”عظیم ترتیبِ نو“؛ ورلڈ اکنامک فورم کا اجلاس اور انقلاب سے خوفزدہ حکمران طبقہ

|تحریر: نکلس البن سوینسن، ترجمہ: یار یوسفزئی|

پچھلے چند سالوں سے جاری سیاسی اتھل پتھل نے حکمران طبقے کی ناک میں دم کر رکھا ہے۔ انہیں ایسی احتجاجی لہروں اور عدم استحکام کا سامنا ہے جس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔ وہ اب ریاستی اخراجات اور دیگر رعایتوں کے ذریعے بڑھتی بے تابی کے ساتھ حالات کو معمول پر لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس کا اظہار پچھلے مہینے ورلڈ اکنامک فورم (ایک بین الاقوامی این جی او) کے اجلاس میں دیکھنے کو ملا۔

دنیا کے امیر اور طاقتور افراد سال میں ایک دفعہ ڈیووس (سوئٹزرلینڈ کا ایک قصبہ) کے برف پوش پہاڑوں پر ورلڈ اکنامک فورم کے اجلاس کے لیے جمع ہوتے ہیں۔ اس سال وباء سے مجبور ہو کر یہ اجلاس آن لائن منعقد کیا گیا۔ ظاہر ہے کہ اس آن لائن اجلاس میں 19 ہزار ڈالر کی ٹکٹ میں سوئس ایلپس کے دامن میں منعقد ہونے والے سرکس جیسا مزہ تو نہیں تھا۔ یہ ایک مختصر اور اجلاسِ عام تھا، جس میں پس پردہ گفت و شنید اور تعلقات بنانے کی گنجائش موجود نہیں تھی۔

اس کے باوجود اس اجلاس میں دنیا بھر سے منتخب اور غیر منتخب حکومتی سربراہان سمیت بڑی ملٹی نیشنل کارپوریشنوں کے سی ای اوز نے شرکت کی۔

اس اجلاس کا مرکزی خیال ”عظیم ترتیبِ نو“ (The Great Reset) تھا جو کہ ورلڈ اکنامک فورم کے بانی کلاز شواب کی پچھلے موسمِ گرما میں منظر عام پر آنے والی کتاب سے لیا گیا تھا، جسے برطانوی ولی عہد پرنس آف ویلز، چارلس ونڈسر نے خصوصی مہربانی کرتے ہوئے سپانسر کیا تھا۔ یہ کتاب کافی مشہور ہوئی اور اس نے کئی سازشی تھیوریوں کو بھی جنم دیا، جیسا کہ دائیں بازو کے کئی تجزیہ نگار، جو یہ فیصلہ کرنے سے قاصر تھے کہ یہ نیم فاشزم ہے یا کمیونزم (مثلاً آسٹریلین سکائی نیوز پر روون ڈین کا تجزیہ)۔ بلاشبہ یہ ان دونوں میں سے کچھ بھی نہیں۔

شواب اور اس کے ہم خیال ماحولیاتی تبدیلی اور عدم مساوات جیسے مسائل کو حل کرنے میں ناکامی پر تشویش کا شکار ہیں۔ وہ وباء کو ایک ایسے موقع کے طور پر دیکھتے ہیں جس میں سرمایہ داری کی ”ترتیبِ نو“ کر کے کسی حد تک استحکام کی جانب لوٹا جا سکے۔ وہ خبردار کر رہے ہیں کہ یا تو ہمیں خود (اوپر سے) تبدیلی لانی ہوگی وگرنہ (نیچے سے آنے والی) تبدیلی ہمیں بدل کے رکھ دے گی۔ وہ یوں رقم طراز ہوتا ہے:

”اگر ہم نے اپنے سماج اور معیشت کو لاحق موذی مسائل کا حل نہ کیا تو نتیجتاً اس بات کا خطرہ بڑھ جائے گا کہ تنازعات سے جنم لینے والے شدید جھٹکوں اور حتیٰ کہ انقلابات کے ذریعے دنیا تبدیل ہوکر رہ جائے، جیسا کہ ماضی میں ہوتا رہا ہے۔ یہ ہمارا فریضہ ہے کہ اس پرخطر صورتحال میں فیصلہ کن اقدام اٹھائیں۔ وباء کی وجہ سے ہمیں یہ موقع میسر آیا ہے کہ ’اس دنیا کے بارے میں غور و فکر کر کے اسے نئے سرے سے ترتیب دے سکیں۔“

یہ عالمی حکمران طبقے کے لیے ایک سخت انتباہ ہے کہ اگر وہ اسی ڈگر پر چلتے رہے جس پر وہ 80ء کی دہائی سے رواں دواں ہیں، تو انہیں پر تشدد تنازعات، اور حتیٰ کہ انقلابات کا سامنا بھی کرنا پڑے گا۔ شواب کے مطابق ابھی سدھر جانے کا موقع میسر آیا ہے اور اسے ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہیے۔

ان مسائل کا کیا حل تجویز کیا گیا؟ شواب نے ”سٹیک ہولڈر سرمایہ داری“ کی تجویز پیش کی ہے، جس میں ہمیشہ شیئر ہولڈرز کو ہی ترجیح نہ دی جائے بلکہ اس کے ساتھ تمام سٹیک ہولڈرز کو مدّ نظر رکھا جائے، جس میں ماحولیات، محنت کش اور صارفین شامل ہیں۔ وہ ماحولیاتی ٹیکس، کاروباری ٹیکس، تعلیم اور بڑے پیمانے پر ماحول دوست سرمایہ کاری جیسے اقدامات کی بات کرتا ہے۔

کئی حوالوں سے یہ انہی جذبات کی جگالی کر رہے ہیں جس کا اظہار آئی ایم ایف، اقوامِ متحدہ اور دیگر بین الاقوامی اداروں کی جانب سے کیا جا چکا ہے، کہ وباء سے نمٹنے کے لیے شعبہ صحت میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کے ساتھ ساتھ قرض اٹھا کر بڑے پیمانے پر اخراجات (Deficit Spending) کیے جائیں۔

وباء کے اثرات اور فرائیڈمین سے بے رْخی

پچھلے سال مارچ میں جب وباء پوری طرح پھیل گئی تو حکمران طبقہ بند گلی میں جا کھڑا ہوا۔ ان کے پاس دو راستے تھے؛ یا تو صحت اور سماجی امداد کے شعبہ جات سمیت مہذب سماج کے عکاس دیگر شعبہ ہائے زندگی کو منہدم ہوتا دیکھیں، معیشت کا پہیہ جام ہوجانے کے سبب اور لاکھوں لوگ بے روزگاری کی دلدل میں جا گرتے، یا پھر دیوہیکل قرضے جاری کر کے معیشت کو چلانے کی کوشش کرتے ہوئے ویکسین کا انتظار کیا جاتا۔ آخرکار انہوں نے موخر الذکر راستہ چنا۔

