فاؤسٹ کا قصہ اور عالمی ادب

|تحریر: حبیب اللہ|

ہم سے چُھوٹا قمار خانۂ عشق
واں جو جاویں ، گرہ میں مال کہاں
(غالب)

موضوع:
اس مطالعے میں ہم یہ جاننے کی کوشش کریں گے کہ ڈاکٹر فاسٹس یا فاؤسٹ کا تصور کیا ہے؟ اس کا آغاز کہاں سے ہوا اور کس طرح دنیا کے فنکاروں نے اس تصور کو اپنی بہترین تخلیقات کا موضوع بنایا اور ساتھ ہی ہم یہ بھی جاننے کی کوشش کریں گے کہ آج کے دور میں اس تصور کی اہمیت کیا ہے اور یہ کس طرح ہماری زندگیوں میں داخل ہے؟ یہاں ہمیں یہ بات واضح کرنی ہو گی کہ ہمارے اس مطالعے کا موضوع فاؤسٹ کے تصور کے مختلف پہلوؤں میں سے صرف ایک پہلو یعنی’’ شیطان کے ساتھ سودا ‘‘ہے۔ہم یہ حد بندی اس لئے کر رہے ہیں کہ فاؤسٹ کا تصور اس قدر کثیر پہلو اور پیچیدہ ہے کہ اس کی تمام جہات کا احاطہ کرنا ہمارے اس محدود مطالعے کی گنجائش سے باہر ہے۔

(۱)

ڈاکٹر فاسٹس کا قصہ اور اس کا تاریخی پس منظر:

پندرھویں صدی کے اواخر میں جرمنی کے بہت سے نجومی اور جادو گر اپنے لئے ’فاسٹس ‘کا لفظ اختیار کرتے تھے ۔یہ لفظ لاطینی الاصل ہے جس کے معنی ’برگزیدہ ‘یا ’مبارک‘ کے ہیں۔اس قصے کی پہلی فنکارانہ پیش کش ایک انگریز ڈراما نگار کرسٹو فر مارلو نے کی۔ اس نے اسے اپنے مشہور المیے(ڈرامے) ’ڈاکٹر فاسٹس کی داستانِ الم‘ کا موضوع بنایا۔اس کا مواد اس نے 1592ء میں شائع ہونے والی ’انگلش فاؤسٹ بک‘ سے حاصل کیا جس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ جرمن زبان میں 1587ء میں شائع ہونے والی کتاب سے ماخوذ ہے جس کی بنیاد اس موضوع پر مبنی لاطینی رسالوں پر ہے۔مارلو کے اس ڈرامے کے بعد جرمنی کے عظیم شاعر، گوئٹے نے اسے اپنی شاہکار نظم ’فاؤسٹ‘ کا موضوع بنایا۔ گوئٹے کی یہ نظم دو حصوں پر مشتمل ہے ۔ پہلا حصہ 1807ء میں شائع ہوا جبکہ دوسرا حصہ گوئٹے کے انتقال کے بعد 1832ء میں شائع ہوا۔

(۲)

اس سے پہلے کے ہم ڈاکٹر فاسٹس کی دیگر فنکارانہ پیش کشوں کا ذکر کریں یہ بہترہو گا کہ ہم اس کے موضوع سے آگاہی حاصل کر لیں۔ مارلو کے ڈرامے میں ڈاکٹر فاسٹس ایک مشہور زمانہ عالم ہے ۔ ڈرامے کے آغازمیں ہمیں کورس بتاتا ہے کہ اس کے والدین نچلے طبقے سے تعلق رکھتے تھے۔ وہ روڈز میں پیدا ہوا اورپڑھنے کے لئے وٹن برگ گیا جہا ں اس کے رشتے داروں نے اس کی کفالت کی۔ جلد ہی اس نے تمام علوم پر کامل دسترس حاصل کر لی ۔لیکن یہ اس کے لئے کافی نہ تھا۔جب وہ اپنی مطالعہ گاہ میں بیٹھا اپنی تمام کامیابیوں اور کار ناموں پر غور کرتا ہے تو اسے محسوس ہوتا ہے کہ وہ اتنی کامرانیوں کے باوجود کچھ بھی بڑا نہیں کر سکا۔مایو سی کے عالم میں وہ خود سے کہتا ہے: 

Yet art thou still but Faustus, and a man.

پھر بھی تم فاسٹس ہی ہو، ایک آدم زاد

فاسٹس کیا حاصل کرنا چاہتا ہے؟ اگلے تین مصرعوں میں وہ اسے واضح کرتا ہے۔

Couldst thou make men to live eternally,
Or, being dead, raise them to life again,
Then this profession were to be esteem’d.

اگر تم انسانوں کو ہمیشہ کی زندگی بخش سکتے 
یا ان کے مرنے پر انھیں دو بارہ زندہ کر سکتے
تو تمھارا پیشہ باعث افتخار ہوتا

جب فاسٹس پر یہ عیاں ہو جاتا ہے کہ قانون، طب اور الہیات جیسے علوم بھی اسے وہ طاقت نہیں دے سکتے جو اسے ایک انسان سے دیوتا بنا دے تو وہ ان تمام علوم کو الوداع کہہ دیتا ہے اور جادو کی طرف رجوع کرتا ہے۔اسے لگتا ہے کہ یہ علم حاصل کر لے تو:

All things that move between the quiet poles
Shall be at my command: emperors and kings
Are but obeyed in their several provinces,
Nor can they raise the wind, or rend the clouds;
But his dominion that exceeds in this,
Stretcheth as far as doth the mind of man;
A sound magician is a mighty god: 

سبھی کچھ جو قطبین کے درمیان محوِ حرکت ہے
میرے اشارے پر چلے گا: شہنشاہ اور سلطان
بس اپنی اپنی سلطنتوں کے فرما ں روا ہیں
کیا وہ طوفان برپا کر سکتے ہیں، بادلوں کو چیرسکتے ہیں
لیکن اس کا ملک جو اس (جادو) میں کمال پا لے
اتنا بے پایاں ہے جتناانسان کا دماغ
ایک منجھا جادو گر طاقتور دیوتا ہے

لیکن جادوکی عملیات کے لئے اسے ابلیس کی مدد درکار ہے۔ اسے ابلیس سے ملاقات کرنا ہو گی۔ جس کے لئے وہ دو جادوگروں (وال دیز اور کارنی لیس) کی مدد حاصل کرتا ہے ۔وہ اسے بتاتے ہیں کہ اس کے لئے اسے خدا اور اس کی مقدس کتاب (انجیل) کا انکار اور کچھ منتر پڑھنے ہوں گے۔ فاسٹس اپنی مراد پانے کے لئے ہر انتہا کو آزمانے کے لئے تیا ر ہے۔ وہ یہ عمل ایک ویرانے میں تنہا کرتا ہے اور مفسٹو فلیس حاضر ہو جاتا ہے جو کہ ابلیس کا نائب ہے۔فاسٹس اس کی بد صورتی کی تاب نہیں لاپاتا اور اسے حکم دیتا ہے کہ وہ فرانسسکن راہب بن کر آئے کیوں کہ یہ ایک خناس کے لئے اچھا بھیس ہے۔جب مفسٹو اس کی خواہش کے مطابق بھیس بدل کر آتا ہے تو فاسٹس اسے حکم دیتا ہے کہ وہ اس کی خدمت میں حاضر رہے۔ مگر مفسٹو ایسا نہیں کر سکتا کیونکہ وہ لوسیفر(ابلیس) کا خدمت گار ہے اور اس کی اجازت کے بغیر کچھ نہیں کرتا ۔لیکن فاسٹس اس پر مصر ہے کہ وہ ہر صورت میں مفسٹو کی خدمات حاصل کرنا چاہتاہے خواہ اسے اس کے لئے کوئی بھی قیمت ادا کرنی پڑے۔ وہ مفسٹو سے کہتا ہے کہ وہ لوسیفر سے اس بارے میں بات کرے۔ مفسٹو، لوسیفر کا جواب لاتا ہے کہ اگروہ اس کی خدمات حاصل کرنا چاہتا ہے تو اسے لوسیفرکو اپنے خون سے لکھا ہوا ایک عہد نامہ بطور ہدیہ دینا ہو گا جس میں وہ اپنے جسم اور روح کو لوسیفر کے حوالے کرے گا اور ہمیشہ کے لئے ملعون ہو جائے گا۔ بدلے میں لوسیفر اسے 24سال کی مہلت دے گا جس میں اس کی ہر مراد پوری کی جائے گی اور مفسٹو اس کی خدمت میں حاضر رہے گا۔اس پر فاسٹس کہتا ہے:

Had I as many souls as there be stars,
I’d give them all for Mephistophilis.

