پاکستان: صرف کرونا نہیں‘ سرمایہ داری کو مارو!

|تحریر: پارس جان|

خیبر پختونخوا کے ایک سرکاری ہسپتال میں ایک ڈاکٹر چہرے اور ہاتھوں پر شاپنگ بیگ چڑھا کر مریص چیک کرتے ہوئے۔ یہ ہے کرونا وبا کے مقابلے کے لیے حکومتی اقدامات کی اصل حقیقت۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں اب تک کرونا وائرس سے متاثرہ مریضوں کی مصدقہ تعداد 1016 کے لگ بھگ ہو چکی ہے۔ وزیرِ اعظم عمران خان نے گزشتہ شام اس تعداد کے ابھی تک ایک ہزار سے کم ہونے کی وجہ کامیاب حکومتی پالیسی کو قرار دیا اور ان کا کہنا تھا کہ اگر ہم ایران، اٹلی اور کرونا زدہ باقی ماندہ دنیا سے پاکستان میں کرونا کے مریضوں کی تعداد میں اضافے کی شرح کا موازنہ کریں تو یہاں صورتحال قدرے تسلی بخش دکھائی دیتی ہے۔ موصوف نے یہ بھی کہا کہ پاکستان میں کرونا کے زیادہ تر مصدقہ مریض ایران سے آنے والے زائرین ہیں اور ابھی تک مقامی آبادی میں کرونا کا پھیلاؤ بہت ہی کم ہے۔ وہ اس سے پہلے بھی اسی دلیل کو لاک ڈاؤن میں تاخیر کے جواز کے طور پر برت چکے ہیں جب انہوں نے واضح طور پر کہا تھا کہ ’ابھی یہاں اٹلی اور ایران جیسی صورتحال نہیں ہے کہ لاک ڈاؤن ضروری ہو‘۔ وزیرِ اعظم کے ان تمام تر دعووں کا زمینی حقائق سے جب موازنہ کیا جاتا ہے تو روم کے شہنشاہ سے متعلق وہ مشہور حکایت یاد آجاتی ہے کہ ’روم جل رہا تھا اور نیرو بانسری بجا رہا تھا‘۔ حقیقت یہ ہے کہ 15 مارچ تک پاکستان میں کرونا کے مصدقہ مریض پچاس کے لگ بھگ تھے اور گزشتہ آٹھ سے نو دنوں میں یہ تعداد 1ہزار سے تجاوز کر چکی ہے اور یہ شرح ابتدائی پھیلاؤ کے حوالے سے اٹلی سے کسی صورت بھی کم بھیانک نہیں ہے۔ مزید گہرائی میں صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو سب سے اہم سوال یہ سامنے آتا ہے کہ ابھی تک کتنے مریضوں کے ٹیسٹ کیے گئے ہیں؟ اسلام آباد اور دیگر بڑے شہروں سے سوشل میڈیا پر ایسی بہت سی خبریں دیکھنے میں آئی ہیں کہ بہت سے ایسے لوگ جن میں کرونا کی واضح ابتدائی علامات موجود تھیں، ان سے ان کی سفری معلومات لے کر یہ کہہ کر واپس بھیج دیا جاتا ہے کہ آپ کو کرونا نہیں ہے اور اگر پھر بھی آپ کو شک ہے تو آپ نجی ہسپتالوں یا لیبارٹریوں سے رجوع کر سکتے ہیں۔ اور یہاں یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ 80 فیصد سے زیادہ پاکستانی عوام نجی لیبارٹریوں سے ’رجوع‘ کرنے کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ سفری معلومات سے ٹیسٹنگ کو مشروط کرنے کا جواز حکومت کا وہی بیانیہ ہے کہ ابھی تک مقامی آبادی میں وائرس کا پھیلاؤ شروع نہیں ہوا۔ اگر مجموعی طور پر ہونے والے ٹیسٹوں اور مصدقہ مریضوں کی تعداد کے تناسب پر غور کیا جائے تو اس اعتبار سے پاکستان میں صورتحال دنیا میں سب سے زیادہ ہولناک ہے۔