Davos 2021 2 Image Paul Kagame Flickr

سرمایہ داروں نے دھکا لگا کر معیشت کو چلائے رکھا جس کے نتیجے میں بے تحاشہ قرضے اکٹھے ہو چکے ہیں۔

پچھلے ایک سال کے دوران حکومتوں کی جانب سے کیے جانے والے اخراجات کی ماضی میں امن کے عرصے میں کیے جانے والے اخرجات سے کوئی مثال نہیں ملتی۔ یہ رقم 2008-09ء کے بحران کے دوران خرچ کی جانے والی رقم کے دو گنا سے بھی زیادہ ہے۔ بجٹ خسارے اتنے بڑھ چکے ہیں کہ انہیں پورا کرنے کا کوئی امکان نظر نہیں آ رہا۔ رواں سال میں حکومتی قرضے دوسری عالمی جنگ کے اختتام پر موجود قرضوں سے بھی بڑھ کر ریکارڈ سطح پر جا پہنچیں گے۔ مرکزی بینکوں نے کارپوریشنوں اور حکومتوں کو مفلوج ہونے سے بچانے کے لیے کھربوں ڈالر چھاپ ڈالے، جن کا ایک بڑا حصّہ واپس کرنا ممکن نہیں ہوگا۔ اس ڈر سے کہ کہیں غبارہ پھٹ نہ جائے، وہ اس میں مزید ہوا بھرتے جا رہے ہیں۔

یہ تمام مناظر کینیشئین ازم کی جانب ایک واضح جھکاؤ کی عکاسی کرتے ہیں۔ کروگ مین جیسے لوگ اچانک مقبولیت کی بلندیوں پر جا پہنچے ہیں اور یہاں تک کہ ماڈرن مانیٹری تھیوری جیسے یوٹوپیامیں بھی دلچسپی بڑھتی دکھائی دے رہی ہے۔

یہ تبدیلی بڑی معنی خیز ہے۔ کئی دہائیوں سے سرمایہ دار طبقے کی سوچ پر ملٹن فرائیڈمین کے خیالات کا غلبہ رہا۔ اس کے مطابق عظیم کساد بازاری حکومتی بد انتظامی کا نتیجہ تھا اور حکومت کو جتنا ہو سکے، معیشت میں مداخلت سے دور رہنا چاہیے۔ یہ سب سے ”اہم ترین عنصر“ یعنی منافعوں کے لیے بھی انتہائی مفید ہوگا۔ ہمیں بتایا گیا تھا کہ اگر امیر افراد امیر سے امیر تر ہو جائیں گے تو ان کی دولت کا کچھ حصّہ ”چھن چھن کر“ سماج کی غریب پرتوں تک بھی پہنچ سکے گا۔ ظاہر ہے کہ یہ جھوٹ تھا مگر یہ سرکاری جھوٹ تھا جس کا چرچا ہر جگہ پر کیا جانے لگا اور دنیا کے ہر کونے میں موجود معیشت کی کلاس میں اسے پڑھایا جاتا تھا۔ ریاست شیطان تھی اور نجی کاروبار رحمن۔

2008ء میں لیہمن برادرز کے دیوالیہ نے اس خیال پر ایک بڑا سوالیہ نشان کھڑاکردیا۔ اچانک تمام بینک امداد رسانی کے لیے ریاست کی جانب دوڑے چلے جاتے تھے۔ قرض کا مطالبہ جتنا بڑا اور شرمناک ہوتا، اتنا ہی زیادہ امکان ہوتا تھا کہ اسے مان لیا جائے گا۔ بڑے مالیاتی اداروں نے حکومتوں کو یرغمال بنالیا اور خبردار کیا کہ اگر انہیں اربوں ڈالر نہیں دیے گئے تو زوال اور تباہی کا شکار ہو جائیں گے، اور ان کے مطالبات، پورے بھی کردئیے گئے۔ کیسی ’آزاد‘ منڈی ہے یہ!

90ء کی دہائی کے وسط میں جب مانیٹری ازم اور فرائیڈمین اپنے عروج پر تھے، تو ٹیڈ گرانٹ نے ان کی بربادی کی پیش گوئی کی تھی:

”’ہر عمل کا برابر اور متضاد ردِ عمل ہوتا ہے۔‘ اس قانون کا اطلاق صرف فزکس پر ہی نہیں بلکہ سماج پر بھی ہوتا ہے۔ نجکاری کا سلسلہ بالآخر اپنی انتہا کو جا پہنچے گا۔ برطانیہ میں اس کا پہلے ہی آغاز ہو چکا ہے۔ ایک مخصوص مرحلے پر جا کر ریاستی غلبے کا رجحان دھڑلے سے دوبارہ آن وارد ہوگا۔“ (ٹیڈ گرانٹ، سٹالنزم کا زوال اور روسی ریاست کی طبقاتی ساخت)

در اصل، یہ اس حقیقت کا اظہار ہے جس کو مالیاتی منڈیوں نے نظر انداز کیے رکھا تھا، کہ کچھ بینک اتنے بڑے ہیں کہ وہ ناکام نہیں ہو سکتے، اور ریاست (حکومت اور مرکزی بینک) بینکاری نظام کی آخری ضامن ہے۔ دہائیوں سے حکومتیں اور میڈیا میں بیٹھے تجزیہ نگار اس بات پر مصر تھے کہ ہسپتالوں، سکولوں اور بیماری کے لیے رخصت وغیرہ کے لیے پیسے نہیں ہیں۔ اب جب بینکوں کی باری آئی تو اچانک ان کے لیے کھربوں روپے سامنے آ گئے۔

بین برنانکے، جو اس وقت فیڈرل ریزرو کا چیئرمین تھا، نے ایک نجی محفل میں اس بات کا اظہار کیا کہ اس وقت (2008ء بحران کے شروع میں) کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا جو اس کے لیے حیرانگی کا باعث تھا، مگر اس نے یہ بات تسلیم کر لی کہ رد عمل کچھ تاخیر کے ساتھ سامنے آیا، جس کی ابتداء ’آکو پائی وال سٹریٹ‘ جیسی تحریکوں سے ہوئی تھی۔ ابتدا میں محنت کش طبقے کی جانب سے رد عمل سامنے نہ آنے کی وجہ سے حکمران طبقے کو اعتماد ملا کہ مزید بے باکی سے اقدامات اٹھانے کی طرف جائیں۔

2010ء کے بعد سے، جب ابتدائی صدمے کے اثرات ماند پڑنا شروع ہوئے، تو جبری کٹوتیوں کے ذریعے بحران کا تمام تر بوجھ محنت کشوں کے کندھوں پر ڈالنے کے لیے مسلسل کوششیں شروع ہوگئیں۔ ظاہر ہے کہ سرکاری اداروں میں کام کرنے والے محنت کش اس سے زیادہ متاثر ہوئے، مگر نجی شعبہ جات میں کام کرنے والے محنت کشوں پر بھی اس کا شدید اثر پڑا۔ مستقل روزگار کا خاتمہ، پنشنوں اور دیگر مراعات سمیت اجرتوں پر حملے کیے جانے لگے، جس کا نتیجہ میڈیا کی زبان میں ”پاپولسٹ رد عمل“ کی صورت نکلا۔

