اداریہ ورکرنامہ: مہنگائی‘ بیروزگاری کے حملے اور سیاست کا ناٹک!

محنت کشوں کے حالات زندگی ہر گزرتے دن کے ساتھ بد تر ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ ہر آنے والا دن ان کے لیے نئے عذاب اور بربادیوں کا پیغام لے کر آتا ہے۔ مہنگائی اور بیروزگاری کے حملوں میں شدت آتی جا رہی ہے اور تھوڑی بہت بچ جانے والی جمع پونجی بھی اب جلد ہی خرچ ہوجاتی ہے۔ ہر محنت کش زندگی کی سانسیں انتہائی مشکل سے برقرار رکھے ہوئے ہے اور اپنا اور اپنے خاندان کا پیٹ پالنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہو چکا ہے۔ ایسی صورتحال میں حکمران ہر روزمعاشی حملوں کے نئے نشتر چبھو کر ان اذیتوں کو مزید تکلیف دہ بنا دیتے ہیں جبکہ امیر ترین افراد کی دولت اور عیاشی بڑھتی جا رہی ہے۔

ایک جانب ملکی کرنسی کی قدر تیزی سے گرتی جا رہی ہے اورڈالر 150 روپے کے نزدیک پہنچ چکا ہے جبکہ تیل کی قیمتوں میں بھی بڑا اضافہ کردیا گیا ہے۔ اسی کے ساتھ ہی تمام اشیائے ضروریات کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہورہا ہے جو رمضان کے مہینے تک آسمان تک پہنچ جائے گا۔ ادویات کی قیمتوں میں کئی گنا اضافہ کیا جا چکا ہے جبکہ بہت سی انتہائی ضروری ادویات کی مصنوعی قلت پیدا کی جا چکی ہے تاکہ ان کی قیمتوں میں مزید اضافہ کیا جا سکے۔ ایسے میں بھوک اور بیماری سے مرنے والے افراد کی تعداد میں بڑا اضافہ ہو چکا ہے۔ لیکن دوسری جانب حکمران عوام کو خوراک کو نصف کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں اور دھمکیاں دی جارہی ہیں کہ شکر کریں قیمتوں میں ابھی کم اضافہ کیا گیا ہے ورنہ ہم بہت زیادہ اضافہ بھی کر سکتے ہیں۔ آنے والے عرصے میں بجلی اور گیس کی قیمتوں میں بڑے پیمانے پر مزید اضافہ کیا جائے گا جبکہ تیل کی قیمتوں میں بھی مزید اضافہ متوقع ہے۔ اس دوران روزگار کے نئے مواقع پیدا ہونے کی بجائے کم ہو رہے ہیں جس کا اعتراف وزیر خزانہ خود بھی کر چکا ہے۔ کرنسی کی قدر گرانے کے باوجود برآمدات میں اضافہ نہیں ہو سکا بلکہ بڑے پیمانے پر کمی ہو چکی ہے جس کی ایک وجہ بہت سی صنعتوں کا بند ہونا بھی ہے۔ اس سے بھی بیروزگاری میں بہت بڑا اضافہ ہو چکا ہے۔

عمران خان کی جانب سے ان زخموں پر نمک چھڑکتے ہوئے غربت کے خاتمے کے ایک نئے پروگرام کا اعلان کیا گیا ہے۔ یہ بھی ماضی کے تمام وعدوں کی طرح جھوٹ کا ایک پلندہ ہے جس میں عوام کے لیے سوائے جھوٹے وعدوں کے کچھ نہیں۔ انتخابات سے قبل ایک کروڑ نوکریاں اور پچاس لاکھ گھر بنانے کا وعدہ کیا گیا تھا۔ اس وعدے کے برعکس حکومت میں آتے ہی موجودہ حکمرانوں نے عوام پر بڑے پیمانے پر حملے کیے اور لاکھوں افراد کو بیروزگار کرنے کے عملی اقدامات کا آغاز کر دیا گیا۔ سب سے پہلے یوٹیلیٹی سٹور کارپوریشن کے چودہ ہزار ملازمین پر بیروزگاری کا حملہ کیا گیا جس کا انہوں نے بھرپور جواب دیا اور اپنے روزگار کا تحفظ کرنے میں بمشکل کامیاب ہوئے۔ اس کے بعد مزدور دشمن کاروائیوں میں شدت آتی گئی اور اسٹیٹ لائف جیسے منافع بخش ادارے کی نجکاری سے لے کر ہسپتالوں اور تعلیمی اداروں کی نجکاری کے ذریعے لاکھوں ملازمین کو بیروزگاری میں دھکیلنے کے اعلانات کیے گئے۔ ایسے ہی بہت سے تعمیراتی منصوبوں کو بند کرتے ہوئے وہ رقم غیر ترقیاتی اخراجات کی جانب موڑ دی گئی جس کے باعث نجی شعبے میں بہت بڑے پیمانے پر بیروزگاری دیکھنے میں آئی۔ موجودہ حکومت کے اقدامات سے تعمیرات سے لے کر ٹیکسٹائل تک تمام شعبوں میں بڑے پیمانے میں محنت کش بیروزگار ہوئے ہیں اور مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں۔

ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ایک حالیہ سروے کے مطابق درمیانے طبقے کے اکثر افراد نے بھی ماہانہ راشن کی خریداری میں بہت بڑی کمی کر دی ہے۔ روزنامہ ڈان کی ایک اور حالیہ رپورٹ کے مطابق ادویات کی فروخت میں بھی کمی دیکھنے میں آ رہی ہے جس کی ایک وجہ ان کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہے۔ رپورٹ کے مطابق میڈیکل سٹور والوں نے بتایا کہ بہت سے گاہک ادویات کی قیمت پوچھ کر واپس چلے جاتے ہیں کیونکہ ان کے پاس وہ دوا خریدنے کے پیسے نہیں ہوتے۔ ان ادویات میں گلا خراب، بخار اور سر درد جیسی عام استعمال کی ادویات بھی شامل ہیں۔ ڈاکٹرز، انجینئرز، اساتذہ اور دیگر بہت سے شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد جنہیں متمول سمجھا جاتاتھا اب سڑکوں پر آ چکے ہیں اور بہتر معیار زندگی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اس تمام تر مہنگائی اور بیروزگاری کے حملوں کے باوجود محنت کشوں کی اجرتوں میں کوئی اضافہ نہیں کیا گیا اور نہ ہی ایسے کسی اضافے کا امکان دکھائی نہیں دیتا۔ آنے والے بجٹ میں بھی سرکاری ملازمین کے لیے تنخواہوں میں سالانہ دس فیصد اضافے کی تجویز کو بھی رد کرنے پر غور کیا جا رہا ہے۔ جبکہ دوسری جانب سرمایہ داروں کو بہت بڑی مراعات دی جا رہی ہیں اور ان کے منافعوں میں اضافوں کے لیے بھرپور اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ اسی پالیسی کے تحت پنجاب اسمبلی کے اراکین کی تنخواہوں اور مراعات میں کئی گنا اضافہ کر دیا گیا ہے۔ اسی طرح دفاعی اخراجات میں بھی بڑے پیمانے پر اضافہ کیا جاچکا ہے جس کے لیے رقم عوام کی سہولیات کے لیے سبسڈی کے خاتمے اور علاج اور تعلیم کے اخراجات میں کٹوتی کے ذریعے مہیا کی جا رہی ہے۔ علاج اور تعلیم کی سہولت پہلے ہی آبادی کے ایک بڑے حصے کو میسر نہیں تھی اب جو رہی سہی تھی وہ بھی چھینی جا رہی ہے۔ اسی طرح بیروزگاری کے ذریعے تعلیم یافتہ افراد بھی غربت کی ذلت میں غرق ہو چکے ہیں جن میں پی ایچ ڈی جیسی اعلیٰ ترین ڈگری رکھنے والے افراد بھی اب شامل ہیں۔

اس تمام تر صورتحال میں حکمران طبقات جعلی ناٹکوں سے عوام کا پیٹ بھرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ تمام تر سیاست اور میڈیا نواز شریف اور زرداری کی ڈگڈگی کے گرد گھمائی جارہی ہے تاکہ عوام کی توجہ ان معاشی حملوں سے ہٹائی جا سکے۔ نواز شریف کی بیماری کے قصے ہوں یا ضمانت کی خبریں، زرداری کی گرفتاری کے بیان ہوں یا حمزہ شہباز کی گرفتاری کی کوششیں، عوام کو ان ناٹکوں میں کوئی دلچسپی نہیں۔ انہیں صرف حکمران طبقات کے مفادات کے لیے مسلط کیا جا رہا ہے۔ اگر بلاول گرفتار ہوتا ہے یا اسلام آباد میں دھرنا دیتا ہے اس سے عوام کا کوئی ایک بھی مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ اگر اس میں اہلیت ہوتی تو سندھ میں عوام کے تمام مسائل حل ہو چکے ہوتے اور وہاں دودھ اور شہد کی نہریں بہہ رہی ہوتیں۔ درحقیقت اس تمام تر سیاست کا عوام سے دور کا بھی کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی ان کے کسی ایک مسئلے کو حل کرنے کی صلاحیت حکمران طبقات میں موجود ہے۔ ایک دوسرے کیخلاف انتقامی کاروائیاں کرنے کا مقصد صرف لوٹ کے مال میں خودزیادہ سے زیادہ حصہ بٹورنا ہے اور دوسرے کا حصہ کم کرنا ہے۔ اس میں کسی کو بھی حتمی شکست نہیں دی جا سکتی اور نہ ہی انتخابی وعدوں کو پورا کرتے ہوئے لوٹ کا مال ضبط کیا جا سکتا ہے۔ ایک نورا کشتی ہے جس سے یہاں کے عوام بخوبی واقف ہیں۔ اس عمل میں ریاستی اداروں کی پشت پناہی اور سامراجی طاقتوں کا کھیل بھی عیاں ہوتا جا رہا ہے اور ان کی حقیقت بھی عوام کے سامنے بے نقاب ہورہی ہے۔ 

ایسی صورتحال میں نئی عوامی تحریکوں اور انقلابات کے امکانات بڑے پیمانے پر موجود ہیں جو اس تمام تر ناٹک کو چیرتے ہوئے عوام کے حقیقی مسائل کو ایجنڈے پر لے کر آئیں۔ اس سرمایہ دارانہ نظام میں رہتے ہوئے ان مسائل کو حل نہیں کیا جا سکتا۔ صرف ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ہی اس نظام کو اکھاڑ کر یہاں ایک ایسی مزدور ریاست تعمیر کی جا سکتی ہے جہاں ہر شخص کو زندگی کی بنیادی سہولیات میسر آ سکیں اور وہ ایک طبقات سے پاک نظام میں ہنسی خوشی زندگی بسر کر سکے۔ ا س انقلاب کی تیاری کے لیے ایک انقلابی پارٹی کی تعمیر آج وقت کی سب سے اہم ضرورت ہے۔

Comments are closed.