اداریہ: امریکی صدارتی انتخابات اور خطے کی بدلتی صورتحال

امریکہ کے حالیہ صدارتی انتخابات کئی حوالوں سے اہمیت اختیار کر چکے ہیں اوران انتخابات کے نتائج کے اثرات یقیناپوری دنیا پر مرتب ہوں گے۔ لیکن ٹرمپ اور جو بائیڈن میں سے کوئی بھی یہ الیکشن جیت جائے عالمی سطح پر جاری عدم استحکام، ورلڈ آرڈر کا بکھرتا شیرازہ اور مالیاتی بحران کی شدت کسی طور بھی کم نہیں ہو گی بلکہ پہلے کی نسبت کئی گنا زیادہ شدت سے آگے بڑھے گا۔ یہ دونوں امیدوار ہی حکمران طبقے کے مختلف دھڑوں کی نمائندگی کرتے ہیں اور دونوں کا تعلق ہی دائیں بازو سے ہے۔ امریکہ کے محنت کش عوام کی اپنی کوئی سیاسی پارٹی ابھی تک موجود نہیں اور دونوں پارٹیاں، ریپبلکن اور ڈیموکریٹ، حکمران طبقے کے مفادات کا تحفظ کرتی ہیں اور دونوں دائیں بازو کے نظریات کی حامل ہیں۔ گزشتہ چند سالوں سے برنی سینڈرز کے گرد بائیں بازو کے نظریات کے حامل لاکھوں افراد کی ایک عوامی تحریک ابھری تھی لیکن اسے بھی برنی سینڈرز نے مزدور طبقے کی ایک نئی سیاسی پارٹی بنانے کے لیے استعمال کرنے کی بجائے اپنے اصلاح پسندانہ خصی پن کے باعث ڈیموکریٹ پارٹی کے اندر ہی زائل کر دیا۔ گزشتہ انتخابات میں وہ لاکھوں افراد کی حمایت کے باوجود ریاستی اداروں کے دباؤ میں آ کر ہیلری کلنٹن جیسی عوام دشمن امیدوار کے حق میں دستبردار ہو گیا اور اس دفعہ وہ جو بائیڈن جیسے شخص کے لیے دستبردار ہو گیا جس کے ہاتھ عراق اور افغانستان سے لے کر پوری دنیا کے مظلوموں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں۔ اس صورتحال میں امریکہ کے محنت کش طبقے کے لیے ان انتخابات کے بعد بھی معیارِ زندگی میں بہتری یا پولیس و دیگر ریاستی اداروں کے جبر میں کمی نہیں آئے گی اور ان پر معاشی و ریاستی حملے بدستور جاری رہیں گے۔ دوسری جانب سرمایہ داروں کے لیے کھربوں ڈالر کے بیل آؤٹ پیکج دینے کا سلسلہ بھی جاری رہے گا لیکن اس کے باوجود معیشت کا بحران بھی شدید تر ہوتا جائے گا جو پہلے ہی پانچ کروڑ سے زائد افراد کو اس سال کے اوائل میں بیروزگار کر گیا تھا اور شرحِ نمو میں منفی دس فیصد سے بھی زیادہ گراوٹ کا باعث بن چکا ہے۔

امریکی ریاست میں موجود دھڑے بندی بھی کسی طور کم نہیں ہو گی بلکہ اس میں کئی گنا زیادہ شدت آئے گی اور اپنے اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے سرمایہ دار طبقے کے یہ باہمی برسر پیکار دھڑے ایک دوسرے پر مزید شدت سے حملے کریں گے۔ ٹرمپ پہلے ہی عندیہ دے چکا ہے کہ اگر وہ کامیاب نہ ہوا تو وہ دھاندلی کا الزام لگائے گا بلکہ ابھی سے ہی اس نے مختلف حوالوں سے ان الزامات کے سلسلے کا آغاز کر دیا ہے۔ اسی طرح اس نے فوج بلانے کی بھی دھمکی دی ہے جبکہ انتخابات کے بعد عدالتی کاروائی کے لیے بھی دونوں فریق بھرپور تیاری کر رہے ہیں۔ اس سارے عمل نے سرمایہ دارانہ جمہوریت، پارلیمنٹ اور انتخابات کی کھوکھلی حقیقت کو عوام پر واضح کر دیا ہے۔ گزشتہ عرصے میں جاری لاکھوں افراد کی عوامی تحریکوں کے لیے کسی بھی امیدوار کے پاس کوئی منصوبہ موجود نہیں اور نہ ہی وہ ان تحریکوں میں شامل آبادی کے کسی بھی حصے کی نمائندگی کرتے ہیں۔ اس حوالے سے یہ امکان موجود ہے کہ ایک بہت بڑی تعداد انتخابات کے عمل میں شمولیت ہی اختیار نہیں کرے گی۔ یہ درحقیقت اس پورے نظام پر عدم اعتماد کا اظہار ہے جس میں سرمایہ داروں کے مختلف گروہ اپنے نمائندے اقتدار میں لاتے ہیں اور اس کے لیے اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی جاتی ہے۔ محنت کش طبقے کو دینے کے لیے اس سرمایہ دارانہ جمہوریت کے پاس اب کچھ بھی نہیں بچا اور مسلسل جبر اور استحصال کا شکار ہے۔

