فرانس ’’بغاوت کی کیفیت میں‘‘، پیلی واسکٹ والے آگے بڑھتے ہوئے!

|تحریر: جو اٹارڈ، ترجمہ: اختر منیر|

فرانس میں ہونے والے ییلے یونز (پیلی واسکٹ والوں کے) مظاہرے ایک فیصلہ کن موڑ پر آ چکے ہیں۔ بڑھتے ہوئے انقلابی جذبات کی وجہ سے، جن سے اب حکومت کے وجود کو بھی خطرہ لاحق ہے، میکرون نے اپنا متکبر رویہ تبدیل کرتے ہوئے تیل کی قیمتوں میں ہونے والے اضافے کو ’’معطل‘‘ کرنے کا اعلان کیا ہے جس کی وجہ سے یہ تحریک شروع ہوئی تھی۔ یہ پسپائی ہفتے کے آخر میں سینکڑوں مظاہرین اور پولیس کے درمیان گلیوں میں ہونے والی لڑائیوں کے بعد دیکھنے میں آئی ہے جن کے نتیجے میں صرف پیرس میں ہی 200 سے زائد افراد زخمی ہوئے اور کم از کم ایک جان گئی۔

منظم محنت کش طبقہ بھی جدوجہد میں شامل ہونے لگا ہے (حلانکہ یونین لیڈران نے کافی حیل و حجت سے کام لیا)، اور طالب علم بھی، جو یکجہتی میں اپنے اپنے اداروں پر قبضہ کر رہے ہیں اور الگ سے اپنی مانگیں بھی رکھ رہے ہیں۔ میکرون کی حالات ٹھیک کرنے کی سر توڑ کوششوں کے باوجود جبری کفایت شعاری اور عدم مساوات کے خلاف سالوں سے جمع ہونی والی بے چینی اور غصہ اپنی ہی منطق کے تحت چل رہے ہیں اور اب اس جن کو واپس بوتل میں لانا اتنا آسان کام نہیں ہو گا۔

فرانس کے دارالحکومت میں ہفتے اور اتوار کو ہونے والے واقعات سے عوام کی بے چینی مسلسل تیسرے ہفتے میں داخل ہو چکی ہے۔ ہزاروں مظاہرین نے پیرس کی سڑکوں کا رخ کیا۔ درست تعداد تو واضح نہیں مگر یہ بات یقینی ہے کہ پورے ملک میں ہونے والے مظاہروں میں ایک لاکھ سے زائد افراد نے شرکت کی۔ یہ تعداد پچھلے ہفتے کے مقابلے میں کم ہے (جو سرکاری اعداد و شمار کے مطابق دو لاکھ تھی اور انتہائی کم کر کے بتائی گئی تھی) مگر اس کا مزاج کہیں زیادہ انقلابی تھا اور یہ بات واضح نظر آ رہی تھی کہ تحریک کی مانگیں پٹرول کی قیمتوں سے کہیں آگے جا چکی ہیں۔ تحریک کے مختلف حصوں میں باغیانہ اور انقلابی مزاج دکھائی دے رہا ہے۔ ہفتے کے دن شانزے لیزے کے مقام پر مارچ کرنے والے 5000 افراد ’’اقتدار عوام کا‘‘ اور ’’میکرون استعفیٰ دو!‘‘ کے نعرے لگا رہے تھے اور بہت سے لوگوں نے دوسرا نعرہ اپنی واسکٹوں پر بھی لکھ رکھا تھا۔

طبقاتی نفرت

پیلی واسکٹ والوں کی تحریک پورے فرانس میں مضافاتی قصبوں، شہروں اور دیہی علاقوں سے شروع ہوئی (جن علاقوں میں کام پر جانے کے لیے ذاتی گاڑی استعمال ہوتی ہے اور وہ تیل کی قیمتوں میں اضافے سے براہ راست متاثر ہوئے ہیں) اور اس میں بہت سی خواتین شامل ہیں۔ زیادہ تر افراد کم آمدنی والے محنت کش ہیں جن میں دفاتر میں کام کرنے والے سیکرٹری، آئی ٹی ورکر، فیکٹریوں میں کام کرنے والے، ڈلیوری والے اور دوسرے محنت کش شامل ہیں۔ مختصراً یہ سب وہ لوگ ہیں جو منجمد اجرتوں اور بڑھتی ہوئی قیمتوں سے سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ محنت کش اور نچلے متوسط طبقے کی یہ پرتیں، جو گذشتہ کئی سالوں سے جبری کفایت شعاری اور بڑھتے ہوئے اخراجات میں پس رہی ہیں، امیروں اور ان کی نمائندگی کرنے والی میکرون حکومت کے خلاف اپنے دبے ہوئے شدید غصے کا اظہار کر رہی ہیں۔

