بحرانوں کا شکار فرانس

|تحریر: راب سیول،  ترجمہ: ولید خان|

دو سال پہلے جریدے فنانشل ٹائمز نے ایک اداریے میں فرانس کے حالات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ملک نیم انقلابی کیفیت میں ہے۔ یہ کہنا مبالغہ آرائی ہوسکتی ہے لیکن بہرحال یہ اس بات کی عکاسی ہے کہ فرانسیسی سماج ایک بند گلی میں کھڑا ہے۔ اب یہ سیاسی بحران کے دھماکے میں تبدیل ہو چکا ہے۔

یہ باقی سرمایہ دارانہ دنیا میں ہونے والے ابھاروں کا ہی تسلسل ہے، جہاں دوسری عالمی جنگ کے بعد کا لبرل ورلڈ آرڈر دھڑام سے گر چکا ہے۔ اگلے صدارتی انتخابات، جس کا پہلا مرحلہ 23 اپریل کو منعقد ہو گا، کئی دہائیوں میں سب سے زیادہ غیر یقینی ہوں گے۔

To read this article in English, click here

فرانس پر کئی دہائیوں سے روایتی بورژوا پارٹیوں کی حکمرانی رہی ہے جس میں سوشلسٹ حکومتوں کے ادوار بھی آتے رہے ہیں۔ حتمی تجزیے میں ہر رنگ کی حکومت نے فرانسیسی سرمایہ داری کے بحران کا بوجھ محنت کش طبقے کی پیٹھ پر منتقل کرنے کی کوشش کی ہے لیکن انہیں محنت کش طبقے کی شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑ تا رہا ہے۔

ایم گاریگوئز کے مطابق، ’’ووٹروں میں یہ تاثر ہے کہ دائیں اور بائیں بازو کی روایتی پارٹیوں نے صرف مستقل بحران اور بے روزگاری پر ہی حکمرانی کی ہے۔ یہ مرحلہ اب اختتام کو پہنچ رہا ہے اور ووٹر ناکامی کے تاثر سے جڑی ہر شے کو رد کر رہے ہیں۔ ‘‘

اولاندے حکومت کے آغاز میں ہی اپنے بائیں بازو کے ریڈیکل وعدوں سے منحرف ہونے کے بعد جب کوئی بھی بہتر معاشی نتائج حاصل نہ ہو سکے تو ہر طرف پھیلا یہ اضطراب اور بھی زیادہ گہرا ہو گیا۔ سوشلسٹ ووٹروں کی اکثریت کے نزدیک یہ کھلی غداری تھی۔ ان غداریوں نے فرانس میں سیاسی توازن کو برباد کر کے رکھ دیا ہے۔

آج ہمیں پہلے کبھی نہ دیکھے جانے والے سرمایہ داری کے بحران کا سامنا ہے۔ برطانیہ کے یورپی یونین سے انخلا اور امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ کے منتخب ہونے کے بعد فرانسیسی انتخابات کی کوئی قبل از وقت پیش گوئی نہیں کی جا سکتی۔ روایتی پارٹیوں میں کہرام مچا ہوا ہے جس کی وجہ سے نتائج غیر یقینی کا شکار ہو چکے ہیں اور کوئی بھی نتیجہ سامنے آ سکتا ہے۔ دائیں بازو کا ریپبلیکن امیدوار فرانسوا فیلون، جو کبھی رسوائے زمانہ صدر سرکوزی کو شکست دینے کے بعد ہر دلعزیز ہو گیا تھا، آج اپنی ہی بیوی کو عوامی ٹیکس کے 900000 یورو ایک ایسے کام کے لئے دئیے جانے پر رسوا ہوا پڑا ہے جو اس نے کبھی کیا ہی نہیں۔ اس کی تمام تر معذرتوں کے باوجود، اس کی شہرت منہدم ہو چکی ہے۔ ستم ظریفی تو یہ ہے کہ ایک اچھے بورژوا سیاست دان کی طرح اس کی تما م کمپین ’’بلند تر اخلاقی روایات کی بحالی‘‘ کے وعدے پر مبنی تھی! ایک حالیہ رائے شماری کے مطابق، چار میں سے ایک فرانسیسی کو اس کی ’’ایمانداری‘‘ پر اعتماد ہے۔ لیکن، اس مرحلے پر آ کر اس کا دستبردار ہونا تباہ کن ثابت ہو سکتا ہے اور اسی وجہ سے زیادہ امکانات یہی ہیں کہ ایسا نہیں ہو گا۔ حکمران طبقہ اس کے ساتھ پھنس کر رہ گیا ہے جس کی وجہ سے عدم استحکام مزید خوفناک ہوتا جا رہا ہے۔