Joe Biden

جو لوگ یہ سوچ رہے ہیں کہ جو بائیڈن کی جیت کی صورت میں عالمی استحکام ہوگا وہ احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں، ایسا کچھ بھی نہیں ہونے والا۔

بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ اگر جو بائیڈن انتخابات جیت گیا تو ٹرمپ کے صدر بننے سے پہلے والے حالات واپس آ سکتے ہیں اور جو ”غیر معمولی“ کیفیت گزشتہ چار سال میں نظر آئی وہ اپنے انجام کو پہنچ جائے گی۔ یہ لوگ بیوقوفوں کی جنت میں رہتے ہیں اور ایسا کچھ بھی نہیں ہونے والا۔ ٹرمپ کی بیوقوفیاں، سیاسی قلابازیاں، بظاہرغیر ذمہ دارانہ اور غیر سنجیدہ شخصیت، درحقیقت امریکی ریاست اور اس نظام کے بحران کا مجسم اظہار ہے۔ آنے والے عرصے میں اگر جو بائیڈن بھی صدر بن جاتا ہے تو وہ بھی کم و بیش اسی رستے پر چلنے پر مجبور ہوگا اور بحران کی شدت کے باعث امریکی صدر کی نام نہاد متانت، بردباری اور سنجیدگی کسی کو ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملے گی اور نئے سے نئے سیاسی لطیفے روز مرہ کا معمول بنتے رہیں گے۔

