اداریہ ورکر نامہ: غم کی عید پر خوشی کا پیغام

کہتے ہیں کہ جب روم جل رہا تھا تو بادشاہ نیرو بانسری بجا رہا تھا۔ حکمران طبقات کا عوام کے دکھوں اور تکلیفو ں کی جانب یہی رویہ رہا ہے۔ وزیر خزانہ اسحق ڈار نے بھی یہی مشورہ دیا ہے کہ لوگ اگر دال نہیں کھا سکتے تو مرغ کھا لیں۔ اس وقت ملک میں محنت کش عوام جو زندگی گزارنے پر مجبور ہیں سول اور فوجی حکمران اشرافیہ اس کا اندازہ بھی نہیں لگا سکتی۔ ٹھنڈے کمروں میں رہنے والے، منرل واٹر پینے والے اور مرغن غذائیں کھانے والے نہیں جانتے کہ شدید گرمی میں بغیر بجلی اور پانی کے زندگی کیسے گزاری جاتی ہے۔ بیروزگاری کا عذاب ہو یا بھوک بیماری اور لا علاجی کا عذاب یہ سب محنت کش عوام کے حصے میں ہی آتے ہیں۔ حکمران طبقے کی تمام تر پالیسیوں اور تمام تر سیاست کا مقصد بھی اپنی انہی مراعات کا تحفظ کرنا اور اپنے طبقے کے مفادات کو تقویت دینا ہے۔ رائج الوقت سیاست کے تمام حصہ داروں کی بھی یہی مرضی و منشا ہے کہ موجود نظام کو کسی بھی شکل میں جاری و ساری رکھا جا ئے تاکہ حکمران طبقے کی حکمرانی قائم رہے اور کروڑوں محنت کش عوام ٹیکسوں کے پیسوں اور دیگر ذرائع سے ان کی تجوریاں بھرتے رہیں تاکہ ان کی پر تعیش زندگی رواں دواں رہے۔ ایسے میں یہ کہنا مشکل نہیں کہ عید کی خوشیاں کس کے لیے ہیں۔ محنت کشوں کی وسیع اکثریت تو اس دن بھی دیہاڑی کے لیے ماری ماری پھرتی ہے۔ چھٹی خواہ کسی دن بھی کی ہو ان کے اور ان کے اہل و عیال کے لیے وہ فاقے کا دن ہے۔ جبکہ دوسری جانب حکمران طبقے کے افراد کے لیے ہر روز روزِ عید ہے اور ہر شب شبِ برات۔
یہاں سب سے اہم سوال یہ ہے کہ ان کروڑوں لوگوں کو حقیقی خوشی کیسے حاصل ہو سکتی ہے۔ ایسی خوشی جب وہ ہرروز کی بنیادی ضروریات کی تگ و دو سے آزاد ہو کر اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو بروئے کار لاسکیں۔ روٹی، کپڑا، مکان، علاج اور تعلیم ریاست کی ذمہ داری قرار پائے اور سماج میں پیدا ہونے والی دولت ان کی بنیادی ضروریات کی تکمیل پر خرچ کی جائے۔ ان کی نسلیں بھوک ‘بیماری اور لا علاجی کے گھناؤنے چکر سے آزاد ہو کر شادمانی کے ترانے گا سکیں۔ موجودہ سرمایہ دارانہ نظام میں ایسا ہونا کبھی بھی ممکن نہیں۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے خونی پنجوں میں جکڑے اس سودی نظام سے نجات حاصل کیے بغیر عوام کی وسیع اکثریت خوشیوں کی راہ تکتی ہی اس دنیا سے رخصت ہو جائے گی جبکہ آنے والی نسل کو مزید مصائب اور تکالیف وراثت میں منتقل کرتی رہے گی۔ موجودہ حکمران اور رائج الوقت تمام سیاسی جماعتیں بھی اسی استحصالی نظام کی پروردہ ہیں اور اپنی مراعات اور ذاتی مفادات کے حصول کے لیے عوام سے مسلسل جھوٹ بولتی چلی آ رہی ہیں۔ لیکن دوسری جانب ان تمام تر ناٹکوں کے باعث محنت کشوں کے سامنے ان کی قلعی کھل چکی ہے اور حقیقت واضح ہو چکی ہے۔