مارکس وادی اس ساری صورتحال کو کچھ یوں دیکھ رہے تھے؛ 2008ء کے بحران نے پورے سرمایہ دارانہ نظام کو بنیادوں تک لرزاکر رکھ دیا، جس کا آغاز معیشت سے ہوا۔ مشکل معاشی حالات سے نمٹنے کے لیے کمپنیوں اور حکومتوں نے محنت کشوں کے حالاتِ زندگی اور فلاحی ریاست پر حملوں کا آغاز کردیا۔ اس سب نے عوامی احتجاجوں کی لہر در لہر کو جنم دیا، کبھی نہ دیکھا گیا انتخابی عدم استحکام سامنے آیا، ووٹروں نے نئی پارٹیوں کی جانب دیکھنا شروع کردیا اور پرانی پارٹیاں مسترد یا اوپر سے نیچے تک تبدیل ہو کر رہ گئیں۔ یوں، پرانا سیاسی ڈھانچہ ٹوٹ پھوٹ کر بکھرنے لگا۔ بہ الفاظ دیگر معاشی توازن برقرار رکھنے کی کوشش میں سیاسی و سماجی توازن درہم برہم ہوگیا۔ سرمایہ دار طبقے اور ان کے نمائندوں کو آخرکار اپنا کِیا بھگتنا پڑا۔

پچھلے موسمِ گرما میں آئی ایم ایف نے عوامی احتجاجوں کی فہرست جاری کی۔ انہوں نے پہلی دفعہ ایسا کیا تھا، جو ظاہر ہے کہ واقعات کی رفتار کو سمجھنے کی ایک کوشش تھی۔ انہوں نے مختلف زبانوں کے اخبارات کے ایک وسیع ڈیٹا بیس کی بنیاد پر 1980ء کی دہائی سے اب تک کی احتجاجی تحریکوں کے عروج و زوال کی درجہ بندی کی۔ یہ امر قطعی طور پر حیران کن نہ تھا کہ 2019ء کا سال احتجاجی لہروں کی فہرست میں پہلے درجے پر تھا، جو کہ پوری دنیا میں پھیلے ہوئے تھے۔ کم وبیش اس شدت کے احتجاج عرب بہار کے دوران دیکھنے کو ملے تھے مگر ان کی وسعت نسبتاً کم تھی۔

بڑھتا ہوا عدم استحکام

2020ء کے اندر مذکورہ فہرست کی پیش رفت پر تجزیہ کرتے ہوئے آئی ایم ایف نے اکتوبر میں کہا کہ وباء کی وجہ سے احتجاجی لہر کا زور ٹوٹ گیا ہے مگر ان کے خیال میں زیادہ دیر تک ایسا رہنا ممکن نہ ہوگا:

”یہ توقع کرنا معقول ہوگا کہ جیسے ہی کورونا وباء کی شدت میں کمی آئے گی، ان علاقوں میں عدم استحکام دوبارہ نمودار ہوگا جہاں پر پچھلے عرصے میں موجود رہا تھا، یہ سلسلہ محض کورونا بحران کا رد عمل نہیں ہوگا بلکہ اس کی وجہ یہ ہوگی کہ کار فرما سماجی و سیاسی مسائل جوں کے توں موجود ہیں۔ ان جگہوں پر خطرہ زیادہ ہوگا جہاں بحران نے اداروں پر عدم اعتماد، حکومتی نااہلی، غربت اور عدم مساوات جیسے مسائل کو سطح پر اجاگر کیا ہے یا انہیں مزید گھمبیر بنا دیا ہے۔“

مگر 2020ء میں وباء کے باوجود امریکہ میں غالباً تاریخ کے سب سے بڑے احتجاج دیکھنے کو ملے، جب بلیک لائیوز میٹرز تحریک میں لاکھوں لوگوں نے حصہ لیا، اور جس کے مقابلے میں پارلیمنٹ پر دھاوا بولنے والے ٹرمپ کے حامی بہت قابلِ رحم دکھائی دیے۔ اگر 2020ء سیاسی استحکام کے لیے ایک برا سال تھا، جیسا کہ آئی ایم ایف نے کہا، تو آنے والے سال اس سے بھی بد تر ہوں گے۔

حکومتی اداروں پر اعتماد تاریخی کم ترین سطح پر ہے۔ ایڈلمین پی آر (پبلک ریلیشنز کمپنی) کی جانب سے کیے گئے ایک سروے کے مطابق، جس میں 27 ممالک شامل تھے، 57 سے 59 فیصد افراد کا خیال ہے کہ حکومتی و کاروباری سربراہان اور صحافی جان بوجھ کر عوام کو گمراہ کر رہے ہیں۔ مستقبل کے بارے میں گہری بے چینی پائی جاتی ہے، جس کے مطابق 84 فیصد کو روزگار کھو جانے کی فکر لاحق ہے (جن میں 53 فیصد اس حوالے سے خوف کا شکار ہیں)؛ 54 فیصد ان اداروں میں کام کرتے ہیں جہاں پر برطرفیاں کی جا چکی ہیں یا محنت کشوں کی اوقاتِ کار میں کمی کی گئی ہے؛ 56 فیصد کو اس بات کی پریشانی ہے کہ محنت کشوں کی جگہ آرٹیفیشل انٹیلی جنس اور روبوٹس جگہ بناتے جائیں گے اور وباء کی وجہ سے اس عمل میں تیزی آئے گی۔

پچھلے سال، وباء سے پہلے اسی کمپنی نے انکشاف کیا تھا کہ سروے میں شامل 56 فیصد افراد کے نزدیک ”آج سرمایہ داری دنیا کا کچھ بھلا کرنے کی بجائے نقصان زیادہ پہنچاتی ہے“، 74 فیصد کے مطابق نا انصافی کا نظام رائج ہے، 73 فیصد نے تبدیلی کی خواہش ظاہر کی اور 48 فیصد نے کہا ہے کہ ”موجودہ نظام پر میرا اعتماد ختم ہوتا جا رہا ہے۔“

اس بے چینی کا اظہار محض احتجاجوں میں ہی نہیں بلکہ بورژوا سماج کے ریشے ریشے میں سرایت کر چکے عدم اطمینان کا اظہار اب پارلیمانی افق پر بھی ہو رہا ہے۔ رائے عامہ میں تیز رفتار تبدیلیاں اور بڑھتی ہوئی پولرائزیشن کی وجہ سے ہر جگہ پر پارلیمان عدم استحکام کا شکار ہو رہے ہیں۔ مغربی ممالک میں اس کی سب سے بڑی مثال امریکی ریاست کی ہے، جہاں پر کانگریس کے تقریباً 40 فیصد ممبران نے صدارتی انتخابات کے نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور اکثریتی ممبران نے بغاوت کے الزام میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مواخذے کی کوشش کی۔ تاریخ دان موجودہ صورتحال کا امریکی خانہ جنگی سے پہلے کے حالات کے ساتھ موازنہ کر رہے ہیں۔ یعنی وہ عرصہ جو دوسرے امریکی انقلاب پر منتج ہوا۔