جیسا کہ پیرس سے تعلق رکھنے والے ایک 42 سالہ بے روزگار کمپیوٹر ٹیکنیشن ایدیر گین نے کہا: ’’ہماری اجرتیں بہت کم ہیں اور ہم بہت زیادہ ٹیکس ادا کرتے ہیں، اس نسبت سے غربت بڑھتی جا رہی ہے۔۔۔ اور دوسری جانب حکومت کے وزیر اور صدر ہیں جو بھاری تنخواہیں لیتے ہیں۔‘‘ 62 سالہ میری لیمون (جو پروونس میں سکول ٹیچر ہے) اور دوسرے مظاہرین نے میکرون کی سرمایہ نواز اور منافقانہ پالیسی کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا: ’’بڑی بڑی ایئر لائنز اور شپنگ لائنز کی بجائے ہمیں نشانہ بنایا جا رہا ہے، یہ وہ کمپنیاں ہیں جو ماحول کو آلودہ کرتی ہیں اور کوئی ٹیکس بھی نہیں دیتیں۔۔۔ میکرون ہمارا لوئی شش دہم ہے اور ہم سب جانتے ہیں کہ اس کے ساتھ کیا ہوا تھا۔‘‘

ہفتے کے دن پیرس میں ہونے والے مظاہرے میں پیلی واسکٹ والوں کا طبقاتی کردار اور امیروں کے لیے ان کی حقارت واضح ہو گئی۔ مغرب کے دولت مند علاقے اور شہر کے مرکز میں املاک کو نقصان پہنچانے کے واقعات دیکھے گئے جہاں دکانوں کو توڑا اور انہیں لوٹا گیا، درجنوں مہنگی کاروں کو جلا دیا گیا اور آرک ڈی ٹرائمف (ایک یادگار) کو حکومت مخالف خاکوں سے بھر دیا گیا اور یہ نعرہ لکھا گیا: ’’پیلی واسکٹ والوں کی جیت ہو گی!‘‘ مظاہرین نے ایک نئے کھلنے والے ایپل سٹور (AAPL.O) اور چینل اور ڈیؤر کی پرتعیش بوتیکوں کی کھڑکیاں توڑ دیں اور ایک بورڈ پر ’’Merry Mayhem‘‘ لکھ کر دروازے پر چسپاں کر دیا۔ یقیناًکچھ آوارہ اور جرائم پیشہ عناصر نے بھی صورت حال سے فائدہ اٹھایا ہو گا، مگر تحریک کا عمومی کردار یہ نہیں ہے۔

فرانسیسی اور بین الاقوامی میڈیا پر باربار تباہی کی تصاویر دکھائی جاتی رہیں تا کہ پیلی واسکٹ والوں کو بد نام اور کمزور کیا جا سکے۔ لیکن ایک ’’Harris Interactive Poll‘‘ میں سامنے آیا کہ 72 فیصد لوگ اس وقت اس تحریک کی حمایت میں ہیں اور یہی تعداد 14 روز پہلے بھی تھی۔ پیرس میں مظاہرین کے لیے ہمدردی کے وسیع جذبات موجود تھے اور غصے کے اظہار کو جائز سمجھا جا رہا تھا۔ پیرس کے ایک رہائشی جارج ڈوپونٹ نے کہا ’’میں ’’ییلے یونز‘‘ کی مکمل حمایت کرتا ہوں ، ریاست نے فرانسیسی عوام کے پیسے چرائے ہیں، اب بدلہ چکانے کی باری ہے۔‘‘ 45 سالہ معاون ٹیچر سینڈرین لیموسو، جو برگنڈی سے احتجاج میں شرکت کرنے آئی تھی، نے اس سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ لوگ میکرون سے تنگ آ چکے ہیں۔ ’’لوگ بغاوت کی حالت میں ہیں، غصہ بڑھتا جا رہا ہے اور صدر فرانسیسیوں کو حقارت کی نگاہ سے دیکھ رہا ہے۔ ہم یہ چیزیں توڑنے نہیں آئے لیکن لوگوں کا صبر اب جواب دے چکا ہے۔‘‘