مقابلے میں سامنے آنے والا ایک نیا ’’معتدل‘‘امیدوار سرمایہ داروں کا نمائندہ ایمانوئل ماکرون ہے، جو ایک سابقہ سوشلسٹ معاشی وزیر اور روتھس چائلڈ بینک کاسابقہ ملازم ہے جس نے دس ماہ پہلے اپنی سیاسی پارٹی کی بنیاد رکھی۔ بڑے اور چھوٹے سرمایہ دار مگر مچھوں کے درمیان لڑائی میں یہ نو دولتیا امید لئے بیٹھا ہے کہ وہ فرانس میں موجود عمومی مایوسی سے فائدہ اٹھا سکے گا۔

حکمران سوشلسٹ پارٹی مکمل طور پر افراتفری کا شکار ہے۔ انتخابات میں مکمل بربادی کا سامنا کرتے ہوئے اولاندے نے دوبارہ صدارتی امیدوار بننے کے امکانات کو مسترد کر دیا ہے جو کہ آج تک پانچویں ریپبلک کے کسی لیڈر نے پہلے کبھی نہیں کیا۔ اسی اثنا میں وزیر اعظم مانوئل والز سوشلسٹ پارٹی کے بطور صدارتی امیدوار نامزدگی کو نرم بائیں بازو کے امیدوار کے مقابلے میں ہار گیا جو خود اولاندے کا سابقہ وزیر ہے۔ اولاندے اور اس کی حکومت سے عوام کی انتہائی مایوسی کے باعث یہ بات یقینی ہے کہ ہامون پہلے مرحلے میں ہی صدارتی دوڑ سے باہر ہو جائے گا، جس کی وجہ صرف یہ ہے کہ وہ سوشلسٹ پارٹی کا امیدوار ہے۔

ان تمام تر مشکلات کی وجہ سے ہامون شاید بائیں بازو کے لیڈر جان لوک میلاشون کے ساتھ اتحاد کرنے کی کوشش کرے گا جسے رائے شماری میں 10فیصد حمایت حاصل ہے لیکن یہ اتحاد میلاشون کیلئے زہر قاتل ثابت ہو گا۔ وہ 2012ء کے انتخابات میں فرانس کی دیرینہ انقلابی سیاسی روایات کی ترجمانی کرتے ہوئے اپنی شعلہ بیان تقاریر کے ساتھ بطور لیفٹ فرنٹ (ریڈیکل پارٹیوں کا اتحاد جس میں کمیونسٹ پارٹی بھی شامل ہے) امیدوار چوتھی پوزیشن پر رہا۔ وہ اس سال کمیونسٹ پارٹی کی دیر سے حاصل ہونے والی حمایت کے ساتھ انتخابات میں حصہ لے رہا ہے اور اس نے ایک نئی تحریک تشکیل دی ہے جس کا نام ’’La France Insoumise‘‘(باغی فرانس) ہے، ایک بائیں بازو کا کٹوتی مخالف پلیٹ فارم۔ اگر یہ پلیٹ فارم کامیابی کے ساتھ نوجوانوں اور محنت کشوں کے غم و غصے کی ترجمانی کرنے میں کامیاب ہو گیا تو یہ دائیں بازو کے مقابلے میں بائیں پر ایک حقیقی نکتۂ آغاز کا روپ دھار سکتا ہے۔ فرانس میں IMT اس صورتحال کو انتہائی موزوں خیال کرتے ہوئے مارکسزم کے پروگرام کا اس تناظر میں دفاع کر رہی ہے۔

