پاکستان: بحرانوں کی دلدل۔۔راہ نجات، سوشلسٹ انقلاب

|تحریر: آفتاب اشرف|

فروری کے آغاز میں وزیر اعظم عمران خان نے چین کا دورہ کیا جہاں اس نے بیجنگ میں منعقد ہونے والے سرمائی اولمپکس کی افتتاحی تقریب میں شرکت کی اور بعد ازاں چینی قیادت کے ساتھ مختصر ملاقاتیں بھی کیں۔ واضح رہے کہ امریکہ، برطانیہ، انڈیا، آسٹریلیا اور کینیڈا سمیت بہت سے ممالک نے ان مقابلوں کا سفارتی بائیکاٹ کیا ہے اور یہ اولمپکس کھیل کی بجائے چینی سامراج اور امریکہ کی قیادت میں چین مخالف مغربی سامراجی بلاک کے مابین بڑھتے ہوئے تضادات کے اظہار کا اکھاڑہ بن چکے ہیں۔ یاد رہے کہ اس سے قبل پاکستان دسمبر میں واشنگٹن میں منعقد ہونے والے”ڈیموکریسی سمٹ“میں شرکت سے بھی انکار کر چکا ہے کیونکہ امریکہ نے نہ صرف چین اور روس کو اس میں شرکت کی دعوت نہیں دی تھی بلکہ تائیوان کو ایک آزاد ملک کی حیثیت سے خصوصی طور پر مدعو بھی کیا گیا تھا۔ خوش کن سفارتی لفاظیوں سے قطع نظر ریاست پاکستان کے ان تمام اقدامات کا مقصد مغرب اور خصوصاً امریکی سامراج کی سرد مہری کو بیلنس کرنے کے لئے چینی سامراج کے ساتھ تعلقات میں بہتری لانا ہے۔ مزید برآں اسلام آباد کے سفارتی حلقوں میں روسی صدر پیوٹن کے متوقع دورہ پاکستان کے متعلق اڑتی خبریں بھی ریاست پاکستان کی ان کاؤنٹر بیلنسنگ کوششوں کا ہی حصہ ہیں۔ یہاں یہ یاد دہانی کرانا اہم ہے کہ 2019ء میں آئی ایم ایف کے ساتھ طے پانے والے قرض معاہدے کے تحت پاکستان نے نہ صرف تمام سی پیک منصوبوں اور چینی قرضوں کی معلومات آئی ایم ایف یعنی امریکہ کو فراہم کیں تھیں بلکہ آئی ایم ایف کے احکامات پر بہت سے سی پیک پراجیکٹس کو سرد خانے میں بھی ڈال دیا تھا۔ اس سب کے ساتھ ساتھ امریکی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے اسلام آباد کی مسلسل جاری رہنے والی منت سماجت، بحیرہ ہند میں امریکہ اور چین کی بڑھتی اسٹریٹیجک مخاصمت میں کھل کر چین کی حمایت کرنے سے احتراز اور چینی انجئینیرز کی دہشت گردی کے واقعات میں ہلاکتوں نے پچھلے چند سالوں میں اسلام آباد اور بیجنگ کے تعلقات میں دراڑ ڈال دی تھی جس کا سب سے واضح اظہار پاکستان کے”ادائیگیوں کے توازن“ کے بحران میں چین کے نسبتاً سرد مہری پر مبنی رویے سے ہوتا ہے۔

