جرمنی: سیلاب کی تباہی کا ذمہ دار موجودہ نظام ہے!

|تحریر: الیگزینڈر کالابیکاؤ، ترجمہ: یار یوسفزئی|

تیز بارشوں کے سبب وسطی یورپ کے متعدد خطے شدید سیلاب کا شکار ہوئے ہیں۔ کئی لوگ مارے جا چکے ہیں، کئی زخمی ہوئے ہیں، اور بہت سارے اپنی قیمتی ذاتی اشیاء گنوا بیٹھے ہیں۔ اس نقصان کا ازالہ کرنے کے لیے کئی سال درکار ہیں۔ ماحولیاتی تبدیلی کے باعث اس قسم کے موسمیاتی حادثے معمول بنتے جا رہے ہیں، جس کی وجہ سے معاشرے کی بد انتظامی بھی بے نقاب ہوتی ہے۔ مالکان اور بورژوا سیاستدان، جو تنبیہات کے باوجود تباہی کا مقابلہ کرنے کی تیاری میں ناکام رہے؛ اور جو عوام دشمن معاشی اقدامات کے ذریعے ہنگامی سروسز کو سبوتاژ کرتے رہے، ان موسمیاتی حادثوں کے برابر ذمے دار ہیں۔

انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

14 جولائی کو، ہوا کا کم دباؤ رکھنے والے سرد خطے (جسے سائنسدانوں نے ”برنڈ“ کا نام دیا ہے) کی جانب سے مغربی جرمنی کے علاقوں پر بڑے پیمانے میں پانی کا بہاؤ شروع ہوا۔ خاص کر رائن لینڈ پالاتینات (آر ایل پی)، أرتل گاؤں کے گرد و نواح، آئفل کا پہاڑی سلسلہ اور ٹرائیر شہر بری طرح متاثر ہوئے۔

نارتھ رائن ویسٹ فیلیا میں، ہیگن اور ووپرتال کے شہروں سمیت یوس کرچن، رائن سِیک، رائن اِیفٹ، برگِش کے ضلعے اور برگشز لینڈ کے علاقے بھی سیلاب کا شکار ہوئے۔

17 جولائی کو، شدید بارش کے باعث مشرقی باویریا میں، برتِسگاڈینر لینڈ سے پاساؤ اور سیکسن سوئٹزرلینڈ تک سیلاب دیکھنے کو ملا۔ بیلجیم، ہالینڈ، لکسمبرگ کے ممالک سمیت آسٹریا کے اندر بھی پانی دریا کے کناروں سے باہر نکل آیا، جس نے شہری ضلعوں میں تباہی مچا کے رکھ دی۔

نہ رکنے والے سیلاب

جہاں سے بھی گدلے پانی کا ریلا ہو کے گزرا، اس نے اپنے پیچھے کیچڑ، اکھاڑے گئے درخت، مکانوں کے تباہ شدہ اگواڑے، منہدم گھر، گرے ہوئے پُل، الٹ پلٹ پڑی گاڑیاں اور خراب سڑکیں چھوڑیں۔

ایفٹ سٹٹ بلیسم کے اندر، سیلاب نے بجری اور ریت کے کان میں دیوہیکل گڑھا بنا دیا۔ ریتیلی زمین کئی میٹر تک بہہ گئی، جس کے باعث نکاسی آب کی زیرِ زمین پائپ لائنز بھی نظر آنے لگیں۔ قریب موجود ’بی 265‘ شاہراہ پر، سڑک کے نچلے حصے پر 12 میٹر گہرا پانی کھڑا رہا، جس میں کئی گاڑیاں ڈوبی رہیں۔ أرتل میں واقع شولد گاؤں کے اندر اس پیمانے پر تباہی ہوئی کہ جس کا ازالہ کرنے کے لیے شاید کئی سال لگ جائیں۔

کئی علاقوں کے اندر پانی کے ڈیم لبریز ہو کر بہہ گئے یا پھر تباہ ہوئے۔ مزید برآں، 1 لاکھ سے زائد افراد کئی دنوں تک پینے کے صاف پانی، بجلی، ٹیلی فون یا موبائل نیٹ ورک سے محروم رہے۔ بعض لوگوں کے لیے یہ سہولیات ابھی تک پوری طرح بحال نہیں ہوئیں۔