بورژوا پارٹیوں کو گھیرے ہوئے تنازعات نے انتخابی دوڑ کو افراتفری کا شکار کر دیا ہے۔ دائیں بازو کی نیشنل فرنٹ اس صورتحال سے فائدہ اٹھانے کے لئے پرامید ہے۔ میرین لی پین اس بات کی امید کر رہی ہے کہ وہ مئی میں منتخب ہوجائے گی۔ عوام میں زیادہ عزت حاصل کرنے کیلئے لی پین کوشش کر رہی ہے کہ وہ اپنی پارٹی کو یہودی مخالف اور قوم پرست جڑوں سے علیحدہ کرتے ہوئے زیادہ قابل قبول بنا سکے۔ اس کا ابھار بطور دائیں بازو کی روایتی پاپولسٹ پارٹی کے طور پر ہو رہا ہے جس نے اپنی مقبولیت اسٹیبلشمنٹ مخالفت، تارکین وطن کی فرانس میں آمد مخالفت، یورپی یونین پر شدید حملوں، عالمگیریت مخالفت اور بے روزگاری کے خلاف پارٹی کے طور پر بنائی ہے۔

سیویپوف رائے شماری کے مطابق شدید غم و غصے اور اضطراب کے نتیجے میں آدھے محنت کشوں، کم اجرتی مزدوروں اور کم ہنرمند نوجوانوں نے، جو کہ مجموعی طور پر کام کے قابل عوام کا 40 فیصد بنتے ہیں، میرین لی پین کے یورپی یونین سے انخلا اور تارکین وطن پر پابندیوں کے پروگرام کی حمایت کی ہے۔

اس تمام تر صورتحال کی ذمہ داری حکمران سوشلسٹ پارٹی کے سر ہے جس نے پے درپے غداریوں کے ساتھ گہرے ہوتے بحران اور بے پناہ بے روزگاری پر حکومت کی ہے۔ نام نہاد کمیونسٹ پارٹی پر بھی ذمہ داری عائد ہوتی ہے جس نے اولاندے کی پارٹی کے پیچھے چلتے ہوئے گھٹنے ٹیک دئیے۔ یہ دیوالیہ پن اصلاح پسندی کی ناکامی کا نتیجہ ہے جس کا مقصد ہی بحران زدہ سرمایہ دارنہ نظام کی حدود میں کام کرنے کی کوشش کرنا ہے۔ اس شکست خوردگی کی وجہ سے، چاہے عارضی طور پر ہی سہی، انتہائی دائیں بازو کی نیشنل فرنٹ پارٹی کیلئے آگے بڑھنے کے راستے استوار ہوئے ہیں۔

اس سیاسی بحران کی ایک عکاسی ان بورژوا سیاست دانوں کی سیاسی موت ہے جو پہلے ہی تاریخ کے کوڑے دان کا حصہ بن چکے ہیں۔ سابق صدر نیکولس سرکوزی ابھرنے کی کوشش کرتے ہی ختم ہو گیا۔ پھر ایک سابق وزیر اعظم ایلن جوپے نامزدگی کے مرحلے میں فیلون سے شکست کھا بیٹھا۔ اب جیسا کہ ہم دیکھ رہے ہیں، تنازعات میں گھرا فیلون خود مشکل میں پھنسا ہوا ہے۔