پولیس کے ساتھ جھڑپیں

انتظامیہ اس درجہ بدامنی کے لیے تیار نہیں تھی۔ شانزے لیزے کی شاہراہ اور پورے شہر میں دوسرے بہت سے مقامات پر جھڑپیں ہوئیں جن میں اوپرا اور پلیس ڈی لا باستیل (ایک چوراہا جس کے پاس باستیل کا قید خانہ واقع ہے) بھی شامل ہیں۔ تیز دھار پانی، سٹن گن، آنسو گیس اور ڈنڈوں کے حملوں کے باوجود ایک سے زائد موقعوں پر پولیس کو اپنے اوپر پھینکے جانے والے پتھروں کی وجہ سے پیچھے ہٹنا پڑا۔ الائنس پولیس یونین کے فریڈرک لاگاش نے ایمرجنسی نافذ کرنے کا مطالبہ کیا اور کہا کہ سرکاری یادگاروں کی حفاظت کے لیے ’’فوجی امداد‘‘ بلائی جائے تا کہ پولیس پر سے دباؤ کم ہو سکے۔

کچھ موقعوں پر پولیس نے مظاہرین کا سامنا کرنے سے مکمل طور پر انکار کر دیا، جیسا کہ جنوب مشرقی فرانس کے ایک قصبے پُو کی وائرل ہونے والی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے۔ ویڈیو میں نظر آتا ہے کہ دنگوں سے نمٹنے والی پولیس کا بڑی تعداد میں پیلی واسکٹ والوں سے سامنا ہوتا ہے اور وہ اپنے ہیلمٹ اتار کر یہ پیغام دیتے ہیں کہ وہ حملہ نہیں کریں گے اور اس کے جواب میں ہجوم تالیاں بجانے لگتا ہے۔ مبینہ طور پر درحقیقت اس ویڈیو میں ہمدردی نہیں دکھائی جا رہی تھی بلکہ یہ پولیس کے مقامی سربراہ اور پیلی واسکٹ والوں کے درمیان ہونے والے ایک معاہدے کا نتیجہ تھا (’’ہم اپنا مظاہرہ روک دیں گے اور آپ اپنا حفاظتی سامان اتار دیں‘‘)۔ پھر بھی اس ویڈیو سے واضح طور پر تحریک کی مضبوطی اور اعتماد اور پولیس کی کمزوری نظر آتی ہے۔

یہ کوئی حیرت کی بات نہیں ہے کہ سرمایہ دار طبقہ اس احتجاج سے خوف زدہ ہے۔ صرف اس لیے ہی نہیں کہ یہ کرسمس کے دنوں کے قریب کاروبار کے لیے نقصان دہ ہے یا بندشوں کی وجہ سے پٹرول کی کمی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، بلکہ انہیں یہ خوف لاحق ہے کہ یہ تحریک پورے نظام کے لیے ہی ایک خطرہ بن سکتی ہے۔ پیرس کے آٹھویں ضلع کی مئیر جینی ڈی ہاٹیسیر نے آرک ڈی ٹرائمف کے پاس BFM TV کو بتایا: ’’ہم اس وقت ایک بغاوت کی حالت میں ہیں، میں نے پہلے کبھی ایسا ہوتے نہیں دیکھا۔‘‘ مرکزی حکومت کے بہت سے مقامی نمائندوں نے ’Le Monde‘ سے گمنام طور پر بات کرتے ہوئے ’’دھماکہ خیز اور تقریباً باغی‘‘ یا ’’انقلاب سے قبل کی صورتحال‘‘ کا ذکر کیا۔ انہوں نے اس بات کی نشاندہی بھی کی یہ آبادی کا وہی حصہ ہے جو 1968ء میں بڑھتے ہوئے ٹیکسوں کے خلاف اٹھا تھا اور انقلاب کے لیے ایک چنگاری ثابت ہوا تھا۔ ایک نمائندے نے نتیجہ نکالا: ’’صدر مملکت کے خلاف شدید غصے کا اظہار کیا جا رہا ہے۔‘‘

