تیل کی قیمتوں میں اضافہ: ایران میں مظاہرے پھوٹ پڑے

|تحریر: حمید علی زادے، ترجمہ: اختر منیر|

15 نومبر 2019ء کو پورے ایران میں اس وقت مظاہرے پھوٹ پڑے جب حکومت نے غیر متوقع طور پر جمعہ کے روز تیل کی قیمتوں میں بڑا اضافہ کر دیا۔ کئی شہروں میں مظاہرین باہر نکل آئے اور اپنی گاڑیاں بند کر کے سڑکیں جام کر دیں۔

حکومت نے پٹرول کی رعایتی قیمت پر نظر ثانی کرتے ہوئے 50 فیصد اضافہ (10ہزار سے 15ہزار ریال فی لیٹر) کر دیا اور رعایتی قیمت کے علاوہ قیمت پر 200 فیصد اضافہ کر دیا (10ہزار ریال سے 30ہزار ریال فی لیٹر) جو مقررہ حد سے زیادہ پیٹرول استعمال کرنے پر لاگو ہوتی ہے۔ رعایتی قیمتوں کی حد سواری کی قسم پر منحصر ہے۔ مثال کے طور طورپر نجی گاڑیوں کے لیے 60 لیٹر ماہانہ، ٹیکسیوں کے لیے 400 لیٹر ماہانہ اور موٹر سائیکل کے لیے 20 لیٹر ماہانہ۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ قیمتوں میں یہ اضافہ ریاستی اخراجات کو پورا کرنے کے لیے نہیں کیا گیا بلکہ اس سے معاشرے کے غریب ترین افراد کی امداد کی جائے گی۔

درحقیقت، یہ کٹوتیاں نافذ کرتے ہوئے معاشرے کے غریب ترین افراد کے کندھوں پر بندوق رکھ کر چلانے کی کوشش کی جا رہی ہے (جن سے یہ وعدہ کیا گیا ہے کہ ان کو دی جانے والی امداد میں اضافہ کیا جائے گا)۔ اگر اس وعدے پر عمل درآمد ہو بھی جائے تو بھی اس کے نتیجے میں ہونے والے افراطِ زر کی وجہ سے غریبوں کو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔

جمعے کے روز اعلان کے فوراً بعد جنوب مغربی شہر اہواز کے لوگ یہ نعرے لگاتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے کہ ”اہواز کے لوگو! گاڑیاں بند کرو اور اپنے وقار کی خاطر لڑو!“۔ ڈرائیوروں نے اہواز سے مسجد سلیمان اور بھبھان سے آغاجاری اور ماہشہر کے ساحلی شہر کو جانے والی دو بڑی سڑکیں بھی بند کر دیں (جو جنوب مغربی صوبہ خوزستان کے نسبتاً چھوٹے شہر ہیں)۔ یہ ایران کے سب سے زیادہ تیل پیدا کرنے والے علاقے ہیں اس کے باوجود انہیں غربت اور معاشی پسماندگی کا سامنا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ اس علاقے کی عرب اکثریت کے ساتھ امتیازی سلوک ہے۔

مشہد میں بھی سینکڑوں لوگ سڑکوں پر نکل آئے، جو ایران کا دوسرا بڑا شہر ہے اور جسے روایتی طور پر قدامت پرستی کا مرکز مانا جاتا ہے۔ وکیل آباد بلیوارڈ نامی ایک مرکزی شاہراہ پر پولیس مظاہرین کو روکتی رہی۔ سوشل میڈیا پر ایسی ویڈیوز گردش کر رہی ہیں جن میں دیکھا جاسکتا ہے کہ لوگ پولیس سے یکجہتی کی اپیل کرتے ہوئے نعرے لگا رہے ہیں ”حفاظتی پولیس! لوگوں کی حفاظت کرو!“۔ دن کے اختتام پر سوشل میڈیا پر چلنے والی خبروں کے مطابق مظاہرین نے سیرجان میں کم از کم ایک پٹرول پمپ کو آگ لگا دی اور اسی شہر میں گولی لگنے سے ایک شخص ہلاک ہو گیا۔

جمعے کے روز ایران کا زیادہ تر سرکاری میڈیا خاموش رہا، جبکہ فارس نیوز ایجنسی اس معاملے میں مختلف تھی، لیکن اس نے بھی مظاہرین کے نعروں اور اور خوزستان میں سڑکیں بند کرنے کا ذکر نہیں کیا۔ یہ ایجنسی شدت پسندوں اور پاسداران انقلاب (IRGC) سے جڑی ہوئی ہے جو روحانی حکومت کا مخالف دھڑا ہے۔ لیکن آج (ہفتہ، 16 نومبر) حالات تیزی سے تبدیل ہوئے ہیں۔ یہ مظاہرے 30 سے زیادہ شہروں میں پھیل گئے جن میں دارالحکومت تہران اور شیراز، اصفہان اور تبریز جیسے اہم شہر شامل ہیں۔ سوشل میڈیا پر شیئر کی جانے والی ویڈیوز میں مظاہرین اور سکیورٹی فورسز کے درمیان شدید جھڑپیں دیکھی جا سکتی ہیں اور کم از کم ایک ویڈیو میں ایک احتجاج کرنے والے شخص کو قریب سے گولی لگتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ خبروں کی آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں ہو سکی، کیونکہ انٹرنیٹ سروس معطل ہے، مگر مختلف شہروں میں کم از کم 6 مظاہرین ہلاک ہو چکے ہیں جن میں سیرجان، بھبھان اور سنندج شامل ہیں۔

