’’فلاحی امداد‘‘ سے لے کر ملک گیر بجلی بندش تک: وینزویلا کُو میں ٹرمپ کا اگلا قدم کیا ہو گا؟

| تحریر: جارج مارٹن؛ ترجمہ: ولید خان|

23 فروری 2018ء کو وینزویلا سرحد پر ’’فلاحی امداد‘‘ کے نام پر اشتعال انگیزی کی ناکامی ٹرمپ کی جاری کو کوششوں کے لئے ایک بہت بڑا دھچکا ثابت ہوئی ہے۔ خود مقررہ صدر گوائیڈو، کولمبئین صدر ڈوکو اور امریکی نائب صدر پینس کے درمیان گرما گرم الزامات کا تبادلہ ہوتا رہا، یہاں تک کہ امریکہ اپنے اتحادی لیما کارٹیل سے بھی فوجی مداخلت کے لئے رضامندی حاصل نہیں کر سکا۔ 

کُو کی رفتار مدھم پڑتی جا رہی تھی۔ پھر 7 مارچ کو گوائیڈو کی کراکس مایوس کن واپسی کے چند دن بعد ہی پورا ملک اندھیرے میں ڈوب گیا۔ یہ کیسے ہو گیا؟ اس کا ’’حکومت تبدیلی‘‘ کوششوں سے کیا تعلق ہے؟ اور سب سے زیادہ اہم، سامراج کے کیا عزائم ہیں اور ان کا کیسے مقابلہ کیا جا سکتا ہے؟

23 فروری کُو کا آغاز ثابت ہونا تھا۔ ملک میں ’’فلاحی امداد‘‘ کی فراہمی کبھی بھی حقیقی مقصد نہیں تھا بلکہ اصل مقصد ’’عوامی قوت‘‘ کو بیدار کرنا تھا جس کے نتیجے میں سرحد کے دونوں اطراف حزبِ اختلاف کے حامیوں نے وینزویلی افواج کے سامنے کھڑے ہو جانا تھاجو پرامن مظاہرین کے دباؤ میں آکر موجودہ حکومت کا ساتھ چھوڑ کر ٹرمپ کی کٹھ پتلی ہوان گائیڈو کی حمایت کا اعلان کر دیتے۔ لیکن اس دن واشنگٹن کے سارے عزائم دھرے کے دھرے رہ گئے۔ حزبِ اختلاف کا حامی ہجوم توقعات سے بہت چھوٹا تھا۔ ’’فلاحی‘‘ ٹرکوں نے سرحد پار نہیں کی اور آخر کار روبیو، آبرامز اور گوائیڈو کو منہ کی کھانی پڑی۔

کولمبئین سرحد پر واقع سانتاندر پل پر ’’مادورو نے فلاحی امدادی ٹرکوں کو نظرِآتش کر دیا‘‘ پر شدیدپروپیگنڈہ کیا گیا۔ امریکی حکام نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ اس اقدام کے بعد جنیوا کنونشن کے تحت فوجی مداخلت ناگزیر ہو چکی ہے! اس بات سے قطع نظر کہ جنیوا کنونشن کا اطلاق صرف جنگی حالات میں ہوتا ہے، حقیقت یہ ہے کہ فلاحی ٹرک کو آگ لگانے والا کوئی اور نہیں بلکہ ایک ’’پرامن‘‘ حزبِ اختلاف کا ایک حامی تھا جس نے وینزویلی سرحدی محافظوں پرایک پیٹرول بم پھینک کر یہ آگ بھڑکائی۔ کئی ذرائع ابلاغ (TeleSur, RT) نے اس حوالے سے خبر چلائی اور ساتھ ہی بطور ثبوت ویڈیو بھی چلا دی۔ لیکن امریکی اعلی حکام بشمول مارکو روبیو اور جان بولٹن کسی کے کان پر جوں تک نہ رینگی اور انہوں نے عالمی بورژوا میڈیا کے ساتھ مل کر جھوٹ کی بوچھاڑ کر دی۔ 

دو ہفتے کی دیری سے ہی صحیح لیکن نیو یارک ٹائمز بھی اب یہ کہنے پر مجبور ہو چکا ہے کہ ’’ایک (وینزویلی حکومت کا)دعویٰ ویڈیو ثبوت سے سچ ثابت ہو رہا ہے کہ آگ مظاہرین نے ہی لگائی تھی‘‘۔ نیو یارک ٹائمز کی تفتیش میں یہ نتیجہ بھی اخذ کیا گیا ہے کہ وینزویلی حکومت کا یہ دعوی درست ہے کہ امریکی حکام اور حزبِ اختلاف دوائیوں سے لدے ٹرکوں کے بارے میں جھوٹ بول رہی ہے، یعنی کہ ’’ویڈیوز اور انٹرویوز کی روشنی میں دوائیوں کی ترسیل کا دعوی بھی کھوکھلا ثابت ہو رہا ہے ‘‘۔ 