میکرون کی منافقت

میکرون (جو ہزاروں میل دور ارجنٹائن میں G20 کی میٹنگ میں تھا)، نے ہفتے کے آخر میں ہونے والے واقعات کے ردعمل کے طور پر ایمرجنسی نافذ کرنے کی دھمکی دی اور توڑ پھوڑ کے واقعات کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ وہ ’’کسی بھی حال میں تشدد کو قبول نہیں کرے گا۔‘‘ عمومی طور پر حکومت نے پیلی واسکٹ والوں میں پھوٹ ڈالنے کی کوشش کرتے ہوئے ’’پرامن‘‘ مظاہرین کے ’’جائز غصے‘‘ اور ’’پرتشدد فسادی گروہوں‘‘ کے درمیان فرق کرنا شروع کیا ہے جو ان کے مطابق تحریک میں گھس گئے ہیں۔ ’’جو کچھ پیرس میں ہوا اس کا پرامن طور پر غصے کے اظہار سے کوئی تعلق نہیں ہے‘‘، میکرون نے ہفتے کے دن G20 کانفرنس کے اختتام پر کہا، ’’پولیس پر حملہ کرنے، کاروبار لوٹنے، راہ چلتے لوگوں اور صحافیوں کو دھمکانے اور آرک ڈی ٹرائمف کو ناپاک کرنے کا کوئی بھی جواز قابل قبول نہیں ہے۔‘‘ اسی دوران وزیر داخلہ کرسٹوف کاسٹانر نے کہا کہ ’’انتہائی دائیں‘‘ اور ’’انتہائی بائیں بازو‘‘ کے عناصر ’’ان لوگوں کو بھڑکا رہے ہیں جو محض تباہی مچانے کے لیے پیرس آئے ہیں۔‘‘

یہ سچ ہے کہ ہفتے کے آخر میں ہونے والے مظاہروں میں آوارہ اور دائیں بازو کے عناصر بھی موجود تھے، مگر وہ بہت کم تھے۔ شروع سے ہی پیلی واسکٹ والوں کی تحریک نے معاشرے کی گہرائی تک اپنی جڑیں بنا لی ہیں، جس میں فرنٹ نیشنل کے ووٹروں سے لے کر درمیانے طبقے، محنت کش طبقے اور ٹریڈ یونین سے تعلق رکھنے والے لوگ بھی شامل ہیں۔ مگر جوں جوں تحریک انقلابی ہوتی جا رہی ہے اور اس پر محنت کش طبقے کی چھاپ بڑھتی جا رہی ہے، دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے بہت سے کچرے کو باہر پھینکا جا رہا ہے اور اس کے اندر کا طبقاتی تضاد کھل کر سامنے آ رہا ہے۔ مثال کے طور پر ایک اور وائرل ویڈیو میں نظر آتا ہے کہ ایک انتہائی قوم پرستانہ گروپ دی فرینچ ورک کے سابق صدر ایوان بینڈیٹی (جو خود بھی پیلی واسکٹ میں ملبوس ہے) کو پیلی واسکٹ تحریک میں موجود فسطائیت کے مخالفین کی جانب سے مارا اور دھکیلا جا رہا ہے۔

یہ بات بہرحال سچ ہے کہ تنظیم اور قیادت کے نہ ہونے کی وجہ سے تحریک موقع پرست عناصر کے لیے کھلی ہے۔ یہ مسئلہ اس تحریک میں فرانس کی مزدور تحریک کی بھرپور شمولیت سے حل ہو سکتا ہے۔ لیکن اگر فرانسیسی ریاست کی طرف سے احتجاج کرنے والوں پر کیے جانے والے تشدد کو دیکھا جائے تو میکرون کی پیلی واسکٹ والوں کے ’’تشدد‘‘ پر تنقید سے منافقت کی بو آتی ہے۔ کئی ایسی ویڈیوز گردش میں ہیں جن میں پولیس کے جتھے اکیلے اور غیر مسلح مظاہرین کا پیچھا کر کے ان کو برے طریقے سے پیٹ رہے ہیں۔