1915ء میں، لینن ایک انقلابی صورتحال کے خال و خد بیان کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ:

”جب حکمران طبقے کے لیے اپنا اقتدار بغیر کسی تبدیلی کے برقرار رکھنا مشکل ہو جاتا ہے؛ جب ’اوپری‘ طبقات ایک یا دوسری شکل میں بحران کا شکار ہوں، حکمران طبقے کی پالیسیوں میں بحران؛ یہ سب ایسی دراڑوں کو جنم دیتا ہے، جن سے محکوم طبقات میں مجتمع بے چینی اور غم و غصہ پھٹ کر سطح پر آجاتا ہے۔“ (لینن، دوسری انٹرنیشنل کا انہدام، 1915ء)

وہ بیان کرتا ہے کہ پہلی عالمی جنگ کے دوران یہ عمل کس طرح وقوع پذیر ہوااور یہ بڑی حد تک موجودہ صورتحال سے مماثلت رکھتا ہے:

”ایک (ہمہ گیر) سیاسی بحران موجود ہے؛ ہر حکومت آنے والے کل کی بابت عدم یقینی کا شکار ہے، کوئی بھی مالیاتی انہدام، اپنے علاقے سے ہاتھ دھو بیٹھنے اور اپنے ہی ملک سے بے دخلی (جیسا کہ بیلجیئن حکومت کو نکال باہر کیا گیا) جیسے خطرات سے محفوظ نہیں۔ تمام حکومتیں گویا کسی آتش فشاں کے اوپر سو رہی ہیں؛ وہ خود عوام کو پہل گامی اور جوانمردی کا مظاہرہ کرنے پر اکسا رہے ہیں۔ یورپ کا پورے کا پورا سیاسی نظام بنیادوں تک لرزکر رہ گیا ہے اور شاید ہی کوئی اس بات سے انکار کرے کہ ہم شدید سیاسی اتھل پتھل کے عہد میں داخل ہوچکے ہیں (جس کی شدت میں مزید اضافہ آتا جا رہا ہے؛ اور جب میں یہ سطور لکھ رہا ہوں اس وقت اٹلی کی جانب سے اعلانِ جنگ کیا جا چکا ہے۔)“ (ایضاً)

ظاہر ہے کہ اس وقت جنگ کی وجہ سے بحران انتہائی شدید تھا، مگر آج کے حوالے سے بھی اس قسم کا تجزیہ ممکن ہے۔ یقینا اس حوالے سے بہت کچھ کہا جا چکا ہے کہ وباء والی صورتحال کس طرح جنگ سے مشابہہ ہے، واقعی کسی حد تک یہ موازنہ درست بھی ہے۔ لینن مزید لکھتا ہے:

”آگ بے قابو ہو کر تیزی سے پھیل رہی ہے؛ یورپ کی سیاسی بنیادوں کو ہر روز مزید نقصان پہنچ رہا ہے؛ عوام ہیبت ناک تکالیف میں مبتلا ہیں اور حکومتوں، بورژوازی اور موقع پرستوں کی جانب سے ان تکالیف پر پردے ڈالنے کی ہر کوشش بے کار ثابت ہو رہی ہے۔ سرمایہ داروں کے بعض حصوں نے جنگ سے سفاکانہ حد تک بڑے منافعے کمائے ہیں، اور تضادات کی شدت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ عوام کے اندر سلگتا غصہ، سماج کی پسی ہوئی اور نا سمجھ پرتوں کے اندر مہربان (”جمہوری“) امن کی مبہم سی تڑپ، ’نچلے طبقات‘ میں سر اٹھاتی بے چینی۔۔۔یہ سب زندہ حقائق ہیں۔ جنگ جتنا طول پکڑتی جائے گی، اتنی ہی شدید سے شدید تر ہوتی جائے گی، اور اتنا ہی خود حکومتیں عوام کے آنے والے رد عمل کی شدت میں اضافے کا باعث بھی بنیں گی، جن سے وہ غیر معمولی کوششوں اور جانثاری کا مطالبہ کر رہی ہیں۔“ (ایضاً)

آج کی صورتحال بھی کچھ زیادہ مختلف نہیں ہے، مگر ترقی یافتہ ممالک کے اندر عوام اس قسم کی شدید تکالیف میں ابھی مبتلا نہیں ہوئے۔ اس کی وجہ دراصل ایک ہی ہے؛ حکمران طبقہ وباء کی شروعات سے ہی اس بات کو سمجھ رہا تھا کہ اس صورتحال میں طبقاتی جدوجہد کی شدت میں ایسا اضافہ ہوگا جو ماضی میں کبھی دیکھنے میں نہیں آیا۔ چنانچہ، ان کے لیے یہ سیاسی طور پر ممکن نہ تھا کہ بغیر کسی امداد کے بے روزگاری کے عفریت کو سر اٹھانے دیں، اگرچہ یہ ان کے لیے غیر منافع بخش ہی کیوں نہ ہو۔

اخراجات کرنے کی تلقین

اس کے بعد پورے سیاسی منظر نامے میں ڈرامائی تبدیلی نظر آئی۔ دیکھتے ہی دیکھتے حکومت بڑا خوش کن لفظ بن گیا۔ بلکہ یہاں تک کہا گیا کہ ان تمام قوانین کو پھاڑ کر پھینک دیا جائے جو کہ 80ء کی دہائی سے ایک نسخہ کیمیا بنا کر پیش کیے جاتے رہے۔

کیا غیر معمولی صورتحال دیکھنے کو ملی تھی کہ ٹرمپ اور ریپبلیکنز نے امریکی ریاست میں دہائیوں کا سب سے بڑا فلاحی منصوبہ پیش کیا۔ امریکی ریاست کی جانب سے دیا جانے والا بے روزگاری الاؤنس ایک لمبے عرصے سے شرمناک حد تک کم تھا، مگر اس کے ساتھ وفاق کی جانب سے ملنے والے امدادی 6 سو ڈالر فی ہفتہ کا مطلب یہ تھا کہ کام کرنے کی بجائے بے روزگار رہنے میں زیادہ عافیت ہے۔ یہ بات ان کے مالکان پر سخت گراں گزری جو محنت کشوں کے حالات کا فائدہ اٹھا کر انہیں کم اجرتیں قبول کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔ اسی طرح، تمام شہریوں کو دئیے جانے والے 12 سو ڈالر کے امدای چیکس سے کارپوریٹ سیکٹر کو دئیے جانے والے دیوہیکل امدادی پیکج کی پردہ پوشی مقصود تھی۔