حقیقت تو یہ ہے کہ امریکہ اور چین جیسی بڑی سامراجی طاقتوں کی بڑھتی رسہ کشی میں پاکستان جیسی کمزور گماشتہ ریاست کا حشر پنگ پانگ کی گیند جیسا ہو رہا ہے جو کبھی واشنگٹن کو خوش کرنے کے لئے بیجنگ سے نسبتاً دوری اختیار کرتی ہے اور جب پھر بھی امریکی سامراج راضی نہیں ہوتا تو اس کو اپنی اہمیت جتانے کے لئے بیجنگ کے تلوے چاٹنے پر اتر آتی ہے۔ ریاست پاکستان کے لئے ایک فیصلہ کن انداز میں ان دونوں سامراجی قوتوں میں سے کسی ایک کی سائیڈ لینا کم از کم مستقبل قریب میں تو ناممکن ہے۔ چین جہاں اس وقت پاکستانی افواج کو ہتھیاروں کا سب سے بڑا فروخت کنندہ ہے وہیں اسلام آباد کو خطے میں انڈیا کو کاؤنٹر کرنے کے لئے بھی چینی حمایت درکار رہتی ہے۔ مزید برآں ریاست پاکستان انفرا سٹرکچر کے منصوبوں میں مزید چینی سرمایہ کاری اور قرضوں کے حصول کی بھی متمنی ہے۔ مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ چین عالمی سرمایہ داری کے نامیاتی زوال اور بحران کے عہد میں ابھرنے والی ایک سامراجی قوت ہے جس کے پاس نہ تو وہ معاشی سکت ہے، نہ ہی وہ فوجی و سیاسی قوت ہے، نہ ہی وہ تکنیکی برتری ہے اور نہ عالمی مالیاتی اداروں کا ایسا سیٹ اپ موجود ہے کہ وہ پاکستان کو اس طرح سے ’گود‘ لے لے جیسا کہ امریکہ سامراج نے سرد جنگ کے دوران لیا تھا۔ اسی طرح انڈیا کیساتھ اپنے اسٹریٹیجک تضادات کے باوجود چین کی انڈیا کیساتھ باہمی تجارت کا حجم اس کی پاکستان کیساتھ باہمی تجارت کے حجم سے کئی گنا زیادہ ہے۔ دوسری طرف امریکی سامراج ہے جو ماضی کے مقابلے میں اپنی نسبتی کمزوری کے باوجود آج بھی دنیا کا سب سے طاقتور سرمایہ دارانہ ملک ہے اور عالمی سرمایہ دارانہ نظام میں ایک فیصلہ کن اہمیت رکھتا ہے۔ آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور اے ڈی بی جیسے عالمی مالیاتی اداروں میں بھی امریکہ کا کردار فیصلہ کن ہوتا ہے اور ان سامراجی مالیاتی اداروں کے قرضوں کے بغیر پاکستانی معیشت چند ماہ بھی نہیں گزار سکتی۔ مگر سوویت یونین اور سرد جنگ کے خاتمے، ابھرتے چینی سامراج کے ساتھ تیزی سے بڑھتے تضادات اور اس کارن خطے میں امریکہ کے انڈیا کی جانب اسٹریٹیجک جھکاؤ اور اب افغانستان سے انخلاء کے بعد امریکی سامراج کے لئے ریاست پاکستان کی اسٹریٹیجک اہمیت بہت کم ہو گئی ہے۔ رہی سہی کسر پچھلی دو دہائیوں میں افغانستان میں امریکی سامراج کے بڑھتے ضعف کا ہی فائدہ اٹھاتے ہوئے ریاست پاکستان کی جانب سے کھیلی گئی ڈبل گیم نے پوری کر دی ہے جسے واشنگٹن میں بیٹھے پالیسی ساز افغانستان میں اپنی شکست کا کارن سمجھتے ہیں اور اس لئے پاکستان کو سبق سکھانے کے درپے ہیں۔ مگر ایک بات بالکل واضح ہونی چاہئے کہ امریکہ کی تمام تر سرد مہری کے باوجود آج بھی پاکستان کا سرمایہ دار حکمران طبقہ اور فوجی وسول ریاستی اشرافیہ حتمی تجزئیے میں چین کے مقابلے میں امریکہ کی غلامی کو ہی ترجیح دیتا ہے۔ اس کی وجہ محض پاکستانی سرمایہ داری اور ریاست کا عالمی مالیاتی اداروں پر انحصار ہی نہیں ہے بلکہ روز اول سے ہی کرائے پر دستیاب اس ریاست نے امریکی گماشتگی کو اپنا نصب العین بنائے رکھا ہے جس کے عوض ملنے والے ڈالروں کی مہک کو پاکستان کی حکمران اشرافیہ کبھی بھول ہی نہیں سکتی۔ یہاں کے حکمران طبقے اور ریاستی اشرافیہ کے تمام تر تاریخی و ثقافتی تانے بانے بھی اینگلو امریکی سامراج کے ساتھ ملتے ہیں۔ ان کے کاروبار وہاں ہیں، جائیدادیں وہاں ہیں، لوٹ کا مال وہاں کے بنکوں میں ہے، بیوی بچے وہاں کے نیشنل ہیں اور خود یہ بھی خوب لوٹ مار کرنے کے بعد اپنی ریٹائرڈ لائف امریکہ یا دیگر مغربی ممالک میں ہی گزارتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ چین کے ساتھ”ہمالہ سے بلند تر“ دوستی کے تمام تر دعوؤں کے باوجود پاکستان کی حکمران اشرافیہ کی دلی خواہش یہی ہے کہ کسی طرح امریکہ ماضی کی طرح ایک مرتبہ پھر انہیں گود لے لے۔ دوسری طرف پاکستان کو سبق سکھانے کی حالیہ پالیسی کے باوجود واشنگٹن بھی پاکستان کیساتھ تعلقات کا خاتمہ نہیں چاہتا بلکہ وہ تو چاہتا ہے کہ پاکستان خطے میں اس کی چین مخالف حکمت عملی کا حصہ بنے مگر مسئلہ یہ ہے کہ اس پورے خطے اور بحیرہ ہند میں چین مخالف گھیرا بندی کے حوالے سے امریکہ کا نامیاتی اسٹریٹیجک اتحادی انڈیا ہے اور اپنی اوقات کے حساب سے پاکستان کی حیثیت انتہائی ثانوی نوعیت کی ہے۔لہٰذا ایک تو امریکہ اس مرتبہ ریاست پاکستان کی ’خدمات‘ بہت کم کرائے پر حاصل کرنا چاہتا ہے اور دوسرا وہ چاہتا ہے کہ ریاست پاکستان خطے میں انڈیا کی بالادستی کو تسلیم کرے اور چپ چاپ دہلی کے سامنے سر جھکا دے۔ اب کم کرائے پر تو پاکستان کا حکمران طبقہ طوہا کرہاً رضامند ہو ہی جاتا مگر دوسرا معاملہ ذرا ٹیڑھا ہے کیونکہ دہلی کے ساتھ’دوستی‘ کرنے کا مطلب نام نہاد نظریہ پاکستان اور 1947ء کے خونی بٹوارے کے جواز کا خاتمہ یعنی دوسرے الفاظ میں ریاست کی نظریاتی بنیادوں کو خود اپنے ہاتھوں سے مسمار کرنا ہے۔ اور اگر ایسا ہوتا ہے تو پھر بات یہاں تک ہی نہیں رکے گی کیونکہ اس نظریاتی اساس کے خاتمے کے ساتھ ہی فوجی اسٹیبلشمنٹ کی بالادستی، ایک گیریژن اسٹیٹ کے بے تحاشہ اخراجات و عیاشیوں اور اس کے مظلوم قو میتوں پر جبر کا تمام تر جواز بھی ختم ہو جائے گا۔ مزید برآں انڈیا کے حکمران طبقے سے بھی کہیں بڑھ کر یہ پاکستان کا حکمران طبقہ ہے جسے اپنی طبقاتی حکمرانی برقرار رکھنے کے لئے انڈیا مخالف نعرے بازی کی ضرورت پڑتی رہتی ہے۔ یہی وہ تما م تضادات ہیں جن کے کارن امریکہ کی گماشتگی کو جاری رکھنے کی شدید خواہش رکھنے کے باوجودآج پاکستان کی حکمران اشرافیہ تذبذب اور ہچکچاہٹ کا شکار ہے اور دونوں طرف (چین اور امریکہ) کھیلنے کی ناکام کوشش کر رہی ہے۔ واشنگٹن کی دیگر ذرائع اور بالخصوص آئی ایم ایف کے ذریعے پاکستان کے پیچ کسنے کی حالیہ پالیسی نے ملک کے’سول سپرمیسی‘ کے حامی لبرل حلقوں میں ایک غلط فہمی کو بھی جنم دیا ہے اور وہ یہ سمجھنے لگے ہیں کہ امریکہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کو ”کٹ ڈاؤن ٹو سائز“ کرنا چاہتا ہے۔ یہ ایک انتہائی لغو اور بیہودہ خیال ہے۔ بھلا امریکہ اس فوجی قوت کو کمزور کیوں کرے گا جو مناسب قیمت لگنے پر ہمیشہ اس کی گماشتگی کو تیار ہوتی ہے۔ مزید برآں اس خطے میں ابھرنے والی محنت کش طبقے کی کسی بغاوت کو کچلنے کے لئے آج بھی امریکہ کے پاس پاکستانی اسٹیبلشمنٹ سے زیادہ موزوں اوزار نہیں ہے۔

