اداریہ ورکرنامہ: حقیقی تبدیلی صرف سوشلسٹ انقلاب سے ہی ممکن ہے!

موجودہ حکومت تبدیلی کا نعرہ لگا کر بر سر اقتدار آئی ہے اور آتے ہی ایسے بلند وبانگ دعوے بھی نظر آئے ہیں جن میں تمام مسائل کو حل کرنے کی باتیں کی گئیں۔لیکن امیدوں کو انتہا تک لیجانے کے بعد کہا گیا کہ ابھی کچھ دیر صبر کریں اور ہمیں پرفارمنس دکھانے کے لیے کچھ وقت چاہیے۔ابھی تین ماہ کا وقت مانگا گیا ہے لیکن واضح ہے کہ بعد ازاں مزید وقت مانگا جائے گا۔ پختونخواہ میں بھی یہی کہا گیا کہ پانچ سال میں تو ہم نے آغاز کیا ہے ابھی صورتحال صحیح معنوں میں تبدیل کرنے کے لیے مزید وقت درکار ہے۔دوسری جانب اپوزیشن پارٹیوں کو دیکھیں تو وہ بھی یہی کہتی ہوئی نظر آتی ہیں کہ ہمیں عوام کی ’’خدمت‘‘ کا پورا موقع نہیں دیا گیا اور رکاوٹیں ڈالی جاتی رہی ہیں۔ تین سے چار دہائیوں سے برسر اقتدار رہنے والے بھی وقت کی کمی کا شکوہ کرتے نظر آتے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ یہ دیکھا جائے کہ حقیقی تبدیلی کے لیے کتنا وقت درکار ہے اور جو پالیسیاں موجودہ حکومت لاگو کر رہی ہے کیا اس سے واقعی کچھ تبدیل ہو سکتا ہے۔

حکومت کی جانب سے ایک اعلان میں کہا گیا کہ حکمرانوں کے لیے مختص وسیع و عریض عمارات اور گھر ایک غریب ملک کے کو زیب نہیں دیتے اور انہیں مسمار کر دینا چاہیے۔ وزیر اعظم ہاؤس سے لے کر گورنر، ڈی سی اور کمشنر کے گھروں کو تعلیمی اداروں یا عجائب گھر وغیرہ میں تبدیل کرنے کا دعویٰ کیا گیا۔ یہ بھی کہا گیا کہ یہ طریقہ کار برطانوی راج میں اپنایا گیا تھا جب غیر ملکی سامراجی طاقت یہاں حکمران تھی اور مقامی افراد پر اپنا رعب اور دبدبہ قائم کرنے کے لیے یہ گھر اور عمارتیں بنائی گئیں تھیں۔ اس لیے ان گھروں کو ختم کرنا ضروری ہے اور ریاست کے نمائندوں کو عوام کے حاکموں کی بجائے ان کا حقیقی معنوں میں خادم بنایا جائے گا۔
اس دعوے کو میڈیا میں بہت پذیرائی ملی اور بہت سے نادان یہ سمجھ بیٹھے کہ بہت جلد تمام بیوروکریٹ اور حکمران عوام کے حقیقی خادم بن جائیں گے اور ریاست کے جبر کا خاتمہ ہو جائے گا۔گو کہ ان کھوکھلے دعوں کی قلعی چند دنوں میں ہی کھل گئی جب یہ سامنے آیا کہ وزیر اعظم کسی کٹیا یا جھونپڑی میں رہنے کی بجائے وزیر اعظم ہاؤس میں ہی براجمان رہیں گے اور گورنر ہاؤس سمیت دیگر تمام گھروں کو فوری طور پر مسمار کرنے کی بجائے اس تمام قضیے کو ایک کمیٹی کے سپرد کر دیا جائے گا۔سندھ کے گورنر نے تو واضح طور پر کہہ دیا کہ گورنر ہاؤس ایک اہم اور تاریخی عمارت ہے اور اس کا وجود ملک و قوم کے لیے انتہائی ضروری ہے۔