کئی لوگ اپنے رشتے داروں، دوستوں اور کام کے ساتھیوں کے کھو جانے پر ماتم کر رہے ہیں۔ یہ مضمون لکھتے وقت 184 سے زائد ہلاکتیں واقع ہوئی ہیں۔ صرف اروائیلر کے ضلع میں ہی کم از کم 135 لوگ لقمہ اجل بنے ہیں، جہاں 740 سے زائد افراد زخمی بھی ہوئے۔ ابھی تک یہ واضح نہیں کہ گم شدہ بتائے جانے والے افراد میں سے کتنے زندہ ہیں یا مر چکے ہیں۔

کئی لوگوں کو اپنے گھر چھوڑنے پڑے۔ اس سیلاب کی تباہی کے متاثرین صدمے کی حالت میں ہیں، جو اپنے مکانوں اور فلیٹس کو تباہ ہوتا دیکھ کر انتہائی پریشان کن حیرت کا شکار ہیں۔ بدھ کے دن (14 جولائی) سے، فائر بریگیڈ، ٹیکنیکل ریلیف سروس، ریسکیو سروس، پولیس اور دیگر اداروں سے وابستہ ہزاروں کارندے لگاتار مصروفِ عمل ہیں۔ اس کے علاوہ وزارتِ دفاع کی جانب سے مغربی جرمنی کے لیے عسکری تباہی کا انتباہ جاری کیا گیا۔ بوندس ویر (جرمن فوج) کے دستوں کو ریسکیو کی بھاری مشینری دے کر ریسکیو اور نقل مکانی کے آپریشنز کے لیے تعینات کیا گیا ہے۔ متاثرین اور رضاکاروں نے صفائی کا کام شروع کر دیا ہے یعنی کیچڑ کو سخت ہونے سے پہلے ہٹانا؛ تہہ خانوں سے پانی نکالنا؛ اور ملبے اور ٹوٹے ہوئے گھریلو سامان کو پھینکنا۔

ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ نقصان کتنے وسیع پیمانے پر ہوا ہے اور یہ کہ مرمتی کام پر کتنا خرچہ اور محنت صرف ہوگی۔ پچھلی دہائی کے دوران آسٹیریٹی اور نجکاری کی پالیسیوں کے باعث ریاستی اداروں کے اندر انجینیئرز، تعمیراتی انجینئرز، تعمیراتی کاریگر اور انفراسٹرکچر کی مرمت و تعمیرات کے دیگر اہم شعبوں سے وابستہ افراد کی تعداد میں کمی دیکھنے کو ملی ہے۔

ایسا کیونکر ہوا؟

18 جولائی کو برطانوی اخبار دی ٹائمز نے لکھا کہ یورپین فلڈ الرٹ سسٹم (ای ایف اے ایس) نے تباہی کے اس طوفان سے چار دن پہلے (10 جولائی کو) جرمن انتظامیہ کو تنبیہات جاری کیے تھے۔ ’ای یو اینیشی ایٹیو‘ کے محققین نے درست طور پر اندازہ لگایا تھا کہ رائن لینڈ، خاص کر ایفٹ اور أرتل کے دریاؤں کے قریب اور ہیگن اور التینا کے قصبوں میں ”شدید“ سیلاب آنے والا ہے۔

ہانا کلوک، جو ای ایف اے ایس کو بنانے والوں میں سے ایک ہے، نے دی ٹائمز کو ”نظام کی بہت بڑی ناکامی“ کے بارے میں بتایا۔ 16 جولائی کو، زی ڈی ایف نے رپورٹ کیا کہ جرمن موسمیاتی سروس (ڈی ڈبلیو ڈی) نے پہلے سے بلدیات کو 200 لیٹر فی مربع میٹر بارش کے بارے میں خبردار کیا تھا۔ جرمنی کے وفاقی نظام کے تحت، اس قسم کی تباہی کو روکنے کی ذمہ داری ضلعوں، خود مختار شہروں اور بلدیات کے اوپر عائد ہوتی ہے۔ مگر کئی علاقوں میں شدید موسم کے حوالے سے خبرداری کو سنجیدہ نہیں لیا گیا، حتیٰ کہ نقل مکانی کا عمل بھی دیر سے شروع کیا گیا۔

متاثرین کو بھی اس تباہی کا قصوروار ٹھہرایا جا رہا ہے۔ کلوک نے زی ڈی ایف سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ بعض لوگ ”اس بات کو بالکل نہیں سمجھ رہے کہ اس قسم کی بارش ناگزیر طور پر سیلاب کا باعث بنتی ہے۔“ اس کے علاوہ، کلوک کا کہنا تھا کہ لوگوں کو اپنے طور پر موسمیات کی ایپلی کیشنز کے ذریعے خود کو آگاہ کر کے حفاظتی مقامات میں منتقل ہونا چاہئیے تھا۔

یہ الزام تراشی اس تباہی کے متاثرین کی بے حرمتی ہے۔ ذاتی ذمہ داریاں اپنی جگہ پر، مگر ناکامیوں کے اس سلسلے کی اصل مجرم انتظامیہ ہے، جس نے درست انداز میں لوگوں کو خبردار نہیں کیا۔ اس دوران، حکومت کی آسٹیریٹی پالیسیوں کے باعث امدادی کام کرنے والی ہنگامی سروسز ٹھیک طرح تیار نہیں تھیں اور ان کے بیچ باہمی تعاون کا بھی فقدان ہے۔ یہ سب کچھ یورپ کے امیر ترین اور طاقتور ترین ملک کے اندر رونما ہو رہا ہے۔

اس موقع پر ڈائی لنکے (لیفٹ پارٹی) کی قائد سوزن ہیننگ ویلساؤ نے وزیرِ داخلہ ہورسٹ زی ہوفر (ڈی ایس یو) سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا، مگر اس قسم کے اقدامات سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ بلاشبہ زی ہوفر کو برطرف کرنا چاہئیے، مگر اس المیے کی اصل وجہ دہائیوں تک بورژوا ریاست کی جانب سے لیے جانے والے بھیانک فیصلے ہیں۔ جب تک موجودہ نظام کو اکھاڑ نہیں پھینکا جاتا، چاہے کوئی بھی بر سرِ اقتدار ہو، اس قسم کے فیصلے جاری رہیں گے۔

آگے کیا ہوگا؟

متاثرین کو درپیش مسئلہ یہ ہے کہ اس تمام تر تباہی کا ازالہ کرنے کے لیے درکار رقم کس کی جیبوں سے ادا ہوگی؟ انشورنس کی کئی منافع خور کمپنیاں اس قسم کے پُر خطر علاقوں میں انشورنس نہیں دیا کرتیں، یا اگر دیتی بھی ہیں تو نا قابلِ برداشت قیمت پر۔ حالیہ متاثرین کی اکثریت کی انشورنس اتنی نہیں ہے جتنی انہیں ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ، ان کمپنیوں کی جانب سے سیلاب کے پیشِ نظر تمام اخبارات میں نئی آفرز کے اشتہارات دیے جا رہے ہیں، جو یقینا خوف اور صدمے میں مبتلا عوام کا استحصال کرنے کی انتہائی سفاک کوشش ہے۔

کئی لوگوں کو انشورنس کے حوالے سے ریاست پر انحصار کرنا پڑے گا۔ چانسلر کے دونوں امیدواران، ارمین لاشت (سی ڈی یو) اور اولاف شولز (ایس پی ڈی)، سمیت رخصت ہوتی چانسلر انجیلا مرکل (سی ڈی یو) نے بھی تیز رفتار امداد کا وعدہ کیا ہے۔ متاثرین کو یہ امداد کتنی تیزی کے ساتھ اور کس حد تک فراہم کی جائے گی، یہ دیکھنا ابھی باقی ہے۔ البتہ ماضی میں کرونا کی امداد کے کھوکھلے وعدوں کو دیکھتے ہوئے حالیہ دعوؤں پر یقین کرنا مشکل ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ متاثرین کو جلد از جلد مدد فراہم کرنی چاہئیے، مگر اس کے لیے ریاست کو قرضے لینے کی ضرورت نہیں۔ عوام سے عطیات کا مطالبہ کرنا بھی احمقانہ حرکت ہے۔ حکومت کو چاہئیے کہ بڑی کارپوریشنز سے خصوصی ٹیکس کی مد میں پیسے لے۔ ظاہر ہے کہ ان بڑے مگرمچھوں میں ماحول کو آلودہ کرنے والے وہ افراد بھی شامل ہیں جو شدید ہوتی ماحولیاتی تبدیلی کے ذمے دار ہیں، جس کے باعث مستقبل میں اس قسم کے واقعات رونما ہونے کا خطرہ موجود ہے۔ انہی کو قیمت ادا کرنی ہوگی!

ذاتی مفادات کے لیے کوشاں سیاستدان

سی ڈی یو/ سی ایس یو، ایس پی ڈی، گرینز اور دیگر مین سٹریم پارٹیوں کے سیاستدان اس بربادی کو اپنے وفاقی انتخابات کے کمپئین کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔ ربڑ کے جوتے پہن کر امیدواروں نے این آر ڈبلیو، آر ایل پی اور باواریا میں موجود گاؤں کے دورے کیے۔ شولز اور لاشت دونوں نے امداد کے وعدے کر کے خود کو بحران کے منتظمین کے طور پر پیش کیا۔

اینالینا بیربوک (گرینز) ماحولیاتی تبدیلی کے مسئلے کو استعمال کرنے اور گرینز پارٹی کو مزید مقبول کرنے کی کوشش کرے گی، جیسا کہ ماضی میں انہوں نے ”فرائیڈیز فار فیوچر“ تحریک میں کیا تھا۔ گرینز کے ایک امیدوار نے غیر متاثر کن اور ناقص تحقیق پر مبنی کتاب شائع کی تھی، جس کے بعد رائے شماری میں گرینز کی حمایت 20 فیصد سے نیچے گر گئی۔ وہ اپنی حمایت میں اضافہ کرنے کے لیے بیتاب ہیں۔

یہ شدید موسمیاتی حادثہ، جس کی وجہ سے نظام کی ناکامی بھی بے نقاب ہوئی، وفاقی انتخابات اور انتخابات سے متعلق دیگر مسائل کی رائے شماری کو مزید متاثر کرے گا جس میں پہلے سے ہی تیز تبدیلیاں دیکھنے کو مل رہی ہیں۔ پارٹیوں اور ان کے امیدواروں کے اقدامات اور بیانیوں کا شہری زیادہ بغور جائزہ لیں گے۔ تیزی کے ساتھ تبدیل ہوتا رائے عامہ جرمن سیاست کا ایک نیا عنصر ہے۔ یہ عمل سیاست کی جانب بڑھتے ہوئے رجحان اور سماج کے پولرائزیشن کی نشاندہی کرتا ہے۔

حفاظتی اقدامات کا فقدان

نارتھ رائن ویسٹ فیلیا کے صدر وزیر ارمین لاشت نے ٹی وی پروگرام ’ڈبلیو ڈی آر اکتو یل‘ پر بہت بڑی حماقت کا مظاہرہ کیا، جب اس نے این آر ڈبلیو کی ماحولیاتی پالیسی کے حوالے سے میزبان کے اہم سوال کے جواب میں کہا: ”معذرت کے ساتھ ایسا نہیں ہوگا۔ محض حالیہ واقعے کے پیشِ نظر پالیسی کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔“ یہ پالیسی آخر ہے کیا؟

کاربن ڈائی آکسائد میں کمی کے حوالے سے جرمنی کی ایک ریاست شمالی رائن ویسٹ فیلیا (این آر ڈبلیو) 1990ء سے لے کر 2016ء تک ملکی سطح پر اوسط درجے سے کافی نیچے تھا۔ یہاں کم از کم 50 فیصد بجلی کوئلے کے ذریعے پیدا ہوتی ہے۔ اور قابلِ تجدید انرجی (Energy Renewable) کے استعمال کو یہاں اتنا سنجیدہ نہیں لیا جاتا۔ قومی اخراج کا 27 فیصد این آر ڈبلیو میں ہوتا ہے۔ کارپوریشنز کے مفادات کے پیشِ نظر ابھی تک توانائی پیدا کرنے کے ماحول دشمن طریقوں کو ترک نہیں کیا جا سکا ہے۔