اگر میرے پاس اتنی روحیں ہوتیں جتنے آسمان میں ستارے ہیں
میں وہ سب مفسٹو فلیس کے لئے دے دیتا

چنانچہ سودا طے ہو جاتا ہے۔ فاسٹس اپنے خون سے عہد نامہ لکھ دیتا ہے۔ لیکن جلد ہی اسے اندازہ ہو جاتا ہے کہ اس کے ساتھ دھوکا ہوا۔ شیطان اسے کوئی ایسی طاقت یاعلم نہیں دے سکتا جو اسے دیوتا ؤں جتنا عظیم اور بااختیار بنا دے۔ وہ’’ابھی بھی فاسٹس ہے، ایک انسان۔‘ فاسٹس کی اس حالت پر تبصرہ کرتے ہوئے اونا ایلس فرمر لکھتی ہیں کہ ’’وہ ایک ایسا انسان ہے جوخواب میں خود کو آسمان کی رفعتوں میں پاتا ہے مگر جب آنکھ کھلتی ہے تو پہاڑ کی چوٹی پر ہوتا ہے۔ ابھی بھی زمین سے چمٹا ہوا۔‘‘اب وہ توبہ کرنا چاہتا ہے مگر اس کا دل سخت ہو جاتا ہے ۔فاسٹس کی یہ کش مکش دیکھ کر لوسیفر اسے بہلانے کے لئے آتا ہے۔ اسے سات ہلاکت خیزگناہوں کا تماشا دکھا تا ہے۔ پھر فاسٹس ، مفسٹو کے ساتھ اڑنے والی بگھی میں سوار ہو کر نئی دنیاؤں کی سیر کو نکل جاتا ہے ، وہ پوپ سے ملتا ہے اور اس کی درگت بناتا ہے،ٹرائے کی ہیلن کو حاضر کرتا ہے اورا س کی سحر آفرین خوبصورتی کے قصیدے پڑھتا ہے اور اسی آوارہ طبعی میں 24سال گزارتا ہے۔۔۔۔۔

(۳)

اب ہم فاسٹس کو انہی مستیوں اور رنگ رلیوں میں مگن چھوڑتے ہیں اور فاؤسٹ کی طرف بڑھتے ہیں جس کی تخلیق میں جرمنی کے عظیم شاعر گوئٹے نے اپنی زندگی کے ساٹھ باثمر سال(بلاشبہ بہت سے تعطلوں کے ساتھ) صرف کئے۔ نظم کے آغاز میں تین بزرگ فرشتے اسرافیل، میکائیل اور جبرائیل خدا کی طاقت کے زبر دست مظاہر سورج، سمندر اور طوفان کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان کا نظارہ ہمیں قوت بخشتا ہے۔ ان کے بھید ہمارے سوا کون جانتا ہے؟ تیرے سارے عظیم کاموں میں ہمارا ہاتھ ہے۔ (فاؤسٹ، حصہ اول، سطر267-69)

مفسٹو فلیس بھی وہیں موجود ہے ۔ وہ کہتا ہے اے باری تعالیٰ! میرے پاس سورج اور دوسری دنیاؤں کی خبریں نہیں ہیں۔ میں تو یہ بتا سکتا ہوں کہ تیرا نائب کس طرح خود کو برباد کر رہا ہے ۔ تو نے جو اسے عقل کا نور عطا کیا ہے وہ اس کو الٹ استعمال کرتا ہے اور چوپایوں سے بھی بدتر بنتا جاتا ہے۔ اس کا سر گندگی میں دھنسا ہوا ہے۔وہ بد کاری میں مست ہے۔اس پرخدا کہتا ہے کیا تم زمین میں میر ے بندے’فاؤسٹ ‘کو نہیں جانتے؟مفسٹو کہتا ہے کہ جانتا ہوں ، مگر وہ بھی لہو لعب میں مبتلا ہے اورتیری بندگی وہ ایک مقصد کے لئے کرتا ہے۔ جواباً خدا کہتا ہے کہ ابھی وہ بھٹکا ہوا ہے لیکن میں جلد اسے ہدایت کی روشنی دکھانے والا ہوں۔مفسٹو خدا کو چیلنج کرتا ہے کہ اگر وہ اسے مہلت دے تو وہ اسے اپنے راستے پر لگا لے گا۔خدا اسے مہلت دیتا کہ جب تک فاؤسٹ زندہ ہے وہ اسے گمراہ کرنے کی کوشش کر سکتا ہے۔ اور ساتھ یہ بھی کہتا ہے کہ :

For while man strives he errs.

جب انسان راہ کھوجتا ہے، وہ ضرور خطا کرتا ہے (فاؤسٹ، سطر317)

اس پر مفسٹو کہتا ہے کہ وہ اپنی مکاری سے اسے خدا کے راستے سے دور لے جائے گا اور وہ ’مٹی چاٹے گا‘اور وہ بھی بڑی رغبت سے۔(فاؤسٹ، سطر،334-35)۔

اس منظر کے بعد فاؤسٹ سے ہماری پہلی ملاقات اس کی مطالعہ گاہ میں ہوتی ہے جہاں وہ مارلو کے ڈاکٹر فاسٹس کی طرح اپنے تمام علم و حکمت سے اکتایا بیٹھا ہے ۔ اس کی خود کلامی اس کا روحانی کرب اس طرح ظاہر کرتی ہے:

all Joy is snatched away,
What’s worth knowing, I can’t say,
I can’t say what I should teach
To make men better or convert each.
And then I’ve neither goods nor gold,
No worldly honour, or splendour hold:
Not even a dog would play this part!

زندگی کا لطف جاتا رہا ہے
کیا جاننا چاہئے، مجھے نہیں پتہ
مجھے نہیں پتہ کہ میں کیاتعلیم دوں
کہ انسا ن بہتر بن جائیں یا کسی کو بدل پاؤں
پھر نہ تو میں مال و متاع رکھتا ہوں نہ زر
نہ دنیاوی مرتبہ ہے، نہ شان و شوکت
ایک کتا بھی ایسی زندگی جینا نہ چاہے!(فاؤسٹ ، سطر 370-75)

مفسٹو ، فاؤسٹ سے کہتا ہے کہ وہ اس کی تمام آرزوئیں پوری کرنے میں اس کی مدد کر سکتا ہے اور اس کے بدلے میں وہ مرنے کے بعد اپنی روح اس کے حوالے کرے گا۔ فاؤسٹ بیزاری سے کہتا ہے کہ اسے صرف اس دنیا کی لذتوں کی تمنا ہے مرنے کے بعد کیا ہو گا وہ اس سے بے پروا ہے۔ مگر فاؤسٹ اسے یہ بھی باور کراتا ہے کہ وہ اس کی کوئی خاص مدد نہیں کر سکتا ہے کیونکہ جس مسرت کی اسے آرزو ہے وہ اسے کبھی حاصل نہیں ہو سکتی ۔ اور پھر مفسٹو جیسا کنگلا بھکاری اسے کیا دے سکتا ہے؟اسی بیزاری میں وہ سودے کی شرائط لکھنے کے لئے بھی راضی ہو جاتا ہے:

If it will satisfy you, and it should,
Then let’s complete the farce in full.