Joe Biden Image US Sec Defence Flickr

ڈیووس میں سب سے بڑا سوال یہ تھا ”آؤ، پہلے سے بہتر تعمیر کریں“، جیسے بائیڈن کی مہم میں کہا گیا۔ دوسرے الفاظ میں انقلاب سے بچنے کیلئے ریاست کو بھرپور مداخلت کرنی ہوگی۔

اس عرصے کے دوران غیر متوقع حلقوں کی جانب سے بیل آؤٹ پیکجز کی حمایت کی گئی، جیسا کہ سینیٹر پیٹ ٹومی، جس نے 2009ء میں سٹیمولس پیکج (Stimulus Package) کی مخالفت کی تھی اور اب ٹیکسوں میں تفریق اور آئی آر ایس (امریکی ریاست کا ٹیکس جمع کرنے والا وفاقی ادارہ) کو ہی ختم کرنے کے حق میں ہے۔ اس نے کہا کہ: ”یہ غیر متوقع صورتحال میں ایک ضروری اقدام سمجھا جانا چاہیے، نہ کہ کوئی ایسا کام جسے معمول کے حالات میں بھی کیا جائے۔“

موجودہ صورتحال سے کس طرح نمٹا جائے، اس سوال کی بجائے جو سوال اس سال ڈیووس میں زیر بحث رہا وہ یہ تھا کہ وباء کے ختم ہوجانے کے بعد انہی خطوط پر کیسے آگے بڑھا جائے۔ جیسا کہ بائیڈن کی صدارتی مہم کا نعرہ بھی تھا، ”آؤ، پہلے سے بہتر تعمیر کریں“۔

سٹیو بینن، جو اپنے تئیں ایک زیرک سیاسی تجزیہ نگار ہے، نے پچھلے سال کے موسمِ بہار میں نشاندہی کی تھی کہ کورونا وائرس نے چیزوں کو تبدیل کر دیا ہے:

”ایک وقت میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا سیاسی استاد رہنے والے سٹیو بینن نے اوہائیو کے ایک سینیٹر، جو حکومتی منصوبوں کی توسیع اور وفاقی قرضوں کے خلاف لڑتا رہا، کو مخاطب کرتے ہوئے کہا، ’رابرٹ ٹیفٹ کا دور، محدود حکومت کی کنزرویٹیو پالیسی؟ یہ ممکن نہیں۔ یہ مزید ممکن نہیں رہا۔“‘ (وال سٹریٹ جرنل، 26اپریل2020ء)

ڈیووس میں بھی اسی قسم کا رویہ دیکھنے کو ملا۔ مثال کے طور پر فورڈ فاؤنڈیشن کا صدر ڈیرن واکر، جس نے ماضی میں ملٹن فرائیڈمین کے خیالات کا پرچار کرتے ہوئے شہرت حاصل کی تھی۔ اس نے کہا کہ ورلڈ اکنامک فورم کے شرکاء دنیا کے سب سے عظیم سرمایہ دار ہیں، جس سے اس کا مطلب سرمایہ داری کے حامی ہیں۔ اس کا کہنا تھا کہ وہ اس لیے سرمایہ دار ہے کیونکہ کہ وہ سرمایہ داری پر یقین رکھتا ہے، مگر: ”اگر سرمایہ داری کو برقرار رکھنا ہے تو ہمیں ملٹن فرائیڈمین کے خیالات کو مکمل طور پر ترک کرنا پڑے گا۔“

فنانشل ٹائمز کے مرکزی معاشی تجزیہ نگار، مارٹن وولف نے بائیڈن کے حوالے سے کچھ اسی قسم کے خیالات کا اظہار کیا:

”اگر بائیڈن حکومت وہ اہلیت ثابت کرنے میں کامیاب ہو جائے جس کے بارے میں لوگوں نے ان کے اوپر اعتماد کیا ہے تو مطلوبہ تبدیلی اب بھی رونما ہو سکتی ہے۔ اس حکومت کا فرض بنتا ہے کہ رونلڈ ریگن کے اس مشہور قول کو غلط ثابت کرے کہ ’انگریزی زبان کے خوفناک ترین نو الفاظ یہ ہیں: میں حکومت کی جانب سے مدد کرنے آیا ہوں‘۔ ایک معقول اور بہتر جمہوری حکومت پر اعتماد کرنے سے آزادی کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہوگا، بلکہ یہ آزادی کی اہم ضمانتوں میں سے ایک ہے۔“

یہ سمجھنا کوئی مشکل کام نہیں کہ غریبوں کی حالت زار کی جانب اس نئی توجہ کی وجہ کیا ہے۔ ڈیووس اجلاس کے دوران کوکا کولا کے سی ای او جیمز کوینسی نے نشاندہی کی کہ کاروباری سربراہان کو معیشت ایسے انداز میں تشکیل دینی چاہیے جو ”سب کے لیے کام کرے“۔ پے پال کے صدر ڈین شلمان نے سوال اٹھایا کہ:

”ہم کسی سے اس جمہوریت کو قبول کرنے کی توقع کس طرح کر سکتے ہیں جبکہ ان کے خیال میں یہ نظام ان کے لیے کام نہیں کر رہا؟۔۔۔کاروبار سے وابستہ ہونے کے ناطے ہمارا فریضہ ہے کہ آگے بڑھیں اور سرکاری شعبہ جات کے ساتھ مل کر کام کریں، اور ان تمام برادریوں کے ساتھ مل کر کام کریں جن کی ہم خدمت کرتے ہیں۔“

در حقیقت اس کا مطلب یہ تھا کہ: بورژوازی اس بات کی توقع کس طرح کر سکتی ہے کہ عوام انقلاب کرنے سے باز آئیں گے جبکہ موجودہ معاشی نظام انہیں تکالیف کے علاوہ اور کچھ نہیں دیتا؟

روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے موجودہ دور اور 1930ء کی دہائی کے بیچ مماثلت کے حوالے سے خبردار کیا، خاص کر عدم مساوات کے حوالے سے، اور کہا کہ نا برابری کی وجہ سے دائیں اور بائیں بازو کی انتہا پسندی، اور شدت پسند تحریکوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ حکومتوں کو جن مشکلات کا سامنا ہے، ان سے پیوٹن بھی کافی واقف ہے، جس کی شہرت میں خود تیز رفتار کمی آئی ہے اور اقتدار میں رہنے کے لیے اس کا انحصار دھوکہ دہی اور پولیس کے اوپر بڑھتا جا رہا ہے۔

کچھ عرصے سے وارن بوفے جیسے لوگ، جو دنیا کے امیر ترین افراد میں سے ایک ہے، امیروں پر ٹیکس لگانے کے حق میں باتیں کر رہے ہیں۔ 2017ء میں جب ٹرمپ نے کارپوریشن ٹیکس میں کمی کی تو اس نے شکوک و شبہات کا اظہار کیا۔ 2018ء میں اس نے ٹائم میگزین کے ایک شمارے میں، جس کو بل گیٹس نے خصوصی طور پر ایڈیٹ کیا تھا، اسی قسم کے خیالات کا اظہار کیا:

