کراچی: کم از کم تنخواہ پر عملدرآمد کیلئے مختلف فیکٹریوں کے مزدوروں کی ہڑتالیں

|رپورٹ: انفارمیشن سیکرٹری ریڈ ورکرز فرنٹ، کراچی|

گزشتہ ماہ کراچی میں سندھ حکومت کی جانب سے اعلان کردہ کم از کم تنخواہ 25 ہزار روپے ماہانہ کے حصول کے لیے لانڈھی اور کورنگی انڈسٹریل ایریا میں واقعہ متعدد فیکٹریوں جن میں Casual Sports، آرٹسٹک ملینئیرز، فاطمہ گامنٹس، سورتی، قاسم ڈینم، AGI ڈینم، یونس وجبی ٹیکسٹائل، گل احمد اور ایکسپورٹ پروسیسنگ زون سمیت ٹیکسٹائل و گارمنٹس کی متعدد فیکٹریاں شامل ہیں، کے اندر اور باہر سینکڑوں مرد و خواتین محنت کشوں نے خود رو لیکن انتہائی منظم انداز میں کام چھوڑ ہڑتالیں کیں۔ ٹیکسٹائل اور گارمنٹس کی صنعت پاکستان کی نحیف معیشت میں بہت اہمیت کی حامل ہے لیکن سرمایہ داروں، ان کے نمائندہ سیاسی و عسکری حکمرانوں اور بین الاقوامی برانڈز کے مالکان کے رویے نے اس شعبے کے لاکھوں مزدوروں کو تمام بنیادی حقوق سے محروم کر کے کم اجرت والا غلام بنایا ہوا ہے۔ کرپٹ بیوروکریسی اور فیکٹری مالکان کے گٹھ جوڑ نے کارکنوں کو تحریری تقرری کے خطوط دینا اور انہیں سوشل سیکورٹی ڈیپارٹمنٹ، ورکرز ویلفیئر فنڈ اور اولڈ ایج بینیفٹ کے اداروں میں رجسٹر کرانا تقریباً ناممکن بنا دیا ہے۔ کراچی کی ٹیکسٹائل اور گارمنٹس فیکٹریاں محنت کشوں کے لیے جدید غلام خانوں اور جیلوں میں تبدیل ہو چکی ہیں۔ کورنگی، لانڈھی، سائیٹ، پورٹ قاسم، نیو کراچی سمیت سب سے بڑے صنعتی مرکز کا مقام رکھنے والے شہر کے صنعتی محنت کش اس خوفناک مہنگائی کے دور میں بھی محض 8 ہزار سے 18 ہزار روپے ماہانہ تک اجرتیں لے کر اپنی زندگیوں کی ڈور قائم رکھنے کی تگ و دو میں ہیں۔ ان میں سب زیادہ بدحال محنت کش ٹیکسٹائل و گارمنٹس کے شعبے میں موجود ہیں۔

پچھلے چند مہینوں میں کم از کم اجرت میں اضافے کے لیے فیکٹریوں میں ہڑتالوں کے ایک سلسلے کا آغاز ہوچکا ہے۔ ان میں آرٹسٹک ملینیئرز، فاطمہ گارمنٹس، سورتی، قاسم ڈینم، AGI ڈینم، یونس ٹیکسٹائل، رجبی ٹیکسٹائل، گل احمد اور ایکسپورٹ پروسیسنگ زون کے محنت کشوں نے اجرتوں میں اضافے اور بروقت ادائیگی، بونس و بقایاجات کی ادائیگی اور خواتین محنت کشوں سے رات دیر تک اوور ٹائم کرانے جیسے مسائل کے حل کے لیے ہڑتالیں کیں۔ یہ زیادہ تر وہ فیکٹریاں ہیں جہاں محنت کش ایکسپورٹ کا مال تیار کرتے ہیں۔ یونینز کی غیر موجودگی کے باوجود بھی محنت کشوں نے ہڑتالوں میں شاندار نظم و ضبط کا مظاہرہ کیا اور بغیر کسی توڑ پھوڑ یا بدنظمی کے اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا لیکن اس کے باوجود احتجاجی محنت کشوں کو مالکان و انتظامیہ کی جانب سے دھمکیاں دی گئیں ہیں۔ گارڈز کی جانب سے محنت کشوں پر تشدد کی اطلاعات بھی موصول ہوئی ہیں۔

