فرانس: کرونا وائرس اور سرمایہ داری کی بربادی

|تحریر: جیروم میٹلس، ترجمہ: آصف لاشاری|

موجودہ صحت کا بحران دنیا کی تاریخ میں ایک اہم موڑ کی نشاندہی کرتا ہے۔ اس کے دیو ہیکل سماجی، سیاسی اور معاشی اثرات ہوں گے۔ وہ سلسلہ وار عمل جو دسمبر 2019ء میں ووہان کی ایک گوشت مارکیٹ سے شروع ہوا،عالمی وبا کے واپس پلٹنے پر ختم نہیں ہوگا۔

ایک نئی عالمی کساد بازاری کے تمام تر عناصر کرونا وائرس کے پھیلاؤ سے بہت پہلے اپنی جگہ پر موجود تھے،اور اس وبا نے اس عمل میں صرف ایک عمل انگیز کا کردار ادا کیا۔ 2020ء کی پہلی سہ ماہی کے اندر پیداوار میں ہونے والی تباہ کن گراوٹ ہمارے سماج کو بہت گہرے زخم دے گی۔ مثال کے طور پر امریکہ میں لاکھوں لوگ اپنی نوکریوں سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔

بورژوا معیشت دان مایوسی میں اس خیال سے چمٹے ہوئے دکھائی دیتے ہیں کہ قرنطینہ کے خاتمے کے بعد مانگ میں ہونے والے اضافے کی وجہ سے پیداوار تیزی سے اوپر اٹھے گی۔ اس بات سے انکار نہیں ہے لیکن بہت سے دوسرے عوامل جیسا کہ بے روزگاری میں اضافہ اور نوکری کے کھو دینے کا خوف،مانگ کو کم کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ مالیاتی منڈی کا شیش محل بھی راتوں رات منہدم ہوسکتا ہے جو اپنے ساتھ پوری معیشت کو بھی لے ڈوبے گا۔اگر معیشت چند مہینوں میں اوپر اٹھتی بھی ہے تو یہ ایسے ہی ہوگا جیسے کوئی نیم بے ہوش باکسر ایک آخری بار کھڑا ہوتا ہے۔

سرمائے کی وحشت اور کٹوتیاں

2008-09 ء کے بحران کی طرح آج بھی آزاد منڈی کے معذرت خواہان 180 ڈگری پر پلٹا کھاتے ہوئے مرکزی بینکوں اور حکومتوں سے سرمائے کے غیر محدود بہاؤ کا مطالبہ کر رہے ہیں جس کا جواب بھی غیر محدود سخاوت جیسا کہ امدادی منصوبوں کے اعلانات، ریاستی یقین دہانیوں اور کروڑوں یوروز کی صورت میں بڑی ریاستی مداخلتوں کے ذریعے دیا جا رہا ہے۔

یہ تمام رقم آخر جا کہاں رہی ہے؟ کیا یہ غریبوں، بے روزگاروں، بیماروں یا دوسری عوامی سہولتوں پر خرچ ہوگی؟ ہم جانتے ہیں کہ ایسا نہیں ہے۔اب بھی یہ تمام رقم انہیں بینکوں اور بڑی کارپوریشنوں کو ملے گی جن کو 2008-09 ء میں ملی تھی۔ اس تمام تر ریلیف کا بھاری بھرکم بِل تباہ کن کٹوتیوں کی پالیسیوں، ٹیکسوں میں اضافوں اور محنت کش طبقے کی تمام تر سماجی حاصلات پر منظم حملوں کی صورت میں نوجوانوں، مزدوروں، درمیانے طبقے اور ریٹائرڈ ملازمین سے وصول کیا جائے گا۔ ہم یہ سب فرانس میں میکرون حکومت کے کام کے ہفتے کے اوقاتِ کار اور اجرت کے ساتھ چھٹیوں میں خاتمے کے حوالے سے پیش کیے جانے والے حالیہ آرڈیننسوں میں دیکھ چکے ہیں۔ یہ اقدامات جو مزدور قوانین کی پامالی کرتے ہیں حالیہ صحت کی ہنگامی صورتحال کے نام پر نافذ کیے جا رہے ہیں۔ اس ہنگامی صورتحال کے ختم ہونے کے بعد بھی کافی امکانات ہیں کہ حکومت ان سماج دشمن اقدامت کو بڑھانے اور وسیع کرنے کے لیے معاشی ایمرجنسی نافذ کرنے کی طرف جائے گی۔

