خیبر پختونخوا: سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 25 فیصد اضافے کا اعلان۔۔جدوجہد جاری رہے گی!

|رپورٹ: ریڈ ورکرز فرنٹ، پشاور|

خیبر پختونخوا گورنمنٹ کی طرف سے 26 مئی کو سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 25 فیصد اضافے کا فیصلہ سنا دیا گیا ہے، جسے آئندہ ماہ جون میں پیش ہونے والے نئے سال کے بجٹ میں عملی جامہ پہنایا جائے گا۔ وفاقی حکومت کی جانب سے یہ اضافہ سب سے پہلے رواں سال 10 فروری کو وفاقی ملازمین کے حق میں کرنا پڑا جبکہ آج سے کچھ دن پہلے یعنی مئی کے درمیان میں پنجاب حکومت اور پھر 26 مئی کو خیبر پختونخوا حکومت کو بالآخر یہ فیصلہ کرنا پڑا۔

حکومتی وزراء اس فیصلے کو حکومتی رحم دلی کی مثال بنا کر پیش کر رہے ہیں۔ اس فیصلے کے بعد صوبائی وزیر تیمور سلیم جھگڑا کو یہ کہنا پڑا کہ یہ قدم ورکرز کے احتجاجوں کے دباؤ میں آ کر نہیں لیا گیا بلکہ حکوت کو ورکرز کی مشکلات کا شدید احساس ہے اس لیے حکومت نے اپنے ملازمین کے دکھ اور مشکلات کو کم کرنے کے جذبے کے تحت یہ قدم اٹھایا ہے۔

یہ بذات خود ایک ثبوت ہے کہ یہ فیصلہ صوبائی اور وفاقی ملازمین، اور خاص طور پر اگیگا کے پچھلے ایک سال کی شاندار مزاحمت کے دباؤ میں آکر اٹھایا گیا، تب ہی تو وزیر صاحب کو یہ وضاحت دینی پڑی ہے۔ اس بنیاد پر اگیگا کے وہ تمام کارکنان، وفاقی اور صوبائی ملازمین خراج تحسین کے مستحق ہیں جنہوں نے پچھلے ایک سال سے ہر قسم کی مشکلات، کورونا وبا، لاک ڈاؤن اور حکومتی جبر، جیلوں، لاٹھی چارج اور آنسو گیس کو برداشت کرتے ہوئے اپنے حقوق کیلئے جدوجہد جاری رکھی اور حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا۔

27 اپریل کو اگیگا خیبر پختونخوا کی طرف سے رمضان سے ایک دن پہلے ملتوی کیے گئے احتجاجی دھرنے کو دوبارہ شروع کرنے کا اعلان کیا گیا تھا۔ اس دھرنے کے دباؤ میں آکر حکومت نے دھرنے سے ایک دن پہلے اگیگا کے نمائندوں کے ساتھ مذاکرات کیے اور ان کا مطالبہ مان لینے کا اعلان میڈیا پر کیا گیا۔

اگیگا اور پاکستان بھر کے سرکاری ملازمین کیلئے یہ ایک بڑی کامیابی ہے کہ بالآخر حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرکے انہوں نے یہ ثابت کیا کہ پاکستان کے محنت کش و سرکاری ملازمین کمزور نہیں ہیں بلکہ وہ اپنے زور بازو پر اپنا حق تسلیم کروا سکتے ہیں۔ مگر یاد رہے کہ اگرچہ پچھلے ایک سال کی مسلسل احتجاجی تحریک نے وقتی طور پر حکومت کو ایک قدم پیچھے ہٹنے پر مجبور کردیا ہے، مگر یہ حکومت آئی ایم ایف کی دلال ہے اور مستقبل میں مزدور دشمن پالیسیوں کو زور شور سے لاگو کرے گی۔

اگرچہ تنخواہ ابھی پچیس فیصد بڑھا دی گئی ہے مگر پچھلے تین سال سے مہنگائی بھی آسمان سے باتیں کرنے لگی ہے۔ اس کے مطابق اگر پے سکیل ریوائز کیا جائے تو تنخواہوں کو ضروریات کی سطح تک لانے کیلئے تقریباً 100 فیصد سے بھی زیادہ اضافہ کرنا پڑے گا۔ پاکستان بیورو آف سٹیٹسