کرتے نہیں تھکتے، ان کو کرونا وائرس سے ہی کچھ سیکھ لینا چاہیے۔ آج کے عہد میں گلوبلائزیشن کے بعد دوبارہ جہاں سرمایہ دارانہ بنیادوں پر پروٹیکشنزم پورے نظام کی کایا لپیٹنے کے مترادف ہے وہیں قومی حدود میں سوشلزم کا تصور کرنا بھی مضحکہ خیز ہے۔ یہ محنت کی بین الاقوامی تقسیم ہی تھی جس نے اس کرونا کو چین سے چند ہفتوں میں ہی اٹلی اور پھر امریکہ تک پہنچا دیا اور یہی بین الاقوامی تقسیمِ کار ہی ایک ملک کے بحران کو عالمی بحران بنا رہی ہے۔ اسی کی روشنی میں آج کے عہد کے انقلابیوں کو ایک ملک کی تحریک اور انقلاب کو دیگر خطوں اور ملکوں کی تحریکوں اور انقلابات سے جوڑنے کی ضرورت ہے۔

اس بحران نے ایک جنگ جیسی صورتحال کو جنم دیا ہے اور تاریخ گواہ ہے کہ جنگوں کی کوکھ سے انقلابات جنم لیتے ہیں۔ جونہی چیزیں معمول کی طرف لوٹیں گی دنیا بھر کی طرح یہاں بھی ایک عوامی سرکشی کے امکان روشن ہو جائیں گے۔ ایسے میں انقلابیوں کو محض اپنی بقا کی جنگ ہی نہیں لڑنی بلکہ اس سرکشی کی تیاری بھی کرنی ہے۔