ان واقعات نے ایران کے سیاستدانوں اور نیوز ویب سائٹس کو مجبور کیا کہ وہ رد عمل دیں، لیکن سرکاری خبر رساں اداروں نے ان کا بہت کم ذکر کیا۔ روحانی حکومت کے کچھ مخالفین نے فوری طور پر عوام کے اس برحق غصے کی مذموم انداز میں ترجمانی کرتے ہوئے اس معاملے میں حکومت کے کردار اور سبسڈی کے اعلان کے طریقہ کار پر تنقید کی۔ ان میں سے کچھ نے تو قیمتوں کے اضافے میں تاخیر اور یہاں تک کہ اسے واپس لینے کا مطالبہ بھی کر دیا۔

2018ء میں ہونے والے عوامی مظاہرے بھی، درحقیقت، اسی طرح کی کٹوتیوں کے باعث شروع ہوئے تھے۔ قیادت اور تنظیم کے فقدان اور ڈونلڈ ٹرمپ کے ایران پر حملوں کی وجہ سے یہ مظاہرے تعطل کا شکار ہو گئے تھے۔ ایرانی حکمران اشرافیہ نے ظالمانہ پابندیوں کے پھر سے اطلاق اور جنگ کی بے شمار دھمکیوں کا سہارا لے کر عوام کے غصے کا رخ امریکی سامراج کی طرف موڑ دیا۔ اسی دوران کٹوتیوں اور عمومی معاشی بدحالی کی وجہ سے لاکھوں لوگ غربت کی اتھاہ گہرائیوں میں جا گرے۔ حتیٰ کہ وہ پرتیں جو نسبتاً مستحکم زندگی گزارا کرتی تھیں، جیسے کہ ڈاکٹرز، انجینئرز، وغیرہ، وہ بھی غربت میں دھکیلے گئے۔ اسی دوران غریب ترین افراد بدترین حالات میں زندگی گزار رہے تھے اور لاکھوں محنت کشوں کو، جو خوش قسمتی سے برسرِ روزگار تھے، باقاعدگی سے اجرت بھی نہیں مل رہی تھی۔

عوام کے حالات بد سے بدترین ہو رہے ہیں، اسی دوران امراء اور اہلِ اقتدار اپنی مراعات سے بدستور لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ فاؤنڈیشنز، اوقاف اور پاسداران انقلاب کے نام پر حکومت میں موجود افراد کے ہاتھوں میں اکٹھے ہونے والے اربوں ریال کا کیا کیا جا رہا ہے؟ کیوں کوئی یہ بات نہیں کرتا کہ اس دولت کو غریبوں میں تقسیم کیا جائے؟ یہ بات واضح ہے کہ اس سوال پر حکمران طبقہ اپنے اختلافات کے باوجود متحد ہے کہ موجودہ بحران کی قیمت غریبوں کو ہی ادا کرنا ہو گی۔ جھگڑا صرف اتنا ہے کہ انہیں کس طرح یہ قیمت ادا کرنے پر مجبور کیا جائے۔ ایران کے پاس ایک ممکنہ طاقتور معیشت موجود ہے جو ایک مضبوط صنعتی بنیاد رکھتی ہے، مگر ملاؤں اور ان کے دوستوں کی لوٹ مار کے باعث یہ گل سڑ رہی ہے۔

دہائیوں تک اس ملا حکومت نے مذہبی اور رجعتی عناصر کے مذہبی جذبات کے بل پر حکومت کی ہے۔ اس نے امریکی سامراج کے ساتھ تنازعے کا سہارا لے کر خود کو ایرانی عوام کا محافظ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے، مگر اب اس کا پہلے جیسا اثر نہیں رہا۔ ملاؤں کی حقیقت کھل کر سامنے آتی جارہی ہے کہ یہ رجعتی بہروپیے محض اپنے تنگ نظر مفادات کی خاطر لڑ رہے ہیں۔ لبنان اور عراق میں ہونے والے واقعات، جن میں ایران کے حمایت یافتہ گروہوں نے عوام کی جمہوری تحریکوں کی مخالفت کی ہے، یقینا ان کا یہ مکھوٹا اتار پھینکنے میں معاون ثابت ہوں گے جسے پہن کر یہ غریبوں اور مظلوموں کے محافظ ہونے کا ناٹک کرتے تھے۔

اب عراق، لبنان اور پوری دنیا میں موجود اپنے بھائیوں اور بہنوں کی طرح ایرانی محنت کش عوام بھی اٹھ کر یہ بتا رہے ہیں کہ وہ اس گلی سڑی حکمران اشرافیہ کا بوجھ اٹھاتے تنگ آ گئے ہیں۔ ابھی ہمیں جو کچھ نظر آرہا ہے وہ سماج کی سطح کے نیچے موجود اظہار کے متلاشی غصے اور بے چینی کی ایک چھوٹی سی جھلک ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ عوام کو ایک سوشلسٹ انقلاب کے لیے متحرک کیا جائے۔ معیشت کے بنیادی ستونوں کو محنت کش عوام کے جمہوری کنٹرول میں لانا ضروری ہے تا کہ ان کے شدید مسائل فوری حل کیے جا سکیں۔ اس جمود سے باہر آنے کا ایک ہی راستہ ہے، اور وہ یہ ہے کہ اس بیمار حکمران طبقے سے مکمل طور پر چھٹکارا حاصل کیا جائے جو سماج کے بنیادی ترین مسائل حل کرنے کے بھی قابل نہیں ہے۔

Comments are closed.