طبقاتی جدوجہد

یہ سارا عمل طبقاتی جدوجہد کی شدت میں بڑے پیمانے پر اضافے کی بنیادیں رکھ رہا ہے۔ پہلے ہی حکومتوں اور حکمران طبقات کی جانب سے اس صحت کے بحران کا مہلک انتظام عوام کے شعور پر بہت گہرے اثرات مرتب کرچکا ہے جس نے عوام کو ان کے معمولاتِ زندگی سے مکمل طور پر کاٹ کے رکھ دیا ہے۔ اس وبا نے سرمایہ دارانہ نظام کے تمام تر چھپے ہوئے تضادات کو واضح کر دیا ہے: یہ بجٹ کٹوتیوں کے ڈرامائی نتائج پر روشنی ڈالتا ہے جنہوں نے زیادہ تر ترقی یافتہ ممالک میں سرکاری صحت کے نظام کو تباہ و برباد کیا ہے۔ غریب ترین ممالک میں جہاں صحت کا نظام صرف کاغذوں تک محدود ہے،اس وائرس کا پھیلاؤ ایک خوفناک تعداد کو اپنا شکار بنائے گا۔

31 مارچ کو فرانس کے صدر میکرون نے اعلان کیا کہ ایسے وقت میں جب ابھی جنگ ختم نہیں ہوئی جو کوئی بھی حکومت کا ٹرائل چاہتا ہے وہ انتہائی غیر ذمہ دار ہے۔ اس طرح سے دیکھیں تو ہمیں نظر آتا ہے کہ فرانس کے زیادہ تر لوگوں کے لیے ان لوگوں کا ٹرائل جو اس تباہی کے ذمہ دار ہیں،ہفتے کے ساتوں دن صبح سے شام تک جاری رہتی ہے۔

اس ٹرائل کے لیے سوالات اور شواہدات بڑھتے جا رہے ہیں۔ ماسک کہاں غائب ہو گئے ہیں؟ بحران شروع ہونے سے پہلے ماسک اتنے کم کیوں تھے؟ انہوں نے بحران کے دو مہینوں میں اتنے کم ماسک کیوں بنائے ہیں؟ ٹیسٹ اتنے کم کیوں کیے جا رہے ہیں؟ غیر لازمی شعبوں میں کام کرنے والوں کو ابھی تک قرنطینہ میں کیوں نہیں ڈالا گیا؟ کیا ان کی زندگیاں زیادہ اہم نہیں ہیں؟ کیا اس وقت کشتیوں، کاروں اور جہازوں کا بنایا جانا اتنا ضروری ہے؟ موجودہ صحت کی پالیسی آخر کون سے نجی مفادات کا تحفظ کرتی ہے؟

ڈاکٹرز، نرسیں اور صحت کا دیگر عملہ گواہوں کی صورت میں ایک ایک کر کے قانونی چارہ جوئی کے لیے سامنے آنا شروع ہورہے ہیں۔ یہ سارے لوگ جو سیاسی طور پر اعتدال پسند ہیں لیکن یہ آج جو بات بغیر کسی غلطی کے واضح الفاظ میں کہہ رہے ہیں اس سے ظاہر ہے کہ وہ حکومت کی موجودہ اور ماضی کی پالیسیوں سے کتنی کم توقعات رکھتے ہیں۔ حکمران سرکاری پیغامات میں جھوٹ کی آمیزش کرتے ہوئے سٹاف، ماسک، ہسپتال کے بستروں، ٹیسٹوں، ہینڈ سینیٹائزرز اور اس طرح کے بہت سے دیگر ضروری سامان کی کمی کی وضاحت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

یہ ٹرائل جاری ہے۔ میکرون چاہے یا نہ چاہے، وبا کے کم ہونے کے بعد بھی یہ سلسلہ جاری رہے گا۔مجرم گروہ یعنی سرمایہ داری کو بے نقاب کیا جائے گا اور اسے انقلاب کی سزا سنائی جائے گی۔

ایک ہنگامی پروگرام

میکرون اور فرانس کا حکمران طبقہ معیشت کو چلانے، فرانس کی سٹاک مارکیٹ انڈیکس کو بڑھائے رکھنے، بینکوں کو خوش رکھنے اور منافعوں کی حفاظت کے لیے ہزاروں محنت کشوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالنے کے لیے تیار بیٹھے ہیں۔ سرمایہ داری کے تحت منافعوں کے لیے نہ ختم ہونے والی دوڑ باقی ہر ایک چیز پر حاوی رہتی ہے۔ یہ سچائی کروڑوں محنت کشوں اور نوجوانوں کے شعور میں پیوست ہورہی ہے۔