”بہرحال منڈی کے نظام نے بہت سے لوگوں کو نا امیدی میں پیچھے دھکیل دیا ہے، خاص طور پر شعبہ جاتی تخصیص کے بڑھنے سے۔ ان تباہ کن اثرات کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے۔ ایک امیر خاندان میں سارے بچوں کا خیال رکھا جاتا ہے، نہ کہ صرف ان کا جو منڈی میں اپنا ہنر منوا سکنے کے قابل ہوں۔“

مارٹن وولف نے حالیہ عرصے میں بالکل انہی جذبات کا اظہار کیا تھا:

”حکومتوں کو اخراجات کرنے پڑیں گے۔ مگر دھیرے دھیرے ان کو اپنا دھیان امداد سے ہٹا کر پائیدار بڑھوتری پر بھی مرکوز کرنا ہوگا۔ اگر ٹیکس میں اضافہ ناگزیر ہوجائے تو اس کا بوجھ فاتحین پر ڈالا جائے۔ یہ ایک سیاسی ضرورت ہے۔ یہی درست ہے۔“ (فنانشل ٹائمز، 20 اکتوبر 2020ء)

یہ سماج میں بڑھتا ہوا عدم استحکام ہی ہے جو عالمی قائدین کو اپنے خیالات پر نظر ثانی پر مجبور کر رہا ہے۔ مارٹن وولف نے صحیح کہا کہ ”یہ ایک سیاسی ضرورت ہے“۔ ”جمہوریت“، یعنی سرمایہ داری پر اعتماد میں آنے والی ڈرامائی کمی نے بورژوازی اور میڈیا میں بیٹھے ان کے نمائندگان کو خاصی پریشانی میں مبتلا کر رکھا ہے۔ ”عظیم ترتیبِ نو“ کا اولین مقصد یہی ہے کہ سرمایہ داری کے اوپر یقین کو دوبارہ بحال کیا جائے۔

خیالی پلاؤ

اقوامِ متحدہ کے جنرل سیکرٹری نے کہا کہ ہمیں ایک ”نئے سماجی معاہدے“ کی ضرورت ہے:

”۔۔۔تاکہ لوگ ایک باعزت زندگی گزار نے کے قابل ہوسکیں۔ حکومتوں، عوام، سول سوسائٹی، کاروباروں اور دیگر پرتوں کے بیچ ایک نئے سماجی معاہدے کے ذریعے روزگار میں اضافہ، ترقی میں استحکام، اور سماجی حفاظت کی ضمانت ملے گی، جس کی بنیاد سب کے لیے برابر حقوق اور یکساں مواقع پر رکھی جائے گی۔“

ان کے لیے بری خبر یہ ہے کہ یہ خواہشات خیالی پلاؤ کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔ بلاشبہ، فی الحال کچھ رعایتیں دی جانے لگی ہیں۔ بائیڈن نے امریکہ میں وفاقی سطح پر کم از کم اجرت 15 ڈالر فی گھنٹہ مقرر کرنے کے حوالے سے کافی شور مچایا ہوا ہے، مگر 2026ء میں جا کر ایسا ممکن ہوسکے گا اور وہ یہ بہانہ بھی باآسانی بنا سکتا ہے کہ کانگریس اس اقدام کو رد کردے گی۔ اسی طرح، برطانوی کنزرویٹیو پارٹی نے کوربن کے بہت سے منصوبوں کو اپنا لیا ہے، مثلاً معاشی سٹیمولس کے حوالے سے۔

Davos 2021 Image Paul Kagame Flickr

ان کا کہنا ہے کہ ہمیں ”نئے سماجی معاہدے“ کی ضرورت ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ یہ خیالی پلاؤ ہے۔

اس سب کے باوجود، جہاں ایک جانب یہ اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں، تو وہاں دوسری طرف ہوٹلوں، ٹرانسپورٹ اور صنعتوں میں بڑے پیمانے پر جبری برطرفیوں کی تیاری کی جا رہی ہے، اور بڑی کمپنیاں لیبر قوانین پر شدت کے ساتھ حملہ آور ہو رہی ہیں۔ یہ کمپنیاں مسابقت کی خاطر مشینری میں سرمایہ کاری کرنے کی بجائے شرائط و ضوابط میں تبدیلیاں کر رہی ہیں، اور اس طرح محنت کشوں کو ایک دوسرے کے خلاف صف آرا کر رہی ہیں۔ محنت کشوں کی جانب سے یہ سوال اٹھایا جائے گا کہ یہ کس قسم کا ”نیا سماجی معاہدہ“ ہے، جبکہ ہماری اجرتوں میں 20 فیصد یا اس سے بڑھ کر کٹوتیاں کی جا رہی ہیں۔

”عظیم ترتیبِ نو“ میں ماحول دوست سرمایہ کاری کے منصوبوں پر بھی بحث کی گئی، جس کی جانب آج کل ایک بڑا رجحان پایا جاتا ہے۔ برطانوی وزیراعظم بورس جانسن نے ”ماحول دوست صنعتی انقلاب“ (لیبر پارٹی کے 2019ء کے منشور سے اخذ کیا گیا نام) کے لیے 12 ارب پاؤنڈ مختص کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق بائیڈن حکومت قابل تجدید توانائی کے منصوبوں میں 2 ہزار ارب ڈالر سرمایہ کاری کا ارادہ رکھتی ہے۔ یورپی یونین کے 18 سو ارب ڈالر بحالی فنڈ کا ایک بڑا حصّہ ماحول دوست سرمایہ کاری پر لگایا جائے گا۔

وہ سب ایک ہی قسم کی زبان استعمال کر رہے ہیں، ”تعمیرِ نو“، ”عبوری مرحلہ“ وغیرہ۔ مگر اس میں کوئی شک نہیں کہ اس عبوری مرحلے کے بعد ہم وہیں پر کھڑے ہوں گے جہاں سے شروع کیا تھا، یعنی سرمایہ دارانہ بحران کے عین بیچ۔ کیونکہ 2 ہزار ارب ڈالر لگانے کے بعد بھی نہ معاشی بحران حل ہو پائے گا اور نہ ہی ماحولیاتی بحران۔

اصلاح پسند سیاستدان ان منصوبوں کی حمایت میں اب ایک دوسرے سے سبقت لے جا نے کی دوڑ میں ہیں۔ سینڈرز اور بائیں بازو کے دیگر ڈیموکریٹس کی جانب سے بائیڈن کی جانب روا رکھا جانے والا رویہ معنی خیز ہے اور انہیں لگ رہا ہے کہ وہ بحث جیتنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ البتہ وہ اس بارے میں غلط فہمی کا شکار ہیں۔ در حقیقت، حکمران طبقہ نچلی پرتوں کی جانب سے دباؤ کو محسوس کر رہا ہے۔ وہ آتش فشاں پھٹنے سے قبل کے جھٹکوں کو محسوس کر رہے ہیں۔ سچ یہ ہے کہ حکمران طبقہ سیاسی صورتحال کو معمول پر لانے کے لیے بے تاب ہے، اور ایسا کرنے کے لیے ان کے پاس کچھ رعایتیں دینے کا راستہ ہی بچا ہے۔

