واپڈا کے محنت کشوں کی اموات کا ذمہ دار کون؟

|رپورٹ: ریڈ ورکرز فرنٹ، لاہور|

محنت کشوں کے عالمی دن سے ایک روز قبل30 اپریل کو شیخوپورہ کی وارث شاہ سب ڈویژن کے لائن مین لالہ مشتاق کی کام کے دوران حادثاتی موت واقع ہوئی جس کو GSO اور آپریشن سٹاف کی غلطی بنا کر پیش کیا جا رہا ہے جبکہ اس سے پہلے بھی لگ بھگ 15 ہزار واپڈا ورکرز اسی قسم کے حادثات کی وجہ سے لقمہئ اجل بن چکے ہیں جن میں آپریشن سٹاف، لائن مین، اسسٹنٹ لائن مین، جی ایس او اور میٹر سیکشن کے ورکرز شامل ہیں۔ان شہادتوں کا جائزہ لینا انتہائی اہم ہے تاکہ اصل وجوہات کو سمجھا جا سکے اور ذمہ داران کا پردہ چاک کیا جاسکے۔

اب تک دوران کام حادثات اور حفاظتی سامان کی عدم دستیابی کے باعث واپڈا کے 15ہزار محنت کش اپنی جانیں گنوا چکے ہیں

یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ واپڈا کے اعلیٰ افسران، حکومتِ پاکستان اور ٹریڈ یونین قیادتوں کو ان اموات کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔ جب بھی کوئی حادثہ رونما ہوتا ہے تو اس کو انفرادی غلطی بنا کر پیش کیا جاتا ہے اور تمام حقائق سے آنکھیں چرا کر ان پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی جاتی ہے اور یہ بتایا جاتا ہے کہ ورکرز نا اہل اور کام چور ہیں، ان کی جلد بازی اور بے دھیانی اور حفاظتی تدابیر پر عمل پیرا نہ ہونے کی وجہ سے ایسے حادثات ہوتے ہیں۔ ان حادثات پر کمیٹی بنا کر سارا ملبہ فیلڈ میں کام کرنے والے ورکرز پر ڈال دیا جاتا ہے۔ آئے دن سیفٹی سیمینار منائے جاتے ہیں اور یہاں تک کہ شہادت ڈے بھی منا لیا جاتا ہے لیکن شہادتیں ہیں کہ کم ہونے کی بجائے بڑھتی چلی جا رہی ہیں۔ ان اموات کا حقیقی ذمہ دار کون ہے؟ ریڈ ورکرز فرنٹ (RWF) اپنا فرض سمجھتا ہے کہ ورکرز کی حادثاتی اموات کی اصل وجوہات سے پردہ اٹھایا جائے۔

1۔ سٹاف کی کمی

واپڈا ڈسٹری بیوشن سسٹم کا پھیلاؤ بڑھتا جارہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ پرانا اور نا کارہ ہونے کی وجہ سے فالٹ کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے۔ کئی سالوں سے کام کرنے والے لوگ ریٹائر ہو رہے ہیں لیکن نئی بھرتیاں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ فیلڈ میں سے ورکرز کو نکال کر دوسرے دفاتر سے منسلک کر دیا جاتا ہے جس سے سٹاف مسلسل کم ہو رہا ہے اور فی ورکر کام کا بوجھ بڑھتا جا رہا ہے جو ان حادثات کی بڑی وجہ ہے۔

2۔حفاظتی سامان کی کمی اور غیر معیاری سامان

سیفٹی کے بارے میں پڑھاتے ہوئے 68 قسم کے حفاظتی سامان کے بارے میں بتایا جاتا ہے۔ سیفٹی ٹریننگ کے دوران معیاری سامان استعمال کیا جاتا ہے لیکن یہ معیاری سامان فیلڈ میں کام کرنے والے ورکرز کو دستیاب نہیں ہوتا۔ ایک بکٹ کرین پورے ڈویژن لیول پر دی گئی ہے جس کو صرف ایک فالٹ پر استعمال کیا جاتا ہے جبکہ باقی بیسیوں جگہ پر بکٹ ٹرین کے بغیر کام کروایا جاتا ہے جس کی وجہ سے حادثات جنم لیتے ہیں۔ اس علاوہ چمڑے اور ربڑ کے دستانے، حفاظتی بیلٹ، حفاظتی بوٹ، ہیلمٹ، ٹارچ، پلاس اور دوسرے حفاظتی آلات کی کمی،ناقص حالت اور غیرمعیاری ہونا بھی موت کو دعوت دیتا ہے۔

3۔ انتہائی کم اجرتیں

بڑھتی ہوئی مہنگائی کے مطابق تنخواہوں میں اضافہ نہ ہونے کی وجہ سے ورکرز کا معیارِ زندگی مسلسل گرتا جا رہا ہے جس کی وجہ سے وہ کام کے دوران بے چینی اور پریشانی کا شکار رہتے ہیں۔ ضروریاتِ زندگی، بچوں کی پڑھائی، علاج، مکان کا کرایہ،بجلی، گیس اور پانی کے بل اور دوسرے اخراجات کو پورا کرنے کے لئے ورکرز کو نہ چاہتے ہوئے بھی حفاظتی آلات کے بغیر کام کرنا پڑتا ہے تاکہ زندہ رہنے کے لئے کچھ پیسے کما سکیں اور اس دوران وہ اپنی قیمتی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔

4۔ جلد بازی

کئی دفعہ امراء اور افسر شاہی کے علاقوں میں کوئی فالٹ ہونے پر لائن مین پر جلد بازی کا شدید دباؤ ڈالا جاتا ہے جس کی وجہ سے غلطی ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں اور حفاظتی آلات کی کمی کے باعث چھوٹی سی غلطی کی سزا محنت کش کی موت ہوتی ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام میں مقتدر افراد کا سکون محنت کش کی زندگی سے زیادہ اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔

پاکستان میں واپڈا کے محنتی اور نڈر محنت کش موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کروڑوں عوام کے گھروں کو روشن کرتے ہیں۔ لیکن روشنیوں کا باعث بننے والے محنت کشوں کی اپنی زندگیاں موت کے اندھیروں میں غرق ہو جاتی ہیں۔ واپڈا سمیت تمام اداروں میں ہونے والی محنت کشوں کی حادثاتی اموات کی ذمہ داری حکومت اور ان اداروں کے اعلیٰ افسران پر عائد ہوتی ہے۔افسر شاہی کو تمام تر سہولیات سے نوازا جاتا ہے اور مسلسل ان کی تنخواہوں اورمراعات میں اضافہ کیا جاتا ہے۔ دوسری طرف محنت کشوں کو کام کر نے کیلئے بنیادی حفاظتی سامان بھی دستیاب نہیں اور دن رات ان کا خون نچوڑنے کے باوجود تنخواہیں اتنی کم ہیں کہ محنت کش دو وقت کی روٹی کھانے سے بھی قاصر ہیں۔

یونین کی قیادتیں بھی اس ظلم میں برابر کی شریک ہیں کیونکہ ان کا کام محنت کشوں کی ترجمانی کرنا ہے اور ان کا فرض بنتا ہے کہ محنت کشوں کو سہولیات کی فراہمی کے لئے حکومت پر دباؤ ڈالیں۔ اتنی جانوں کے ضیاع کے بعد قیادتوں کو چاہیے کہ وہ ہڑتال کی کال دیں اور حکومت کو مجبور کریں کہ وہ مزدوروں کی حفاظت کو یقینی بنائے۔لیکن صورت حال اس کے برعکس ہے۔ہر حادثے کے بعد رسماً کچھ کلمات ادا کر دیے جاتے ہیں اور معاملے کو رفع دفع کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

ریڈ ورکرز فرنٹ (RWF) اس ظلم کی شدید مذمت کرتا ہے اور یہ مطالبہ کرتا ہے کہ محنت کشوں کی زندگیوں کی حفاظت کے لئے درج ذیل مطالبات کو فی الفور پورا کیا جائے:

1۔بکٹ والی گاڑی اور کرین بمعہ ڈرائیور ہر کام کی جگہ پر مہیا کی جائے۔
2۔سٹاف کی کمی کو یارڈ سٹک کے مطابق جلد از جلد پورا کیا جائے۔
3۔ تمام پرانی اور ناکارہ انسٹالیشن کو فی الفورتبدیل کیا جائے۔
4۔کم از کم تنخواہ ایک تولہ سونے کے برابر کی جائے۔
5۔ موزوں حفاظتی آلات،PPE اور T&P کسی قسم کا سمجھوتہ کیے بغیر عالمی معیار کے مطابق فراہم کیے جائیں اور انفراسٹرکچر کو جدید تقاضوں کے ساتھ ہم آہنگ کیا جائے۔
6۔ ہائی وولٹیج ڈٹیکٹر ہر حال میں مہیا کیے جائیں۔
7۔ جدید ارتھنگ سیٹ ہر لائن مین کو مہیا کیا جائے۔
8۔PTW پر کام کرنے کے لئے مکمل وقت دیا جائے۔
9۔ افسران کی جانب سے اور سیاسی دباؤ، جلد بازی،ٹینشن اور کام کی زیادتی کا خاتمہ کیا جائے۔
10۔ کام کے دوران موبائل فون کے استعمال پر مکمل پابندی لگائی جائے تاکہ افسرانِ بالا کی کالز سے ورکرز کی توجہ ہٹ جانے سے کوئی حادثہ رونما نہ ہو۔
11۔چمڑے اور ربڑ کے دستانے،حفاظتی بیلٹ،حفاظتی بوٹ،ہیلمٹ،ٹارچ اور پلاس سمیت تمام ضروری آلات حفاظت کے عالمی معیار کے مطابق مہیا کیے جائیں۔
12۔ورکرز کو مطلوبہ ٹریننگ کے بعد ہی کام کی ذمہ داری سونپی جائے۔

ریڈ ورکرز فرنٹ(RWF) واپڈا کے محنت کشوں سے اپیل کرتا ہے کہ مندرجہ بالا مطالبات منوانے کے کئے میدان میں آئیں اور انہیں مسائل میں گھیرے دیگر شعبوں بھی موجودمحنت کشوں کے ساتھ مل کر مشترکہ لائحہ عمل بناتے ہوئے اس جدوجہد کو تمام ادروں کے محنت کشوں کے ساتھ جوڑتے ہوئے عام ہڑتال کی طرف بڑھیں۔

ایک کا دکھ! سب کا دکھ!
مزدور اتحاد زندہ باد!

Comments are closed.