اس صورتحال میں دیکھنے کی ضرورت ہے کہ یہ تمام عمارتیں جس ریاست اور جبر کی علامتیں ہیں اس کی موجودگی میں انہیں کیسے ختم کیا جا سکتا ہے۔یہ پوری کی پوری ریاست ہی برطانوی راج کا تسلسل ہے جو یہاں کے ہر پہلو اور ہر کونے میں نظر آتا ہے۔آج اس ملک کا تمام تر قانون برطانوی راج میں انگریزوں کے بنائے گئے قوانین کا ہی تسلسل ہے اور نام نہاد آزادی کے بعد ان قوانین کو تبدیل نہیں کیا گیا۔ پاکستان کی فوج کا تمام تر ڈھانچہ اور ریکروٹمنٹ سے لے کر پروموشن تک کا طریقہ کار برطانوی راج کی فوج کا تسلسل ہے۔پولیس کا تمام تر ڈھانچہ بھی اسی طرز پر موجود ہے اور اس پولیس کا عوام کی جانب رویہ اور ان سے تحقیر آمیز اور تذلیل پر مبنی سلوک بھی انہی مظالم کا تسلسل ہے جو برطانوی حکمران یہاں کے عوام پر ڈھاتے رہے ہیں۔ڈی سی اور کمشنر کا نظام بھی اسی سامراجی غلامی کا تسلسل ہے۔عدالتی نظام میں بھی کچھ تبدیل نہیں ہوا اور جو عدالتی طریقہ کار برطانوی راج میں طے ہوا تھا وہی آج تک جاری ہے۔ اسی طرح تعلیمی نظام کی بنیاد بھی انگریزوں نے ہی رکھی تھی جو آج بھی وہی ہے اور اسی طرز پر پڑھے لکھے غلاموں کی تیاری کا سلسلہ جاری ہے۔گزشتہ سات دہائیوں میں تبدیلیاں کرنے کی متعددکوششیں کی گئیں اور اسلام یا روشن خیالی سمیت بہت سے غلاف بھی چڑھائے گئے لیکن بنیادی نظام میں کوئی تبدیلی نہیں آ سکی۔

تقسیم کے بعد یہاں آئین بنانے کی متعددکوششیں کی گئیں لیکن تمام آئین قانونی اور انتظامی ڈھانچے کو تبدیل نہیں کر سکے اور نہ ہی ریاست کے بنیادی ڈھانچے میں کوئی فرق ڈال سکے۔ ضیاالباطل کے دور میں امریکی سامراج کے ڈالر جہاد کی حمایت کے لیے اسلام کے نام پربہت سی تبدیلیاں کرنے کی کوششیں کی گئیں ۔ اسی طرح مشرف کے دور میں انتظامی امور کا بڑا حصہ منتخب نمائندوں کو دینے کی بات کی گئی اور سول بیوروکریسی کو کمزور کرنے کی کوشش کی گئی۔لیکن اس کے باوجود ریاست کا جبر اور اس کی بنیادیں وہی رہیں جو انگریز سامراجی رکھ گئے تھے۔

اس سارے عمل میں بلدیاتی نظام میں بھی مختلف تبدیلیاں کی جاتی رہیں اور پارلیمانی نظام کے بھی مختلف نمونے پیش ہوتے رہے۔صدارتی طرز حکمرانی بھی یہاں رائج رہ چکا ہے اور آمریتیں بھی طویل حکمرانی کے ادوارگزار چکی ہیں۔ آج بھی بلدیاتی نظام کی از سر نو ترتیب کی بات کی جا رہی ہے اور زیادہ سے زیادہ اختیارات مقامی سطح تک پہنچانے کی بات کی جا رہی ہے۔لیکن ان تمام کوششوں کے باوجود ریاست کے بنیادی ڈھانچے میں کوئی تبدیلی نہیں آئی اور سرمایہ دارانہ نظام کے اندر رہتے ہوئے ہو بھی نہیں سکتی۔ موجودہ وزیر اعظم سمیت بہت سے لوگ برطانیہ اور دیگر ترقی یافتہ ممالک کی مثالیں دیتے ہوئے نہیں تھکتے اور کہتے ہیں کہ ویسا نظام اور ریاستی ڈھانچہ یہاں لاگو کرنے سے تمام مسئلے حل ہو سکتے ہیں ۔ جو دیکھنے میں پرکشش نعرہ لگتا ہے لیکن عملی طور پر ناقابل عمل ہے۔