ملکی آبادی کی بھاری اکثریت ایسی جھونپڑ پٹیوں اور تنگ و تاریک مکانوں میں رہتی ہے جہاں سوشل ڈسٹنسنگ کی بات کرنا ہی ایک بھونڈا مذاق ہے۔

مزید برآں، وزیرِ اعظم صاحب اس بات پر بہت خوش دکھائی دے رہے ہیں کہ اٹلی دنیا میں دوسری سب سے زیادہ ’بوڑھی‘ قوم ہے، اسی وجہ سے وہاں جانوں کا ضیاع بہت زیادہ ہوا، جبکہ پاکستان دنیا کی ’نوجوان ترین‘ قوم ہے لہٰذا یہاں پر نتائج اتنے خطرناک نہیں ہوں گے۔ اول تو اس بات پر اترانے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ یہ اعداد و شمار خود مادی و ثقافتی ترقی نہیں پسماندگی کی طرف اشارہ کرتے ہیں اور اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ وزیرِ اعظم اس سے منسلک دیگر اعداد و شمار کو مکمل طور پر نظر انداز کررہے ہیں جن کی رو سے پاکستان دنیا کے ان ممالک میں بھی سرِ فہرست ہے جن میں ہر آنے والی نئی نسل کے قد اور وزن گزشتہ نسل سے کم ہوتے جا رہے ہیں اور ان کی ذہنی اور جسمانی نشوونما ’تعطل پذیر (Stunted Growth)‘ ہے۔ اس کے علاوہ غذائی قلت (malnutrition) اور غیر سائنسی علاج میں بھی مملکتِ خداداد کا کوئی ثانی نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ پاکستان میں آبادی کی وسیع تر پرت بچپن سے سیدھا بڑھاپے میں قدم رکھ دیتی ہے۔ یہاں جوانی کسی دشت کے سراب کی طرح ہی آتی ہے جسے صرف دیکھا جا سکتا ہے کبھی چھوا نہیں جا سکتا۔ یوں قوتِ مدافعت کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے یہ دردناک پیشگوئی کی جا سکتی ہے کہ یہاں اس وائرس سے مرنے والوں کی اوسط عمر یورپ کے مقابلے میں بہت کم ہو سکتی ہے۔ عین ممکن ہے کہ موسم کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ اس وائرس کے طرزِ عمل میں بھی تبدیلی واقع ہو اور نتائج پیشگوئی کے بالکل برعکس ہوں۔ راقم سمیت اس ملک کا ہر شخص اسی خوشگوار معجزے کا خواہشمند بھی ہے۔ لیکن اگر حکومت صرف اس قسم کے مفروضوں پر ہی پالیسی بناتی ہے تو اس رویے کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ یہ اسی قسم کی منفی سوچ کا ہی نتیجہ ہے کہ ملک میں مذہبی اجتماعات اور باجماعت نمازوں کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے اور ساتھ ہی آج تک بین الصوبائی ٹرینیں بھی چلتی رہی ہیں جن میں سماجی تفاصل (Social Distancing) کا سوچا بھی نہیں جا سکتا اور سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی تصاویر اور ویڈیوز میں واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ ان ٹرینوں میں پاؤں رکھنے تک کی جگہ نہیں تھی۔ یوں اتنی کھلی چھوٹ کے باوجود اگر وائرس کا پھیلاؤقابو میں رہتا ہے تو اس شفقت،صلہ رحمی اور خصوصی رعایت پر وزیرِاعظم سمیت پوری قوم کرونا کی مشکور و ممنون ہو گی۔