حالیہ عرصے میں ریاست پاکستان کے بیرونی چیلنجز میں ایک اور بڑا اضافہ افغانستان سے امریکی و اتحادی افواج کی بیس سالہ جنگ میں ناکامی کے بعد انخلاء اور کابل پر طالبان کے قبضے سے جنم لینے والی صورتحال کی شکل میں ہوا ہے۔ ابتدا میں تو پاکستان کے پالیسی سازوں، خصوصاً فوجی اشرافیہ نے اسے اپنی حکمت عملی کی فتح قرار دیا اور نام نہاد جیت کے نشے میں چور ہو کر بعض بڑھک نما بیانات بھی دے ڈالے۔ کابل میں ایک دورے کے دوران اس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض حمید کی چائے کی پیالی ہاتھ میں پکڑے مسکراتے ہوئے کھینچی گئی تصویر اسٹیبلشمنٹ کی اسی خماری کی غمازی کرتی تھی۔ مگر بہت جلد پچھلی چار دہائیوں سے پاکستان کے افغانستان میں سامراجی عزائم کی ترجمانی کرنے والی نام نہاد اسٹریٹیجک ڈیپتھ پالیسی کی یہ’فتح‘ اتنے برے طریقے سے اسلام آباد کے گلے پڑی کہ اب نہ اسے اور نہ ہی کابل میں بیٹھے طالبان کو سمجھ آرہی ہے کہ معاملات کو چلانا کیسے ہے۔ امریکی انخلاء کے ساتھ ہی افغانستان کو ملنے والی تمام بیرونی امداد کا خاتمہ ہو گیاجس پر اس ملک کا پچھلے بیس سالوں سے انحصار تھا۔ مزید برآں امریکہ نے سابقہ افغان حکومت کے تمام تر فارن اکاؤنٹس بھی منجمد کر دیے ہیں۔ مستقبل قریب میں بھی مغربی امداد کی کسی قابل ذکر پیمانے پر بحالی کے کوئی آثار نظر نہیں آ رہے جبکہ ملک میں ایک مکمل معاشی بربادی اور قحط کی سی صورتحال ہے جو آئے روز بدتر ہوتی جا رہی ہے۔ ڈاکٹرز اور اساتذہ سمیت تمام سرکاری ملازمین کو پچھلے کئی ماہ سے تنخواہ تک نہیں ملی،بجلی گھروں کا ایندھن خریدنے کے پیسے نہ ہونے کے سبب پورا ملک اندھیرے میں ڈوبا رہتا ہے۔ بنکاری نظام چوپٹ ہو چکا ہے، افغان کرنسی بالکل ردی ہو چکی ہے۔ حالات اتنے خراب ہیں کہ عام لوگ بھوک کے ہاتھوں مجبور ہو کر اپنے بچے بیچنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ ایسی صورتحال میں کابل کے ’فاتح‘ طالبان اور ان کی پشت پناہی کرنے والی ریاست پاکستان پوری دنیا سے امداد کی بھیک مانگتے نظر آتے ہیں۔ اس مقصد کے لئے کبھی تو حالات کنٹرول سے باہر ہونے کی صورت میں اسلامی دہشت گردی کے احیا کا پراپیگنڈہ کر کے مغرب کو رام کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، کبھی یہ دکھایا جاتا ہے کہ افغانستان کی خواتین طالبان کی دست برد سے محفوظ رہ سکتی ہیں بشرطیکہ مغربی ممالک ان کی امداد بحال کر دیں اور کبھی بڑی تعداد میں افغان پناہ گزینوں کی ممکنہ آمد سے مغربی ممالک کو تشویش میں مبتلا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تا کہ ان سے پیسے اینٹھے جا سکیں۔ مگر مغربی سامراجی اتنے بیوقوف ہر گز نہیں ہیں کہ وہ اسلام آباد اور کابل میں بیٹھے ان بلیک میلر ڈھونگیوں کی باتوں میں آجائیں۔ مگر ستم ظریفی تو یہ ہے کہ چین، روس اور ایران نے بھی’فتح‘ کے بعد افغانستان کو اس کے حال پر چھوڑ دیا ہے اور کوئی خاص امداد دینا تو دور کی بات، ابھی تک طالبان حکومت کو تسلیم بھی نہیں کیا۔ اس تمام صورتحال میں بھوک سے مرتے افغان عوام کی کسی کو پروا نہیں ہے جبکہ پاکستان اور افغانستان کے حکمران طبقات کی اصل تشویش یہ ہے کہ اگر بیرونی امداد بحال نہ ہوئی تو وہ اپنی تجوریاں کہاں سے بھریں گے۔ ان مایوس کن حالات کے دباؤ کے تحت جہاں ایک طرف طالبان جبر کے ذریعے اپنی وحشت کو افغان عوام پر مسلط کرنے کی بھر پور کوشش کر رہے ہیں وہیں دوسری طرف ان کے داخلی گروہی تنازعات میں شدت آ رہی ہے اور مختلف دھڑوں نے ایک دوسرے کیخلاف خفیہ کاروائیوں کا ایک سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ اسی طرح باہر سے پیسے نہ ملنے کی فرسٹریشن کے کارن طالبان اور اسلام آباد کے بیچ پڑنے والی دراڑیں بھی اب واضح نظر آنے لگی ہیں۔ جلتی پر تیل یہ کہ افغان سماج میں پاکستانی سامراج کیخلاف موجود شدید نفرت کے باعث بھی طالبان حکومت مجبور ہو رہی ہے کہ وہ اپنے پاکستانی گماشتہ ہونے کے تاثر کو زائل کرے۔ طالبان کا ٹی ٹی پی کیخلاف کاروائی سے صاف انکار، ڈیورنڈ لائن کو تسلیم کرنے سے انکار اور حال ہی میں ڈیورنڈ لائن پر پاکستان کی جانب سے لگائی جانے والی باڑھ کے کئی حصوں کو اکھاڑ پھینکنے جیسے واقعات اسی تناؤ کی عکاسی کرتے ہیں جو گزرتے وقت کیساتھ مزید شدید ہوتا جائے گا۔

حالیہ عرصے میں ریاست پاکستان کے بیرونی چیلنجز میں ایک اور بڑا اضافہ افغانستان سے امریکی و اتحادی افواج کی بیس سالہ جنگ میں ناکامی کے بعد انخلاء اور کابل پر طالبان کے قبضے سے جنم لینے والی صورتحال کی شکل میں ہوا ہے۔

ہمارے پاس یہاں جگہ نہیں ہے کہ ہم مشرق وسطیٰ کی موجودہ صورتحال اور خاص کر سعودی ایران مستقل چپقلش کے تناظر میں پاکستان کے سعودی عرب کیساتھ تعلقات پر تفصیلی بحث کر سکیں لیکن قصہ مختصر یہ کہ سعودی عرب کے اپنے داخلی معاشی، سماجی و سیاسی مسائل، انڈیا کیساتھ اس کے بڑھتے تجارتی تعلقات اور 2015ء میں یمن کے حوثی باغیوں کیخلاف سعودی قیادت میں شروع ہونے والی فوجی جارحیت میں پاکستان کی باقاعدہ فوجی شمولیت سے انکار نے پاک سعودی تعلقات کو زبردست ٹھیس پہنچائی ہے۔ واضح رہے کہ پاکستان کا حکمران طبقہ اور ریاستی اشرافیہ ہمیشہ سے سعودی ریاست کے وظیفہ خوار رہے ہیں مگر یمن جنگ کے معاملے میں سعودی ریالوں اور پیٹرو ڈالروں کی شدید کشش کے باوجود پاکستان کی حکمران اشرافیہ کو صرف اس لئے پیچھے ہٹنا پڑا کیونکہ اس جنگ میں شمولیت سے فوج کے شیعہ سنی بنیادوں پر تقسیم ہو جانے کا سنجیدہ خطرہ موجود تھا۔ مزید برآں سعودی ریاست کی ترجیحات اور پالیسیوں کے تعین میں امریکی سامراج کا بھی ایک انتہائی اہم کردار ہوتا ہے اور سعودی حکمران امریکہ کی پاکستان کی طرف سرد مہری کو بھی بخوبی بھانپ چکے ہیں اور اس کو مد نظر رکھتے ہوئے پاکستان کے ساتھ معاملات کر رہے ہیں۔ پچھلے تین سالوں میں سعودی عرب نے ادائیگیوں کے توازن کے بحران کو ٹالنے کے لئے پاکستان کو قرضے تو دیے ہیں مگر یہ قرضے جس سرد مہری اور جن سخت شرائط کیساتھ دیے گئے ہیں، وہ یہ بتانے کے لئے کافی ہے کہ بدلتے ہوئے عالمی منظر نامے کی بدلتی ہوئی ترجیحات میں اب اسلام آباد اور ریاض کے تعلقات میں پہلے جیسی گرمجوشی ہرگز نہیں رہی۔