مارسی میں ایک 80 سالہ بوڑھی عورت کی ہلاکت کا واقعہ بھی سامنے آیا ہے، وہ اپنی بالکنی میں کھڑی تھی کہ پولیس کی جانب سے پھینکا گیا آنسو گیس کا کنستر اس کے منہ پر آ کر لگا جس سے اس کی موت واقع ہو گئی۔ ایک اور واقعے میں ایک 20 سالہ شخص پولیس سے تصادم کے دوران کوما میں چلا گیا۔ اس سے پہلے بھی میکرون کی حکومت کی جانب سے دوسری ہڑتالوں اور مظاہروں کو دبانے کے لیے تشدد کا استعمال کیا جاتا رہا ہے (جبری کفایت شعاری کے خلاف 2017ء میں چلنے والی تحریک اور CGT کی جانب سے اسی سال چلنے والی ریلوے کے محنت کشوں کی تحریک)، اور سالوں سے فرانسیسی عوام جبری کٹوتیوں کے نتیجے میں جس اذیت سے گزر رہے ہیں وہ اس کے علاوہ ہے۔ پیلی واسکٹ والوں کی تحریک کی شکل میں فرانسیسی عوام کا وہ غصہ اور ہیجان سامنے آ رہا ہے جو سالوں سے جمع ہو رہا تھا۔ اب ان کے صبر کی انتہا ہوچکی ہے اور وہ کھل کر حکومت کے خلاف غصے کا اظہار کر رہے ہیں۔

کارکنان کی یکجہتی

ہم نے پہلے بھی یہ کہا تھا کہ مزدور تحریک کے مرکزی لیڈران خود کو پیلی واسکٹ والوں کی تحریک سے دور رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں، یہ کہتے ہوئے کہ وہ ’’فرنٹ نیشنل کے ساتھ نہیں چلیں گے۔‘‘ لیکن اس طرح وہ انتہائی دائیں بازو کے لیے میدان خالی چھوڑ رہے ہیں کہ وہ دھوکے اور فریب کے ذریعے تحریک پر قبضہ جماتے ہوئے اسے راستے سے ہٹا دیں۔ لیکن CGT کے ٹریڈ یونین کارکنان اپنی قیادت کے برعکس شروع سے ہی وقتاً فوقتاً تحریک سے یکجہتی کا اظہار اور ان کی حمایت کر رہے ہیں۔ بہت سی شاخوں (FNIC،UD13، UD31، وغیرہ) نے تیل کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف تحریک سے یکجہتی کے لیے ہڑتالوں اور قبضوں کا اعلان بھی کیا۔ اس سے قیادت پر دباؤ بڑھا اور انہوں نے ہفتے کے روز مشترکہ احتجاج کی کال دے دی۔ اس کے نتیجے میں پیلی واسکٹ والوں اور CGT کے ممبران پر مشتمل بہت سے لوگوں نے پیرس میں پلیس ڈی لا ریپبلک کے مقام پر مشترکہ مارچ کیا، لیکن منصوبہ بندی کے فقدان کی وجہ سے مظاہرہ کافی چھوٹا تھا۔ پھر بھی سارا دن CGT کے محنت کش (جن میں سے کچھ لال جیکٹوں میں تھے اور باقی پیلی میں) بڑی تعداد میں نظر آتے رہے۔

میکرون کی جانب سے تیل کی قیمتوں میں کیے جانے والے اضافے کے خلاف ہونے والے احتجاج کی وسعت کی وجہ سے پورے معاشرے کے بہت سے مطالبات اور شکوے اس کا حصہ بنتے جا رہے ہیں۔ محنت کش طبقے کی بہت سی پرتیں اچانک لڑائی میں آ گئی ہیں۔ مثال کے طور پر اتوار کے دن پیرامیڈیکس کا پولیس سے تصادم ہوا جس کے نتیجے میں درجنوں ایمبولینس والے پلیس ڈی لا کونکورڈ کے مقام پر احتجاج کا حصہ بن گئے اور انہوں نے قومی اسمبلی کے قریب ایک پل بند کر دیا۔ پیلی واسکٹ والوں کے تیل کی قیمتوں سے متعلق مطالبات کی حمایت کے علاوہ یہ محنت کش سوشل سکیورٹی اور ہیلتھ کیئر سے متعلق اصلاحات کی بھی مخالفت کر رہے ہیں جن سے ان کی نوکریوں پر اثر پڑے گا۔ ایک احتجاج کرنے والے نے رائٹرز ایجنسی کو بتایا: ’’(یہ اصلاحات) ہمیں معاشی مار ماریں گی اور ہماری کمپنیوں کو تباہ کر دیں گی۔‘‘