اگر اس سے تمھیں تسلی ہوتی ہے، اور ہونی بھی چاہئے
آؤ یہ گھٹیا ناٹک آخر تک کھیلتے ہیں۔(فاؤسٹ ، سطر 1738-39)

اس سودے کے بعد فاؤسٹ، مفسٹو کی مکاری اور عیاری کا شکار ہو کر ہوس ناکی میں مبتلا ہو جاتا ہے اور ایک نوجوان عورت،گریچن ، اور اس کے خاندان کی بربادی کا سبب بنتا ہے ۔ گریچن کی موت اسے تو مزید خواری سے بچا لیتی ہے مگر فاؤسٹ کی آبرو خاک میں مل جاتی ہے اور مفسٹو جزوی طور پر کامیاب ہو جاتا ہے۔

دوسرے حصے کا آغاز اس واقعے سے ہوتا ہے کہ ’زمین کی روح‘ فاؤسٹ کی خطا معاف کرتی ہے۔ یہ حصہ تمثیلی شاعری کی شکل میں پیش کیا گیا ہے۔ فاؤسٹ اور اس کا شیطان دنیائے سیاست اور کلاسیکی دیوتاؤں کی دنیا پر اختیار حاصل کرتے ہیں اور ٹرائے کی ہیلن سے ملتے ہیں۔ آخر ، جنگ اور فطرت کی قوتوں کو اپنے عزائم کے لئے استعمال کرنے کے بعد فاؤسٹ کو حقیقی مسرت کا ایک لمحہ نصیب ہو ہی جاتا ہے اور اس طرح اس کے لئے خد ا کا منصوبہ کامیاب رہتا ہے۔

(۴)

ڈاکٹر فاسٹس اور فاؤسٹ کا موازنہ:

اب ہم مختصراً اس بات کا جائزہ لیں گے کہ دنیا کے ان دو بڑے فنکاروں نے فاسٹس کے تصور کو کس طرح پیش کیا اور دونوں کی پیش کش میں کتنی مطابقت اور عدم مطابقت ہے۔ مارلو کا ڈاکٹر فاسٹس علم کو بطور طاقت استعمال کرنا چاہتا ہے ۔ وہ سمجھتا ہے کہ علم اسے عام انسانی سطح سے بلند کرکے دیوتاؤں جتنی طاقت بخش سکتاہے۔ مگر جب تمام مفید علوم اسے وہ قوت اور اختیار مہیاکرنے میں ناکام رہتے ہیں تو وہ سفلی اور ابلیسی علم ،یعنی جادو کی طرف رجوع کرتا ہے۔ وہ اپنی اس قوت پرستی میں اس قدر بھٹک چکا ہے کہ وہ اس کے لئے کسی بھی حد تک جانے کے لئے تیار ہے۔ وہ شیطان کے نائب، مفسٹو فلیس کی خدمات حاصل کرنے کے لئے خو د کو ہمیشہ کے لئے رجیم کرنے کے لئے بھی تیار ہو جاتا ہے۔ مارلو کے ڈاکٹر فاسٹس کی ابتدا میں ہمیں فنکارانہ سچائی کی کمی محسوس ہوتی ہے۔ بھلا ہم ایسے انسان میں سچی انسانی عظمت کیسے تلاش کر سکتے ہیں جو اپنی آرزو مندی میں خیر کو ٹھکرانے کے لئے تیار ہے اور شر کے استقبال کے لئے باہیں پھیلائے ہوئے ہے۔ سچا فنکار ہمیشہ انسانی عظمت کو پیش کرتا ہے ۔ وہ شر کا نمائندہ نہیں ہو سکتا ۔اس لئے جلد ہی ہم دیکھتے ہیں کہ فاسٹس ابلیس سے اپنے سودے پر پشیمان ہے ۔ وہ سمجھ گیا ہے کہ اسے دھوکا دیا گیا ہے۔ وہ توبہ کرنا چاہتا ہے لیکن بدی کی قوتیں اسے ایسا کرنے نہیں دیں گی۔ اس کا دل سخت ہو گیا۔ وہ اچھے فرشتوں کے مشوروں کو نظر انداز کرتا آیا ہے جو اسے ہر مرحلے میں اس سودے کے انجام سے خبر دار کرتے رہے ہیں ۔ وہ اس بات کو بھی نظر انداز کر دیتا ہے کہ جب وہ عہد نامہ لکھ رہا ہوتا ہے تو اس کا خون جم جاتا ہے اور پھر مفسٹو ایک انگارے کے ذریعے اسے دوبارہ گرم کرتا ہے۔ ابلیس(لوسیفر) اسے توبہ کرتے دیکھتا ہے تو اسے ڈرانے اور بہلانے کے لئے خود آتا ہے اور پھر فاسٹس سودے کے چو بیس سال مفسٹو کی مدد سے بوالہوسی اور رنگ رلیوں میں گزارتا ہے۔

جیسا کے ہم مطالعہ کر چکے ہیں کہ گوئٹے کی نظم، فاؤسٹ بھی فاسٹس کے قصے پر مبنی ہے مگر گوئٹے نے اس کی پیش کش کو زیادہ پیچیدہ کر دیا ہے۔ فاؤسٹ ڈاکٹر فاسٹس کی طرح ’طاقتور دیوتا‘ بننے کا آرزو مند نہیں ہے جس کے دنیا کے شہنشاہ بھی غلام ہوں۔ وہ تو زندگی کے حقیقی جوہر کا متلاشی ہے۔ اس کی اکتاہٹ کا سبب یہ ہے کہ اس کا علم و فضل اسے سچی مسرت دینے سے قاصر ہے جس کے لئے وہ شیطان کی توجہ حاصل کرتا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ خدا وندتعالیٰ فاؤسٹ کو فضیلت بخشنا چاہتے ہیں مگر اس کے لئے اسے راستے کی تلاش خود کرنا ہو گی ۔حقیقی ہدایت وہی ہے جو انسان اپنی خطاؤں سے کماتا ہے۔ جب مفسٹو خدا کو چیلنج کر تا ہے کہ وہ فاؤسٹ کو اپنے ڈھب پر چلائے گا اور اسے مٹی چاٹنے پر مجبور کر ے گا تو اسے جواب ملتا ہے:

Well and good, you’ve said what’s needed!
Divert this spirit from his source,
You know how to trap him, lead him,
On your downward course,
And when you must, then stand, amazed:
A good man, in his darkest yearning,
Is still aware of virtue’s ways.

بہت اچھا، تم نے وہ کہہ دیاجو ضروری تھا
اس روح کو اس کے راستے سے بھٹکاؤ
تم جانتے ہو کہ اسے کیسے پھانسنا ہے،
لے جانا اسے،اپنے رذالت کے گڑھے میں
اور جب تم ایسا کر چکو گے تو یہ دیکھ کر انگشت بدنداں رہ جاؤ گے
کیسے ایک اچھاانسان ، اپنی تاریک ترین آرزو مندی میں بھی
فلاح کے راستوں سے واقف ہوتا ہے(فاؤسٹ ، سطر 323-29)

اس سے یہ ظاہرہوتاہے کہ گوئٹے کا خیال ہے کہ اگر انسان کو حقیقی فلاح پانی ہے تو اسے اپنی روح کی تربیت کے لئے گناہ کے ان راستوں سے گزرنا ہو گا۔ انسان کی روحانی تکمیل کے لئے ابلیس بھی خدا کے منصوبے کا حصہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فاؤسٹ کے استفسارپر مفسٹو اپنا تعارف اس طرح کراتا ہے:

Part of the Power that would
Always wish Evil, and always works the Good.