معاشی بحران اور دیوالیہ پن کا خطرہ

2008ء سے شروع ہونے والا عالمی سرمایہ دارانہ نظام کا نامیاتی بحران 2020ء میں کرونا وبا کی تباہ کاریوں سے مہمیز پاتے ہوئے ایک معیاری جست لے چکا ہے اور اس فی الحال اس بحران کے خاتمے کے دور دور تک کوئی آثار نہیں ہیں۔ خود عالمی بورژوازی کے ایک سنجیدہ جریدے”دی اکانومسٹ“ کے مطابق یہ بحران کچھ اتار چڑھاؤ کیساتھ 2020ء کی پوری دہائی جاری رہے گا۔ پہلے بیان کی گئی امریکہ اور چین کی رسہ کشی، پرانے ورلڈ آرڈر کا خاتمہ، تجارتی جنگیں اور عالمی سطح پر ترجیحات اور طاقتوں کے بدلتے توازن کی جڑیں بھی اسی عالمی معاشی بحران میں پیوست ہیں۔ یہ بحران جہاں ایک طرف عالمی معیشت کا بطور کل تانہ بانہ بکھیر رہا ہے وہیں یہ عالمی معیشت کے ہر ایک جزو کو بھی جڑوں سے ہلا رہا ہے۔ امریکہ، چین، جاپان، برطانیہ، فرانس اور جرمنی سمیت تمام بڑی اور ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ معیشتیں بھی بحران کی حدت کو پوری طرح محسوس کر رہی ہیں اور انڈیا، برازیل، ترکی، ساؤتھ افریقہ، روس جیسی نام نہاد ”ابھرتی معیشتوں“کے تمام سہانے خواب بھی چکنا چور ہو چکے ہیں۔ اب ایسے میں یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ یہ بحران پاکستان جیسی ایک گماشتہ ریاست کی عالمی مالیاتی اداروں کے سہارے چلنے والی پسماندہ سرمایہ دارانہ معیشت کو کس طرح سے تہس نہس کر رہا ہے۔ لیکن ایک بات بالکل واضح ہے کہ دنیا کے ہر سرمایہ دارانہ سماج کے حکمران طبقے کی طرح پاکستان کا سرمایہ دار حکمران طبقہ اور ریاستی اشرافیہ بھی اس بحران کا تمام تر بوجھ محنت کش طبقے کے کاندھوں پر ڈال رہے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہے کہ اس بحرانی کیفیت میں جہاں محنت کش طبقہ ہر روز بربادیوں کی پہلے کبھی نہ دیکھی گئی پستیوں میں دھنستا جا رہا ہے وہیں سرمایہ داروں کے منافعوں میں ہوش ربا اضافہ ہو رہا ہے۔ یہاں ہمارا مقصد پاکستانی معیشت کا کوئی تفصیلی تجزیہ کرنا نہیں ہے لہٰذا ہم اپنی بحث چند ایک موٹے اشاریوں تک ہی محدود رکھیں گے۔ ویسے بھی سڑک پر چلنے والا کوئی بھی عام آدمی بخوبی جانتا ہے کہ معیشت کے کیا حالات ہیں اور مستقبل میں اس کے ساتھ مزید کیا کھلواڑ ہونے جا رہا ہے۔

حال ہی میں منظر عام پر آنے والی مختلف سرکاری و غیر سرکاری رپورٹس کے مطابق مالی سال 2022ء کے پہلے 6 ماہ یعنی جولائی سے دسمبر 2021ء کا تجارتی خسارہ 25.5 ارب ڈالر سے تجاوز کر چکا ہے۔ اگر ہم اسی عرصے میں تقریباً 15.8 ارب ڈالر کی ترسیلات زر اور 1 ارب ڈالر کی براہ راست بیرونی سرمایہ کاری کو مدنظر رکھیں تو رواں مالی کے پہلے 6 ماہ میں کرنٹ اکا ؤنٹ خسارہ لگ بھگ 9 ارب ڈالر ہو چکا ہے۔ حکومت کے تما م تر بلند و بانگ دعوؤں سے قطع نظر مختلف ملکی و عالمی وجوہات، خصوصاً عالمی سطح پر افراط زر اور کرونا لاک ڈاؤنز کے نتیجے میں پیداوار اور سپلائی چینز کے درہم برہم ہو جانے کی وجہ سے تیل سمیت دیگر خام مال اور صنعتی مصنوعات کی بلند قیمتوں کے کارن رواں مالی سال کے بقیہ 6 ماہ میں درآمدات میں کوئی خاطر خواہ کمی (خصوصاً مالیت کے اعتبار سے) ہونے کا امکان نہیں ہے۔ اسی طرح ان 6 مہینوں میں کوئی ایسا چمتکار نہیں ہونے والا جس سے پاکستان کی صنعت اپنی پیدائشی و دائمی تکنیکی پسماندگی سے چھٹکارا حاصل کرتے ہوئے برآمدات کاانبار لگا دے گی، لہٰذا اگر برآمدات میں کوئی اضافہ ہوا بھی تو نہایت واجبی سا ہو گا۔ لہٰذا غالب امکانات ہیں کہ رواں مالی سال کے اختتام تک تجارتی خسارہ 50 ارب ڈالر سے تجاوز کر جائے گا۔ اور اگر ہم حکومت کو ”بیسٹ کیس سیناریو“ کا فائدہ دیتے ہوئے یہ فرض کریں کہ جنوری تا جون 2022ء میں ترسیلات زر اور براہ راست بیرونی سرمایہ کاری کی یہی صورتحال برقرار رہے گی جو رواں مالی سال کے پہلے 6 ماہ میں رہی ہے، تب بھی رواں مالی سال کے اختتام تک کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ تقریباً 17 ارب ڈالر کا ہو گاجو کہ پچھلے مالی سال کے 1.85 ارب ڈالر کے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے سے کہیں زیادہ ہے۔ اب رواں مالی سال میں بحثیت مجموعی پاکستان نے 12.4 ارب ڈالر کے بیرونی قرضوں اور سود کی ادائیگی بھی کرنی ہے۔ یوں رواں مالی سال میں ادائیگیوں کے توازن کے بحران سے بچنے کے لئے حکومت کو مجموعی طور پر کم از کم بھی لگ بھگ 29 ارب ڈالر درکار ہیں۔ اب حکومت اس رقم کا بندوبست کرنے کے لئے بری طرح ہاتھ پیر مار رہی ہے اور ہر ذریعے سے نئے بیرونی قرضے حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے جس میں سعودی عرب سے 3 ارب ڈالر کے نئے قرضے کا حصول، چینی کمرشل بنکوں سے نئے قرضوں کا حصول، سخت ترین شرائط کے تحت آئی ایم ایف قرض پروگرام کی بحالی، ورلڈ بنک اور اے ڈی بی سے نئے قرضوں کا حصول اور عالمی مالیاتی منڈیوں میں انتہائی بلند شرح سود پر نئے فارن کرنسی بانڈز کا اجرا تک سب شامل ہیں۔ مگر یہ سب نئے بیرونی قرضے اٹھانے کے باوجود بھی محض اس طرح سے 29 ارب ڈالر کا بندوبست نہیں ہو سکتا لہٰذا حکومت کو ناگزیر طور پرملکی فارن ایکسچینج ریزرو کو بھی استعمال کرنا پڑ رہا ہے جس کے نتیجے میں روپے کی قدر مسلسل گراوٹ کا شکار ہے۔ رواں مالی سال کے آغاز پر 1 ڈالر 157.5 روپے کا تھاجبکہ ابھی یہ اوپن مارکیٹ میں 179 روپے کا ہو چکا ہے۔ جبکہ تازہ ترین اعدادو شمار کے مطابق اس وقت اسٹیٹ بنک کا فاریکس ریزرو 16.2 ارب ڈالر تک گر چکا ہے جبکہ اگست 2021ء کے اختتام پر یہ 20.1 ارب ڈالر تھا۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ افغانستان سے امریکی انخلاء کے بعد ہر ماہ دسیوں ملین ڈالر پاکستان سے افغانستان اسمگل ہو رہے ہیں اور سر سے پیر تک کرپشن میں لتھڑی ریاست اس معاملے میں کچھ کرنے سے قاصر ہے۔ ان تمام وجوہات کے کارن روپے کی قدر میں گراوٹ کا یہ سلسلہ جاری رہے گا اور غالب امکانات ہیں کہ رواں مالی سال کے اختتام تک ایک ڈالر لگ بھگ 200 روپے کا ہو جائے گا۔

یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ روپے کی قدر میں یہ گراوٹ پہلے ہی سے موجود شدید افراط زر میں مزید ہوشربا اضافہ کرے گی اور مہنگائی کی چکی میں بری طرح پستے محنت کش عوام کی زندگیاں مزید دگرگوں ہو جائیں گی۔ دسمبر 2021ء کے حکومتی اعدادو شمار کے مطابق ملک میں افراط زر کی شرح 12.3 فیصد تھی مگر ہم بخوبی جانتے ہیں کہ یہ اعدادو شمار بھی ایک جھوٹ کا پلندہ ہیں اور حقیقی افراط زر اس سے کہیں زیادہ ہے۔ مگر روپے کی قدر میں کمی مہنگائی میں اضافے کی صرف ایک وجہ ہے۔ اس کی ایک اور بڑی وجہ آئی ایم ایف قرض پروگرام کے تحت محنت کش طبقے کی پیٹھ پر لادے جانے والے بالواسطہ ٹیکسوں میں بے تحاشہ اضافہ ہے۔ جبکہ براہ راست ٹیکسوں میں ہونے والے اضافے کا تمام تر بوجھ بھی تنخواہ دار درمیانے طبقے اور چھوٹے کاروباریوں پر ہی پڑتا ہے۔ اس سلسلے کی تازہ ترین کڑی کے طور پر ابھی دسمبر 2021ء میں ہی قومی اسمبلی سے منظور ہونے والے منی بجٹ میں محنت کش عوام کی پیٹھ پر لادے جانے والے بالواسطہ ٹیکس بوجھ میں 360 ارب روپے کا اضافہ کیا گیا ہے جبکہ آئندہ چند ماہ میں تنخواہ دار درمیانے طبقے پر انکم ٹیکس میں بھی 150 ارب روپے کا اضافہ کیا جائے گا۔ مالی سال 2019ء جو کہ موجودہ حکومت کا اقتدار میں پہلا سال بھی تھا، میں ایف بی آر نے ٹیکس آمدن کی مد میں 3850 ارب روپے اکٹھے کئے تھے جبکہ رواں مالی سال میں ایف بی آر کو 6100 ارب روپے کی ٹیکس آمدن کا ہدف دیا گیا ہے۔ اگر ہم افراط زر کو منہا کرنے کے لئے کرنٹ ڈالر ایکسچینج ریٹ پر چیزوں کو دیکھیں توموجودہ 179 روپے کے ڈالر کے حساب سے مالی سال 2019ء میں عوام پر لادا جانے والا ٹیکس بوجھ 21.5 ارب ڈالر تھا جبکہ رواں مالی سال کے اختتام تک یہ بڑھ کر 34 ارب ڈالر ہو جائے گا۔ روپے کی قدر میں کمی اور بالواسطہ ٹیکسوں کی بھرمار کے بعد مہنگائی میں اضافے کی رہی سہی کسرسرمایہ دار طبقے کی ہوشربا منافع خوری اور ذخیرہ اندوز مافیاز کی بدمعاشی نے پوری کر دی ہے۔ حال ہی میں منظر عام پر آنے والی ایک سرکاری رپورٹ کے مطابق سال 2021ء میں پاکستان کی 100 بڑی کمپنیوں نے 950 ارب روپے کا ریکارڈ منافع کمایا ہے جبکہ اس عرصے میں محنت کش طبقہ بری طرح برباد ہو کر رہ گیا ہے۔

حکومت کا کہنا ہے کہ ٹیکس آمدن کا سب سے بڑا مصرف سابقہ داخلی و بیرونی قرضوں اور سود کی ادائیگی ہے اور یہ بالکل درست ہے۔ رواں مالی سال کے آغاز پر حکومت نے بجٹ میں اس مد میں کل 3100 ارب روپے کی رقم رکھی تھی اگرچہ کہ روپے کی قدر میں کمی کے کارن (پاکستانی روپے میں) بیرونی قرضوں اور ان کے سود کے حجم جبکہ ملکی شرح سود میں اضافے کی وجہ سے داخلی قرضوں کے سود کی ادائیگیوں میں بڑا اضافہ ہو رہا ہے جس کی وجہ سے رواں مالی سال کے اختتام تک یہ رقم 3100 ارب روپے سے کہیں زیادہ بن جائے گی۔ مگر ان سودی قرضوں کی نوعیت ہی کچھ ایسی ہوتی ہے کہ قرض دار ان میں پھنستا ہی چلا جاتا ہے۔ لہٰذا عوام کی ہڈیوں کے گودے سے اندھا دھند ٹیکس نچوڑنے کے باوجود حکومت کو سابقہ قرضوں اور سود کی ادائیگیوں کے لئے بے تحاشہ نیا قرضہ لینا پڑتا ہے۔لہٰذ ا قرضوں اور سود کی واپسی پر اتنا پیسہ خرچنے کے باوجود ستمبر 2021ء کی اسٹیٹ بنک رپورٹ کے مطابق ملک کا کل قومی قرضہ، یعنی حکومتی و غیر حکومتی قرضہ جات ملا کر، لیکن خیال رہے کہ زیادہ تر غیر حکومتی قرضہ جات کو بھی حکومتی گارنٹی حاصل ہوتی ہے، 50.5 ٹریلین روپے (1 ٹریلین1000= ارب) ہو چکا تھا جو ملکی جی ڈی پی کے تقریباً 94 فیصدکے برابر تھا۔ اگلا بڑا خرچہ نام نہاد دفاعی اخراجات کا ہے جس کی مد میں حکومت براہ راست اور بالواسطہ کل ملا کر تقریباً 2000 ارب روپے سالانہ خرچ رہی ہے۔ جس طرح قرض اور سود واپسی کی مد میں خرچ ہونے والی رقم عوام کی جیبوں سے نکل کر عالمی مالیاتی اداروں، عالمی کمرشل بنکوں اور نجی ملکی بنکوں کی تجوریوں میں پہنچ جاتی ہے ویسے ہی ان فوجی اخراجات کا ایک قابل ذکر حصہ گھوم پھر کر جرنیلی اشرافیہ کی تجوریوں میں پہنچ جاتا ہے۔ عوامی ٹیکسوں کا سارا پیسہ ملکی و عالمی اشرافیہ کی جیبوں میں ڈالنے کے بعد پیچھے محنت کش عوام کے لئے کچھ بچتا ہی نہیں ہے لہٰذا حکومت تھوڑی بہت میسر عوامی سہولیات اورترقیاتی بجٹ میں زبر دست کٹوتیاں کر رہی ہے، عوامی سبسڈیوں کا خاتمہ کر رہی ہے اور عوامی اداروں کی تیز ترین نجکاری کے ذریعے ان کے ’اخراجات‘ سے بھی جان چھڑا رہی ہے۔ یہاں تک کہ صحت اور تعلیم جیسی انتہائی بنیادی ضروریات کی بھی نجکاری کی جا رہی ہے۔ حال ہی میں لانچ کی گئی نام نہاد قومی صحت کارڈ سکیم درحقیقت سرکاری شعبہ صحت کی قیمت پر انشورنس کمپنیوں اور نجی ہسپتال مافیا کو نوازنے کا ہی ایک بہانہ ہے۔ لیکن دوسری طرف یو این ڈی پی کی 2021ء میں شائع ہونے والی این ایچ ڈی آر رپورٹ کے مطابق یہی حکومت ہر سال سرمایہ دار طبقے اور ریاستی اشرافیہ کو ٹیکس چھوٹ، سبسڈیوں، سستے قرضوں اور دیگر مدوں میں 2700 ارب روپے کی معاشی مراعات دیتی ہے۔ حکومت کے ”رننگ اخراجات“کے نام پر حکومتی حکام، سول افسر شاہی، عدالتی اشرافیہ وغیرہ کی کرپشن اور عیاشیاں ابھی اس کے علاوہ ہیں۔