نیو یارک ٹائمز کا اعتراف، گو کہ اس کو وہ وسیع پذیرائی نہیں ملی جو شروع میں جھوٹے دعوؤں کو ملی تھی، انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ ہمیں شروع سے پتہ تھا کہ امریکہ جھوٹ بول رہا ہے کیونکہ ناقابلِ فراموش شواہد موجود تھے۔ اب انہیں خود اعتراف کرنا پڑ رہا ہے۔ یہ واقعہ اگلی بار امریکی یا نام نہاد حزبِ اختلاف کے ’’مادورو حکومت‘‘ کے حوالے سے کسی بھی حیران کن دعوے کو پرکھنے کے لئے الف ب کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔ اور یہ سبق کیا ہے؟ ’’واشنگٹن اور ذرائع ابلاغ جس حکومت کا تختہ الٹنا چاہیں، اس کے حوالے سے ہر دعویٰ قابل سوال ہے‘‘۔

ایسے جیسے اشارے کی منتظر، اسی شام حزبِ اختلاف نے #IntervencionMilitarYA (#MilitaryInterventionNOW) کا ہیش ٹیگ چلاتے ہوئے سوشل میڈیا پر کہرام برپا کر دیا جس کا مقصد امریکہ اور اس کے اتحادیوں پر ملک میں فوجی مداخلت کے لئے دباؤ بڑھانا تھا۔ یہ مہم بذاتِ خود حزبِ اختلاف کے کردار کے حوالے سے انتہائی معنی خیز ہے (سامراج نواز اور غدار)، بلکہ ان کے مورال کے حوالے سے بھی کافی پر معنی ہے(وہ اپنے آپ کو’’ تبدیلی‘‘ کا ایجنٹ نہیں سمجھتے بلکہ اپنی تمام تر امیدیں ٹرمپ سے لگائے بیٹھے ہیں)۔ 

23 فروری کو ناکامی کے بعد لیما گروپ میں شامل ممالک کی بوگوٹا میں میٹنگ مزید پسپائی ثابت ہوئی۔ یاد رہے کہ لیما گروپ (مشہور لیما کارٹیل کے نام سے ہے) جنوبی لاطینی ممالک کا ایک ایڈ ہاک گروپ ہے جس کی تشکیل وینزویلا حکومت کا تختہ الٹنے کے سوال پر آرگنائزیشن آف امیریکن سٹیٹس میں امریکی کوشش کو شکست فاش ہونے کے بعد کی گئی۔ میٹنگ کے آغاز سے پہلے ہی چلی، برازیل اور پیراگوائے نے عام بیانات میں فوجی مداخلت کی واشگاف مخالفت کر دی۔ 

برازیل کا معاملہ خاص طور پر قابل ذکر ہے کیونکہ بولسونارو ، اس کی کابینہ اور افواج میں شدید آپسی اختلافات موجود ہیں۔ اپنے نائب صدر جنرل ہیملٹن موراؤ اور جرنیلوں کے دباؤ میں آ کر انتہائی دائیں بازو صدر کو مجبوراً اپنی کئی گیدڑ بھبھکیوں سے دستبردار ہونا پڑا، خاص طور پر برازیلی سفارت خانے کی یروشلم منتقلی اور امریکہ کو برازیل میں فوجی اڈے کی فراہمی۔ جنوری میں لیما گروپ نے وینزویلی افواج سے تمام تعلق اور رابطے منقطع کرنے کا فیصلہ کیا تو بھی برازیلی حکومت نے تعلقات بحال رکھے، یہاں تک کہ برازیلی فوج نے 23 فروری کو نام نہاد ’’فلاحی امداد‘‘ کے لئے وینزویلا کی سرحد پر امریکی افواج کی موجودگی کو بھی ویٹو کر دیا۔ 

کولمبیئن ریاست کے قابلِ مذمت کردار کے برعکس جس کے تحت انہوں نے نہ صرف پورے معاملے سے آنکھیں موڑے رکھیں بلکہ وینزویلا کی سرحد پر حزبِ اختلاف کے مظاہرین کی حمایت بھی کی، برازیلی فورسز نے نہ صرف ان کو قابو میں رکھا بلکہ کسی بڑے تصادم کو رونما ہونے سے بھی روکے رکھا۔اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ برازیلی جرنیل بڑے ترقی پسند ہیں یا قومی آزادی کے علمبردار ہیں بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کو اچھی طرح سمجھ بوجھ ہے کہ وینزویلا کے ساتھ کوئی بھی قابلِ ذکر تصادم، جس میں خانہ جنگی بھی شامل ہے، برازیل پر بھی خوفناک اثرات ڈال سکتا ہے جس کی مذکورہ ملک کے ساتھ ایک طویل اور دشوار گزار سرحد موجود ہے۔برازیلی جرنیلوں کا بھول کر بھی وینزویلا کے ساتھ ایک ایسے تصادم میں پھنسنے کا ارادہ نہیں جس کے انتہائی خطرناک نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔

اس شدید ہچکچاہٹ کے پس منظر میں بوگوٹا میں منعقد ہونے والی 25 فروری کی میٹنگ ایک ایسے اعلامیے پر اختتام پذیر ہوئی جس کے الفاظ تو سخت تھے اور دھمکیاں بھی ڈھیر ساری لیکن کوئی ایسا جملہ موجود نہیں تھا جس سے ’’حکومت تبدیلی‘‘ آپریشن کے اگلے اقدامات کے حوالے سے کوئی سنجیدہ عہدوپیمان موجود ہوں۔ امریکہ نے چند ایک اور وینزویلی حکام کے خلاف پابندیاں عائد کیں جن میں تین صوبوں کے گورنر بھی شامل تھے۔ لیکن یہ وہ والی ’’ابھی اسی وقت عسکری مداخلت‘‘ نہیں ہے جس کا مطالبہ حزبِ اختلاف نے کیا تھا۔

ذرائع ابلاغ کے مطابق مائک پینس نے گوائیڈو سے کئی شکایات کی ہیں(پینس جنوبی کوریا کا دورہ مختصر کر کے میٹنگ میں شامل ہوا تھا )۔ ایک رپورٹ کے مطابق پینس نے گوائیڈو سے کہا کہ ’’شاویستا حکومت کے خلاف ہر اقدام ناکام ہو رہا ہے جس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ افواج ابھی تک مادورو کی وفادار ہیں‘‘۔ بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گوائیڈو نے امریکہ کو یقین دلایا تھا کہ اگر ’’اہم عالمی لیڈر اسے( حقیقی صدر) تسلیم کر لیتے ہیں۔۔کم از کم آدھے سینئر افسران بغاوت کر دیں گے۔ ایسا نہیں ہوا‘‘۔ سب سے زیادہ تنقید حزبِ اختلاف کے اس مفروضے پر ہوئی کہ مادورو کی ’’سماجی بنیادوں کا شیرازہ بکھر چکا ہے۔بحران نے واضح کر دیا ہے کہ حکومت کی حمایت میں کمی تو آئی ہے لیکن ختم نہیں ہوئی‘‘۔

ظاہر ہے ایسی خبروں پر اعتبار مشکل ہی ہے کیونکہ ان کے ذرائع کا کوئی ذکر نہیں۔ لیکن وینزویلا میں بغاوت اکسانے کی کوششوں کے حوالے سے امریکی پریشانی و پشیمانی واضح ہے اور اس وجہ سے یہ رپورٹ خاص طور پر درست معلوم ہوتی ہے۔ وال سٹریٹ جرنل میں ایک اور رپورٹ کے مطابق چلی کے صدر پینیرا اور کولمبیئن صدر ڈوکو بھی میٹنگ میں گوائیڈو سے شدید نالاں تھے۔ ’’حزبِ اختلاف نے ساری دنیا کے سامنے یہ کہانی بیچی کہ سرحد کے دونوں پار وینزویلی عوام سڑکوں پر امڈ آئی گی، مادورو کی افواج پسپا ہو جائیں گی اور ٹرکوں کے ٹرک فلاحی امداد سے لدے بھوکی وینزویلی عوام کی امداد کو (ملک میں) داخل ہو جائیں گے۔ حزبِ اختلاف کا ایک ممبر جو اس سارے بحث مباحثے کی آگاہی رکھتا ہے، کے مطابق

’میرا خیال ہے کہ انہوں نے ایسی امیدیں دے ڈالی تھیں جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں تھا۔۔انہوں نے تشہیر کی کہ زیادہ سے زیادہ امداد آئیں گی، انہیں ملک میں اندر لے جایا جائے گا۔ اور یہ کہ افواج بغاوت کر دیں گی۔ اور پھر کچھ بھی نہیں ہوا‘‘۔ 

کی کہ زیادہ سے زیادہ امداد آئیں گی، انہیں ملک میں اندر لے جایا جائے گا۔ اور یہ کہ افواج بغاوت کر دیں گی۔ اور پھر کچھ بھی نہیں ہوا‘‘۔ 

وال سٹریٹ جرنل کا مضمون کافی تفصیلی ہے:

’’’جیسے جیسے وقت گزرتا رہا، (پینیرا) گوائیڈو سے پوچھتا رہا کہ کہاں ہیں وہ لوگ جو دوسری طرف سے آ رہے تھے؟‘ کوئی جواب تسلی بخش نہیں تھا۔ ایک سینئر لاطینی امریکی اہلکار کے مطابق، ’سب کچھ ناکام ہو گیا یعنی رابطے، اطلاعات، نظم و ضبط‘‘۔