ستم ظریفی تو دیکھیے کہ ٹوری پارٹی والے لیبر پارٹی پر الزام لگایا کرتے تھے کہ وہ ”جادوئی درخت پر یقین رکھتے ہیں جس پر پیسے لگتے ہیں“۔ اب وہ سارے خود ہی اس پر ایمان لے آئے ہیں۔ مرکزی بینکاروں سے لے کر تمام سامراجی حکومتوں تک، سب کے سب اپنے عمل میں ماڈرن مانیٹری تھیوری (ایم ایم ٹی) کے پیروکار بن گئے ہیں۔ یعنی وہ نوٹ چھاپ چھاپ کر حکومتی اخرجات پورے کر رہے ہیں، اور اس عمل سے جنم لینے والے مسائل کے حوالے سے ان کے پاس کوئی منصوبہ نہیں۔ ایم ایم ٹی کے حامی بھی بالکل ایسا ہی سوچتے ہیں، ان کے مطابق بجٹ خسارے کے حوالے سے پریشان ہونے کی ضرورت اس لیے نہیں ہے کیونکہ ریاست پیسے تخلیق (چھاپ) کرکے اس کو پورا کر سکتی ہے۔

امریکی ریاست کے ایک فیڈرل ریزرو بینک کے چیئرمین سے بلومبرگ نے سوال کیا: ”کیا آپ سب ماڈرن مانیٹری تھیوری کے پیروکار بن گئے ہیں؟“ اس نے جواب دیا کہ ’نہیں‘، مرکزی بینکاروں کا خیال ہے کہ ایسا محض بحران کے دور میں کیا جا سکتا ہے، یا جیسا کہ پیٹ ٹومی نے کہا کہ ”غیر متوقع حالات“ کے پیشِ نظر ایسا کرنا پڑسکتا ہے۔

بہرحال بات دراصل یہ ہے کہ وہ مقداری آسانی (Quantitative Easing) کے ذریعے پچھلے 12 سالوں سے پیسے چھاپ رہے ہیں۔ خصوصی حالات میں لیے جانے والا قدم معمول کی بات بن چکی ہے۔ سوال یہ ہے کہ وہ کب تک ایسا کرنے کے قابل ہیں؟ نو منتخب امریکی وزیرِ خزانہ جینیٹ ییلن جب ماضی میں کلنٹن حکومت کے لیے کام کرتی تھی تو وہ بجٹ توازن برقرار رکھنے کے حق میں تھی۔ اس وقت ریاستی قرض جی ڈی پی کا تقریباً 50 فیصد بنتا تھا۔ اب وہ کہہ رہی ہے کہ قرض اگر جی ڈی پی کے 100 فیصد تک پہنچ جائے، جیسا کہ حالیہ عرصے میں ہوا ہے، تو اسے برقرار رکھا جا سکتا ہے، البتہ 200 فیصد کے بارے میں وہ اس طرح سے نہیں سوچتی۔ سچ تو یہ ہے کہ وہ مکمل طور پر لا علم ہے۔ یہ بات تو واضح ہے کہ ہمیشہ کے لیے ایسا نہیں چل سکتا۔ بغیر کسی سنجیدہ کٹوتیوں کے، 15 فیصد بجٹ خسارے کے ساتھ ریاستی قرضوں کو جی ڈی پی کے 200 فیصد تک پہنچنے میں محض دس سال درکار ہوں گے۔

غیر مستحکم

بلاشبہ حقیقت یہی ہے کہ اس عمل کی آخری حد کو کوئی نہیں جانتا۔ اس حوالے سے کوئی حتمی حد وجودنہیں رکھتی۔ ہر ایک ملک کے لیے یہ حد مختلف ہوگی، کیونکہ ان کا انحصار عالمی سطح پر اپنی متناسب قوت اور خاص کر مالیاتی سرمائے کے اوپر ہوگا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ امریکہ اور یورپ یہ سلسلہ پاکستان یا برازیل سے زیادہ عرصے تک جاری رکھ سکتے ہیں۔ اسی طرح چین، تھائی لینڈکے مقابلے میں زیادہ عرصے تک یہ سلسلہ جاری رکھ سکتا ہے، وغیرہ وغیرہ۔ در حقیقت، نسبتاً بہت کم ممالک ایسے ہیں جو اس عمل کے ذریعے زیادہ دیر تک چل سکتے ہیں۔ دنیا کی بیشتر حکومتوں کے لیے تو یہ آپشن ہی موجود نہیں ہے۔

اس صورتحال کو صرف اسی صورت میں زیادہ دیر تک برقرار رکھا جا سکتا ہے اگر افراطِ زر میں اضافہ اور شرحِ سود کو تاریخی کم ترین سطح پر رکھا جائے۔ اگر مقدارِ زر میں اضافہ ہوتا رہا تو مرکزی بینک شرحِ سود بڑھانے پر مجبور ہوں گے، جس کی وجہ سے ان دیوہیکل قرضوں کے بوجھ کو اٹھائے رکھنا مشکل ہو جائے گا۔ جیسا کہ آئی ایم ایف نے حالیہ عرصے میں نشاندہی کی تھی کہ:

”تاریخ سے ہمیں سبق ملتا ہے کہ متعدد بحرانوں کا آغاز سالوں تک کم افراط زر اور شرح سود کے سلسلے کے بعد ہوا، اور یہ کہ منڈی سے لگائی گئیں توقعات بہت تیزی کے ساتھ ختم ہو سکتی ہیں اور محض کچھ ہی مہینوں کے اندر بعض ممالک کے لیے مالیاتی منڈیوں کے دروازے بند ہو سکتے ہیں۔“

مطلب یہ کہ سب کچھ بہتر اور قابلِ استحکام نظر آ رہا ہوگا، جب تک کہ ایسا نہیں رہے گا۔ یاد رہے کہ یونانی قرض کا بحران 2008ء میں نہیں بلکہ بحران کے کچھ سالوں بعد شروع ہوا۔ جب تک مرکزی بینک حکومتی قرضے اٹھاتے رہیں گے، تب تک نقصان کا خطرہ کم رہے گا، مگر اس عمل سے محض حکومتی بوجھ مرکزی بینکوں کے کندھوں پر منتقل ہوگا۔ حکومتیں، مرکزی بینکار اور تجزیہ نگار، سارے یہ امید لگائے بیٹھے ہیں کہ تباہی آنے سے پہلے وہ اس صورتحال سے نکل جائیں گے، مگر سرمایہ داری کی تاریخ سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ محض دیوانے کا خواب ہے۔