یہ سچ ہے کہ اگر تیسری دنیا میں یہ کرونا تیزی سے پھیل گیا تو مرنے والوں کی تعداد لاکھوں میں بھی ہو سکتی ہے۔ کیونکہ ان ممالک کا سوشل انفراسٹرکچر تقریباً معدوم ہو چکا ہے۔ صحت کا شعبہ یہاں کے حکمرانوں کی کبھی ترجیح نہیں رہا۔ پاکستان کو ہی لے لیجیے۔ پاکستان اسلحے اور فوجی سازو سامان پر خرچ کرنے والا دنیا کا چھٹا یا ساتواں بڑا ملک ہے جبکہ صحت اور تعلیم پر خرچ کرنے میں اس کا136 واں نمبر آتا ہے۔ یہاں کے حکمران طبقات خود تو اپنے سردرد تک کا علاج دوبئی یا لندن سے کراتے ہیں مگر عوام کی بھاری اکثریت کو پیروں، فقیروں اور ملاؤں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتے ہیں۔ پاکستان میں کرونا سے ہونے والی ممکنہ تباہی کا سوچ کر ہی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اٹلی جو اپنے جی ڈی پی کا چھ فیصد سے زائد صحت پر خرچ کر رہا تھا وہاں کرونا متاثرین میں شرحِ اموات چھ فیصد تک جا پہنچی ہے جبکہ پاکستان تو جی ڈی پی کا دو فیصد سے بھی کم صحت پر خرچ کرتا ہے یہاں صورتحال انتہائی تشویشناک ہو سکتی ہے۔ حکمرانوں کا موجودہ رویہ اور بھی تباہ کن ہے اور وہ مسلسل جھوٹ بول کر اپنی نا اہلی پر پردہ ڈالنے کی کوششیں کر رہے ہیں۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی عوام دشمن پالیسیوں کی تباہ کاریاں اب کھل کر اپنا اظہار کر رہی ہیں۔ گزشتہ دو دنوں میں کرونا سے متاثرین مریضوں کی تعداد بہت تیزی سے بڑ ھ رہی ہے۔ بتائی جانے والی تعداد ابھی بھی اصل تعداد سے بہت کم ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ حکومت کے تمام تر جھوٹے اعلانات کے برعکس زیادہ تر مشتبہ مریضوں کی ٹیسٹنگ کی سہولت تک رسائی ہی نہیں ہو پا رہی۔ لوگوں سے ان کی ٹریول ہسٹری پوچھ کر بغیر ٹیسٹ کے ہی واپس بھیجا جا رہا ہے۔ اور نجی شعبے میں ٹیسٹوں کی فیسیں لوگوں کی بھاری اکثریت کی پہنچ سے باہر ہیں۔ سینی ٹائزرز اور سیفٹی ماسک کی قیمتوں میں اضافے کا عالم یہ ہے کہ فوجی اشرافیہ نے بھی اس شعبے میں سرمایہ کاری میں دلچسپی ظاہر کی ہے اور انہیں سینی ٹائزر کی مینو فیکچرنگ کے ٹھیکے دیئے جا رہے ہیں۔ ذخیرہ اندوزوں سے لے کر تاجروں اور صنعتکاروں سے لے کر عسکری کارپوریشنوں تک حکمران طبقے کے تمام نمائندگان اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کے لیے مرے جا رہے ہیں۔ ایران کے بارڈر تفتان پر قرنطینہ میں رکھے جانے والے مریضوں کی حالت جنگی قیدیوں سے بھی زیادہ قابلِ رحم ہے اور وہاں کی جانے والی ٹیسٹنگ کا معیار اتنا خستہ ہے کہ وہاں سے کلیئر ہو کر سکھر پہنچنے والے بہت سے زائرین علامات ظاہر ہونے پر دوبارہ ٹیسٹ کروانے پر مجبور ہوئے تو ان کی رپورٹ پازیٹو تھی۔ دوسری طرف سندھ حکومت اپنے کیے گئے انتظامات کا بہت ڈھنڈورا پیٹ رہی ہے۔ مگر سوشل میڈیا پر اس کے بالکل الٹ حقائق گردش کر رہے ہیں۔ کرونا اصل خطرہ نہیں ہے بلکہ حکمران طبقے کی یہ نا اہلی اور بے حسی ہی وہ اصل وائرس ہے جس کا قلع قمع کیے بغیر انسانیت کے مستقبل کو محفوظ نہیں بنایا جا سکتا۔ حکمران جانتے ہیں کہ وہ خود تمام ریاستی وسائل اپنی حفاظت اور دیکھ بھال کے لیے صرف کر کے اس وائرس کے قہر سے بچ جائیں گے اور بالآخر جتنی بھی جانیں جائیں اس وائرس کی بلا بھی ٹل ہی جائے گی۔ مگر وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ جتنے بھی انسان جان کی بازی ہار جائیں ایک چیز نے ہر صورت میں زندہ رہنا ہے، جو اس سے قبل کئی بار اس سے بھی بڑے بحرانوں سے بھی زندہ سلامت نکل آئی ہے اور وہ ہے بنی نوع انسان۔ اور اب انسان کی بقا سرمایہ دارانہ نظام کی فنا سے مشروط ہوتی جا رہی ہے۔ یہی اس بحران کا سبق ہے۔ اس بحران نے ایک جنگ جیسی صورتحال کو جنم دیا ہے اور تاریخ گواہ ہے کہ جنگوں کی کوکھ سے انقلابات جنم لیتے ہیں۔ جونہی چیزیں معمول کی طرف لوٹیں گی دنیا بھر کی طرح یہاں بھی ایک عوامی سرکشی کے امکان روشن ہو جائیں گے۔ ایسے میں انقلابیوں کو محض اپنی بقا کی جنگ ہی نہیں لڑنی بلکہ اس سرکشی کی تیاری بھی کرنی ہے۔ محض زندہ رہنا ہمارا مقصد نہیں ہے۔ ایسی بے مقصدیت سے مر جانا ہی بہتر ہے۔ صرف سانس لینے اور جبلی تقاضے پورے کرنے کی غرض سے گزاری گئی کئی عشروں پر محیط جانوروں جیسی زندگی کو حقیقی انسانی زندگی بنانے کے لیے جدوجہد اور مزاحمت سے سرشار چند سال ہزاروں درجے بہتر ہیں۔ انسانیت کے روشن مستقبل پر غیر متزلزل یقین کے ساتھ نہ صرف اس کرونا بحران بلکہ اس کے پروردگار سرمایہ دارانہ نظام سے لڑنا ہو گا۔ مایوسی کے بجائے رجائیت، ہیجان کی بجائے استقامت اور پسپائی کی بجائے ثابت قدمی ہی ہمیں اپنے تاریخی فرائض کی تکمیل کے قابل بنا سکتے ہیں۔ ہمیں پورا یقین ہے ہم نہ بھی رہیں اسی نسل سے اس سرمایہ دارانہ نظام کے تابوت میں اخری کیل ٹھونکنے والے ہاتھ اوراس طبقاتی نظام کی تدفین کے بعد فتح مند مارچ کرنے والے پاؤں تیاری کے مراحل میں ہیں۔

Comments are closed.