گلگت: بلتستان، استور، بالائی نگر ہنزہ، بالائی غذر، اور بالائی دیامر کو آفت زدہ قرار دے کر ہنگامی بنیادوں پر امداد دی جائے: احسان علی ایڈووکیٹ

 

گو کہ پورے پاکستان میں سردی کی شدید لہر نے غریب عوام کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے مگر گلگت بلتستان میں سردی اپنی انتہا کو چھو رہی ہے۔ خاص طور پر بلتستان ڈویژن، استور، بالائی نگر ہنزہ، بالائی غذر اور بالائی دیامر میں سردی سائبیریا سے کسی طرح کم نہیں۔ بلتستان میں درجہ حرارت منفی 26 ڈگری تک پہنچ گیا ہے اور آنے والے دنوں میں مزید اضافہ بھی متوقع ہے۔

وزیر اعظم نے پنجاب اور خیبر پختونخوا میں، جہاں پی ٹی آئی کی حکومت ہے، غریب بے سہارا لوگوں کو ہنگامی بنیادوں پر پناہ گاہوں میں منتقل کرکے انہیں خوراک بھی فراہم کرنا شروع کیا ہے۔ نیز، خود عمران خان اور دیگر وزراء انتظامات کا جائزہ لینے کیلئے آئے روز ان سنٹروں کا دورہ بھی کر رہے ہیں۔

مگر پہاڑی سلسلوں اور گلیشئیروں سے گھرے ان دور افتادہ علاقوں میں غریب لوگ منفی 26 ڈگری کی ناقابل برداشت سردی میں کیسے زندگی گزار رہے ہیں؛ اس سنگین صورت حال کی نہ اسلام آباد کی تبدیلی سرکار کو کوئی فکر ہے اور نہ گلگت بلتستان میں ن لیگی سرکار کو اس کا کوئی احساس ہے۔ گلگت میں وزیراعلیٰ، وزراء، ممبران اسمبلی اور اعلیٰ افسران کے پاس 24گھنٹے بجلی اور ہیٹر ہونے کے باوجود یہ سارے حکمران عوامی بجٹ پر سردیاں گزارنے اسلام آباد منتقل ہو چکے ہیں۔

یہاں پاکستانی حکمرانوں کی یہ منافقانہ دوغلی پالیسی سامنے لانا ضروری ہے کہ جب سی پیک کا مسئلہ سامنے آئے، دریائے سندھ کے پانی کا مسئلہ ہو یا پہاڑوں گلیشئروں اور تاریخی مقامات کا مسئلہ ہو یا گلگت بلتستان میں موجود وسائل، دولت اور معدنیات کی بندر بانٹ کا مسئلہ ہو تو سویلین اور فوجی حکمران یک زبان ہو کر چیخ اٹھتے ہیں کہ گلگت بلتستان پاکستان کی شہہ رگ ہے، مگر جب اس خطے کے پسے ہوئے محکوم باشندوں کے بنیادی انسانی، جمہوری، سیاسی اور معاشی حقوق کا مسئلہ سامنے آتا ہے تو پاکستان کے ان سرمایہ دار حکمرانوں کو سانپ سونگھ جاتا ہے۔

ان حکمرانوں کا بس چلے تو وہ گلگت بلتستان کے مظلوم باشندوں کو سخت سردی میں مار ڈالیں یا انہیں کسی دوسرے ملک کے حوالے کردیں۔ ویسا دیکھا جائے تو اسلام آباد کے حکمرانوں نے گلگت بلتستان کے محکوم باشندوں کو ایک بدترین کالونیل نظام کی آہنی فصیل کے اندر ڈال کر انہیں اجتماعی طور پر جیل میں ڈال دیا ہے۔

پاکستان کے عوام سے کہیں زیادہ گلگت بلتستان کے غریب عوام مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں۔ اس منفی 26 ڈگری کی سردی میں جی بی کے عوام کو بجلی دستیا ہے، نہ گیس اور نہ ہی جلانے کی لکڑی۔ حکمرانوں کے کرپشن پر مبنی ناقص منصوبوں کی وجہ سے آج بھی گلگت بلتستان میں بجلی ناپید ہے۔ روزانہ 18 سے 20 گھنٹے لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے۔ گیس کا 11 کلو کا سلنڈر 2ہزار روپے میں ملتا تھا، اب تازہ مہنگائی کے بعد ڈھائی ہزار تک پہنچ جائے گا۔جلانے کی لکڑی فی من قیمت 1ہزار روپے تک پہنچ چکی ہے۔ ایسے میں بجلی، گیس اور لکڑی تینوں یہاں کی غریب عوام کی پہنچ سے باہر ہیں اور بغیر ہیٹنگ انتظام کے یہاں کے غریب عوام کس طرح اپنی زندگی گزارتے ہیں اس کا اندازہ ان سرمایے کی لالچ میں اندھے اور بے حس حکمرانوں کو نہیں ہو سکتا۔ ستم بالائے ستم یہ کہ ایسے میں کوئی غریب آدمی سردی سے بیمار ہو جائے تو ہسپتالوں میں نہ علاج معالجے کی سہولتیں موجود ہیں اور نہ دوائی میسر ہے۔ اس طرح یہاں کی 90 فیصد سے زیادہ آبادی فطرت کے رحم و کرم پر زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے۔

اس گھمبیر صورت حال کے بابت، بے حس حکمرانوں کو جگانے کیلئے بلتستان کے نوجوانوں اور سیاسی کارکنوں نے سکردو میں منفی 26 ڈگری سردی میں باہر نکل کر احتجاجی مظاہرہ کیا، جو کہ ایک قابل تعریف اور جرات مندانہ قدم ہے۔ مگر بقول شاعر

ہم کو شاہوں کی عدالت سے توقع تو نہیں
آپ کہتے ہیں تو زنجیر ہلا دیتے ہیں

آج یہ بلتستان، استور، بالائی نگر ہنزہ، بالائی غذر اور بالائی دیامر کے غریب باشندوں کا یہ انتہائی جائز مطالبہ بنتا ہے کہ ان علاقوں کو فوری طور پر آفت زدہ علاقے قرار دے کر ہنگامی بنیادوں پر یہاں کی متاثرہ آبادی کو گیس لکڑی یا کوئلہ مفت فراہم کیا جائے۔ انہیں گرم کپڑے اور ضروری ادویات فراہم کی جائیں۔ برف سے بند راستوں کو ہنگامی بنیادوں پر کھولا جائے۔ اگر اسلام آباد سرکار اور جی بی حکومت کی غفلت، عدم توجہی اور مجرمانہ غفلت کی وجہ سے ان متاثرہ علاقوں میں سردی کی وجہ سے کسی شہری کی موت واقع ہوئی تو ایسی صورت میں وزیراعظم، وزیر اعلیٰ، گورنر، چیف سیکریٹری اور وزراء کے خلاف قتل کا پرچہ درج کرانا یہاں کے باشندوں کا آئینی و قانونی حق ہوگا۔

Comments are closed.