فرانس: انقلاب کے دہانے پر!

|تحریر: ریوولوشن؛ ترجمہ: اختر منیر|

فرانس کی سماجی اور سیاسی صورتحال خوفناک رفتار سے آگے بڑھ رہی ہے۔ ایک ماہ سے کم عرصے میں پیلی واسکٹ والوں کی تحریک نے ملک کو انقلابی بحران کی دہلیز پر لا کھڑا کیا ہے۔ آنے والے دنوں میں یہ دہلیز پار بھی ہو سکتی ہے۔ تحریک کو آگے دھکیلنے میں کیا چیز فیصلہ کن کردار ادا کرے گی؟ 
دوسری انٹرنیشنل کے انہدام پر لکھے جانے والے اس مضمون میں لینن نے انقلاب کے معروضی حالات بیان کیے ہیں:
’’1) جب حکمران طبقے کے لیے کسی تبدیلی کے بغیر اپنا اقتدار قائم رکھنا ناممکن ہو جائے، جب ’بالا طبقات‘ میں کسی نہ کسی شکل میں بحران موجود ہو؛ حکمران طبقے کی پالیسی میں بحران، جس سے ان کے درمیان دراڑیں پیدا ہو جائیں، جنہیں مظلوم طبقات کا غصہ اور بے چینی توڑتے ہوئے آگے بڑھ جاتے ہیں۔ ایک انقلاب کے لیے ’نچلے طبقات کی پرانے طریقے سے نہ رہنے کی خواہش‘ ناکافی ہوتی ہے، یہ بھی ضروری ہوتا ہے کہ اوپر والے طبقات میں پرانے طریقے سے رہنے کی صلاحیت ہی نہ رہے۔
2) جب مظلوم طبقات کی اذیت اور محرومی معمول سے زیادہ شدید ہو جائے۔
3) جب اوپر بتائے گئے حالات کے نتیجے میں عوامی ہلچل میں کافی حد تک اضافہ ہو جائے، جو پرامن حالات میں تو خاموشی سے لٹتے رہتے ہیں، مگر ہنگامہ خیز حالات میں بحرانی صورتحال اور ’بالا طبقات‘ کی وجہ سے آزاد تاریخی عمل میں اتر آتے ہیں۔‘‘
فرانس میں بالکل یہی کچھ ہو رہا ہے۔ ’’مظلوم طبقات کی اذیت اور محرومی‘‘ گزشتہ کچھ سالوں میں بد سے بدتر ہوئی ہے۔ مگر ’’کاربن ٹیکس‘‘ بارود کے لیے ایک چنگاری ثابت ہوا۔ بدھ کے روز ایک پیلی واسکٹ والی خاتون نے ٹیلی ویژن پر انٹرویو دیتے ہوئے حالات کا خلاصہ یوں کیا: ’’ابھی تک ہم معاشی لحاظ سے تلوار کی دھار پر چل رہے تھے، اب ہم گرنے لگے ہیں۔‘‘
اس کے نتیجے میں عوام نے پیلی واسکٹ والوں کی تحریک کی شکل میں ’’آزاد تاریخی عمل‘‘ کا آغاز کر دیا ہے، جس سے محنت کش طبقے کے ساتھ ساتھ طالب علم نوجوانوں کے تحرک کے بھی حالات پیدا ہوئے ہیں۔
اور بالآخر ’’حکمران طبقے کی پالیسی کا بحران‘‘ کوئی نئی تبدیلی نہیں ہے۔ میکرون کی انتخابی جیت اور دو تاریخی حکومتی پارٹیوں (سوشلسٹ اور رپبلکن) کا زوال بذات خود فرانس کی سرمایہ دارانہ حکومت کے بحران کا اظہار تھا۔ اپریل 2017ء سے حکومت کے بحران کا کئی طریقوں سے اظہار ہو چکا ہے: قانون ساز انتخابات میں بڑے پیمانے پر رائے دہی سے گریز، بنالا کا معاملہ (جس میں میکرون کا سکیورٹی افسر احتجاج کرنے والے طالب علموں پر تشدد کرتا ہوا فلمایا گیا تھا)، اولو (وزیر ماحولیات) اور کولوم (وزیر داخلہ) کا استعفیٰ، وغیرہ۔ میکرون کے تکبر ، اس کے مصنوعی طرز عمل اور عوام کے خلاف تضحیک آمیز رویے، سے عوام میں اشرافیہ کے خلاف پائے جانے والے غصے میں اضافہ ہی ہوا ہے۔ اس سب سے ریاست کی اوپری پرتوں میں دراڑیں بڑھی ہیں ’’جنہیں مظلوم طبقات کا غصہ اور بے چینی توڑتے ہوئے آگے بڑھ جاتے ہیں‘‘، جیسا کہ لینن نے لکھا تھا۔