دائیں بازو کے ایک معتدل تھنک ٹینک کے سربراہ ڈومینیک رینی کے مطابق، ’’پرانی دنیا منہدم ہو رہی ہے۔ اگر لی پین کا مقابلہ ماکرون سے ہوتا ہے، جسے ابھی تک کسی انتخابی مہم کا تجربہ نہیں ہے، تو کیا نتائج ہو سکتے ہیں اس کی کوئی پیش گوئی نہیں کر سکتا۔ ماکرون کے حوالے سے رائے شماریوں پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا کیونکہ اس کی فرانسیسی سیاست میں کوئی تاریخ نہیں ہے۔ ‘‘

سائنسز پو سیوی پوف میں سیاست کے پروفیسر لوک روبان کا کہنا ہے کہ، ’’ہم نے آج تک اس طرح کی غیر مستحکم اور بے یقینی کی صورتحال کا کبھی سامنا نہیں کیا۔ ہم روایتی فرانسیسی سیاست میں مکمل تبدیلی اور ریڈیکلائزیشن دیکھ رہے ہیں۔ اسی دوران ووٹروں کا رویہ اس قدر پیچیدہ ہو چکا ہے کہ رائے شماری کے ادارے اور تجزیہ نگار درست پیش بینی کرنے سے قاصر ہیں۔ ‘‘ جو کچھ بھی ہو، فرانس غیر مستحکم حکومتوں کے عہد میں داخل ہو چکا ہے۔ ’’اور میکانکی طریقہ کار سے اس کا مطلب یہ ہے کہ سیاسی و سماجی انتہائیں اور زیادہ مضبوط ہوتی چلی جائیں گی۔ ‘‘ روبان مزید کہتا ہے کہ، ’’ہم اپنی نظروں کے سامنے پانچویں ریپبلک کو منہدم ہوتا دیکھ رہے ہیں۔ ‘‘

میرین لی پین

لی پین کی طرف سے لاحق خطرے نے ہر طرف خوف و ہراس پھیلایا ہوا ہے۔ صدارتی انتخاب کے دوسرے مرحلے میں دو دائیں بازو کے امیدواروں کے سامنے آنے کے امکانات کے باعث بائیں بازو کے کچھ لوگوں کے اوسان خطا ہو گئے ہیں اور وہ ’’لی پین کے علاوہ کسی کو بھی ووٹ‘‘ دینے کی صدائیں بلند کر رہے ہیں۔ وہ ہیجانی کیفیت میں لی پین اور نیشنل فرنٹ کو ’’فاشسٹ‘‘ قرار دے رہے ہیں۔ لیکن یہ غلط اصطلاح ہے کیونکہ اس سے فاشزم کے اصلی جوہر کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ یہ درست ہے کہ لی پین اور اس کی پارٹی دائیں بازو کے نمائندے ہیں اور سیاسی طور پر جہاں وہ تارکین وطن کے مسئلے اور یورپی یونین کی مخالفت کو ابھار رہے ہیں، وہیں پر ان کے اور دیگر بورژوا سیاسی پارٹیوں کے درمیان کوئی کلیدی فرق موجود نہیں ہے۔

فاشزم ایک یکسر مختلف مظہر ہے۔ فاشزم سے مراد غصے میں بپھرے درمیانے طبقے، لمپن پرولتاریہ، کسانوں اور پست سیاسی شعور کے حامل کچھ محنت کشوں کا بڑے پیمانے پر تحرک ہے۔ اس تحرک کو منظم اور اس کی مالی امداد بڑے کاروباری اور سرمایہ دار کرتے ہیں جن کیلئے سوشلسٹ انقلاب کے خلاف مایوسی میں یہ آخری پر تشدد حربہ ہوتا ہے۔ فاشزم کا حقیقی مقصد یہ ہوتا ہے کہ ایک ایسی بڑی قوت کو متحرک کیا جائے جو محنت کشوں کے تمام اداروں اور تنظیموں کو تباہ کر دے اور محنت کشوں کا شیرازہ بکھیر دے۔ فوج اور پولیس کی حمایت کے ساتھ درمیانے طبقے کو ایسے بھاری شہتیر کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے جو ہر جمہوری حق کو نیست و نابود کر ے۔ آج کی نیشنل فرنٹ کا ایسا کوئی پروگرام نہیں ہے جو کہ دائیں بازو کی پارٹی تو ہے لیکن فاشسٹ نہیں ہے۔ اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں ہے کہ ہم ان کے خلاف متحرک ہی نہ ہوں لیکن مارکس وادیوں کو مختلف مظاہر کی درست نشاندہی میں غلطی بھی نہیں کرنی چاہیے۔ اس کلیدی غلطی کے نتیجے میں فیلون یا کسی بھی اور بورژوا سیاست دان کو لی پین کے مقابلے میں زیادہ قابل قبول قرار دیا جا سکتا ہے۔