فیکٹریوں کے محنت کشوں کا کہنا ہے کہ مہنگائی کے اس طوفان میں ان کے گھروں کے چولہے جلانا ان کے لیے مسلسل کٹھن ہوتا چلا جارہا ہے۔ ہر صبح ہی کسی نہ کسی بنیادی ضرورت کی شے کی قیمتیں بڑھی ہوئی ملتی ہیں جس سے ان کی زندگیاں اجیرن ہوتی چلی جا رہی ہیں۔ تنخواہوں کے علاوہ بونس و بقایاجات بھی ادا نہیں کئے جاتے۔ اس کے علاوہ قانون کے مطابق خواتین محنت کشوں کو شام سات بجے کے بعد اوور ٹائم کے لیے نہیں روکا جا سکتا۔ لیکن یہاں پر باقی قوانین کی طرح سرمایہ دار اس قانون کی دھجیاں بکھیرتے نظر آتے ہیں۔ محنت کش خواتین سے رات دس بجے تک اوور ٹائم کرایا جاتا ہے جس سے ان کے گھر متاثر ہونے کے ساتھ ساتھ رات دیر گئے اکیلے صفر کرنے کا عذاب اور شدید پریشانی بھی لاحق ہوتی ہے۔

ریڈ ورکرز فرنٹ محنت کشوں کے مطالبات کی مکمل حمایت کرتا ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ یہ مطالبات بالکل جائز ہیں۔ اس ملک کے لٹیرے حکمران اقتدار میں حصہ داری کی عیاشی حاصل کرنے کے لیے اگر ملک میں احتجاج کر سکتے ہیں تو اس احتجاج کے حق سے محنت کشوں کو محروم نہیں کیا جا سکتا۔ وہ بھی ایک ایسی کیفیت میں کہ جب تمام تر سیاسی و عسکری پارٹیوں کے دھڑے اور حکمران ان سرمایہ داروں کے حقوق کی حفاظت کا ازل سے ٹھیکہ اٹھائے ہوئے ہیں۔ میڈیا، پولیس و فوج، عدلیہ سمیت سب اپنے تمام تر اختلافات (مال کی حصہ داری کی لڑائی) کے باوجود ان سرمایہ داروں کی لونڈیوں کا کردار ادا کرتے ہوئے ملک کے مزدوروں کا خون چوس کر آئے روز ان پر مہنگائی کے حملے کیے جارہے ہیں۔ ایسی صورتحال میں محنت کشوں کے پاس اپنے جینے کے حق کا مطلب مزاحمت اور احتجاج ہی بن جاتا ہے اور احتجاج سے محنت کشوں کو دھمکیوں سے ڈرا کر روکا نہیں جاسکتا۔

ہم سمجھتے ہیں کہ ملک بھر میں ٹیکسٹائل و گارمنٹس سیکٹر کے محنت کشوں کے حالات سب سے بدتر ہیں کہ جہاں اپنے حقوق کے لیے یونین سازی اور احتجاج کرنا بھی جرم کے زمرے میں آتا ہے۔ جبکہ اس سیکٹر میں بغیر سہولیات کے محنت کشوں سے بھیڑ بکریوں کی طرح کام لیا جاتا ہے۔ ہم محنت کشوں کے احتجاج کی بھرپور حمایت کرتے ہیں، جہاں جہاں انہیں باہر آکر احتجاج نہیں کرنے دیا جارہا تو یہ فیکٹری کے اندر ہی کام چھوڑ ہڑتال کرکے مالکان کو باآسانی بتا سکتے ہیں کہ فیکٹری مالکان کے پیسے سے نہیں بلکہ ان کی محنت سے چلتی ہے اور جب یہ ہاتھ محنت کرنا روک دیں تو یہ رتی بھر منافع بھی حاصل نہیں کرسکتے جس کے بلبوتے پر یہ معاشرے میں یہ امیر زادے نام نہاد عزت دار بنے پھر رہے ہیں۔ جب فیکٹری کے محنت کش کام روک کر ہڑتال سے بغیر تالے لگائے تالے لگائیں گے تو ان مالکان اور انتظامیہ کے ہوش ٹھکانے لگ جائیں گے۔