حکمران طبقے کی سوجھ بوجھ اور معاملہ فہمی کے کیا ہی کہنے۔ سوشل میڈیا اورعوامی حلقوں میں سب سے بڑے صوبے کے وزیرِ اعلیٰ کی ’معصومیت‘ کا کافی مضحکہ اڑایا جا رہا ہے کہ موصوف دو گھنٹے کی بریفنگ کے بعد پوچھتے ہیں کہ ’کرونا کاٹتا کیسے ہے؟‘ مگر عثمان بزدار محض ایک فرد نہیں ہے بلکہ بحیثیتِ مجموعی حکمران طبقے کی ذہنی پراگندگی کا مجسم اظہار ہے۔ وزیرِ اعظم کے لیے بھی یہ بات سو فیصد درست ہے۔ ابھی تک وزیرِ اعظم اپنے قوم سے کیے گئے خطبوں اور دیگر پریس بریفنگز میں کرونا کی تعریف و تفسیر اور لاک ڈاؤن یا کرفیو کی تشریح اور باہمی تعلق کو ہی بیان کرنے کی ناکام کوشش کرتے رہے ہیں اور کسی بھی جامع پالیسی کی بجائے اس آفت سے نبردآزما ہونے کی تمام تر ذمہ داری پہلے ہی بھوک اور افلاس سے ہلکان عوام کے نحیف کندھوں پر ڈال دی گئی ہے۔ حال ہی میں مسٹر ہینڈسم نے مکمل لاک ڈاؤن نہ کرنے کے حق میں جو نہایت ’مدبرانہ‘ گفتگو کی ہے اس کا لبِ لباب یہ تھا کہ یہ ’کوئی ٹوئنٹی ٹوئنٹی میچ نہیں ہے بلکہ یہ صورتحال چھ سے سات ماہ تک جاری رہ سکتی ہے، اس لیے ہمیں مرحلہ وار اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔ اگر ہم ابھی کرفیو لگا دیتے ہیں اور اس کے باوجود کرونا تیزی سے پھیلتا رہتا ہے تو پھر ہمارے پاس کرنے کو کچھ نہیں رہ جائے گا‘۔ یہ ایک متعفن اور مجرمانہ سوچ کی عکاسی ہے، اصل میں ایک مؤثر اور حقیقی کرفیو یا لاک ڈاؤن کے باوجود وائرس کی برق رفتار نمو کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ یہ خان صاحب کی مخصوص خالصتاً مابعد الطبیعاتی اپروچ اور رحونیت(معاف کیجیے گا، روحانیت)کا ہی کمال ہے کہ وہ ممکنہ اموات کی وجہ وائرس کی بجائے کسی ناگہانی آفت کو سمجھتے ہیں۔ اسی لیے موصوف نے تمام تر خطرات اور تنبیہات کے باوجود تبلیغی جماعت کے اجتماع کی اجازت دی اور بعد ازاں شدید دباؤ اور تنقید کے پیشِ نظر اسے ختم کرنا پڑا۔ حکمران طبقہ یہی چاہتا ہے کہ محنت کش عوام دعاؤں اور مناجات پر ہی اکتفا کر لے اور تمام جانی نقصان کو قسمت کا لکھا سمجھ کر قبول کر لے۔ اسی اثنا میں، تمام تر جانی نقصان کے بدلے ناا ہل حکمران طبقہ اپنے سامراجی آقاؤں سے زیادہ سے زیادہ مالی رعایتیں اور بھیک حاصل کرنے کی کوشش کرے گا۔ ’اٹلی اور ایران‘ جیسی صورتحال نہ ہونے پر زور دینے کے پیچھے یہی خواہش کارفرما ہے کہ صورتحال جلد از جلد تمام متاثرہ ممالک سے زیادہ بھیانک ہو جائے تاکہ تمام سامراجیوں کی ہر ممکن ’فیاضی‘ کی توجہ کا مرکز بنا جا سکے۔ ایسا نہیں ہے کہ حالات مکمل طور پر ناقابلِ گرفت تھے بلکہ موجودہ صورتحال کو صرف تفتان بارڈر پر بہتر منصوبہ بندی کے ذریعے روکا جا سکتا تھا مگر اس کے لیے ان کے بالکل برعکس اقدامات اٹھانے کی ضرورت تھی اور وائرس کے پھیلاؤ کو پہلے ہی مرحلے میں تمام ریاستی وسائل بروئے کار لاتے ہوئے قابو کیا جا سکتا تھا۔