میکرون بحران میں؛ ٹریڈ یونین لیڈران کی شرمناک پالیسیاں

تین ہفتوں سے حکومت کا بحران بد سے بدتر ہوا ہے۔ چند گھنٹوں میں وزیر اعظم کی طرف سے اعلان کردہ ’’مہلت‘‘ میکرون کے حکم سے جنوری 2019ء میں لاگو ہونے والے تمام تر ٹیکسوں میں اضافے کی منسوخی میں تبدیل ہو گئی۔ اس کے علاوہ وزیر برائے مساوی مواقع مارلین سکیاپا نے دولت مند لوگوں پر ISF ٹیکس کی بحالی کا اعلانیہ مشورہ دیا۔ میڈیا پر ’’افراتفری‘‘ کی بات کی جا رہی ہے مگر سچ اس سے کہیں گہرا ہے۔ حکومت تقسیم ہوچکی ہے، کیونکہ اسے سمجھ نہیں آ رہی کہ اس سماجی بحران سے کس طرح نمٹا جائے۔ وہ اس وقت دہشت کے عالم میں ہے۔ اور یہ دہشت ان صحافیوں کی پریشان سطروں میں بھی پڑھی جاسکتی ہے جو گزشتہ 18 ماہ سے حکومتی پالیسی کی وفاداری کا دم بھر رہے ہیں۔
پس انقلابی بحران کے معروضی حالات واضح ہیں۔ اس فہرست میں ایک اور اضافہ بھی کیا جا سکتا ہے: تمام جائزوں میں سامنے آیا ہے کہ درمیانے طبقے کی اکثریت پیلی واسکٹ والوں کی حمایت میں ہے۔ اسی مضمون میں لینن وضاحت کرتا ہے کہ یہ حالات علیحدہ علیحدہ انقلاب کے آغاز کے لیے کافی نہیں ہوا کرتے:
’’۔۔۔ ہر انقلابی صورتحال انقلاب کو جنم نہیں دیتی، انقلاب صرف ان حالات میں جنم لیتا ہے جن میں اوپر بیان کیے گئے تمام معروضی حالات ایک موضوعی تبدیلی سے جڑتے ہیں، جو ایک عوامی انقلابی تحریک کی اس قدر مضبوطی ہے جو پرانی حکومت کو توڑنے (یا اسے ہلا کر رکھ دینے) کے قابل ہو، جو خود بخود کبھی نہیں ’’گرتی‘‘، بحران کے دور میں بھی نہیں، اگر اس کا تختہ نہ الٹا جائے۔‘‘
’’انقلابی طبقہ‘‘ محنت کش طبقہ ہی ہے۔ یہ انقلابی ہے کیونکہ یہ وہ طبقہ ہے جس کے پاس کوئی ملکیت نہیں ہے اور کیونکہ پیداواری سرگرمی میں اپنی حیثیت کی وجہ سے اسے اقتدار کی لگام تھام کر سرمایہ دارانہ نظام کو گرانا ہے اور سوشلسٹ بنیادوں پر ایک نیا سماج تعمیر کرنا ہے۔ لینن کے وقت کی طرح آج بھی محنت کش طبقے کا تحرک کسی بھی انقلاب میں فیصلہ کن حیثیت رکھتا ہے۔ موجودہ حالات کی انقلاب میں تبدیلی کے لیے ایک ’’عوامی انقلابی تحریک جو اس قدر مضبوط ہو کہ پرانی حکومت کو کو گرانے کے قابل ہو‘‘ ضروری ہے، جیسا کہ لینن نے کہا تھا۔ اس کے لیے وسیع ہڑتالوں کی ایک غیر محدود تحریک درکار ہے جس کے بارے میں فرانسیسی یونیورسٹیوں میں طالب علموں کے اجتماعات میں منظور کی جانے والی قرارداد میں بات کی گئی ہے (جو ہمارے کامریڈوں نے پیش کی تھیں)۔
17 نومبر سے ہی پیلی واسکٹ والوں کی تحریک کی کامیابی کو دیکھتے ہوئے ٹریڈ یونین لیڈران (اگر وہ اپنے عہدوں کے قابل ہوتے) کو اپنی پوری طاقت سے ہڑتالوں کی ایک بڑی تحریک چلانے کی تیاریوں کا آغاز کر دینا چاہیے تھا۔ لیکن انہوں نے اس بارے میں کچھ نہیں کیا۔ اور اب تین ہفتوں بعد بھی وہ کچھ نہیں کر رہے۔ اس پر مزید ستم یہ کہ ٹریڈ یونین لیڈران (SUD کے علاوہ) نے ایک مشترکہ بیان جاری کیا ہے جس میں عملی طور پر تحریک روکنے کا کہا گیا ہے۔ اس میں پیلی واسکٹ والوں سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ احتجاج نہ کریں، اس کی بجائے وہ یونین لیڈران کو حکومت کے ساتھ ’’گفت و شنید‘‘ کرنے دیں۔ لیکن اگر تحریک، اور اس سے حکومت پر پڑنے والا دباؤ، رک جائے تو گفت و شنید کے لیے کیا رہ جائے گا؟
اس شرمناک بیان کی وجہ سے یونینز کے کارکنان میں، درست طور پر، غم و غصے کی لہر دوڑ گئی۔ بہت سے کارکنان اس کے باوجود پیلی واسکٹ والوں کے ساتھ مل کر جدوجہد کر رہے ہیں، اور اب نوجوان بھی جنہیں اپنے اقدامات کی وجہ سے شدید جبر کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