طالب علم بھی اس تحریک کے ساتھ جڑنا شروع ہو گئے ہیں۔ پچھلے ہفتے بہت سی بڑی یونیورسٹیوں (جن میں مونٹ پیلئے، نانٹ اور رین شامل ہیں) کی طالب علم تنظیموں نے اپنے اکٹھ منعقد کیے جن میں حکومت کی جانب سے فیسوں میں اضافے کے ایک نئے منصوبے، یونیورسٹی میں داخلوں کی شرائط سے متعلق چلتی ہوئی مہم اور کچھ خاص کورسز تک جزوی رسائی سے متعلق بحث کی گئی۔ پیلی واسکٹ والوں کی تحریک میں شامل ہونے کا سوال بھی اٹھایا گیا، جس کی وجہ یہ بھی ہے کہ وہ اپنے مطالبات منوانا چاہتے ہیں، جس سے پورے ملک میں پیلی واسکٹ والوں کی حمایت میں ایک طلبہ تحریک کا امکان پیدا ہو گیا ہے۔

اس کے بعد پچھلے ہفتے پورے ملک میں 300 سے زائد ہائی سکولوں پر قبضہ کر کے انہیں بند کر دیا گیا ہے جن میں جنوبی شہر ٹولوز اور پیرس کے علاقے کریٹے کے سکول بھی شامل ہیں۔ پولیس نے پیرس کے مضافاتی علاقے میں موجود یاں پیئے ٹمبو ہائی سکول کے بہت سے طالب علموں کو گرفتار کر لیا۔ ویڈیوز میں دیکھا جاسکتا ہے کہ پولیس کمسن نوجوانوں پر دھوئیں والے گرنیڈ پھینک رہے ہیں جنہیں وہ ٹھوکریں مار کر واپس پولیس کی طرف پھینک رہے ہیں۔ نیس کے مقام پر تقریباً ایک ہزار طالب علموں نے احتجاج کیا، جن میں سے بہت سوں نے پیلی واسکٹ پہن رکھی تھی اور وہ ’’میکرون استعفیٰ دو!‘‘ کے نعرے لگا رہے تھے۔ بورڈو کے مقام پر ہونے والے طلبہ کے احتجاج کی تصاویر بھی منظرعام پر آئی ہیں جن میں کم سن مظاہرین پر پولیس ڈنڈے برسا رہی ہے۔ مارسی میں ہونے والے ایک اور مظاہرے میں سکول کے طالب علموں کو CGT کے کارکنان نے پولیس سے بچا لیا۔ ہفتے کے آخر میں ہونے والے مظاہروں میں ہائی سکولوں اور یونیورسٹیوں کے طالب علموں نے بھی بھر پور شرکت کی۔

جزوی پسپائی

میکرون کی حکومت پر بڑھتے ہوئے دباؤ کی بدولت اپوزیشن پارٹیوں کے لیڈروں کے ساتھ ایک میٹنگ میں وزیراعظم ایڈورڈ فلپ پر ہر جانب سے ٹیکسوں میں اضافہ واپس لے کر بدامنی روکنے پر زور دیا گیا۔ میرین لی پین نے انتہائی چالاکی سے اپنی سیاست چمکانے کے لیے حکومت سے مطالبہ کیا کہ تیل کی قیمتوں میں کیا جانے والا اضافہ واپس لیا جائے۔ جبکہ میلنشوں نے صرف ٹیکسوں میں ’’فوری اور غیر مشروط‘‘ کمی کا ہی نہیں بلکہ میکرون کے اقتدار چھوڑنے کا بھی مطالبہ کیا۔

بالآخر آج حکومت نے مظاہرین کو شانت کرنے کی کوشش میں اعلان کیا کہ وہ تیل پر عائد کیے گئے ٹیکس ’’معطل‘‘ کرنے جا رہے ہیں۔ سٹینس لیس گیرینی، جو ہفتے کے روز میکرون کی لا ریپبلک این مارچ کا نیا لیڈر منتخب ہوا ہے، نے RTL ریڈیو کو بتایا: ’’ہمیں ملک کو پرامن کرنا ہے۔‘‘