کسی بھی دائیں بازو کے امیدوار سے متعلق یہ خیال پیش کرنا کہ وہ ’’کم تر برائی‘‘ ہے، غداری کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ تمام بورژوا پارٹیاں برابر کی رجعتی ہیں۔ ہم اعلان کرتے ہیں کہ دائیں بازو کے ساتھ کوئی گٹھ جوڑ قابل قبول نہیں! رجعتیت سے لڑنے کا واحد طریقہ کار محنت کشوں کی آزادانہ طبقاتی حیثیت ہے اور کسی بھی دائیں بازو کے صدر کے خلاف کام کی جگہوں اور سڑکوں پر پرزور سیاسی مزاحمت ہے۔

اینگلز نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ مغربی یورپ میں فرانس وہ ملک ہے جہاں طبقاتی جنگ ’’ہمیشہ اپنے منطقی انجام تک لڑی جاتی ہے۔ ‘‘ 1789ء سے لے کر آج تک، فرانس کی تاریخ انقلاب اور رد انقلاب کی دلکش تاریخ ہے۔ مئی 1968ء کی عام ہڑتال، جب طاقت فرانسیسی محنت کشوں کے ہاتھوں میں تھی، آج بھی فرانسیسی حکمران طبقے کے دلوں کو دہلا دیتی ہے کیونکہ انہیں فرانسیسی محنت کشوں کی انقلابی قوت کا بخوبی اندازہ ہے۔ یہ وقت مایوس ہو کر ہامون سمیت کسی بھی بورژوا سیاست دان میں نجات ڈھونڈنے کا نہیں ہے۔

اس وقت، میلاشون تمام امیدواروں میں سب سے زیادہ ریڈیکل بائیں بازو کا متبادل ہے جو آنے والے انتخابات میں حصہ لے رہا ہے، بے شک اس کی اصلاح پسند محدودیت اپنی جگہ موجود ہے۔ میلاشون میں یہ امکانات موجود ہیں کہ وہ بائیں بازو کی جانب ایک اہم نکتہ آغاز کا سبب بن سکے جس کے ارد گرد بائیں بازو کی ایک بڑی عوامی قوت منظم ہو سکے۔ فی الحال فرانس میں جو بھی ایک سنجیدہ بائیں بازو کے متبادل کی تعمیر کرنا چاہتا ہے، اس کے سامنے یہی وہ واحد راستہ ہے جس پر چلا جا سکتا ہے۔ مارکس وادی اپنی حمایت کے حوالے سے اپنا کردار ادا کرتے رہیں گے لیکن ساتھ ہی سخت اور غیر متزلزل سائنسی تنقید کے ساتھ میلاشون کے پروگرام کی کمزوریوں اور حدود کی نشاندہی بھی کرتے رہیں گے۔ موجودہ بحران کا سرمایہ دارانہ حدود میں کوئی حل موجود نہیں اور اس بات کا اطلاق فرانس سمیت دنیا کے ہر ملک پر ہوتا ہے۔ 1968ء کی طرح آج بھی فرانس سوشلسٹ تبدیلی کا متقاضی ہے۔ اس مرتبہ ہمیں اس لڑائی کو منطقی انجام تک پہنچانا ہے۔

Comments are closed.