ساری صورتحال کی جو تصویر ابھر کر سامنے آ رہی ہے وہ یہ ہے کہ شدید تلخ کلامی کے دوران سب نے گوائیڈو کو موردِ الزام ٹھہرایا جبکہ حقیقت یہ ہے کہ بغاوت کی ساری تیاری اور پلاننگ واشنگٹن نے کی ہے۔ بغاوت کو منظم کرنے والے امریکی حکام اتنے شکست خوردہ ہو گئے کہ انہوں نے میڈیا(CNN سمیت) کے خلاف شدیداشتعال انگیز بیان بازی شروع کر دی جس نے گوائیڈو کو ’’عبوری صدر‘‘ کے بجائے ایک ’’خود ساختہ‘‘ یا ’’حزبِ اختلاف کا قائد‘‘کہنا شروع کر دیا(واشنگٹن نے گوائیڈو کا تشخص عبوری صدر کے طور پر ابھارنے کی سر توڑ کوشش کی ہے)۔

ٹرمپ حکومت میں موجود سخت گیر بولٹن، پومپیو اور آبرامز نے خوفناک غلطیاں کیں۔ پہلے تو وہ اس غلط فہمی کا شکار ہو گئے کہ سماج میں مادورو کی کوئی بھی حمایت موجود نہیں اور امریکی سامراج کی بغاوت ابھارنے کی ننگی کوششوں کے خلاف نفرت نہیں پھٹے گی۔ وہ اس حقیقت کو بھی فراموش کر گئے کہ شاویزمو حمایت میں کمی تو واقع ہوئی ہے لیکن پھر بھی ایک سال پہلے منعقد ہونے والے انتخابات میں مادورو کی حمایت میں 30 فیصدآبادی نے ووٹ ڈالا۔ اس کے علاوہ پچھلے چند ہفتوں میں دیوسدادو کابیلو کی قیادت میں ملک کے تمام صوبوں میں شاندار سامراج مخالف ریلیاں بھی نکالی گئی ہیں۔

پھر، ان کا خیال تھا کہ وہ عوام کی ان پرتوں میں تحرک برپا کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے جو حکومت کے ساتھ کھلے تصادم کے لئے تیار بیٹھے ہیں۔ حقیقت میں حزبِ اختلاف کے حامیوں کو انہی کی قیادت نے 2017ء میں دھوکہ دیا تھا اور 2013ء اور 2014ء میں بغاوت کی کوششیں بھی ناکام گئی تھیں۔ حامی پرتیں اپنی ہی قیادت پر اعتماد نہیں کرتیں اور انہیں یقین ہی نہیں ہے کہ ان کی قیادت میں حکومت گرانے کی کوئی اہلیت موجود ہے۔ ان کی تمام تر امیدیں ایک امریکی فوجی مداخلت سے جڑ چکی ہیں اور یہ ایک ایسی ذہنی کیفیت ہے جس میں ایک بڑی ریلی تو منعقد کی جا سکتی ہے (جیسی 23 جنوری کو ہوئی تھی) لیکن ایک مضبوط اور ثابت قدم تحریک کے ذریعے مادورو کو اقتدار سے ہٹایا نہیں جا سکتا۔

23 فروری کی ناکامی کے بعد گوائیڈو کولمبیا میں پھنس کر رہ گیا ہے۔ اس کا خیال تھا کہ وہ امریکی ’’فلاحی امداد‘‘ کی سربراہی کرتے ہوئے ایک فاتح کی حیثیت میں وینزویلا داخل ہو گا لیکن فی الحال وہ ملک نہ چھوڑنے کے کورٹ آرڈر کی خلاف ورزی کا مرتکب ہے اور بوگوٹا میں گم سم بیٹھا ہوا ہے۔ اس نے ایک کولمبیئن جہاز پر لاطینی امریکہ کا دورہ شروع کیا لیکن بعد میں امریکہ کے کان کھینچنے پر خاموش ہو گیا۔ اس نے یورپ کے دورے کو جاری رکھنے کا ارادہ بھی ترک کر دیا اور اسے واضح طور پر سمجھا دیا گیا ہے کہ اسے ہر صورت وینزویلا واپس پہنچنا ہے کیونکہ ’’اس کا زور ٹوٹ رہا ہے‘‘۔ 

ایک بار پھر آبرامز، بولٹن اور روبیو نے گوائیڈو کی واپسی کو سنسنی خیز بنانے کی کوشش کی تاکہ مادورو کو کوئی ایکشن لینے پر مجبور کر کے بیرونی مداخلت کا جواز پیدا کیا جا سکے۔ یہ پروگرام بھی ٹھس ہو گیا۔ گوائیڈو 4 مارچ کو واپس آیا، یورپی یونین کے مجتمع سفیروں نے ائرپورٹ پر اس کا استقبال کیا اورپھر وہ مشرقی کاراکاس میں ایک ریلی میں شمولیت کے لئے چلا گیا۔ لیکن اس کو اور اس کے امریکی مالکان کو شدید مایوسی ہوئی کیونکہ اس کو گرفتار نہیں کیا گیا (اگرچہ کئی وجوہات کی بنا پر اسے گرفتار کرنا چاہیے تھا)۔ 