وہ اس طاقت کا حصہ ہے
جو ہمیشہ برائی کا ارادہ کرتی ہے ، اورہمیشہ خیر کو جنم دیتی ہے 

یہ ابلیس کا المیہ ہے جس سے ہم ناواقف نہیں ہیں۔ وہ راہ گم کردہ روحوں کو مزید بھٹکاتا ہے۔ انھیں اپنے’ اسفل سافلین‘ کے گڑھے میں اتار دیتا ہے اور’ چوپایوں سے بدتر‘ بنادیتا ہے مگر پھر بھی وہ ان کے محافظ نور ہدایت کو ماند نہیں کر پاتا اور آخر میں نامراد رہتا ہے۔

ڈاکٹر فاسٹس اور فاؤسٹ کی ایک اور اہم عدم مطابقت یہ ہے کہ فاؤسٹ ، فاسٹس کی طرح خود سودے کی بات نہیں کرتا اور نہ ہی وہ مفسٹو کو اپنا خد مت گار بنانے کے لئے بے تاب ہے۔ مفسٹو اسے اس پر ابھارتا ہے کہ وہ عہد نامہ لکھے جس کا فاؤسٹ تمسخر اڑاتا ہے ۔

دراصل ڈاکٹر فاسٹس اور فاؤسٹ میں دو سو سال کا زمانی بُعد ہے۔ ہم جانتے کہ پندرھویں صدی سے لے کر اٹھارھویں صدی کے اختتام تک یورپ ایک عبوری دور سے گزر رہا تھا۔ پرانی جاگیردارانہ قدریں دم توڑ رہی تھیں مگر ان کی گرفت ابھی بھی کلیسا اور بادشاہت کی صورت میں مضبوط تھی۔پرانی انسان دوست قدریں مٹتی جا رہی تھیں۔خلوص کی جگہ لالچ نے لے لی تھی۔ ہم دیکھتے ہیں اسی زمانے میں شیکسپیئر ایسے الیمے لکھ رہا تھا جو پرانی قدروں کے مٹنے کا نوحہ تھے۔ ہیملٹ اپنی ماں کے بارے میں کہتا ہے کہ’’ ابھی اس کے جوتوں سے میرے باپ کی قبر کی مٹی نہیں اتری اور اس نے دوسری شادی کر لی ہے۔‘‘شاہ لیئر اس لئے پاگل ہو گیا کہ وہ سمجھتا تھا کہ اس کی بیٹیاں اگر اس سے محبت کا دعویٰ کرتی ہیں تو وہ درست ہو گا، مگر وہ دولت کی پجاری نکلیں اور جاگیر ملتے ہی اپنے باپ کو تڑپنے کے لئے چھوڑ گئیں۔ 

نئی سوچ جو کہ نئے علوم کو مروج کرنے کے لئے کوشش کر رہی تھی تعمیری سے زیادہ تخریبی تھی۔مارلو کے ڈرامے ’مالٹا کا یہودی‘ کے آغاز میں نکولائی میکاولی کا بھوت، مکیاول کی صورت میں یہ اعلان کرتا ہے کہ’’ طاقت خیراور شر سے بے پروا ہے، اور لا علمی سب سے بڑا گناہ ہے۔‘‘ 1597ء میں فرانسس بیکن نے ’علم کو طاقت‘ قرار دیا ۔ یعنی اس کے نزدیک علم طاقت کے حصول کا ذریعہ تھا۔ مگر اس نظریے کو حقیقت بننے میں ابھی بڑی جدو جہد اور قربانیوں کی ضرورت تھی۔ فاسٹس انتظار نہیں کر سکتا ۔ اسے طاقتور بننا تھا ۔ مفید علوم کے ذریعے نہیں تو سفلی علم کے ذریعے ہی سہی اور یہی اس کا المیہ ہے ۔یہاں ہم ایک اور بات کی طرف اشارہ کر دینا مناسب سمجھتے ہیں کہ اس دور میں نچلے طبقے کے افرادکے ذہنوں میں یہ سوچ جگہ بنانے لگی تھی کہ اگر وہ صدیوں سے روا جاگیرداری کے ظلم و استبداد کا مقابلہ کرنا چاہتے ہیں تو انھیں علوم اور دیگر ذرائع سے وہ طاقت حاصل کرنا ہوگی جو بادشاہ فوج اور قلعوں کے ذریعے حاصل کرتا ہے۔ 

فاؤسٹ کے پیش نظر یہ مسئلہ نہیں ہے۔ دو سو سال گزرجانے کے ساتھ ہی حالات بہت کچھ بدل چکے ہیں۔ فاؤسٹ انقلاب فرانس کے بعد کی روشن دنیا میں رہتا ہے۔ روشن خیالی نے عظمت انسان کے گیت کو ایک نئی طاقت بخش دی تھی۔ صنعتی ترقی کی وجہ سے نئے امکانات اور نئی راہیں کھل گئی تھیں۔ اور ایسے حالات جنم لے رہے تھے جن میں ایک عام انسان اپنی محنت کے بل پر معاشرے میں ایک مقام حاصل کر سکتا ہے۔گوئٹے کے سامنے مسئلہ یہ تھا کہ کیسے ایک پیٹی بورژوا(متوسط طبقے کا فرد) شرافت اور نجابت کا وہ مقام حاصل کر سکتا ہے جو ایک نواب یا جاگیردار کو حاصل ہے۔ اپنے ناول ’ولیم میستر کی تعلیم‘ میں اس نے اس مسئلے کی طرف کئی مقامات پر اشارہ کیا ہے۔ ایک جگہ ولیم میستر اپنے دوست اور ہونے والے بہنوئی کو ایک خط میں لکھتا ہے کہ اعلیٰ اور متوسط طبقے کے افراد میں فرق یہ ہے کہ اعلیٰ طبقے کے فرد کو وہ جاہ اور مقام بغیر کسی مشقت کے مل جاتا ہے جسے حاصل کرنے کے لئے متوسط طبقے کا فردجی جان لگا دیتا ہے۔ اس کی تمام اعلیٰ صلاحیتیں اور توانائیاں اسی مقام کے حصول میں صرف ہو جاتی ہیں۔ گوئٹے اعلیٰ طبقے سے ڈاکٹر فاسٹس کی طرح ناراض نہیں ہے کہ ان نے ناحق اس کے حق پر قبضہ کر رکھا ہے۔ بلکہ وہ اعلیٰ طبقے کی اس برتری کا معترف اور قدر دان ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ متوسط طبقہ بھی اپنی محنت سے یہ شریفانہ مقام حاصل کر لے۔ 

اگرہم اس روشنی میں فاؤسٹ کا مطالعہ کریں تو ہمیں یہ سمجھنے میں ذرا برابربھی دقت نہیں ہو گی کہ فاؤسٹ کا موضوع انیسویں صدی کے آغاز میں پوری انسانیت کی جدو جہد کی پیش کش ہے۔ یہ وہ زمانہ ہے جب صنعتی انقلاب نے مافوق الفطرت کے تصور کو ایک زبردست جھٹکا دیا تھا۔ کل تک جو چیزیں انسان کی پہنچ سے باہر تھیں اب اس کی دسترس میں تھیں۔ اور یہ اختیار اسے روپیہ اور اس سے جڑا طاقت کا نیا تصور دے رہا تھا جو صرف اس دورِ سرمایہ داری میں ہی ممکن تھا۔ روپے کی اس طاقت پر تبصرہ کرتے ہوئے جارج لوکاش لکھتا ہے:

’’شیطان کی سونے کے لیے ننگی ہوس دور رس اور عام ہے۔ یہ ایک ایسی چیز ہے جو طبقات میں بٹے تمام معاشروں کے لیے مفید ہے۔انسان کی توسیع اور دوسرے انسانوں اور حالات پر اس کے اختیار کی حیثیت سے روپے کی مخصوص سرمایہ دارانہ اہمیت کو مفسٹو ان الفاظ میں بیان کرتاہے۔
اگر میں چھ گھوڑوں کا خرچ اٹھا پاتا
تو کیا ان کی طاقت میری اپنی نہ بن جاتی
میں دوڑتا پھرتا اورمیں اصلی انسان ہوتا
جیسے کہ میرے چوبیس سُم ہوں‘‘(جارج لوکاش،فاؤسٹ کا مطالعہ،’’ گوئٹے اور اس کا دور‘‘، ص198)

یہاں لوکاش نے ایک بڑی پتے کی بات کی ہے۔ نئی سماجی بنتریں اپنے ارتقا کے لئے ابلیس سے رجوع کر رہی تھیں۔ ابلیس کوئی ایسی پُر اسرار طاقت نہیں تھا جو خارج سے انسان سے رابطہ کرتا ہے اور اس پر اثر انداز ہوتا ہے۔ وہ تو اس کے اندر اس کی آرزو مندی، اختیار کی ہو س اور سماج میں اپنے رتبے کو بلند کرنے کی خواہش میں رچا بسا ہوا تھا ۔ وہ اس کے سماجی تعلقات میں ربط کی صورت میں موجود تھا اور اس کا اظہار روپیہ اور اس سے جنم لینے والا بے پناہ اختیار تھا جو انسانی رشتوں کی جڑت کے وسیلوں کو بدل رہا تھا اور انھیں غیر انسانی بنا رہا تھا۔ گوئٹے نے اسے محسوس کیااور اسے فاسٹس کی قصے کی ایک نئی تشکیل کے ذریعے پیش کیا۔ گوئٹے کے اس کارنامے کا ذکر کرتے ہوئے جارج لوکاش لکھتا ہے:

’’داستان کو بنیاد بنانے سے ماخذات کی تاریخ کو جاننا آسان ہو جاتا ہے ۔گورکی یہ ماننے میں حق بجانب تھاکہ’’ فاؤسٹ جیسی کہانیا ں تخیل کا ثمر نہیں ہیں بلکہ یہ ایسے مبالغات کی دین ہیں جو لازمی ہیں اور اصلی حقائق کے قوانین کے عین مطابق ہیں۔یہ زندگی کے عظیم ،حقیقی اور تاریخی میلانات ہیں جنہیں ان کے اصل پر بحال کیا گیا ہے۔اور اس سطح پر انہیں لوگوں کی شاعرانہ مشق نے ٹھوس کرداروں کی شکل دے دی ہے۔ان کرداروں میں نوجوان گوئٹے نے ایک دور کے انتہا ئی گہرے مسائل کی زندہ اور واضح جھلک دیکھی اور ساتھ ہی اس نے ان میں اپنی زندگی اور دور کے انتہائی اذیت دہ مسائل کی علامات بھی دیکھیں۔
اس داستان کے ساتھ ا س کی اپنی تقدیر کی مماثلت اور اس داستان کی اصلی تشکیلِ نوجو اس مماثلت سے بتدریج نمو پاتی ہے ۔ یہ خوامخواہ اس سے نتھی نہیں کی گئی اور نہ ہی یہ ایک غائرموضوع میں اس کی اپنی موضوعیت کا بے جوازتداخل ہے،بلکہ یہ قومی شعورِ ذات کا یا یوں کہیے کہ نوعِ انسانی کے شعورِ ذات کا مخصوص اور خود اختیار ارتقاء ہے۔گوئٹے کا عہد، خاص کر نوجوان گوئٹے کا عہد ،ابھی اس قابل تھا کہ وہ دیومالا کی داستانوی روایت کو مربوط انداز میں ڈھال سکتا تھا۔‘‘(جارج لوکاش،فاؤسٹ کا مطالعہ،’’ گوئٹے اور اس کا دور‘‘، ص159)

آگے چل کر وہ لکھتا ہے:

’’یہ کوئی اتفاق نہیں ہے کہ نیکی اور بدی کی جدلیات کی اس نئی نوع کا ادراک سب سے پہلے سرمایہ داری کے ارتقاء کے انتہائی زیرک مشاہدین نے کیا۔‘‘
(جارج لوکاش،فاؤسٹ کا مطالعہ،’’ گوئٹے اور اس کا دور‘‘، ص198)

(۵)

فاؤسٹ کے قصے کی دیگر فنکارانہ پیش کشیں:

اب تک کے مطالعے میں یہ بات عیاں ہو گئی ہے کہ فاؤسٹ کا قصہ اپنے محیط میں انسانیت کا مقدر لئے ہوئے ہے۔ یہ خیر و شر کی وہی جنگ ہے جو تخلیق آدم سے لے کر جاری ہے۔ دونوں قوتیں آغاز سے انسان کی روح کے حصول کے لئے کوشاں ہیں ۔ اب یہ مسئلہ اپنی جگہ بڑی اہمیت کا حامل ہے کہ کیا انسان کی فلاح صرف خیر میں ہے یا اس میں شر کا بھی کوئی حصہ ہے۔کیایہ دونوں قوتیں جو ایک مابعد الطبیعاتی سطح پر انسان کے لئے برسرِ پیکار ہیں انسانیت کو آگے بڑھانے میں مدد گار ثابت ہوتی ہیں ؟ لوکاش اس مسئلے کو اس طرح تشکیل دیتا ہے:

’’اس طرح ایک جدوجہدکا آغاز ہوتا ہے جس میں ایسے انجام شامل ہیں جوہمیشہ غیر یقینی ہوتے ہیں اور فاؤسٹ کے لیے مستقل خطرہ ہیں۔نیکی کا بیج بدی میں پنہاں ہو سکتاہے ۔لیکن اسی طرح ،یہ ممکن ہے کہ سب سے ارفع احساس کے دھارے میں شیطانی سوت ملی ہو، یا شیطانی(وصف )اس سے پھوٹ نکلے۔ استرے کی دھار پر یہ ٹکاؤفاؤسٹ کے اندرونی ڈرامے کی تشکیل کرتاہے۔‘‘(جارج لوکاش،فاؤسٹ کا مطالعہ،’’ گوئٹے اور اس کا دور‘‘، ص197)

اس نئی تشکیل کی روشنی میںیہ مسئلہ کسی ایک مخصوص دور یا زمانے سے متعلق نہیں رہتا بلکہ تاریخی بن جاتا ہے جس سے مراد یہ ہے کہ اپنی اندورنی حرکت سے خود کو بڑھاتا ہے اور بدلتے ہوئے تاریخی تناظر میں اس کا مافیہا اور ہیئت اور اس کے ساتھ ساتھ اس کی پیش کش بھی بدل جاتی ہے۔ لیکن اس بدلی ہوئی شکل میں اس کی نظریاتی اساس خیر اور شر کے تصادم اور انسان کے لئے ان کی کش مکش کی صورت میں قائم رہتی ہے۔ 

(۶) 