دیگر بورژوا سیاستدانوں نے اس بات کا اظہار تو کئی دفعہ کیا ہے کہ بڑے پیمانے پر جلد از جلد ماحولیاتی تحفظ کے اقدامات لینے کی ضرورت ہے، مگر وفاقی یا ریاستی سطح پر، سی ڈی یو/ سی ایس یو، ایس پی ڈی، ایف ڈی پی اور گرینز بالکل مخالف پالیسی کو اپنائے ہوئے ہیں۔ جرمنی میں کارپوریشنز کو کوئلے یا گیس جیسے ایندھن کے حوالے سے ریاستی سبسڈیوں کی مد میں براہِ راست یا بلا واسطہ 16 ارب یوروز سے زائد رقم دی جاتی ہے۔ مطلب یہ کہ حکومت اور تمام پارٹیاں ماحول کو آلودہ کرنے والوں کی امداد کرنے میں ملوث ہیں۔

شدید موسمیاتی حادثوں کا معمول

جیسا کہ بتایا جا چکا ہے، مرکزی یورپ میں سیلاب کی یہ تباہی ماحولیاتی تبدیلی کا نتیجہ ہے۔ کئی دہائیوں سے ماحولیاتی محققین اور ماہرِ موسمیات خبردار کرتے رہے تھے کہ گلوبل وارمنگ کے نتیجے میں شدید موسمیاتی حادثوں میں اضافہ دیکھنے کو ملے گا۔ شماریات کو دیکھا جائے تو یہ بات صحیح ثابت ہوئی ہے؛ حالیہ دہائیوں میں گرمی کی لہروں اور تیز بارشوں میں ماضی کی نسبت اضافہ اور شدت آئی ہے۔

اس سال کینیڈا میں پچھلے سال کی نسبت گرمی میں پانچ ڈگری سینٹی گریڈ اضافہ ہوا۔ ماحولیاتی محققین نے اس خدشے کو ظاہر کیا ہے کہ اگلے کچھ سالوں میں مرکزی یورپ کے اندر 50 ڈگری سینٹی گریڈ کا درجہ حرارت بھی دیکھنے کو ملے گا۔ شدید گرمی اور خشک سالی سمیت شدید بارشوں میں اضافہ آئے گا۔

Hochwasser in Kordel Image Chz

پچھلے لمبے عرصے سے جاری تنخواہوں میں کٹوتیوں اور ناقص منیجمنٹ کی وجہ سے حالیہ سیلاب کا مقابلہ کرنے کیلئے جرمن ریاست تیار نہ تھی۔

اس مسئلے کی جڑ محض نقصان دہ گیسوں کا اخراج نہیں بلکہ گنجان آباد شہر بھی ہیں؛ جہاں ہریالی اور درخت کم پائے جاتے ہیں؛ اور موٹر ویز کی مسلسل تعمیرات بھی ایک وجہ ہے، جیسا کہ ہیسے کی ریاست میں ڈاننروڈر جنگل کے اندر موٹر وے کی تعمیر (جسے گرینز کی حمایت حاصل ہے، جہاں وہ مخلوط حکومت کا حصّہ ہیں)۔

ہم صنعتی ترقی کے مخالف نہیں ہیں۔ مگر، اگر ہم ماحولیاتی تبدیلی کو قابو کرنا چاہتے ہیں، یعنی گلوبل وارمنگ روک کی مسیقبل میں روک تھام، تو ہمیں صنعتی پیداوار میں زیرِ زمین ایندھن کا استعمال ترک کرنا پڑے گا۔ اس دوران ہمیں ماحولیاتی شدت کی مناسبت سے اپنے شہروں کو بھی تبدیل کرنا پڑے گا۔

مثال کے طور پر، نجی ٹرانسپورٹ کا استعمال روکنے؛ عمارتوں کو گرمی سے بچانے کے انتظامات؛ شہروں میں نئی عمارتوں کی منصوبہ بندی؛ نکاسی آب کے نظام کو بارشوں کے حساب سے تبدیل کرنے وغیرہ، کی ضرورت ہے۔ ان چیزوں پر عمل درآمد تب سے ہی شروع کر دینا چاہئیے تھا جب 1970ء اور 80ء کی دہائیوں میں ماحولیاتی محققین تنبیہات جاری کر رہے تھے۔