محنت کشوں کے تمام غموں سے نجات اور خوشیوں کے حصول کا واحد رستہ ایک سوشلسٹ انقلاب ہے۔ ایک ایسا انقلاب جس میں حکمران طبقے کے تمام افراد کی دولت اور جائدادیں ضبط کر لی جائیں اور تمام بینکوں کو سرکاری تحویل میں لیتے ہوئے حکمرانوں کے تمام اکاؤنٹ منجمد کر دیے جائیں۔ صنعت اور معیشت کے تمام کلیدی شعبوں کی نجی ملکیت ختم کر کے انہیں مزدوروں کے اجتماعی کنٹرو ل میں لیا جائے۔ تمام بیرونی قرضوں کی ادائیگی سے انکار کردیا جائے اور تمام سامراجی مالیاتی اداروں سے ہر قسم کے تعلقات منقطع کر لیے جائیں۔ تمام جاگیروں کا خاتمہ کرتے ہوئے انہیں مزارعوں میں تقسیم کیا جائے یا سرکاری تحویل میں لے لیا جائے۔ اس تمام تر نئے معاشی نظام کو چلانے کے لیے پرانے بوسیدہ ریاستی ڈھانچے کو منہدم کرنا ناگزیر ہے۔ اس کے لیے عوامی کمیٹیوں یا سوویتوں پر مشتمل ایک نئی مزدور ریاست کی تخلیق کرناہو گی۔ موجودہ ضلعی انتظامیہ، پولیس، عدالت، پارلیمنٹ سمیت تمام ریاستی اداروں کا خاتمہ کرتے ہوئے ایک نئی مزدور ریاست کی بنیاد رکھی جائے گی۔ محکوم قومیتوں پرغاصبانہ تسلط ختم کرتے ہوئے انہیں قومی آزادی کے لیے حق خود ارادیت دیا جائے گا۔ اس مزدور ریاست میں امیر اور غریب پر مبنی طبقاتی نظام کا مکمل خاتمہ ہو گا اور تمام افراد کو بنیادی ضروریات فراہم کرنا مزدور ریاست کی ذمہ داری ہو گی۔ ہر شخص کے لیے علاج اور تعلیم مفت فراہم کیا جائے گا۔ ادویات اور علاج و تعلیم کی خرید و فروخت پر سخت پابندی ہو گی۔ ہر خاندان کو رہائش کے لیے گھرمہیاکیا جائے گا۔ بیروزگاری جرم ہو گااور ہر شخص کو روزگار فراہم کیا جائے گا۔ اس سوشلسٹ نظام میں چند خاندانوں یا افرادکی حکمرانی کی جگہ تمام افراد کی اجتماعی حکمرانی ہو گی۔ انقلاب کے اس پیغام کو خطے کے دوسرے ممالک کے محنت کشوں تک پھیلانا نا گزیر ہے۔ یہاں پر محنت کشوں کی خوشحالی اور ترقی کو دیکھتے ہوئے خطے کے دیگر محنت کش تیزی سے اسی انقلاب کے رستے پر گامزن ہوں گے۔ ان ممالک میں بھی ایساہی انقلاب برپا کر کے ان مصنوعی سرحدوں کا بھی ہمیشہ کے لیے خاتمہ کیا جا سکتا ہے اور جنگوں، خانہ جنگیوں،خونریزی، بھوک اور بیماری کو ماضی کاقصہ بنایا جا سکتا ہے۔ یہی وہ منزل ہے جس کا حصول محنت کشوں کے لیے سچی خوشی لائے گا۔ یہی ان کی عید ہو گی۔

Comments are closed.