ملک گیر بجلی بندش

اور پھر بجلی بندش کا واقعہ رونما ہوا۔ 7 مارچ جمعرات کے دن 5 بجنے سے چند لمحات پہلے ملک کی 24 میں سے 18 ریاستیں اچانک تاریکی میں ڈوب گئیں۔ کاراکاس میں میٹرو ٹرانسپورٹ رک گئی اور ہزاروں افراد کو اندھیرے میں پیدل گھر جانا پڑا۔ کچھ گھنٹوں بعد واضح ہو گیا کہ ایک بڑا واقعہ رونما ہوا ہے اور بجلی کی ترسیل فوری طور پر بحال نہیں ہو سکے گی۔ حکومت نے جمعہ کا دن قومی چھٹی قرار دے دیا۔ 

ملک کا سب سے اہم بجلی گھر، سائمون بولیوار ہائیڈروالیکٹرک پلانٹ جسے ایل گوری ڈیم بھی کہا جاتا ہے، فیل ہو گیا تھا۔ ایل گوری ملک کی تقریباً 80 فیصد بجلی پیدا کرتا ہے اور اس کی بحالی انتہائی نازک کام ہے۔ چار دن سے زیادہ وقت گزر چکا ہے اور ملک کے کئی حصوں میں بجلی آہستہ ااہستہ بحال ہو رہی ہے۔ ہفتہ وار چھٹی پر ملک کے کئی حصوں میں بجلی آتی جاتی رہی۔ 

صورتحال انتہائی سنجیدہ ہے۔ حکومت نے 11 مارچ کی چھٹی کا اعلان کر دیا ہے۔ بیک اپ جنریٹرز انتہائی اہم تنصیبات جیسے ہسپتالوں وغیرہ کو بجلی کی فراہمی کر تو رہے ہیں لیکن اس وقت پبلک ٹرانسپورٹ شدید متاثر ہے۔ دکانوں پر بینک کارڈوں سے ادائیگیاں وصول نہیں کی جا رہیں، کئی دکانوں نے قیمتوں میں اضافہ کر دیا ہے اور ادائیگیوں کے لئے صرف ڈالر وصول کر رہے ہیں۔ پانی اور ٹیلی کمیونیکیشن (فون اور انٹرنیٹ) شدید متاثر ہیں، فریج اور فریزروں میں پڑی اشیاء خوردونوش کے ضائع ہونے کا خطرہ ہے وغیرہ وغیرہ۔ 

حکومت نے ایل گوری کی بندش کو سابوتاژ قرار دیا ہے اور ظاہر ہے کہ حزبِ اختلاف اور واشنگٹن نے فوراً اس الزام کو مسترد کرتے ہوئے ایک حادثاتی آگ کو موردِ الزام ٹھہرایا جس نے ایل گوری ڈیم اور مالینا سب سٹیشن کے درمیان موجود 785kv کی پاور لائن تباہ کر دی ہے۔ اس وجہ سے پاور لائن متاثر ہوئی اور پھر ایل گوری ہائیڈرو پلانٹ میں خودکار سیکورٹی بندش کی وجہ سے بجلی کی ترسیل بند ہو گئی۔لیکن تاحال حزبِ اختلاف نے ایسی کسی آگ کے کوئی شواہد فراہم نہیں کئے اور نیو یارک ٹائمز کے مندوب اناتولی کورمانایو نے ایسے کسی دعوے کو رد کر دیا ہے۔

حکومت کا دعویٰ ہے کہ ایل گوری ڈیم کے اس سسٹم کے خلاف سائبر اٹیک کیا گیا جس سے ٹربائن، بجلی پیداوار کی ریگولیشن اور مالینا سب سٹیشن کی 765KV لائن پر ترسیل کی جاتی ہے۔ حکومت نے یہ بھی اعلان کیا ہے کہ جب 9 مارچ ہفتہ کے دن بجلی کی ترسیل بحال کی گئی تو پھر اسی طرح کا ایک اور حملہ کیا گیا اور ان تمام حملوں کا ذمہ دار امریکی سامراج ہے۔

وہ افراد جو ان الزامات کو ’’سازشی تھیوریوں‘‘ کے کوڑے دان میں پھینکنا چاہتے ہیں، ان سے گزارش ہے کہ پہلے حقائق پر ایک طائرانہ نظر ڈال لی جائے۔ اول یہ کہ محض دو ہفتہ پہلے امریکہ اور ذرائع ابلاغ نے ’’فلاحی‘‘ ٹرک کے جلائے جانے کے حوالے سے سفید جھوٹ بولا۔ پھر، مارکو روبیو کی ساکھ ہے کیا؟ کل اس نے ٹویٹ میں لکھا کہ ایک ’’جرمن ڈیم‘‘ میں دھماکہ ہوا ہے جبکہ حقیقت یہ تھی کہ وینزویلی حزبِ اختلاف سے تعلق رکھنے والے جرمن ڈیم نامی صحافی نے رپورٹ دی تھی کہ ایک بجلی سب سٹیشن میں دھماکہ ہوا ہے۔