البتہ انفراسٹرکچر کی اس بڑے پیمانے پر مرمت فوری طور پر منافع بخش نہیں ہوگی۔ اسی لیے سرمایہ دار اس کے لیے تیار نہیں ہیں، جو ایندھن کے ذریعے پیداوار اور ماحول دشمن صنعتوں سے دیوہیکل منافعے کماتے ہوئے مطمئن بیٹھے ہیں۔ منصوبہ بند معیشت کے تحت، جس کو محنت کش طبقہ انسانی ضروریات کے مطابق منظم کرے گا، ماحولیاتی اصلاحات جیسی ضروریات میں سرمایہ کاری اولین ترجیح ہوگی۔

مجرم کون؟

ہمیں منافع خور نجی کارپوریشنز، اور ان کے اتحادی بورژوا پارٹیوں کے انتظار میں نہیں بیٹھنا چاہئیے، کہ وہ تباہی کی روک تھام اور ماحولیاتی تحفظ کے حوالے سے ضروری اقدامات لیں گی۔

حکمران طبقے پر یہ واضح ہے کہ وہ ماضی کے طور طریقوں سے حکمرانی جاری نہیں رکھ سکتا، جیسا کہ ایندھن کی بڑی سرمایہ کار کمپنیوں میں سے ایک جے پی مورگن کی لیک ہوئی ایک خفیہ رپورٹ سے اندازہ ہوتا ہے۔ رپورٹ میں تسلیم کیا گیا ہے کہ موجودہ طرزِ پیداوار، جو زیادہ تر زیرِ زمین ایندھن کی بنیاد پر چلتا ہے، ماحولیاتی تبدیلی میں شدت کا باعث ہے۔ مگر حکمران طبقہ اس کے باوجود عوام کو دھوکے میں ڈال کر ماحولیاتی تحفظ کے اقدامات کو سبوتاژ کر رہا ہے۔ یہ کوئی اچنبھے والی بات نہیں کہ جے پی مورگن اس رپورٹ کو عوام کے سامنے نہیں لانا چاہتا تھا۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ کام کی جگہوں، محلّوں، یونیورسٹیوں اور سکولوں کے اندر، جتنا وسیع پیمانے پر ممکن ہو، ماحولیاتی تبدیلی اور اس کی روک تھام کے بارے میں سائنسی بنیادوں پر عوامی بحث مباحثے منعقد کیے جائیں۔ جب تمام محنت کش ضروری اقدامات کی منصوبہ بندی اور نفاذ میں جمہوری طور پر شامل ہوں گے، تب ہی ان اقدامات کو یقینی بنایا جا سکے گا۔

اس بات کو یقینی بنانے کے لیے منصوبہ بند معیشت کی ضرورت ہے کہ ماحولیاتی تبدیلی کے خلاف لڑائی میں محنت کشوں کی قربانیاں ضروری نہیں۔ سائنسی تحقیقات اور تکنیکی علوم کو نجی کارپوریشنز کے منافعوں کی خاطر نہیں، بلکہ پوری انسانیت کی بھلائی کے لیے بروئے کار لانا چاہئیے۔ عوام کو انفراسٹرکچر کی سرمایہ کاری اور تعمیراتی منصوبوں میں جمہوری فیصلوں کا حق ہونا چاہئیے۔ ایسا ہونے کے لیے، بینکوں، اہم صنعتوں اور تحقیقاتی اداروں کو قومی ملکیت میں لے کر منصوبہ بند معیشت کے تحت محنت کشوں کے قبضے میں دینے کی ضرورت ہے۔

اس طریقے سے ہم ایک ایسا سماج تعمیر کر سکتے ہیں جہاں انسانوں کی روزی روٹی کو تحفظ حاصل ہو اور موجودہ و آئندہ نسلوں کی ضروریات کا خیال رکھا جاتا ہو، اور جہاں خاندانوں کو ماحولیاتی تباہ کاریوں کے ہاتھوں مصائب و آلام جھیلنے پر مزید مجبور نہ کیا جائے۔

Comments are closed.