اسی طرح امریکی سامراج کا دنیا بھر میں سکڑتا ہوا کردار بھی اب تبدیل نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی چین اور دیگر سامراجی ممالک کے ساتھ امریکہ کے تضادات کو ختم کیا جا سکتا ہے۔ یہ تضادات مختلف شکلوں میں اپنا اظہار کرتے رہیں گے اور عالمی سیاست اور معیشت میں ہیجان انگیزی کسی بھی صورت میں کم نہیں ہو گی۔ جنوبی ایشیا میں امریکی سامراج کی نئی پالیسیاں بھی کسی کی ذاتی خواہش سے بڑھ کر موجودہ عہد کی ضروریات کے تحت ترتیب دی جا رہی ہیں اور ان میں بھی بڑے پیمانے پر تبدیلی کے امکانات موجود نہیں۔ یہ درست ہے کہ مودی نے ٹرمپ کی کمپئین میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے اور سربراہ مملکت کے لیے موجود تمام ضابطے توڑ کر ٹرمپ کی بطور امیدوار حمایت کی ہے جس کی بدولت اس نے خطے میں اپنے لیے سٹریٹجک اور دفاعی مقاصد بھی حاصل کیے ہیں۔ لیکن انڈیا کو جنوبی ایشیا میں اپنا قریبی حلیف بنانا اور چین کے مد مقابل اسے بطور ایک سامراجی طاقت کا کلیدی کردار سونپنا امریکی سامراج کی اپنی مجبوری بھی ہے۔ اس دوران انڈیا سے امریکہ کے جو دفاعی معاہدے ہو چکے ہیں اورجو حمایت اسے مل رہی ہے اس میں زیادہ بڑے پیمانے پر کمی آنے کے امکانات موجود نہیں۔ بعض افراد کا یہ بھی خیال ہے کہ ٹرمپ کی شکست کی صورت میں امریکہ اور چین کے تعلقات بھی پرانی سطح پر بحال ہو سکتے ہیں اور تجارتی جنگ مکمل طور پر ختم ہو سکتی ہے۔ اس کو بھی ایک خوش گمانی ہی کہا جا سکتا ہے۔ اس وقت پوری دنیا جس عہد میں داخل ہو چکی ہے اس میں کسی بھی شعبے اور خطے میں استحکام اور پائیداری آنا ممکن نہیں۔ لیکن ساتھ ہی مختلف سامراجی طاقتوں کے تعلقات میں اتار چڑھاؤ آنااور عالمی سطح پر نئے اتحادوں کا بننا اور ٹوٹنا اس عہد کے کردار کا عمومی خاصہ ہے۔ پوری صورتحال میں بڑے پیمانے پر ڈرامائی تبدیلیوں کا ہونا بھی پوری طرح ممکن ہے لیکن اس سے کسی بھی طور استحکام اور پائیداری نہیں آئے گی اور نہ ہی عالمی مالیاتی بحران کی شدت کم ہوگی بلکہ حالات پہلے کی نسبت زیادہ بڑے بحران کو جنم دیں گے۔ اسی طرح پاکستان اور افغانستان کے حوالے سے پرانی پالیسی اور صورتحال واپس نہیں آسکتی اور دونوں ممالک میں عدم استحکام اور ریاستی و معاشی بحران گہرا ہوتا چلا جائے گا۔ پاکستان کی ریاست کا بحران پہلے ہی نئی انتہاؤں کو چھو چکا ہے اور آنے والے عرصے میں یہ اس سے بھی بہت آگے جائے گا۔ امریکی سامراج کی نئی ضروریات اور خطے میں نئے اتحاداور معاہدے مقامی حکمران طبقے کو ہیجان میں مبتلا کر رہے ہیں اور وہ ماضی کے اس دور کو یاد کر کے ٹھنڈی آہیں بھرتے ہیں جب وہ پورے خطے میں اکیلے امریکی سامراج کے فرنٹ مین کا کردار نبھاتے تھے۔ اب وہ کردار کبھی بھی واپس نہیں آ سکتا خواہ جو بائیڈن سے جتنی بھی للچائی ہوئی امیدیں وابستہ کر لی جائیں۔ دوسری جانب انتخابات میں ٹرمپ کی جیت کے باعث مقامی حکمرانوں کے لیے صورتحال مزید گمبھیر شکل اختیار کرسکتی ہے۔

اس تمام عمل میں محنت کش طبقے کی تحریکیں فیصلہ کن کردار ادا کریں گی اور سامراجی طاقتوں اور مقامی حکمران طبقات کی حاکمیت کو ہمیشہ کے لیے ختم کرنے کے سلسلے کا آغاز ہو گا۔ امریکہ میں اس سال ابھرنے والی عوامی تحریک میں کُل آبادی کے دس فیصد افراد نے حصہ لیا تھا جس میں اب اضافہ ہوگا۔ اسی طرح ہندوستان اور چین میں کروڑوں محنت کشوں کی عوامی تحریکیں سلگ رہی ہیں جو آنے والے عرصے میں فیصلہ کن انداز میں سطح پر اپنا اظہار کریں گی اور اس پورے خطے کی سیاست کو مکمل طور پر تبدیل کرنے کے ساتھ ساتھ پوری دنیا پر اثرات مرتب کریں گی۔ ان عوامی تحریکوں کو کچلنے کے لیے حکمرانوں کی جانب سے بیرونی جنگوں کو مسلط کیے جانے کے امکانات کو بھی رد نہیں کیا جا سکتا۔ پاکستان میں بھی محنت کش طبقہ ایک طویل عرصے کے بعد منظم ہو کر متحرک ہورہا ہے اور آنے والے عرصے کے دھماکہ خیز واقعات اسے بھی ایک انقلابی صورتحال کی جانب دھکیلیں گے۔ یہ تمام عمل حتمی طور پرسرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے کی جانب بڑھے گا اور اس دوران مارکسی نظریات سے لیس ایک انقلابی پارٹی موجود ہوئی تو کسی بھی جگہ سے ایک سوشلسٹ انقلاب برپا کر کے آغاز کیا جا سکتا ہے جو عالمی سوشلسٹ انقلاب کی حتمی فتح کے ذریعے پوری دنیا کو اس ظلم اور جبر سے ہمیشہ کے لیے نجات دلا سکتا ہے۔

Comments are closed.