حکومت اور ریاستی اشرافیہ کو درحقیقت، دیہاڑی داروں کی نہیں بلکہ اپنے آقاؤں یعنی سرمایہ داروں کے منافعوں کی فکر ہے۔

کہا یہ جا رہا ہے کہ اگر کرفیو لگا دیا جاتا ہے تو ’دیہاڑی دار‘ مزدور بھوک سے مر جائیں گے۔ زمینی حقائق یہ ہیں کہ گزشتہ دو ہفتوں سے دیہاڑی دار پہلے ہی کام نہ ملنے کی وجہ سے پریشان ہیں۔ اصل میں وزیرِ اعظم دیہاڑی دار مزدوروں کے لیے مگر مچھ کے آنسو بہا کر اپنے حقیقی اتحادیوں کے منافعوں کو تحفظ فراہم کرنا چاہتے تھے۔ اور ابھی تک ان سرمایہ داروں کا جو بھی نقصان ہوا ہے اس کی تلافی بھی کرنا چاہتے تھے۔ مجھے کہنے دیجیے کہ سرمایہ دار طبقے کے لیے کرونا ایک بہت بڑی نعمت بن کر سامنے آیا ہے۔ کیونکہ عالمی معاشی بحران کی وجہ سے پہلے ہی پاکستانی برآمدات تیزی سے کم ہو رہی تھیں اور ساتھ ہی چین سے سستی درآمدات نے مقامی منڈی بھی ان نا اہل سرمایہ داروں کے لیے تنگ کر دی تھی۔ ان کی مسابقت کی نا اہلیت کے باعث ان کو جو نقصان اٹھانا پڑا ہے، اب یہ کرونا کی آڑ میں اس نقصان کا بھرپور ازالہ کریں گے۔ اس کی واضح مثال کل مرکزی حکومت کی طرف سے اعلان کردہ معاشی پیکج ہے جس میں، دیہاڑی دار مزدوروں کے لیے 200 ارب روپے کا اعلان کیا گیا ہے جس میں سے ایک بڑی رقم حسبِ روایت خرد برد اور ریاستی ڈھانچوں کے طفیلی کردار کے باعث افسر شاہی اور وزرائے کرام کی جیبوں میں ہی چلی جائے گی جبکہ باقی سرمایہ دارہڑپ کر لیں گے۔ جبکہ ساتھ ہی برآمد کنندگان کے لیے 100 ارب ڈالر کے ریفنڈ پیکج کا اعلان کیا گیا ہے، جس سے انسانوں کا گوشت کھانے والے یہ گدھ ابھی بھی ناخوش ہیں اور آنے والے دنوں میں بیرونی امداد پر بھی نظریں لگائے بیٹھے ہیں۔ دوسری طرف زیادہ تر ہسپتالوں میں شعبہ صحت کے محنت کش بغیر حفاظتی کٹس کے کام کر رہے ہیں اور جب بھی ان کی تنظیموں کی طرف سے مناسب آلات اور ضروری سامان کا مطالبہ کیا جاتا ہے تو انہیں خود غرض اور مفادپرست کہہ کر ان کے خلاف اپنی سوشل و الیکٹرانک میڈیا کی کٹھ پتلیوں کے ذریعے غلیظ ترین پروپیگنڈا شروع کر دیا جاتا ہے۔ یاد رہے کہ وسائل کی کمی کا واویلا کرنے والے وزیرِ اعظم نے اپنی سرمایہ پرستانہ پالیسیوں کے دفاع کے لیے اپنے سوشل میڈیا کے مجاہدین کو پچاس کروڑ روپے کی انعامی رقم سے نوازا ہے۔

مرکزی حکومت کی مذکورہ بالانا اہلی کے بعد صوبوں نے رفتہ رفتہ اپنے تئیں انتہائی اقدامات کرنے کا فیصلہ کیا۔ سندھ کے بعد اب پنجاب میں بھی پندرہ روزہ لاک ڈاؤن کا اعلان کر دیا گیا ہے۔ سندھ میں تو نوبت کرفیو تک آپہنچی ہے مگر کراچی اور حیدرآباد کے زیادہ تر صنعتی علاقوں میں فیکٹریوں میں کام جاری رکھے جانے کی اطلاعات ہیں۔ اسی طرح، مرکزی اور صوبائی حکومتوں کے ترجمان برملا یہ کہتے پھر رہے ہیں کہ عوام خود غیر ذمہ دارانہ رویہ اپنائے ہوئے ہے۔ درمیانے طبقے سے تعلق رکھنے والے حکمران طبقے کے کاسہ لیس تو عوام کو جاہل کہہ کر ہر قسم کے ممکنہ نقصان کی ذمہ داری انہی پر ڈال رہے ہیں۔ یہ بات درست ہے کہ پاکستان کے محنت کش عوام کی اکثریت ابھی تک موجود ہ صورتحال کو سمجھنے سے قاصر ہے اور وہ انتہائی عدم سنجیدگی اور غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان کی اس غیر ذمہ داری کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے؟ ایک ایسا ملک جس میں ناخواندگی اور سکولوں سے باہر بچوں کی شرح دنیا میں دوسرے یا تیسرے نمبر پر ہو وہاں کیا عوام سے یہ توقع رکھنا درست ہے کہ وہ فوری طور پر صورتحال کو سمجھ جائیں گے اور ذمہ دار شہری ہونے کا ثبوت دیں گے؟ عوام جاہل نہیں ہیں بلکہ اس کے برعکس ان سے ایسی ناممکنہ توقع رکھنا درمیانے طبقے کی میکانکی سوچ اور ’جہالت‘ کا نتیجہ ہے۔ گزشتہ چند عشروں میں سماج میں طبقاتی خلیج کئی گنا بڑھ چکی ہے اور عوام کا حکمران طبقے سے اعتماد مکمل طور پر اٹھ چکا ہے۔ اگر محنت کش عوام کی اکثریت کے شعور یا لاشعور میں حکمران طبقے سے رتی بھر امید، توقع، اعتماد اور لگاؤ موجود ہوتا تو وہ تمام تر ناخواندگی اور مبینہ جہالت کے باوجود حکمرانوں کے محض ایک اعلان کے بعد خود ہی گھروں میں بیٹھ جاتے۔ اس کے برعکس وہ یہ سوچ ہی نہیں سکتے کہ یہ حکمران ہمارے حق میں بھی کوئی فیصلہ کر سکتے ہیں بلکہ ان کے خیال میں اس میں ضرور حکمران طبقے کا کوئی اپنا ہی فائدہ ہو گا۔ حکمران طبقے پر یہی عدم اعتماد موجودہ بحران کے نتائج کوتباہ کن بنانے کا سبب بن سکتا ہے۔ اس عدم اعتماد کا ذمہ دار کون ہے؟ اس کی ٹھوس مادی وجوہات ہیں۔ تعلیم اور علاج کا بجٹ آمریتوں اور جمہوریتوں میں مسلسل کم ہی ہوتا رہا اور اس کے ساتھ ساتھ حکمران طبقے کی عیاشیاں بھی مسلسل بڑھتی رہی ہیں۔ ایسے میں یہ ٹیکس، بجلی اور گیس چوری کرنے والا، ملکی خزانے اور وسائل کو لوٹ کر بیرونِ ملک جائیدادیں اور بینک بیلنس بنانے والا اور سالانہ اربوں روپے کے قرضے معاف کرانے والا حکمران طبقہ ہی اس صورتحال کا ذمہ دارقرار دیا جا سکتا ہے۔

یہ کسی ایک حکومت یا لیڈر کی نہیں بلکہ پورے نظام کی ناکامی ہے۔

حکمرانوں کے معذرت خواہان ایک اور انتہائی شرمناک دلیل یہ دے رہے ہیں کہ جب ترقی یافتہ ممالک کے حکمران بھی اس موجودہ بحران سے نکلنے میں ناکام ہو رہے ہیں تو پاکستان جیسے غریب ملک کے حکمران بھلا کیسے اس ناگہانی آفت کا سامنا کر سکتے ہیں۔ ان کی اسی دلیل میں ہی جواب موجود ہے کہ یہ کسی ایک حکومت یا لیڈر کی نہیں بلکہ پورے نظام کی ناکامی ہے۔ توسوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ پورے نظام کی ناکامی ہے تو اس ناکام نظام کو بچانے کی کوشش کرنے کیا ضرورت ہے؟ اس کی بجائے کروڑوں انسانوں کو بچانے کے بھرپور اور بروقت اقدامات کیوں نہیں کیے جا رہے؟ جواب یہ دیا جاتا ہے کہ ریاست اور حکومت کے پاس وسائل نہیں ہیں۔ ہم اس جواب کو مسترد کرتے ہیں۔ موجود وزیرِ اعظم جب اپوزیشن میں تھے تو اس ریاست اور ملک کے وسائل گنواتے نہیں تھکتے تھے۔ یہ درست ہے کہ یہاں بے پناہ وسائل موجود ہیں جنہیں اس حکمران طبقے اوران کے سامراجی آقاؤں نے مل کر لوٹا ہے اور آج بھی لوٹ رہے ہیں۔ اس لوٹ مار کے نتیجے میں ریاست بتدریج مقروض اور غریب ہوتی چلی گئی مگر یہاں کے سرمایہ دار امیر اورخوشحال ہوتے چلے گئے۔ اب نوبت یہ آن پہنچی ہے کہ ریاست دیوالیہ پن کے دہانے پر کھڑی ہے۔ اور ایک نیم دیوالیہ ریاست سے عوامی فلاح و بہبو د کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ تو کیا ایسے میں عوام کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دینے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں؟ ہر گز نہیں۔ ریاست بھلے ہی دیوالیہ ہو مگر وسائل مٹھی بھر سرمایہ داروں، جاگیرداروں اور سول و فوجی اشرافیہ کی ملکیت میں ہی سہی مگر آج بھی موجود ہیں۔
بینکوں نے گزشتہ تین دہائیوں میں بے پناہ منافع کمایا ہے۔ اسی طرح شوگر مل مالکان، نجی پاور کمپنیوں، سیمنٹ اور پراپرٹی کے شعبے میں منافع خوری شاید دنیا میں سب سے زیادہ پاکستان میں تھی۔ ایک وقت میں پاکستان میں جائیداد کے شعبے کی شرح نمو چودہ فیصدتک تھی جودنیا کا ایک ریکارڈ تھا۔ اس مال کا ایک بڑا حصہ اگرچہ بیرونی بینکوں میں منتقل کیا جا چکا ہے، مگر اس کے باوجود پاکستان کے بینکوں اور محلوں میں بھی اتنی دولت موجود ہے کہ اسے فوری طور پر اگر انسانیت کی بقا کے مقصد کے لیے بروئے کار لایا جائے تو اس وائرس کا کامیابی سے مقابلہ کرتے ہوئے بڑے پیمانے پر انسانی جانوں کے ضیاع سے بچا جا سکتا ہے۔ دوسری طرف دفاعی بجٹ کو اگر فوری طور پر اس کرونا وائرس سے دفاع کے لیے استعمال کیا جائے اور انسانی بنیادوں پر سامراجیوں سے محض قرضوں کی اقساط کی معافی کی اپیل کرنے کی بجائے بلکہ قرضوں کی ادائیگی روک کر یہ تمام دولت بے دریغ اس کورونا کے خلاف استعمال کی جائے تو چند ہفتوں میں ہی اس جنگ میں فیصلہ کن کامیابی عین ممکن ہے۔ اعلان کردہ معاشی پیکج میں سے جو ایک سو ارب سرمایہ داروں کو بلاوجہ دیا جا رہاہے، اس ایک سو ارب روپے کو ہی اگرایک ہفتے میں ہنگامی بنیادوں پر ٹیسٹ کٹس، وینٹی لیٹرز اور حفاظتی آلات کی خریداری، بہترین قرنطینہ مراکز کے نظم و نسق وغیرہ پر خرچ کیا جائے تو صورتحال یکسر تبدیل ہو سکتی ہے۔ گلوبل ویلتھ انڈیکس کے مطابق پاکستان کے صرف دس امیر ترین لوگ 27 ارب ڈالر کے مالک ہیں، یہ رقم اس وقت ملکی خزانے میں موجود رقم سے بھی کہیں زیادہ ہے۔ ان امرا میں آصف علی زرداری، نواز شریف، میاں منشا، ملک ریاض، انور پرویز، ہاشوانی اور سہگل جیسے لوگ شامل ہیں۔ اسی طرح بہت سے سابقہ اور حاضر سروس جرنیلوں کے پاس بے پناہ دولت اور وسائل موجود ہیں۔ حال ہی میں ریٹائر ہونے والے چیف جسٹس آف پاکستان کے بیٹے کی گزشتہ ماہ شادی ہوئی۔ اس شادی کی تقریب کی تصاویر دیکھ کر موصوف کے ’بے داغ‘ ماضی کی قلعی کھل کر سامنے آ جاتی ہے۔ اس وقت بھی وفاقی اور صوبائی اسمبلیوں کے ممبران، اعلیٰ جج صاحبان، صدر، وزرائے کرام، بیوروکریٹس اور اعلیٰ فوجی افسران کی ماہانہ تنخواہوں اور مراعات کو اگر شمار کیا جائے تو یہ آبادی کے نصف کی ماہانہ غذائی ضروریات سے بھی کہیں زیادہ رقم بن جائے گی۔ اس کے باوجود حکمرانوں کا یہ کہنا کہ کرونا سے لڑنے کے لیے وسائل نہیں ہیں یا کرفیو میں لوگ بھوکے مر جائیں گے، ناقابلِ قبول اور مجرمامہ جھوٹ ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ ان امرا اور شرفا کی دولت، مراعات اور عیاشیاں کروڑوں انسانوں کی جانوں سے زیادہ قیمتی ہیں اور انہیں آئینی، قانونی اور اخلاقی تحفظ حاصل ہے۔ مگر اس کے باوجود حکمرانوں میں اتنی اخلاقی جرات نہیں ہے کہ وہ برملا اعلان کریں کہ اصل میں کروڑوں انسانوں کی جانوں کو کرونا سے کوئی خطرہ نہیں ہے بلکہ سرمائے کی دیوی ناراض ہو چکی ہے اور اس کی خوشنودی حاصل کرنے کا واحد طریقہ یہی ہے کہ اسے لاکھوں انسانوں کی بلی چڑھا دی جائے۔

کہا یہ جا رہا ہے کہ موجودہ ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لیے اسی آئین کے تحت جو مذکورہ بالا تمام وسائل پر ان مٹھی بھر طفیلیوں کے تسلط کو تحفظ اور جواز فراہم کرتا ہے، ملک بھر میں فوج کو طلب کر لیا گیا ہے۔ یہاں پھر ایک اہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب ریاست کے پاس موجودہ بحران سے نمٹنے کے وسائل ہی موجود نہیں ہیں تو پھر فوج نظم و نسق سنبھال کر آخر کرے گی کیا؟ کیا وہ ان تمام تر طفیلیوں سے یہ وسائل چھین کر ان کروڑوں شہریوں کی جانوں کی حفاظت کے لیے بروئے کار لائے گی؟ توبہ، توبہ، توبہ! یہ تو سراسر غیر قانونی و غیر آئینی اقدام ہو گا۔ تو کیا اس سے قبل اس فوج نے مارشل لا سے لے کر ایمرجنسی کے نفاذ تک بارہا کئی غیر آئینی اقدامات نہیں کیے؟ ہاں لیکن وہ تو ہمیشہ ملکی اور قومی مفاد میں کرنے پڑتے ہیں، ایسے ’غیر ذمہ دار‘ شہریوں کی جانوں کے لیے اپنے مقدس آئین کی خلاف ورزی ہماری پاک فوج تصوربھی نہیں کر سکتی۔ کیا کہا قومی و ملکی مفاد؟ مگر یہ قومی و ملکی مفاد ہے کیا چیز؟ اگر قوم کے لاکھوں بزرگوں اور ماؤں کی زندگیاں خطرے میں ہیں تو قومی مفاد کیسے سلامت رہ سکتا ہے؟ ہاں لیکن اگر یہ لاکھوں لوگ مر بھی جائیں تو مریں گے تو ایک آزاد اسلامی ریاست میں ہی نا۔ بلاشبہ، آزاد ریاست میں بے وقت کی موت بھی ایک اعزاز کی بات ہو گی اور اسی اعزاز کو محنت کشوں کی آنے والی نسلوں کو من و عن کامیابی سے منتقل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ یہ تمام وسائل ان لاکھوں ’غیر ذمہ دار اور جاہل‘ شہریوں کی جانوں کو بچانے کے لیے قطعاً ’ضائع‘ نہ کیے جائیں اور بروقت قومی سلامتی کے تحفظ کے لیے بروئے کار لانے کے لیے انہیں نجی ملکیت کے محفوظ پنجوں میں ہی رہنے دیا جائے۔