جس زمانے میں جرمن گوئٹے اپنی نظم کا دوسرا حصہ ختم کر رہا تھا فرانس میں ایک اور عظیم حقیقت نگار اپنی پہلی بڑی فنکارانہ کامیابی کے لئے دوڑ دھوپ کر رہا تھا۔ اس حقیقت نگار کا نام بالزاک تھا ۔ اسے اپنی پہلی بڑی کامیابی اس کے شہرہ آفاق ناول ’جنگلی گدھے کی کھال‘یا ’جادوئی کھال‘ (1831ء )سے ملی۔یہ ناول اس کی کلیات’طربیہ انسانی‘(جس میں سو کے قریب ناول شامل ہیں)میں ’فلسفیانہ مطالعوں‘ کے زمرے میں شامل ہے اور اس موضوع پر اس کا سب سے اہم ناول ہے۔ اس کا موضوع بھی انسان کی آرزو مندی ہے جس کی تکمیل کے لئے جب وہ خیر سے مایوس ہو جاتا ہے تو شر کی طرف رجوع کرتا ہے۔ ناول کا مرکزی کردار رفائیل ڈی ویلن ٹائین ایک باصلاحیت نوجوان ہے ۔ مگر اس کی صلاحیتیں اس کے لئے اعلیٰ سوسائٹی کے دروازے کھولنے میں ناکام ہیں جہاں رتبے اور تعلقات کا مطلب بے پناہ دولت ہے۔ ناول کے آغاز میں رفائیل ایک قمار خانے میں اپنا آخری سونے کا سکہ ہار کر خود کو ڈبونے کے لئے دریائے سین پر جاتا ہے ۔ مگر دن کی روشنی میں خود کشی کرنا ، جب کہ سبھی اس کا تماشا کر رہے ہوں، اسے باوقار عمل نہیں لگتا۔ وقت گزاری کے لئے وہ نوادرات کی ایک دکان میں چلا جاتا ہے جہاں دکان کا مالک اسے ایک گدھے کی کھال دکھاتا ہے جس میں یہ جادوئی طاقت ہے کہ وہ الہ دین کے چراغ کے جن کی طرح اپنے مالک کی ہر خواہش پوری کر سکتی ہے مگربدلے میں اس کا جسم اور روح اس کی ملکیت ہو گا۔ اس کھال پر عربی زبان میں لکھا تھا کہ اس کے مالک کی ہر خواہش کے پورے ہونے پر یہ سکڑ جائے گی اور ساتھ ہی مالک کی زندگی بھی کم ہو جائے گی۔ دکان کا مالک رفائیل سے کہتا ہے وہ اسے یہ کھال مفت میں دے سکتا ہے مگر وہ اسے مشورہ دیتا ہے کہ یہ سودا نہ کرے۔ مگر رفائیل کے لئے،جو پہلے ہی خود کشی کرنے جا رہا تھا ، زندگی اور موت اب بے معنی خیال تھے ۔وہ بڑے جوش کے ساتھ یہ ’فاؤسٹ جیسا‘ سودا قبول کر لیتا ہے۔سب سے پہلے وہ ایک شاہی ضیافت کی خواہش کرتا ہے جو جلد قبول ہو جاتی ہے۔ اسے کچھ دوست احبا ب ملتے ہیں جو اسے ایسی ضیافت کی دعوت دیتے ہیں۔ گھر آ کر وہ کھال کو نکال کر دیکھتا ہے تو اسے تھوڑاسکڑا پاتا ہے۔ وہ اپنے اس مقدر پر بڑا خوش ہوتا ہے اور پھر جو خواہش کرتا ہے وہ پوری ہوتی جاتی ہے۔ وہ کھال کوبھول جاتا ہے اور اپنی مستی کی زندگی میں غرق ہو گیا۔ تاہم آہستہ آہستہ اس کا جسم گھلنے لگا وہ بیمار رہنے لگا۔ اس نے کھال کو نکال کر دیکھا تووہ پیری ونکل(ایک سد ابہار بیل ) کے پتے جتنی سکڑ چکی تھی۔ ویلن ٹائین سمجھ گیا کہ اب مزید خواہش اس کی ہلاکت کا سبب بنے گی ۔اس لئے خود کو مدنی زندگی سے دور ایک ویرانے میں بند کر لیا اور لوگوں سے ملنا ملانا ترک کر لیا ۔۔۔

اگر ہم اس ناول کا تجزیہ کریں تو ہمیں اس میں بھی انسان کی وہی درماندگی، تہی دامانی اور ناآسودگی نظر آتی ہے۔ناول کے آغاز میں بالزاک انسان کی اس بے بسی پر یو ں اظہار خیال کرتا ہے

’’انسان ہمیشہ اپنے آپ سے جھگڑتارہتا ہے۔ اس کے موجودہ غم اس کی امیدوں کا منہ چڑاتے ہیں، پھر بھی ایک ایسے مستقبل کی تمنا کرتا ہے جو ا س کا نہیں اور جو اس کی موجودہ تکلیفوں کی جزابنے گا۔۔۔۔۔ آسمان کے نیچے ہمیں بد بختی کے سواکچھ بھی پورا نہیں ملتا ۔ ‘‘

باصلاحیت ہونے کے باوجود رفائیل کے لئے اعلیٰ طبقے تک رسائی کے تمام راستے بند تھے۔ اس کی اس بے بسی اور نا آسودگی میں اس کی مالک مکان کی بیٹی، پولین اس کی غم گسار تھی ۔ وہ اس سے بے لوث اور بے ریا محبت کر تی ہے مگر رفائیل اس کی اس پُر خلوص محبت کو سمجھنے سے قاصر ہے کیونکہ اس کی نظریں کہیں اور لگی ہوئی ہیں۔ وہ ایک ’سنگ دل عورت‘ سے محبت کر تا ہے جوا سے اس کی غربت کی و جہ سے ٹھکرا دیتی ہے ۔ مایوسیوں کی بھیڑ میں الجھا ہوا جب وہ قمار خانے کی سیڑھیاں چڑھتے وقت اپنی ٹوپی اتار کر بوڑھے چوکیدارکے حوالے کرتا ہے تو وہ گویا ایک ابلیسی رسم ادا کر رہا ہے ۔ وہاں سے نامراد جب وہ دریائے سین میں خودکشی کرنے کے ارادے سے بڑھتا ہے تو ابلیس ا س کی خوبصورت روح کو حاصل کرنے کے لئے باہیں پھیلائے کھڑا ہو گا۔ مگر جب وہ خودکشی کرنے کے ارادے کو تھوڑی دیر کے لئے ملتوی کرتا ہے تو بُرائی کی یہ قوت اس خدشے کے پیشِ نظر کہ کہیں وہ اپنا ارادہ ترک نہ کر دے اس کے لئے ’’جادوئی کھال‘‘ کا ایک پھندا تیار کرتی ہے جس میں وہ بخوشی پھنس جاتا ہے اور سودے کے مطابق اس کی ہر آوارہ خواہش پوری ہونے لگتی ہے۔ یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ بالزاک جیسے حقیقت پسند کے لئے یہ بات بالکل عیا ں تھی کہ پولین کی محبت کو نظر انداز کر کے رفائیل جس زندگی کی خواہش کر رہا تھا اس کا حصول انیسویں صدی کے یورپ کی سماجی بنتر وں میں شیطان کے ساتھ سودے کے بغیر ناممکن تھا۔ ہر تعلق کی قیمت انسان کے جہنم کی طرف بڑھتے قدموں سے چکائی جاتی تھی ۔ اس تصور کو بالزاک نے ایک مافوق الفطرت نوعیت کی طلسماتی کھال کے ذریعے بڑی کامیابی سے پیش کیا ہے۔ بالزاک کے اس کارنامے کا تذکرہ کرتے ہوئے جارج لوکاش لکھتا ہے:

’’یہ کوئی اتفاقیہ امر نہیں کہ فاؤسٹ کے دوسرے حصے کا اختتام تقریباًاس دور میں ہو اجس میں بالزاک کا ’جنگلی گدھے کی کھال‘ منظرِ عام پر آیا۔یہ حقیقت نگاری کا ایسا شاہکارہے جس نے ’فنکاری کے دور‘ کا اس میں برتی گئیں تخیل آمیزرومانوی ساختوں کی صورت میں خاتمہ کیا۔ جبکہ فاؤسٹ میں ’فنکاری کے دور‘ کی عظیم حقیقت پسندیت تخیل آمیز تمثیلی ساختوں کی صورت میں وداع لیتی ہے۔بالزاک کے ہاں ہمیں جدید ناول کا شاندار آغاز ملتا ہے جس میں سرمایہ دارانہ زندگی کے بیک وقت حقیقی اور ہیولیائی کردار چلتے پھرتے نظر آتے ہیں۔‘‘(جارج لوکاش،فاؤسٹ کا مطالعہ،’’ گوئٹے اور اس کا دور‘‘، ص157)