لیکن احتجاج کے اس سارے عمل کو انتہائی منظم انداز میں آگے بڑھانا ہوگا ورنہ انتظامیہ کی جانب سے واپسی وار کرنا آسان ہو جائے گا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ محنت کشوں کو فیکٹری میں منتخب ہڑتالی کمیٹی بنا کر اس کے ذریعے احتجاج منظم کرنے کی ضرورت ہے، یہی ہڑتالی کمیٹی ہی احتجاج سے متعلق تمام فیصلہ جات کرے تاکہ انتظامیہ کو کسی فرد واحد کو ٹارگٹ کر سکنے کا موقع نہ ملے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ فیکٹری کے تمام ڈیپارٹمنٹس کی ہڑتالی کمیٹیاں بنا کر ان کے نمائندگان پر مشتمل مرکزی ہڑتالی کمیٹی بنانی چاہیے، اس سے تمام ڈیپارٹمنٹس کے محنت کشوں کے مسائل کی بھرپور نمائندگی بھی ہوسکے گی اور مرکزی کمیٹی ایک حقیقی مزدور نمائندہ کمیٹی مل کر احتجاج کو منظم کرے گی اور تمام محنت کشوں کے مشترکہ مطالبات کو انتظامیہ کے سامنے رکھے گی۔ اس کے علاوہ مطالبات پر عملدرآمد کے لیے بھی مذاکرات کے تمام تر عمل کو مضبوط اور شفاف بنانے کے لیے یہ عمل تمام احتجاجی محنت کشوں کے سامنے ہونا چاہیے۔ درپردہ اور مینیجر و انتظامیہ کے کمروں میں مذاکرات کے عمل کی شدید مخالفت ہونی چاہیے۔ تاکہ ہر بات سب محنت کشوں کے سامنے ہو سکے۔ اس طرز پر کی گئی ایک منظم ہڑتال ٹیکسٹائل سمیت تمام دیگر شعبوں کے محنت کشوں کے مسائل کے حل کا آغاز بن سکتی ہے۔

لیکن ہم محنت کشوں کو یہ بات بھی ذہن نشین کرنی ہوگی کہ یہ مہنگائی کے حملے اب رُکنے والے نہیں ہیں۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جیسے اداروں کی چاکری کرنے والے ہمارے حکمران اور ان کے نظام سرمایہ داری کے مفادات اور منافعے اب صرف ہماری زندگیوں کی قیمت پر ہی پورے ہو رہے ہیں۔ چند ماہ پہلے جب کم از کم اجرت 25 ہزار روپے کا اعلان کیا گیا تھا تب سے اب تک مہنگائی میں ہوشربا اضافہ ہو چکا ہے اور یہ سلسلہ ابھی مزید تیز ہونا ہے۔ اس لیے ہم پر فرض ہے کہ ہم اپنے آج کے ساتھ ساتھ اپنے مستقبل کی لڑائی پر بھی توجہ مرکوز کریں۔ حکمرانوں اور سرمایہ داروں کے حملے روکنے کے ساتھ ساتھ ان عذابوں سے مستقل نجات کے لیے ہمیں اس سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے کی جدوجہد بھی کرنی ہوگی، ورنہ یہ ہمیں کھا جائے گا۔ اس نظام کا خاتمہ کرکے ایک منصفانہ نظام جسے خود محنت کش طبقہ چلائے، نہ صرف قائم کیا جا سکتا ہے بلکہ آج ہم نے اگر یہ کام نہ کیا تو کل ہماری زندگیوں کو یہ نظام ختم کردے گا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اس فریضے کو محنت کش طبقہ ہی سرانجام دے سکتا ہے۔ کیونکہ پورا نظام آپ ہی کی محنت سے چلتا ہے جسے روک کر بدلنے کی صلاحیت بھی صرف آپ کے پاس ہی ہے۔

Comments are closed.