اس سے بھی زیادہ، روبیو نے انتہائی سفاکی سے ’’خبر‘‘ دی کہ بجلی بندش کی وجہ سے ماراکائبو کے ایک ہسپتال میں 80 نومولو دبچوں کی موت واقع ہو چکی ہے جس کی تردید وال سٹریٹ جرنل جنوبی امریکہ بیورو کے چیف نے کی کہ ہسپتال نے ایسی کوئی رپورٹ نہیں دی۔ ہم کیوں ان افراد کی کسی بھی خبر پر بھروسہ کریں؟

پھر، ایسا حملہ ممکن ہے اور اس سے پہلے سپروائزری کنٹرول اور ڈیٹا ایکویزیشن سسٹم پر کیا بھی جا چکا ہے جو کہ آن لائن ہی نہیں تھا۔ جن حضرات کی دلچسپی ہے انہیں امریکی۔اسرائیلی ساختہ’’ سٹکس نیٹ‘‘ وائرس کے حوالے سے تحقیق کرنی چاہیے جسے 2010ء میں ایرانی جوہری پروگرام پر حملہ کرنے کے لئے استعمال کیا گیا تھا۔ اس وائرس نے بطور خاص سیمنز کے ان کنٹرول سسٹمز پر حملہ کیا جو ایل گوری ڈیم کے ٹربائن بھی چلاتے ہیں۔ فوربز جریدے کے مضمون میں ایک ماہر نے اعتراف کیا ہے کہ

’’ یہ قیاس بہت حد تک درست ہے کہ امریکہ جیسی کوئی حکومت وینزویلا کے بجلی گرڈ پر حملہ کرے گی۔ اگر وینزویلی حکومت کے حوالے سے امریکی حکومت کے طویل عرصے سے موجود خدشات کو مد نظر رکھا جائے تو یہ بات بعید القیاس نہیں کیونکہ امریکہ کی پہلے ہی قومی گرڈ میں گہری جڑیں موجود ہیں جس وجہ سے گرڈ آپریشن میں مداخلت کرنا کوئی مشکل کام نہیں۔ ملک کا بوسیدہ انٹرنیٹ اور بجلی انفراسٹرکچر ایسے حملوں کے لئے کوئی خاص چیلنج نہیں اور بیرونی مداخلت کے شواہد حزف کر نا کافی آسان ہے۔ جس طرح کی وسیع و عریض اور بار بار بجلی بندش کا پچھلے ہفتے وینزویلا کو سامنا تھا یہ ایک جدید سائبر حملے کے عین مطابق ہے‘‘۔ 

اگرچہ مضمون کے اختتام پر مختلف وجوہات کے امکانات رد نہیں کئے گئے لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’’امریکی یا کسی بھی غیر ملکی مداخلت کے امکانات کو رد نہیں کیا جا سکتا‘‘۔ 

تیسری اہم چیز وقت ہے۔ تمام تر کوششوں کے باوجود بغاوت ناکام ہو رہی تھی۔ گوائیڈو ملک واپس آ چکا تھا لیکن واضح طور پر شکست کا پھندا اس کے گلے پڑ چکا تھا۔ بجلی گرڈ پر ایک بڑا حملہ کرنے کے لئے اس سے بہتر وقت اور کیا ہو سکتا تھا، یہ دکھانے کے لئے کہ حکومت کا کوئی کنٹرول نہیں ہے، عوام کو حکومت کے خلاف بغاوت پر اکسانے اور ’’فلاحی بحران‘‘ اور ’’انتشار‘‘ کے حوالے سے پروپیگنڈہ کو زیادہ سخت کرنے کے لئے؟بجلی بندش کی خبر آنے کے چند لمحے بعد ہی روبیو، بولٹن اور گوائیڈو شدید غصے میں حکومت پر ٹویٹر سے تابڑ توڑ حملے کر رہے تھے۔ ان کے بعض ٹویٹ سے تو انسانی تکالیف پر خوشی ٹپک رہی تھی۔بجلی کی بندش یورپی یونین کے انٹرنیشنل کانٹیکٹ گروپ کے ملک میں آنے سے چند دن پہلے ہی ہوئی ہے جس نے یہ تعین کرنا ہے کہ ’’فلاحی بحران‘‘ موجود ہے کہ نہیں۔

ظاہر ہے کہ بجلی بندش کی شدت اور طوالت کے حوالے سے کسی تفصیل سے پہلے ہمیں دیگر عوامل کو بھی مدنظر رکھنا ہو گا۔