(۷)

بیسویں صدی کے بڑے ناول نگاروں میں جرمنی کے عظیم حقیقت نگار، ٹامس مان (Thomas Mann) کا نام سرِ فہرست ہے۔ اس کے ایک ناول ’’جادوئی پہاڑ‘‘(The Magic Mountain) میں ایک باب ’برف‘(Snow) کے نام سے ہے۔ ہم یہ دعوے سے کہتے ہیں کہ اگر پوری دنیا کے اعلیٰ ادبی نمونوں کا انتخاب کیا جائے تو یہ باب ان میں ضرو ر شامل ہو گا۔ اس کی جمالیاتی تشکیل میں ٹامس مان نے اپنی تمام فنکارانہ توانائیاں صرف کر دیں۔مگر اس میں ہمیں ایک ایسا ہولناک اور گھناؤنا منظر بھی دکھایا جاتا ہے جو ہماری روح کو ٹھنڈا کر دیتا ہے اور فنکار کا کما ل یہ ہے کہ ہم ناول کے ہیرو کی طرح اپنی روح کی پوری توانائیاں صرف کر کے بھی اس سے نظریں نہیں ہٹا سکتے ۔ہم یہاں سارے باب کو پیش نہیں کریں گے۔ ہماری غرض اس کے آخری حصے سے ہے۔ ناول کا ہیروہینس کاسٹروپ(Hans Castrop) برف کے طوفان میں ارادتاً اپنے ساتھیوں سے بچھڑ جاتا ہے اور ایک جگہ برف میں اس کی ٹانگیں اس طرح دھنس جاتی ہیں کہ وہ کوشش کے باوجود انھیں نکال نہیں پاتا۔ اس حالت میں وہ اس تیز شراب کا استعمال کرتا ہے جووہ بے دھیانی میں اپنے ساتھ لے آیا تھا ۔ اس کا اثر اتنا تیزہوتا ہے کہ وہ جلد ہی بے سدھ ہو جاتا ہے۔ اسی عالم میں وہ ایک خواب دیکھتا ہے۔ وہ اپنے آپ کوجنوب کے ایک ساحلی علاقے میں پاتا ہے جو اس کے ساحلی علاقے سے متعلق تمام تصورات سے منفرد اور جمیل تر ہے ۔ یہاں سورج اور سمندر کے پالے لوگ(Children of Sun and Sea) رہتے ہیں۔ وہ اپنی گزران بے فکری میں کرتے ہیں۔ نوجوان لڑکے گھوڑ سواری اور تیراندازی کی مشقیں کر رہے ہیں۔ ایک لڑکی ایک جگہ بیٹھی پانی سے کھیل رہی ہے اور دوسری لڑکیاں اس کے گرد ناچ رہی ہیں اور گیت گار ہی ہیں۔ چھوٹے بچے بے پروائی سے اپنے کھیلوں میں لگے ہیں۔ ہر کوئی اپنی سر خوشی میں مگن ہے اور دوسروں کی سرگرمیوں کو عزت آمیز محبت سے سراہ رہا ہے اور خوش ہو رہا ہے۔ایسا لگتا ہے کہ انھوں نے جسم اور دماغ، انفرادیت اور اجتماعیت کے درمیان مکمل ہم آہنگی کو پا لیا ہے۔ ہینس کاسٹروپ ان کی اس سرمستی، خوشی ، تازگی اور صحت مند احساس کو سراہتا ہوا آگے بڑھتا ہے تو اس کی نظر ایک ماں پر پڑتی ہے جو اپنے بچے کو دودھ پلا رہی ہے ۔ جو شخص بھی اس کے قریب سے گزرتا ہے وہ اپنے سینے پر ہاتھ باندھ لیتا ہے اور مسکراتے ہوئے سر جھکا لیتا ہے۔کنواری لڑکیاں اپنی احسان مندی کا اظہار کرتے دکھائی دیتی ہیں۔ یہ نظارہ ایسا ہی تھا جیسے کوئی پچاری کسی مقبرے کے پاس سے گزرتا ہے تو وہ ہاتھ باندھ کر یا سر جھکا کر اپنی عقیدت اور دلبستگی کا اظہار کرتا ہے۔ ہینس کاسٹروپ ابھی اسی منظر میں محوتھا کہ اس کی نظر ایک نو عمر بچے پر پڑتی ہے جوا س کے قریب ہی بیٹھا ہے ۔ اس کی متفکر نظریں آسمان کی طرف اٹھی ہوئی ہیں۔ جب کا سٹروپ سے اس کی آنکھیں چار ہوتی ہیں تو اس کی چہرے پر کھیلتی مسکراہٹ غائب ہو جاتی ہے۔ وہ بڑے اضطراب کے عالم میں ایک سمت کو دیکھتا ہے ۔ بے اختیاری میں کاسٹروپ اس طرف چل پڑتا ہے ایک گلی سے گزر کر وہ خود کوایک مقبرے کے سامنے کھڑا پاتاہے ۔اس کے ستونوں سے گزرتا ہوا وہ ایک کمرے میں پہنچ جاتاہے جہاں دوچڑیل نما بوڑھی عورتیں ایک نوزائیدہ بچے کے حصے بخرے کر رہی ہوتی ہیں۔ کاسٹروپ ان کے غلیظ جبڑوں میں اس بچے کی نرم ہڈیوں کی ٹوٹنے کی آواز سن سکتا ہے۔وہ ان کے ہونٹو ں پر جمے خون کو دیکھ سکتا تھا۔ اس کا جسم ٹھنڈا پڑ گیا ۔ وہ چاہتا تھا کہ اپنی آنکھیں بند کر لے اور وہاں سے بھاگ کھڑا ہو، مگر وہ ایسا نہ کر سکا۔ چڑیلوں نے اسے دیکھ لیا تھا ۔وہ اسے مکے دکھانے لگیں اور اس کی قصباتی زبان میں اسے گالیاں دینے لگیں۔ ہینس کاسٹروپ نے لاکھ کوشش کی کہ وہاں سے بھاگ کھڑا ہو مگر وہ ایسا کر نہ پا یا ۔ اسے یوں محسوس ہوتا ہے کہ اس کے پاؤں دلدل میں دھنسے جاتے ہیں۔۔۔ (ٹامس مان، جادوئی پہاڑ،ص491-94) 

(۸)