اٹلی، سپین اور برطانیہ کی طرح فرانسیسی محنت کش بھی اپنی، اپنے گھر والوں اور ساتھی محنت کشوں کی حفاظت کے لیے حرکت میں آ رہے ہیں۔ کاروباروں کی عارضی بندش اور ضروری حفاظتی اقدامات کے مطالبے کے لیے مختلف شعبوں میں ہڑتالیں شروع ہو چکی ہیں۔ مزدورتحریک کو اپنی پوری قوت کے ساتھ اس لڑائی کو جاری رکھنا ہوگا۔ انہیں قومی یکجہتی کی جھوٹی اپیلوں کو بھی مسترد کرنا ہوگا اور حکومت کی مجرمانہ پالیسیوں کے متبادل کے طور پر اپنے ہنگامی پروگراموں کو پروان چڑھانا ہوگا۔ ایسا کرنے کے لیے ایک ایسا پروگرام دینے کی ضرورت ہو جو درج ذیل مطالبات کے گرد گھومتا ہو:

تمام غیر لازمی کاروباروں کو فوری طور پر بند کیا جائے اور اس بندش کے دوران محنت کشوں کو پوری اجرت دی جائے۔کون سی صنعتیں اہم ہیں اس کا فیصلہ محنت کش کریں گے کیونکہ حکومت اس بارے لاعلمی کا مظاہرہ کر رہی ہے۔

ایسے کاروبار اور خدمات جنہیں بند نہیں کیا جاسکتا، محنت کش اور یونینز ان تمام کا کنٹرول سنبھالیں اور وہی کام کی تنظیم، سٹاف کی گردش، کام کی شروعات و تکمیل، بھرتیوں اور پھیلاؤ کے بڑھنے کے خطرے کو کم کرنے کے لیے تمام تر منصوبہ بندی کریں۔ محنت کشوں کے جمہوری کنٹرول کا دائرہ کار وسیع جائے۔

پرائیویٹ کلینکس اور فارما سیوٹیکل کمپنیوں کو ان کے شریک ٹھیکیداروں سمیت ریاستی تحویل میں لیا جائے اور ان میں کام کرنے والے ملازمین کو سرکاری محنت کشوں میں شمار کیا جائے۔ یہی سب کچھ دوسری تمام ایسی کمپنیوں کے ساتھ بھی کیا جائے جو میڈیکل کا سامان جیسا کہ وینٹی لیٹرز،ماسک،حفاظتی لباس اور سینیٹائزر وغیرہ بناتی ہیں یا بنا سکتی ہیں۔نرسز اور حفاظتی عملے کی بھرتیوں کے لیے فوری طور پر ایک بڑے پیمانے کی مہم کا آغاز کیا جائے۔

نجی قیام گاہوں خاص طور پر بڑے ہوٹلوں جن کو ہسپتالوں میں تبدیل کیا جاسکتا ہے،کو فوری تحویل میں لیا جائے۔ بینکوں اور رئیل اسٹیٹ کے جواریوں کی ملکیت میں کھڑی لاکھوں خالی رہائش گاہوں کو بھی اس طرح تحویل میں لیا جائے تاکہ بے گھروں اور مہاجرین کو رہائش فراہم کی جا سکے۔

ایسے لوگوں کے لیے خوراک کی ترسیل کو یقینی بنایا جائے جو خوراک خریدنے کے لیے سفر نہیں کر سکتے یا خوراک خرید نہیں سکتے۔ دکانوں میں اشیا کی قیمتوں کے کنٹرول کو یقینی بنایا جائے۔ سٹہ بازی سے بچنے کے لیے، خوراک کی ترسیل کے کلیدی اداروں (کارفور، لیکلرک وغیرہ) کو قومی ملکیت میں لے کر انہیں ملازمین کے جمہوری کنٹرول میں دیا جائے۔

بندش کے خطرے سے دوچار تمام بڑی کمپنیوں کو قومی تحویل میں لیا جائے۔ مشکلات میں گھرے تمام چھوٹے کاروباروں کے لیے ریاست کی طرف سے مالی امداد دی جائے تاکہ لوگوں کے روزگار کو بچایا جا سکے۔ لیکن یہ تمام اقدامات اوپر پیش کیے گئے پروگرام کی طرح عوام پر قرضوں کا بوجھ لاد کر نہیں کیے جانے چاہیے۔ تمام پرائیویٹ بینکوں کو قومی تحویل میں لیا جائے اور انہیں ایک بڑے سرکاری بینک کے ساتھ ضم کر دیا جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ بڑے بڑے امیر گھرانوں، ایک فیصدی سرمایہ داروں اور جواریوں جو ملکی دولت کے ایک بڑے حصے کے مالک ہیں پر بھاری ٹیکس نافذ کیے جائیں۔ وہ ہی ان تمام بحرانوں کے ذمے دار ہیں اس لیے انہیں ہی اس کی قیمت چکانی ہوگی۔

Comments are closed.