حقیقت یہ ہے کہ موجودہ بحران نے آئین، قانون اور اخلاقیات کے اس دوہرے معیار کو مکمل طور پر بے نقاب کر دیا ہے۔ ریاست ایک اقلیتی طبقے کی نجی ملکیت کے محافظ کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں ہوتی۔ آبادی کی بھاری اکثریت بھی اپنے نسل در نسل کے تجربات سے یہی سق سیکھ رہی ہے۔ حالیہ بحران میں حکمران طبقے کے طرزِ عمل نے اجتماعی شعور پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ عوام سیکھ رہے ہیں کہ اپنی آئندہ نسلوں کی نجات کے لیے انہیں تمام وسائل کی نجی ملکیت کو چیلنج کرنا ہو گا۔ نجی تعلیمی اداروں اور ہسپتالوں کے ساتھ ساتھ دوا ساز کمپنیوں، بینکوں اور دیگر ذرائع پیداوار کو نجی ملکیت کے چنگل سے آزاد کر کے اجتماعی ملکیت میں لینا ہوگا۔ حکمران طبقہ بھی عوام کے شعور میں اس ممکنہ معیاری جست سے خوفزدہ ہے۔ اسی لیے ’دیہاڑی دار مزدور، دیہاڑی دار مزدور‘ کی آوازیں لگا رہا ہے۔ انہیں ڈر ہے کہ کہیں اتنی بے وقت اموات اور لاشیں دیکھ کر لوگ مشتعل نہ ہو جائیں اور حکمرانوں کے ایوانوں، محلات اور املاک کو نذرِ آتش نہ کر دیں۔ شاید اسی خوف سے فوج طلب کی جا رہی ہے۔ اور فوج اور پولیس کے عام سپاہیوں کو کرونا کا مقابلہ کرنے کے لیے حفاظتی کٹس بھی مہیا نہیں کی جا رہیں۔ ایسے میں اگر ان وردی والے مزدوروں کا بھی جانی نقصان ہوتا ہے تو اسے بھی ریاست کی عوام کے لیے قربانیوں کے کھاتے میں ڈال کر شعبہ صحت کے نہتے محنت کشوں اور بے موت مرنے والے غربا کے لواحقین کے غم و غصے کو زائل کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ان باوردی محنت کشوں کی جانوں کا ممکنہ ضیاع بھی اس سرمایہ دارانہ نظام کے جرائم کی طویل فہرست میں اضافے کا باعث بنے گا۔ اس سے ان محنت کشوں کے شعور پر بھی گہرے اثرات پڑیں گے۔ محنت کش طبقہ بحیثیتِ مجموعی اپنے اندر ایک طبقے سے اپنے لیے ایک طبقہ بننے کے فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو رہا ہے۔ انہیں سمجھ آ رہی ہے کہ کرونانے سرمایہ داری کا بحران پیدا نہیں کیا بلکہ یہ سرمایہ داری کی متروکیت ہے جس نے عوام پر کرونا کو عذاب بنا کر نازل کرنے کی کوشش کی ہے۔ کرونا، اگرچہ خود ایک مرض ہے مگر ساتھ ہی اصل مرض کی محض ایک علامت بھی ہے۔ یہ کرونا مر بھی جائے تو کوئی نیا وائرس کچھ ہی عرصے بعد آ کر مزید لاکھوں جانیں ہڑپ کر جائے گا۔ ماہرین ماحولیات پہلے ہی اس قسم کی مزید وباؤں کی پیشگوئی کر رہے ہیں۔ ایسے میں صرف کرونا کو مارنے سے مسئلہ حل ہونے والا نہیں، سرمایہ داری کو مارنا ہو گا۔

Comments are closed.