اب تک ہم نے جن فن پاروں کا جائزہ لیا ہے ان میں ایک فرد پوری انسانیت کی حسرتوں میں بدلی جارہی آرزوؤں کو حقیقت بنانے کے لئے خیر اور شر کی متحارب قوتوں کی اس کی روح کے لئے کش مکش کے درمیان اپنے دور کے مخصوص رویوں اور مافیہا کی نمائندگی کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے اور اس طرح پوری انسانیت کے مقدر کو پیش کرتا ہے۔ فاسٹس، فاؤسٹ اور رفائیل حقیقی زندگی کے کردار ہوتے ہوئے بھی ایک بلیغ علامت اور استعارے کی بدلتے سماجی تناظر کے ساتھ بدلتی ہوئی شکلیں ہیں جن کی اصل ایک ہی ہے۔ یہ استعارہ ہر اس انسان کے مقدر کی نمائندگی کرتا ہے جو وہ حاصل کرنا چاہتا ہے جو اس کے مخصوص تاریخی اور سماجی حالات میں ناممکن ہے اور جس کی خاطر وہ اپنے دور کے الہیاتی، سماجی اورفکری سانچوں کو توڑ کر ان سے اوپر اٹھنے کی کوشش کرتا ہے مگر انسانی حدود میں رہتے ہوئے وہ ایسا نہیں کر سکتا ۔اس لئے خیر(مفید علوم) سے مایوس ہو کر شر(جادو )کا سہارا لیتا ہے اور اپنی روح کا سودا کرتا ہے ۔ مگر ظاہر ہے کہ کوئی فنکار بھی بُرائی کو جیتتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا ۔ صداقت اسے اس کی طرف رہنمائی کرتی ہے کہ وہ ہمیں اس کابُراانجام دکھائے مگر اس طرح کہ یہ انجام ابلیس کی ہاراور انسان کے روحالی ارتفاع کا طربیہ بنے ۔ یہاں خدا اور فن کار ایک ہو جاتے ہیں ۔ فنکار کے’’ صریرِ خامہ‘‘ سے نکلتی ’’نوائے سروش‘‘ ہمیں اس کی خبر دیتی ہے کہ یہ ’’اسفل سافلین‘‘ کی تاریکیوں میں جس قدر چاہے ،اتر جائے’’احسن تقویم‘‘ کی روشنی اس کے دل کو منور کئے رکھتی ہے۔(چوں کہ ہم موضوع کے تعین میں یہ تحدید کر آئے ہیں کہ ہم صرف فاؤسٹ کے ایک پہلو -شیطان سے سودے- کو موضوع بنائیں گے اس لئے ہم اس نکتے کو فی الحال تشنہ وضاحت چھوڑدیتے ہیں۔)

(۹)

ٹامس مان کے ناول ’’جادوئی پہاڑ‘‘ کے متذکرہ بالا باب ’برف‘ میں پہلی پیش کشوں کی طرح ایک فرد انسانیت کے مقدر کی نمائندگی نہیں کرتا بلکہ پورا قبیلہ اس میں حصہ لیتا ہے۔یہاں فرد اور اجتماع ایک خاموش سمجھوتے میں بندھے نظر آتے ہیں۔ٹامس مان بڑی فن کارانہ ہوشیاری سے ہمیں ایک منظر دکھاتا ہے اور جب ہم اس میں کھوئے ہوتے ہیں تو دوسرے جمیل تر منظر کو ہمارے سامنے لے آتا ہے اور اس متحرک جمالیاتی حظ کی رو میں بہتے ہوئے ہم لاشعوری طورپر ممنوعہ حدود میں داخل ہو جاتے ہیں، جہاں ہمیں نہیں ہونا چاہئے۔ لیکن وہاں ہمارا ہونا اپنے اندر ایک لازمیت لئے ہوئے ہیں جو ہماری روح کے تاریک ترین گناہوں کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔یہ گناہ ہمارے اجتماعی لاشعور میں نجانے کتنی صدیوں سے دبے پڑے ہیں۔جب کوئی منظر ، خیال یا احساس ان کو کریدتا ہے تو ہم اس سے اسی طرح متاثر ہوتے ہیں جس طرح ہینس کاسٹروپ۔ ہینس کاسٹروپ کے ساتھ ہم بھی دو سطحوں پر سفر کرتے ہیں ،ایک خارجی اور دوسری داخلی ۔ ہم اسی کی طرح دوسطحو ں پر اس سے متاثر بھی ہوتے ہیں، ایک جسمانی اور دوسری روحانی۔ مگر یہ خارجی اور داخلی ، جسمانی اور روحانی کے تضادات محض تفہیمی سطح پر ہیں۔ حقیقت میں کوئی تضاد نہیں ہے۔ ہماری سوچ ہمارے اعمال میں ظاہر ہوتی ہے اور ہمارے اعمال ہماری سوچ کی طرف نشان دہی کرتے ہیں۔ اس طرح ان دونوں میں کوئی حقیقی اختلاف نہیں۔

مگر ان ’’سورج اور سمندر کے پالے ‘‘لوگوں نے اس تضاد سے گریز کی خاطر ایک مفاہمتی راہ نکال لی ہے۔ وہ فرد اور اجتماع، مسرت بخش اور ہولناک کے درمیان ایک سمجھوتے ، ایک سودے میں بندھے ہیں ۔سودے کی شرائط ہمیشہ کے لئے طے کر دی گئی ہیں۔ وہ اس طرح بسران کر رہے ہیں کہ جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ وہ اسے بھلائے ہوئے ہیں۔ یہ حقیقت ہر وقت ان کے سامنے رہتی ہے کہ اس پار مقبرے میں دو چڑیلیں ان کے نوزائیدہ بچے (جسے ابھی ابھی گرم دودھ پلایا گیا ہے)کو چیر پھاڑ رہی ہیں ۔جب وہ بچے کو دودھ پلانے والی ماں کوعقیدت اور احسان مندی سے دیکھتے ہیں تو یہ منظر اپنے اندر اتنی عابدانہ روحانیت لئے ہوتا ہے کہ: 

’’اس نظارے نے ہینس کاسٹروپ کے دل میں ایک سنسنی پیدا کر دی جو شاید وجد (دیوانگی) سے ملتی جلتی تھی۔ وہ اس کی تاب نہ لا سکا۔ پھر بھی وہ تذبذب کے عالم میں خود سے پوچھ رہا تھا کہ کیا اسے اس کا حق ہے، کیا یہ جرم قابل گرفت نہیں ہے ، اس کے لئے ، جو ایک اجنبی ہے، کہ وہ اس مسرور جماعت کی دھوپ کی طرح تازہ اور مہربان خوبصورتی کا حصہ بنے۔اس نے (اس جماعت کے درمیان)خود کو عامیانہ اور بھدے جوتوں والا پایا۔(جادوئی پہاڑ، ص 394)

ان لوگوں نے اس ہولناک حقیقت کو بھلا کر جینا سیکھ لیا ہے مگر ہینس کاسٹروپ ، ہمیں اور اس بچے کو(جوشاید انجانے میں یا تجسس میں گرفتار اس مقبرے میں داخل ہو گیا تھا)ابھی اس کے ساتھ جینا سیکھنا ہو گا۔ 

(مختصر یہ کہ انیسویں اور بیسویں صدی میں انگریزی، فرانسیسی، ہسپانوی، فارسی اور اردو سمیت تمام زبانوں کے عظیم شاعروں اور ادیبوں کو ’’فاؤسٹ‘‘ سے زیادہ اور کسی کردار نے جمالیاتی و فکری حوالے سے اتنی شدت سے نہیں جھنجھوڑا۔ مزید برآں تھیٹر، فلم اور آرٹ کی ہر صنف پر گوئٹے کے اس شاہکار نے انمٹ نقوش ثبت کئے ہیں۔ گوئٹے جہاں اپنے عہد کی ٹھوس حقیقتوں کی درست منظر کشی کرتا ہے وہیں وہ آج کے قاری اور ناظر کے لئے بھی اتنا ہی سامانِ حظ مہیا کرتا ہے۔ یہی ایک حقیقت پسند ادیب کا بنیادی خاصہ ہوتا ہے جو اپنے جمالیاتی کام کی بنیاد معروضی حقائق سے اخذ ضرور کرتا ہے مگر ساتھ ہی اس ’’ادبی سچائی‘‘ کو پا لیتا ہے جو زمان و مکاں کی قید سے آزاد ہو کر آفاقیت کا روپ دھار لیتی ہے۔ فاؤسٹ آج بھی اسی ’’ادبی سچائی‘‘ کا وہ جگمگاتا آفتاب ہے جس سے نئی نسل کا ہر قاری اور ادیب بقدرِ ظرف روشنی کشید کر سکتا ہے۔ایڈیٹر کا نوٹ) 

Tags: × ×

Comments are closed.