اسٹیٹ بنک کی خود مختاری کا سودا

اسی طرح دن رات ملک کی آزادی اور خود مختاری کے راگ الاپنے والی فوجی اسٹیبلشمنٹ اور اس کی کٹھ پتلی عمران حکومت نے حال ہی میں آئی ایم ایف کے احکامات کے سامنے سجدہ ریز ہوتے ہوئے اسٹیٹ بنک آف پاکستان کومکمل طور پر خود مختاری دینے کے متعلق قانون سازی کر دی ہے۔ جبکہ ہر وقت حکومت مخالف ہونے کا ڈھونگ رچانے والی تمام نام نہاد اپوزیشن پارٹیوں نے بھی عوام دشمنی کے ہر معاملے کی طرح اس معاملے میں بھی حکومت کا بھرپور ساتھ دیا ہے۔ آسان الفاظ میں اسٹیٹ بنک کی خود مختاری کا مطلب یہ ہے کہ اب ریاست پاکستان اپنے ہی اسٹیٹ بنک کو مانیٹری و دیگر معاشی پالیسیوں کے بارے میں کوئی احکامات نہیں دے سکتی اور یہ تمام معاملات بنک کا گورنر طے کرے گا جو ہمیشہ آئی ایم ایف یا ورلڈ بنک کا کوئی کارندہ ہی ہو گا۔ یاد رہے کہ ابھی اس قانونی بل کو سینٹ سے منظور ہونا باقی تھا کہ اسٹیٹ بنک کے گورنر نے پہلے ہی نجی ملکی بنکوں کو وارننگ جاری کر دی کہ وہ حکومت کو قرضہ سوچ سمجھ کر دیں کیونکہ حکومتیں ڈیفالٹ بھی کر جاتی ہیں اور اگر ایسا ہوا تو اسٹیٹ بنک اس معاملے میں کوئی ذمہ داری نہیں لے گا۔ مزید برآں اس ساری صورتحال میں حکومت نے محنت کش طبقے کے زخموں پر مزید نمک یہ دعوی کر کے چھڑک دیا کہ پچھلے مالی سال میں ملک کا جی ڈی پی گروتھ ریٹ 3.9 فیصد نہیں بلکہ 5.37 فیصد تھا۔ جبکہ حقیقت تو یہ ہے کہ 3.9 فیصد کا فگر جہاں کھلم کھلا شماریاتی ہیر پھیر اور بددیانتی کا نتیجہ تھا وہاں 5.37 فیصد کا فگر پہلے ہی سے جھوٹے اعدادوشمار میں شماریاتی پیمانوں کے مزید ردو بدل سے حاصل کیا گیا ہے لیکن حکومت اور ریاست اتنے بے غیرت اور بیگانہ ہو چکے ہیں کہ انہیں ننگے جھوٹ بولتے ہوئے ذرا شرم نہیں آتی۔

ریاست اور سیاست کا بحران

یہ تمام سفارتی، اسٹریٹیجک، سیاسی اور معاشی بحران ریاست میں پہلے ہی سے پڑی دراڑوں کو مزید گہرا اور واضح کر رہا ہے۔ جہاں لوٹ مار کے مال کی بندر بانٹ اور اسی سے منسلک اقتدار میں زیادہ سے زیادہ حصے داری کی لڑائی میں ریاست کے مختلف مقتدر ادارے آپس میں ٹکرا رہے ہیں وہیں ہر ایک ادارے کی ذیلی شاخوں کے بیچ تضادات بھی شدید تر ہو رہے ہیں، یہاں تک کہ ان شاخوں کے اپنے اندر بھی مالی مفادات کے گرد زبردست دھڑے بندیوں کی تشکیل کا عمل اپنی انتہا کو پہنچ چکا ہے۔ درحقیقت پاکستانی ریاست ایک منظم اور متحد اکائی کے طور پر اپنا وجود کھو چکی۔ بقدر جثہ فوجی اسٹیبلشمنٹ، عدلیہ اور سول افسر شاہی سب کے ہاتھ ایک دوسرے کے گریبان پر ہیں۔ مزید برآں یہ ادارے اب خود بھی ایک اکائی نہیں رہے بلکہ مالی مفادات کے گرد داخلی تقسیم در تقسیم کا شکار ہیں۔ کہیں عدلیہ اور جی ایچ کیو کی لوٹ مار پر لڑائی چل رہی ہے تو کہیں ایف سی اور آئی ایس آئی، رینجرز اور ایم آئی کی۔ کہیں سول افسر شاہی کے دو کیڈرز آپس میں تضادات کا شکار ہیں تو دوسری طرف ان کا عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بھی جھگڑا ہے۔ اسی طرح جی ایچ کیو میں کور کمانڈر میٹنگز میں جرنیلوں کے مختلف دھڑوں ہونے والی تلخ کلامیوں اور اعلی عدلیہ کے مختلف ججوں پر مشتمل دھڑوں کی ایک دوسرے کیساتھ مخاصمت اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہی۔ بلکہ اب تو ایسی دھڑے بندیاں تشکیل پا رہی ہیں جن میں مختلف جرنیلوں، ججوں، سول افسر شاہی اور سیاستدانوں کے مفاداتی گروپ مشترکہ مالی و سیاسی مفادات کے گرد بین الادارہ جاتی دھڑے تشکیل دے رہے ہیں۔ اسی طرح خارجہ معاملات میں بھی ان میں سے کوئی دھڑا چین کے زیادہ قریب ہے، کوئی واشنگٹن کا دلال ہے تو کوئی ریاض کا وظیفہ خوار ہے۔ ہاں لیکن ریاستی اشرافیہ کے ان تمام دھڑوں میں ایک بات بالکل مشترک ہے کہ یہ سب سرمایہ دارانہ نظام، ملکی و عالمی سرمایہ دار طبقے، عالمی مالیاتی اداروں اور سامراج کے دلال، محافظ اور نمائندے ہیں اور اسی مناسبت سے عوام دشمنی اور بالخصوص مزدور دشمنی میں بالکل ایک پیج پر ہیں۔ لیکن محنت کش عوام بھی اب ان تمام اداروں اور ریاست کا مجموعی کردار سمجھ چکے ہیں۔ یہاں تک کہ ’تخت لاہور‘ کے گلی کوچوں میں بھی ریاستی اور خصوصاً فوجی اشرافیہ کیخلاف نفرت شاید پہلے کبھی نہ دیکھی گئی سطح کو پہنچ چکی ہے۔

ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان کے سیاسی افق پر نظر آنے والی تما م سیاسی پارٹیوں کے کردار پر کوئی تفصیلی بحث کرنا محض قیمتی وقت اور جگہ کا ضیاع ہے۔ حکمران جماعت تحریک انصاف سے لے کر ن لیگ، پیپلز پارٹی سے لے کر ایم کیو ایم اور جماعت اسلامی سے لے کر اے این پی، پی میپ اور جے یو آئی تک یہ تمام سیاسی پارٹیاں سرمایہ دارانہ نظام اور سرمایہ دار طبقے کی نمائندہ اور محافظ ہیں۔ یہ سب آئی ایم ایف اور دیگر عالمی مالیاتی اداروں کی دلال ہیں۔ یہ سب مختلف سامراجی طاقتوں کی وظیفہ خوار ہیں۔ اور یہ سب بد ترین مزدور و عوام دشمن ہیں۔ ان کی سیاسی اقتدار پر باہمی رسہ کشی کا واحد مقصد محض لوٹ مار کے مال میں زیادہ سے زیادہ حصہ حاصل کرنا ہے۔ یہاں تک کہ ان کی بورژوا جمہوریت کی بالادستی کی تمام نعرے بازی بھی محض ایک ڈھونگ ہے اور مقتدر اداروں خصوصاً فوجی اسٹیبلشمنٹ کے طاقتور دھڑوں کے ساتھ ڈیل کے ذریعے اقتدار میں اس کی بی ٹیم کے طور پرحصہ دار بننا ہی ان سب کا مقصد ہے۔ ہاں بس اتنا فرق ہے کہ ان میں سے کوئی پارٹی اپنا ڈھونگ رچانے کے لئے مذ ہب کا لبادہ اوڑھتی ہے، کوئی اپنے آپ کو ’لبرل‘ بنا کر پیش کرتی تو کوئی قوم پرستی کے پردے میں واردات ڈالتی ہے۔ لیکن خوش آئند بات یہ ہے کہ پاکستان کا محنت کش طبقہ اپنے تلخ تجربات سے سیکھتے ہوئے ان تمام پارٹیوں کے کردار کو بخوبی جان چکا ہے اور ان سے مکمل طور پر بیگانہ ہو چکا ہے۔ سوشل میڈیا پر بیٹھے ان تمام پارٹیوں کے وظیفہ خوار دانشوروں کی بک بک سے قطع نظراگر ہم گلی محلوں، کھیتوں کھلیانوں اور فیکٹریوں ملوں میں جا کر محنت کش عوام سے ان پارٹیوں کے بارے میں رائے لیں تو وہ ان کو ایسے ایسے القابات سے نوازتے ہیں کہ انہیں یہاں لکھنا ہمیں دائرہ تہذیب سے خارج کرنے کا سبب بن سکتا ہے۔

جبر واستحصال کی بڑھتی شدت

آنے والے وقت میں بھی پاکستان کا سرمایہ دار حکمران طبقہ اور ریاستی اشرافیہ اپنی اور اپنے غیر ملکی آقاؤں کی لوٹ مار اور منافع خوری کو بڑھانے کے لئے یہاں کے محنت کش عوام پر ہر ممکن ذریعے سے طبقاتی جبر کو بڑھانے کی کوشش کریں گے۔ مزید برآں صرف طبقاتی جبر و استحصال میں ہی نہیں بلکہ قومی جبر، صنفی جبر غرض جبر کی ہر شکل میں بھی مزید شدت آئے گی۔ حکمران اشرافیہ بھی محنت کش عوام کے بڑھتے غم و غصے کو بھانپ رہی ہے اور اسی لئے ایک انقلابی بغاوت کو ابھرنے سے روکنے کے لئے نہ صرف جبر کا ہر ہتھکنڈہ استعمال کر رہی ہے بلکہ پوری شدت کیساتھ ہر ممکن طریقے سے سماج پر رجعت مسلط کرنے کے درپے ہے۔ مزدور تحریک اور ٹریڈ یونینز پر انتہائی دائیں بازو کی رجعتی قوتوں کو مسلط کرنے کی کوششوں سے لے کر تعلیمی اداروں میں ایک طرف جمعیت جیسی دہشت گرد تنظیموں کی بھرپور حمایت اور دوسری طرف طلبہ کو ’کلچر‘ کی بھنگ پلا کر قومی و لسانی بنیادوں پر تقسیم کرنے والی کونسلوں کی پشت پناہی تک سب حکمران اشرافیہ کی اسی منصوبہ بندی کا حصہ ہے۔ پورے ملک میں محنت کش عوام کو مذہب، رنگ، نسل، زبان، فرقے اور قومیت کی بنیاد پر تقسیم در تقسیم کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ پنجاب میں ٹی ایل پی کو کھلی چھوٹ دینے، ماضی قریب میں سپاہ صحابہ کی باقیات سے فرقہ وارانہ جلسے جلوس نکلوانے اور حال ہی میں سندھ میں ایک طرف ایم کیو ایم، جماعت اسلامی اور سندھی قوم پرستوں کی پشت پناہی اور دوسری طرف پی پی پی کو چابی دے کر صوبے میں لسانی و قومی بنیادوں پر فسادات کروانے کی کوششیں سب اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ اسی طرح ایک دور میں پنجاب کی زبان اور کلچر کو خود اپنے ہاتھوں سے دفنانے والی حکمران اشرافیہ آج خود پنجابی شناخت کے نام پر پنجابی شاؤنزم کو ابھارنے کی کوشش کر رہی ہے تاکہ پنجاب کے محنت کشوں اور مظلوم اقوام کے محنت کش عوام کے بیچ قومی بنیادوں پر دوریاں پیدا کی جا سکیں۔ اور دلچسپ بات یہ ہے کہ مظلوم اقوام کے قوم پرست بھی اپنے مالی مفادات اور سیاسی دکانداری کے لئے حکمران طبقے اور ریاستی اشرافیہ کی ان کوششوں کا براہ راست یا بالواسطہ طور پر خوب ساتھ دے رہے ہیں۔ اسی طرح ہر گزرتے دن کے ساتھ آزادی تحریر وتقریر پر نئی جکڑنیں لگائی جا رہی ہیں۔ تعلیمی اداروں اور صنعتی علاقوں کو فوجی چھاؤنیوں میں تبدیل کیا جا رہا ہے۔ بم دھماکوں سے لے کر جبری گمشدگیوں تک دہشت پھیلانے کا ہر ہتھکنڈہ آزمایا جا رہا ہے۔ لیکن یہ حکمران نہیں جانتے کہ ایک وقت آنے پر ہر چیز اپنے الٹ میں تبدیل ہو جاتی ہے اور وہ وقت قریب ہے جب ریاستی جبر کا یہ اندھا دھند استعمال اپنی دہشت کھو دے گا اور الٹا عوام میں پنپتی بغاوت کو مزید مہمیز دینے کا سبب بنے گا۔