یہ جبری پسپائی پیلی واسکٹ والوں کے انقلابی اقدامات کی درستی کا ثبوت تو ہے پر اصل میں یہ ایک بہت چھوٹی سی رعایت ہے جس سے کوئی بہتری نہیں آنے والی۔ دہائیوں سے ٹیکسوں میں اضافہ ہو رہا ہے اور 2019ء میں نئے محصولات نافذ کرنے کی تیاریاں بھی کی جا رہی ہیں۔ یہ چال محض احتجاجوں کو تقسیم کرنے اور بکھیرنے کے لیے چلی گئی ہے تا کہ حکومت کو سانس لینے اور دوبارہ منظم ہونے کا موقع مل سکے۔ بہرحال یہ تاخیر زدہ اور ناکافی ہے، کیونکہ پیلی واسکٹ والے انتہائی انقلابی نتیجوں پر پہنچ چکے ہیں، تیل کی قیمتوں سے تو وہ کب کا بہت آگے نکل چکے ہیں۔ اب یہ فرانسیسی سماج کی مسلسل ناانصافیوں کے خلاف ایک تحریک بن چکی ہے۔ ہو سکتا ہے کچھ معتدل پرتیں پیچھے ہٹ جائیں مگر اکثریت میکرون حکومت کے خاتمے تک چین سے نہیں بیٹھے گی۔ اس کے علاوہ تحریک عالمی سطح پر بھی پھیلنا شروع ہو گئی ہے۔ جمعہ کے دن بلجیم میں مظاہرین نے بہت سی پولیس کی گاڑیاں توڑ دیں اور وزیراعظم چارلس مچل کے آفس پر پتھر برسائے اور مطالبہ کیا کہ بڑھتے ہوئے ٹیکسوں اور خوراک کی قیمتوں پر وہ استعفیٰ دے۔ یہ مظاہرین بھی پیلی واسکٹوں میں ملبوس تھے اور انہوں نے برسلز میں مچانوں کی مدد سے گلیاں اور سڑکیں بند کر دیں جس سے ٹریفک متاثر ہوئی۔ یہ ایک حقیقی رجحان ہے یا محض ایک وقتی چیز ہے، اس بات کا پتہ بعد میں چلے گا، لیکن اس سے یہ ادراک ہوتا ہے پورے یورپ میں ایک سے سماجی تضادات پائے جاتے ہیں۔

قیادت کا مسئلہ

پیلی واسکٹ والوں کی پوری تحریک کے دوران ایک بہت بڑا مسئلہ ہم آہنگی اور باقاعدہ قیادت کا فقدان رہا ہے۔ تحریک کے اندر کچھ ایسے عناصر پائے جاتے ہیں جو سیاسی جماعتوں اور یونینز کی صورت میں سیاست کی مخالفت کرتے ہیں اور پیلی واسکٹ والوں کی تحریک کو ’’سیاست کے خلاف‘‘ ایک مظہر بنا کر پیش کرتے ہیں۔ پیلی واسکٹ والوں کے کوئی باقاعدہ ڈھانچے یا منتخب شدہ قیادت موجود نہیں، محض کچھ غیر منتخب شدہ ’’نمائندے‘‘ ہیں جو تحریک کے عمومی متذبذب اور ملے جلے سیاسی کردار کی عکاسی کرتے ہیں۔ ان میں سے کچھ انتہائی دائیں بازو کے ہیں جن میں کرسٹوف شیلاں ساں بھی شامل ہے، جس نے میکرون کو جنرل پیری ڈیویلیئرز کے حق میں مستعفی ہونے کا کہا تھا، جو فرانس کی افواج کا ایک رجعتی سابق سربراہ ہے، جس کے بارے میں شیلاں ساں نے کہا کہ یہ ایک ’’سچا سپہ سالار ہے‘‘۔ لیکن جیسے جیسے تحریک آگے بڑھ رہی ہے اور انقلابی ہو رہی ہے ویسے ویسے یہ اس طرح کی حادثاتی شخصیات کو پیچھے چھوڑتی جا رہی ہے۔ معتدل نمائندے جیکلائن موروڈ اور بینجمن کاوچی (جسے ٹولوز میں پیلی واسکٹ والوں کی تحریک سے نکال دیا گیا تھا) وزیراعظم کی بات چیت کی دعوت قبول کرنا چاہتے تھے مگر انہیں پیلی واسکٹ والے کارکنان کی جانب سے دباؤ پر پیچھے ہٹنا پڑا، جنہیں یہ لگتا تھا کہ یہ تحریک کی زیادہ انقلابی مانگوں کو بیچ کھائیں گے، جن میں قومی اسمبلی کی تحلیل بھی شامل ہے۔