اس وقت پاکستان کا سماجی معاشی ڈھانچہ سرمایہ دارانہ نظام کے تحت استوار ہے اور پاکستان عالمی سطح پر موجود سرمایہ دارانہ نظام کا ایک حصہ ہے۔ اس نظام کے تحت جو ریاست وجود میں آئی اسے سرمایہ دارانہ ریاست کہا جاتا ہے جو عوام پر جبر اور سرمایہ دار طبقے کے مفادات کا تحفظ کرتی ہے۔دنیا بھر کے نوآبادیاتی ممالک میں جب سرمایہ دارانہ ریاستوں نے اپنے پنجے گاڑے تو وہاں موجود پسماندہ اور قدیم طرز پیداوار کو ختم کر کے سرمایہ دارانہ نظام کو استوار کیا اور اسی کے تحت سرمایہ دارانہ ریاست کو بھی قائم کیا۔ اس کا مقصد ان علاقوں کی بڑے پیمانے پر لوٹ مار اور وہاں پر اپنی حاکمیت کو طویل عرصے تک قائم رکھنے کی کوشش تھی۔ نوآبادیاتی ممالک میں قائم ہونے والی ریاستیں اور سرمایہ داری یقیناپسماندہ ہی رہی اور وہاں پر سامراجی ریاستوں نے شعوری طور پر ایسی بنیادیں بنائیں جس کے تحت وہاں کے افراد صدیوں تک ان کے غلام رہیں۔یہاں پر برطانوی سامراج کی پسپائی کے بعد امریکی سامراج نے اپنی گرفت مضبوط کی اور مالیاتی نظام اور سودی معیشت کی جکڑ بندیوں کے تحت یہاں کے محنت کش عوام کو غلام بنائے رکھا ۔ لیکن اس دوران انہیں مقامی حکمران گماشتوں کی ضرورت بھی پیش آتی رہی جو سامراجی قوتوں کی دلالی کا کام کرتے رہیں۔ یہاں کے حکمران یہ فریضہ خوش اسلوبی سے سر انجام دیتے رہے، جو آج تک جاری ہے، اور اس کے نتیجے میں جاگیروں کے حصول سے لے کر صنعتوں کی ملکیت تک تمام مراعات حاصل کرتے رہے۔

آج اس ریاست کے کسی بھی ایک حصے یا علامت کو تبدیل کرنے سے عوام کو درپیش کوئی بھی مسئلہ حل نہیں ہو سکے گا۔ بلکہ اگر یہ تبدیلی واقعی عملی شکل اختیار کر بھی لیتی ہے، جو ممکن نظر نہیں آتا، تو مسئلہ حل ہونے کی بجائے زیادہ گمبھیر شکل اختیار کر لے گا۔ضرورت اس امر کی ہے کہ اس پورے کے پورے ریاستی ڈھانچے کو ہی ختم کیا جائے جس کی بنیاد یہاں برطانوی سامراج نے رکھی تھی۔اور یہ بتدریج اور طویل مدت میں نہیں بلکہ برق رفتاری سے انقلاب کے ذریعے دنوں اور ہفتوں میں ہو گا۔اس کے لیے یہاں کے بنیادی سماجی معاشی نظام جو کہ سرمایہ داری ہے اس کو ختم کرنا پڑے گا۔اس کا متبادل ماضی کا بادشاہت اور شہنشاہیت والا طرز حکمرانی یا جاگیر دارانہ اور غلام دارانہ طرز پیداوار نہیں ہو سکتا۔ اس کے لیے مستقبل کا جدید سوشلسٹ نظام اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔جس میں تمام ذرائع پیداوار اجتماعی ملکیت میں ہوں اور امیر اور غریب کی طبقاتی تفریق کا خاتمہ کیا جائے۔ اسی مزدور ریاست میں ایسے شاہانہ طرز زندگی کا خاتمہ ہو سکتا ہے اور عوام کے حقیقی منتخب نمائندے ریاست کی باگ ڈور سنبھال سکتے ہیں۔ ایسا صرف ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ہو سکتا ہے جسے محنت کش عوام کی بھرپور شرکت سے ہی کامیاب کیا جا سکتا ہے۔

Comments are closed.