ایک حقیقت تو یہ ہے کہ پچھلے کئی سالوں سے وینزویلی گرڈ سرمایہ کاری اور دیکھ بھال کو ترس رہا ہے جس پر بولیوارین تحریک کے بائیں بازو نے کھل کر بات کی ہے۔ امریکہ نے فوراً اس کی نشاندہی کی لیکن یہ بھول گیا کہ پابندیوں کی وجہ سے وینزویلا بیرونی قرضوں پر دوبارہ سے گفت و شنید نہیں کر سکتا ہے جس وجہ سے ملک کے غیر ملکی زرمبادلہ ذخائر تیزی سے ختم ہو رہے ہیں۔یہاں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ مادورو حکومت نے غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی کا فیصلہ کیا ہوا ہے اور ذخائر کے بہتر استعمال کے بجائے انہیں سرمایہ داروں کے سپرد کیا جا رہا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پہلے سے ایک نحیف نظام کو سابوتاژ کیا جا رہا ہے۔ 

ایک اورمسئلہ یہ بھی ہے کہ خوفناک معاشی بحران کی وجہ سے اس صنعت میں ہزاروں لوگ نوکریاں چھوڑ چکے ہیں کیونکہ اجرتیں کسی بھی قابل ذکر خریداری کے قابل نہیں رہیں۔سب سے پہلے نوکریاں چھوڑنے والوں میں تجربہ کار ہنر مند تھے جن کی اس سانحہ کے بعد سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ نوکریاں چھوڑنے کا عمل اگست 2018ء کے آخری کرنسی ایڈجسمنٹ کے بعد اور زیادہ تیز ہو گیا جس میں حکومت نے پبلک سیکٹر میں اجتماعی سودے بازی کے حق اور اجرتی امتیاز کو تباہ کر کے رکھ دیا۔

تیسری حقیقت یہ ہے کہ شائد کچھ مسائل کو رونما ہونے سے روک دیا جاتا یا بہتر انداز میں حل کر لیا جاتا اگر آج مزدوروں کا صنعت پر وہی کنٹرول ہوتا جو شاویز کے وقت تھا۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ایک وقت میں یہ بجلی صنعت کے مزدور ہی تھے جو مزدور کنٹرول کی جدوجہد میں سب سے آگے تھے جسے بعد میں افسر شاہی نے تباہ وبرباد کر دیا۔

آخر میں PDVSAپر امریکی پابندیوں کی وجہ سے وینزویلا ایندھن پر چلنے والے بجلی گھروں کے لئے نہ تو ایندھن درآمد کر سکتا ہے اور نہ ہی بنا سکتا ہے جس کی وجہ سے ایل گوری ڈیم کی بندش کے بعد ان سے گرڈ کو خاطر خواہ حمایت نہیں مل سکی۔

سامراج کا نیا حملہ؟

اس وقت وینزویلا صورتحال کا زیادہ انحصار پسِ پردہ رونما ہونے والی تبدیلیوں پر ہے۔یہ کہنا بہت مشکل ہے کہ اس وقت فوجی بیرکوں اور افسران کے کمروں میں کیا چل رہا ہے۔ امریکی سامراج کی ساری پالیسی ملک میں صورتحال نا قابلِ برداشت بنا کر دباؤ بڑھانا ہے تاکہ جرنیل یہ نتیجہ اخذ کریں کہ اپنے مفادات کا تحفظ مادورو کی چھٹی کرانے میں ہی ہے۔ اس کے لئے پابندیاں لگائی گئی ہیں تاکہ معیشت کا گلا گھونٹا جا سکے۔ اس حوالے سے بولٹن اور آبرامز کی جانب سے تازہ ترین دھمکیاں جاری ہوئی ہیں جن میں انہوں نے نہ صرف امریکی کمپنیوں بلکہ تیسری دنیا کی ہر کمپنی کو خبردار کیا ہے جو PDVSA یا وینزویلی حکومت کے ساتھ کاروبار کر رہی ہیں۔ ہدف واضح ہے کہ وینزویلی معیشت کا مکمل طور پر گلا گھونٹ دیا جائے تاکہ حکومت گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو جائے۔ یہ مجرمانہ پالیسی ہے جس سے وینزویلا کی غریب عوام اور محنت کش شدید اذیت میں مبتلا ہیں ۔ اس سے واشنگٹن کا یہ جھوٹ ننگا ہو جاتا ہے کہ وہ نام نہاد ’’فلاحی بحران‘‘ کے حوالے سے فکر مند ہے۔

جیسا کہ ہم پہلے بھی لکھ چکے ہیں کہ اس سامراجی کُو کا مقابلہ انقلابی اقدامات سے ہی کیا جاسکتا ہے۔ اندرون ملک کُو کی سازشیں کرنے والوں اور ان کے سامراجی آقاؤں کے خلاف