کچھ تجزیہ نگار ابھی سے ہی خطرے کی گھنٹیاں بجا رہے ہیں، جن میں اوباما دور کا وزیرِ خزانہ لیری سمرز بھی شامل ہے، جو سالوں سے طویل مدتی جمود (Secular Stagnation) کے بارے میں خبردار کرتا رہا ہے۔ اب وہ اس پریشانی کا اظہار کر رہا ہے کہ ’سٹیمولس پیکجز سے ایسا افراطِ زر سامنے آئے گا جسے پچھلی نسلوں نے نہیں دیکھا‘۔ آئی ایم ایف کے سابقہ سربراہ اولیور بلینچارڈ نے بھی اس قسم کی تشویش کا اظہار کیا ہے، جس نے خبردار کیا کہ بائیڈن کے 1.9 ٹریلین مالیت کے پروگرام سے اتنا افراطِ زر سامنے آئے گا کہ اس سے پیداواری عمل پر منفی اثرات پڑیں گے۔ سرمایہ داری جیسے غیر منصوبہ بند معیشت کے حوالے سے کوئی واضح حد متعین کرنا مشکل ہے کہ اس کے بعد منفی اثرات سامنے آنے لگ جائیں گے۔

اس کا ایک اور پہلو بھی ہے۔ جوں جوں مزید رعایتیں دی جائیں گی، خصوصاً جدوجہد کے نتیجے میں، ویسے ویسے محنت کش طبقے کو اپنے مطالبات کے لیے لڑنے کی مزید ہمت ملے گی۔ یہ ایک دلچسپ بات ہے کہ اوپر دیے گئے اعتماد والے سروے میں 50 فیصد برسر روزگار افراد کا کہنا ہے کہ وہ اپنے مطالبات کے لیے آواز بلند کرنے اور کام کی جگہ پر احتجاج میں شریک ہونے کے حوالے سے پچھلے سال کی نسبت زیادہ پر اعتماد ہیں۔ یہ اس کے باوجود ہو رہا ہے جبکہ انہیں روزگار کھونے کا ڈر بھی ہے۔

حکمران طبقے کے سامنے بڑی کٹھن آپشنز ہیں۔ اگر وہ جارحانہ طریقہ اپناتے ہوئے محنت کشوں کے کندھوں پر بحران کا بوجھ ڈال دیں، تو پہلے سے ابتر سیاسی صورتحال تیز رفتاری سے مزید بگڑ سکتی ہے۔ دوسری جانب اگر وہ مطالبات مانتے جائیں گے تو محنت کشوں کو مزید مطالبات منوانے کی جرات ملے گی، اور مطالبات کو عارضی طور پر تسلیم کر کے بھی انہیں آسانی سے ختم نہیں کیا جا سکتا۔ جیسا کہ ملٹن فرائیڈمین نے کہا تھا کہ ”ایک عارضی حکومتی پروگرام سے زیادہ مستقل کوئی چیز نہیں۔“ امریکی ریاست کے بے روزگاری الاؤنس پر بحث مباحثے دیکھ کر اس بات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

مزید برآں، کسی بھی حکومت کے پاس اس قسم کے منصوبوں کے لیے پیسے نہیں ہیں۔ ہر حکومت کو قرضہ لینا پڑے گا، اور وہ تب تک قرض لے پائیں گے جب تک مرکزی بینک نوٹ چھاپتے رہیں گے۔ یہ ایک ایسی تباہی ہے جس سے بچنا ممکن نہیں۔ ’عظیم ترتیبِ نو‘ دراصل معاشی توازن کے بلبوتے پر سیاسی توازن بحال کرنے کی ایک کوشش ہے۔

قصہ مختصر یہ کہ حکومتی اخراجات کے ذریعے بحران کو حل نہیں کیا جا سکتا، اس سے وہ محض تاخیر کا شکار ہوگا۔ سرمایہ دارانہ معیشت کی بنیاد منافع خوری ہے۔ اگر بڑی بڑی کارپوریشنز اپنے کارخانوں میں بنائی جانے والی مصنوعات کو فروخت کرنے کی اہل نہ ہوں تو وہ نئے کارخانے نہیں لگائیں گے۔ اگر ہوٹلوں کے کمرے خالی پڑے ہوں تو مالکان مزید ہوٹل نہیں بنائیں گے۔ دیوہیکل سرمایہ کاری کے ذریعے زائد پیداواری صلاحیت کے مسئلے کو حل نہیں کیا جا سکتا۔

عالمی معیشت کے لیے دیوہیکل قرضے ایک بھاری بوجھ بنتے جا رہے ہیں، مزید قرضوں سے آنے والی بربادی محض تاخیر کا شکار ہوگی، جیسا کہ دہائیوں سے کیا جا رہا ہے۔ موجودہ صورتحال سرمایہ دارانہ نظام کی ناکامی اور ’آزاد منڈی‘ کی حقیقت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

کچھ عرصے تک کے لیے ’عظیم ترتیبِ نو‘ اور اس قسم کے دیگر خیالات حکمران طبقے کے دل و دماغ پر چھائے رہیں گے۔ انہیں اپنے لیے کچھ وقت درکار ہے تاکہ سیاسی صورتحال کو مستحکم بنایا جا سکے۔ البتہ یہ اقدامات اس غیض و غضب کو روکنے کے لیے ناکافی ہیں جس کو انہوں نے بھڑکایا ہوا ہے، اور رعایتیں برتنے سے وہ بڑے پیمانے پر محنت کشوں کو یہ پیغام دیں گے کہ لڑنے کا صلہ ملتا ہے۔ جب اس قسم کی حکمتِ عملیوں کی گنجائش باقی نہیں رہے گی تو وہ آسٹیریٹی اور کٹوتیوں کی طرف لوٹنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ چنانچہ یہ ثابت ہو جائے گا کہ سرمایہ داری میں رہتے ہوئے محنت کشوں کے پاس نجات کا کوئی راستہ نہیں۔

یہ ستم ظریفی ہے کہ معیشت کو چلانے کے لیے ریاستی مداخلت کی ضرورت پڑ رہی ہے، جو سرمایہ داری کی ناکامی کا واضح ثبوت ہے۔ جدید سرمایہ داری ریاست کی مرضی کے مطابق نہیں چل سکتی، جیسا کہ ماڈرن مانیٹری ازم پر یقین رکھنے والوں کا ماننا ہے، اس کے باوجود اس کا ماضی کی نسبت ریاست کے اوپر زیادہ انحصار ہے۔ جیسا کہ ٹیڈ گرانٹ نے نشاندہی کی تھی کہ ریاستی تسلط کا مطلب یہ ہے کہ پیداواری قوتوں نے سرمایہ دارانہ نظام کی حدود سے تجاوز کر دیا ہے، اور صرف منافع کے مقصد کو ہٹا کر ہی انسانی ترقی ممکن ہے۔

Comments are closed.