اُبھرتی تحریکیں اور قیادت کا بحران

لیکن حکمران اشرافیہ کے تمام تر جبر کے باوجود پچھلے چند سالوں میں محنت کش عوام نے اپنے حقوق کے لئے کئی ایک جراتمندانہ تحریکیں چلائی ہیں۔ پبلک سیکٹر کے محنت کشوں نے ایک طویل عرصہ ایک دوسرے سے الگ تھلگ جدوجہد کرنے کے بعد پچھلے دو سالوں میں کئی ایک بڑے مشترکہ احتجاج کئے ہیں۔ اسی طرح صنعتی مزدور بھی ایک لمبے عرصے کی خاموشی کے بعد اب اپنے حقوق کے لئے حرکت میں آ رہے ہیں۔ پچھلے دو تین سالوں میں ملک کے طول و عرض میں مختلف فوری مسائل پر بے شمار طلبہ احتجاج بھی ہوئے ہیں جبکہ کسان بھی اب اپنے مطالبات منوانے کے لئے وقتاً فوقتاً ریلیوں کی شکل میں بڑے شہروں کا رخ کرتے رہتے ہیں۔ تقریباًدو سال قبل آٹے میں سبسڈی کے معاملے پرپاکستانی مقبوضہ کشمیر میں ایک زبردست عوامی تحریک چلی تھی جبکہ اس سے قبل ایسی ہی عوامی تحریک گلگت بلتستان میں بھی چل چکی ہے۔ اسی طرح پی ٹی ایم کے پلیٹ فارم سے نام نہاد دہشت گردی کی جنگ میں تاراج ہونے والے علاقوں کے پختون عوام نے قومی جبر کیخلاف ایک انتہائی دلیرانہ جدوجہد کی ہے جبکہ حال ہی میں گوادر کے بلوچ عوام نے اپنے ٹھوس معاشی و جمہوری حقوق کے لئے ایک انتہائی شاندار تحریک برپا کر کے پورے خطے کے لئے ایک مثال قائم کی ہے۔ اسی طرح پاکستان کے عوام اور خصوصاً محنت کش طبقے پرآس پاس واقع انڈیا اور ایران جیسے ممالک کے مزدوروں، طلبہ اور کسانوں کی جدوجہد کے شعوری اثرات بھی مرتب ہو رہے ہیں۔ حال ہی میں انڈیا میں طویل کسان جدوجہد کو حاصل ہونے والی شاندار فتح اور قزاقستان میں برپا ہونے والی عوامی بغاوت کو بھی پاکستان کے محنت کش طبقے کی ہر اول پرتوں میں خاصی پذیرائی ملی ہے۔ لیکن اصل مسئلہ درست نظریات، پروگرام اور لائحہ عمل سے لیس ایک انقلابی قیادت کے فقدان کا ہے۔ محنت کشوں کی تمام تر جراتمندی کے باوجود مزدور تحریک کی قیادت پر ابھی تک پرلے درجے کے موقع پرست اور بزدل ترین یونین لیڈرز براجمان ہیں جو محنت کشوں کی بجائے سرمایہ دار طبقے اور ریاستی اشرافیہ کے مفادات کے نمائندے ہیں۔ اسی طرح پی ٹی ایم کی شاندار تحریک کو اس کی حادثاتی قیادت کی قوم پرستانہ تنگ نظری اور موقع پرستی نے شدید نقصان پہنچایا ہے جبکہ گوادر کی حالیہ تحریک تو بلوچ قوم پرستوں کے نظریاتی اور سیاسی دیوالیہ پن کو آشکار کرتے ہوئے محض اس لئے ایک مقامی مولوی کو اپنا لیڈر بنا بیٹھی کہ وہ تحریک کے دباؤ کے تحت ٹھوس عوامی مطالبات کی نعرے بازی کر نے لگ گیا تھا۔ رہی سہی کسر این جی او مافیا اور اس سے منسلک نام نہاد بائیں بازو نے پوری کر رکھی ہے جویا تو زخموں کے بیوپاری بن کر اپنے خیراتی دھندے چلا رہے ہیں یا پھر سرخ جھنڈا اٹھا کر محنت کش طبقے اور خصوصاً طلبہ میں اصلاح پسندی کے شوگر کوٹڈ عوام دشمن نظریات کی ترویج کر رہے ہیں۔ یہ درحقیقت ’بایاں بازو‘ نہیں بلکہ دائیں بازو کا بایاں حصہ ہیں۔

لیکن ہم واشگاف الفاظ میں یہ بتانا چاہتے ہیں کہ پاکستان کے محنت کش طبقے، طلبہ، کسانوں اور مظلوم قومیتوں کے تمام مسائل کا حل صرف اور صرف ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے اس دھرتی پر سرمایہ دارانہ نظام، سامراجی تسلط، بورژوا ریاست کے مکمل خاتمے اور محنت کشوں کی اجتماعی ملکیت اور جمہوری کنٹرول پر مبنی منصوبہ بند سوشلسٹ معیشت اور ایک مزدور ریاست کے قیام کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ پاکستان میں حالات ایک بہت بڑی انقلابی بغاوت کے لئے تیزی سے پک کر تیار ہو رہے ہیں اور یہ کہنا بالکل بجا ہو گا کہ یہ حالیہ بحرانی کیفیت ایک قبل از انقلاب بحرانی کیفیت ہے۔ وہ وقت دور نہیں جب پاکستان کا محنت کش طبقہ پوری طاقت کے ساتھ میدان میں اترے گا اور ملک کے باقی تمام مظلوم عوام کو اپنے پیچھے متحد کرتے ہوئے سرمائے کے اس پورے نظام کو فیصلہ کن انداز میں چیلنج کرے گا۔ لیکن محنت کش طبقہ یہ لڑائی صرف تبھی جیت سکتا ہے جب اس کی قیادت کے لئے مارکسزم لینن ازم کے نظریات سے لیس ایک بالشویک طرز کی انقلابی پارٹی موجود ہو گی۔ طلبہ، غریب کسانوں اور سب سے بڑھ کر محنت کش طبقے کی ہر اول پرتوں کو سائنسی سوشلزم کے نظریات سے لیس اور منظم کرتے ہوئے اس انقلابی پارٹی کی تعمیر ہی آج کے دور میں مارکس وادیوں کا سب سے بڑا فریضہ ہے۔

Comments are closed.