مسلسل ہڑتالوں کی تحریک!

ٹریڈ یونین فیڈریشنز کی حمایت کے بغیر بھی آنے والے دنوں میں کارکنان کی قوت رفتار کے بل پر ہڑتالوں کی ایک طاقتور تحریک چل سکتی ہے، جیسا جون 1936ء اور مئی 1968ء میں ہوا تھا۔ فرانس میں ہزاروں محنت کش اور ٹریڈ یونین کارکنان اس بات کو سمجھتے ہیں کہ اگر کارخانوں اور فیکٹریوں کو بند کردیا جائے تو میکرون گھٹنے ٹیک دے گا۔ وہ کم ازکم قومی اسمبلی تحلیل کرنے پر مجبور ہو جائے گا۔ بہرحال اقتدار کا سوال موجود رہے گا، کیونکہ انقلاب ہمیشہ یہ سوال اٹھایا کرتا ہے۔ اگر میکرون قومی اسمبلی تحلیل کر بھی دیتا ہے تو یہ بات یقینی نہیں کہ بورژوازی فوری طور پر آسانی سے حالات پر دوبارہ قابو پا لے گی۔ اس بات کو سمجھنے کے لیے محض وہ جوش و جذبہ دیکھنا ہی کافی ہے جس کے ساتھ بہت سے پیلی واسکٹ والے اس پورے سیاسی نظام سے نفرت کا اظہار کرتے ہیں۔
اب اس کے بعد تحریک کو چاہیے کہ وہ اپنے آپ کو جمہوری اداروں سے لیس کرے۔ ایسے اکٹھ (پنچایتیں) قائم کرنے چاہئیں جو تمام جدوجہد کرنے والوں کے لیے کھلے ہوں اور وہ مقامی اور قومی سطح پر مندوبین منتخب کریں، تا کہ ہڑتالیں منعقد کی جا سکیں اور انہیں زیادہ سے زیادہ کام کی جگہوں پر پھیلایا جا سکے۔ فوری مقصد معیشت کو مفلوج کرتے ہوئے حکومت کا تختہ الٹنا ہے۔ اس کے ساتھ ہی جدوجہد کرنے والوں کے یہ جمہوری ادارے محنت کش حکومت کی بنیاد بھی رکھیں گے، کیونکہ اگر میکرون حکومت کا تختہ الٹ گیا تو فوری طور یہ سوال جنم لے گا۔

ہڑتالوں کی لامحدود تحریک!
حکومت محنت کشوں کی!
انقلابِ فرانس زندہ باد!

Comments are closed.