پیلی واسکٹ والوں سے لازمی یہ کہنا چاہیے کہ وہ اپنی پنچایتیں قائم کریں (کچھ پیلی واسکٹ والے جس کی بات کرنا شروع ہو چکے ہیں) اور ایک جمہوری قیادت منتخب کریں جس کا احتساب بھی کیا جاسکے، جو سڑکوں پر موجود طاقت کو ایک لائحہ عمل سے جوڑ سکے۔ یونینز یہ بات کرنے کے لیے انتہائی بہترین پوزیشن میں ہیں مگر ابھی تک انہوں نے اپنی پوزیشن کا فائدہ نہیں اٹھایا۔ مزدور تحریک کے لیے میدان خالی پڑا ہے کہ وہ پیلی واسکٹ والوں کو قیادت اور ایک انقلابی طبقاتی لائحہ عمل مہیا کر سکیں۔ یونینز اور خاص طور پر فرانس انسومیز کو چاہیے کہ وہ اس تحریک کے زور کو استعمال کرتے ہوئے میکرون کے خلاف ایک کھلی لڑائی شروع کریں۔ مزدور لیڈران کی موجودہ پالیسی اس سے کوسوں دور ہے۔ 14 دسمبر کو CGT ’’عظیم احتجاج کے دن‘‘ کی کال دے رہی ہے، جو موجودہ حالات کی تیزی کو دیکھتے ہوئے بہت دور ہے اور اس کا انتظار نہیں کیا جا سکتا۔ مزید یہ کہ تحریک میں پہلے بھی بہت سے ’’عظیم احتجاج کے دن‘‘ نظر آئے ہیں مگر نتائج بہت کم دیکھنے کو ملے ہیں۔ اب 24 گھنٹے کی عام ہڑتال کرنے کی ضرورت ہے جس ہے ہڑتالوں کا ایک ایسا سلسلہ شروع ہو سکتا ہے جس کا مقصد حکومت کا خاتمہ ہو۔

فرانس انسومیز کا امتیاز ہے کہ اس نے شروع سے ہی پیلی واسکٹ والوں کی مانگوں کی حمایت کی ہے اور CGT کی جھجک پر تنقید کی ہے، لیکن اس نے میکرون سے مطالبہ بھی کیا ہے کہ بہت سے ’’ترقی پسند‘‘ مطالبات (تیل پر لگائے گئے ٹیکس واپس لیے جائیں، زیادہ کمائی والے لوگوں پر بڑے ٹیکس لگائے جائیں اور بڑے کاروباری اداروں سے 40 ارب یورو ٹیکس لے کر ’’ماحولیاتی تبدیلی‘‘ کی مد میں خرچ کیے جائیں) تسلیم کر لے یا مستعفی ہو جائے۔ یہ ایک خوش فہمی ہے، میکرون دونوں کام ہی نہیں کرے گا، اس کی بجائے وہ چھوٹی چھوٹی مراعات کے ساتھ جبر جاری رکھے گا۔ میکرون پر بحران سے باہر نکلنے کا راستہ ڈھونڈنے کے لیے دباؤ ڈالنے کی بجائے انہیں اس بات کی وضاحت کرنی چاہیے کہ موجودہ سرمایہ دارانہ حکومت کے زیر اثر کوئی حل ممکن نہیں ہے۔ اس لیے میکرون کی حکومت کو گرانا مقصد ہونا چاہیے، جو سرمایہ دار طبقے کے مفادات کی نمائندگی کرتی ہے۔ لیکن میلنشوں تنازع کے پیچھے موجود طبقاتی مفادات کی وضاحت نہیں کر رہا۔ وہ پیلی واسکٹ والوں کے طبقاتی کردار کو نظرانداز کر رہا ہے اور اسے ’’لوگوں کے ایک تاریخی عمل‘‘ سے آنے والا ’’شہریوں کا انقلاب‘‘ کہہ کر پکارتا ہے۔

لیکن تحریک کے وسیع مطالبات میں سے کوئی بھی محنت کش طبقے کی جدوجہد کے بغیر حاصل نہیں کیا جا سکتا، جس کے پاس 1968ء کی طرح ملک کو مفلوج کر کے حکومت کو ہوا میں معلق کر دینے کی صلاحیت موجود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک منظم اور وسیع ہڑتالوں کے پروگرام کی ضرورت ہے، جس میں تمام اداروں کے محنت کشوں اور طالب علموں کو آپس میں جوڑا جا سکے۔ یہی جیت کا واحد راستہ ہے۔ اس تحریک کا چاہے کچھ بھی نتیجہ نکلے، یہ بات واضح ہے کہ فرانس میں طبقاتی جدوجہد کا ایک نیا باب کھل چکا ہے، اور فریڈرک اینگلز نے کہا تھا کہ طبقاتی جدوجہد آخر تک لڑی جاتی ہے۔

(4دسمبر2018ء)

Comments are closed.