جہاں تک فوجی مداخلت کا تعلق ہے تو امریکی خواہش ہے کہ لاطینی امریکی ممالک یہ بوجھ اپنے سر اٹھائیں لیکن لیما گروپ میں نہ اتنی سکت ہے اور نہ ہی دلچسپی۔ اس حوالے سے امریکہ کے پاس بہت کم آپشن موجود ہیں جن میں سے ایک ہی زیادہ قابلِ عمل ہے کہ پابندیوں، سابوتاژ، اشتعال انگیزی وغیرہ کے ذریعے مسلسل دباؤ بڑھایا جائے۔ اس حکمتِ عملی کا اعتراف ایلیٹ آبرامز نے دو روسی مسخروں کے ساتھ گفتگو میں کیا جنہیں وہ سوئس صدر سمجھ رہا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ ’’ہمارے خیال کے مطابق یہ بہت بڑی غلطی ہو گی کہ ہم ان کو لامتناہی تسلیاں ہی دیتے رہیں کہ امریکہ کبھی بھی فوجی مداخلت نہیں کرے گا۔ لیکن میں آپ کو یہ بتا رہا ہوں کہ ہم ایسا نہیں کر رہے۔ ہم بالکل وہی کر رہے ہیں جو آپ کو ہوتا نظر آ رہا ہے یعنی معاشی دباؤ، سفارتی دباؤ۔‘‘

یہاں ہمیں یہ بھی اضافہ کرنا پڑے گا کہ امریکی ایڈمنسٹریشن میں کچھ ایسے افراد بھی موجود ہوں گے جن کے ذہن میں ’’آزاد وینزویلی فوج‘‘ بنانے کے خیالات بھی پنپ رہے ہوں گے جن کا ’’صدر‘‘ کچھ علاقے پر قبضہ بھی کر لے (سرحد کے قریب زیادہ مناسب وہ گا، شائد تاچیرہ میں)جیسے شام اور لیبیا میں کیا گیا تھا۔بلومبرگ میں ایک مضمون کے مطابق سابق باغی وینزویلی جنرل کلائیور الکالا کے پاس کولمبیا میں 200 مسلح افراد کا جتھا موجود تھا جو 23 فروری کو سرحد پار کرنے کو تیار تھا لیکن اسے کولمبیا نے ہی روک دیا۔ روبیو نے بھی مفرور فوجیوں کا حوالہ بڑھا چڑھا کر پیش کیا ہے اور گوائیڈو کی کوکوتا میں ایک گروہ سے ملاقات بھی ہوئی جس میں اس نے ان کی ’’مفروری‘‘کی تعریف کرتے ہوئے دھمکی دی کہ ’’ہم واپس سرحد پار جائیں گے‘‘۔ 

بولٹن، پومپیو، آبرامز اور روبیو جیسے افراد بھی شدید عجلت میں مبتلا ہیں۔ ان کی خواہش تھی کہ جنوری میں ہی زورلگاکر ’’حکومت تبدیل‘‘ کر لی جاتی لیکن وہ ناکام رہ گئے۔انہوں نے شائد حساب کتاب لگایا ہوا ہے کہ انہیں اس معاملے کاکوئی نہ کوئی نتیجہ 2020ء کے امریکی انتخابات سے پہلے چاہیے۔پریشانی اور بے صبری ان کو مزید خونخوار بنائے گی اور وہ ایسے حربے بھی استعمال کرنے پر اتر آئیں گے جن کو فی الحال سرد خانے میں رکھا ہوا ہے۔

جیسا کہ ہم نے پہلے بھی بارہا موقف رکھا ہے، سامراجی پشت پناہی میں جاری اس بغاوت کا مقابلہ صرف انقلابی اقدامات کے ذریعے ہی کیا جا سکتا ہے جن کے ذریعے اندرونِ ملک شر پسندوں اور بیرونِ ملک ان کے آقاؤں پر کاری ضرب لگائی جا سکتی ہے۔اس کا مطلب ہے کہ ان سب کو گرفتار کر کے بغاوت کا مقدمہ چلایا جائے۔ بغاوت کی پلاننگ کرنے والے سرمایہ داروں اور بین الاقوامی کمپنیوں کے تمام اثاثے ضبط کئے جائیں۔ سب سے بڑھ کر ہر گلی محلے میں عوام کو مسلح کر کے اور ملیشیائیں بنا کر انقلابی بنیادوں پر منظم کیا جائے، تمام فیکٹریوں اور کام کی جگہوں پر مزدور کنٹرول متعارف کیا جائے اور عمومی طور پر عوامی انقلابی جوہر کو نکھارنے کی بھرپور کوشش کی جائے۔

بین الاقوامی طور پر ہمیں امریکہ، یورپی یونین اور لیما گروپ ممالک میں اپنی سامراجی حکومتوں کے خلاف مہم کو جاری اور زیادہ فعال کرنا پڑے گا جو کم یا زیادہ اس گھناؤنی سازش میں ملوث ہیں۔

Comments are closed.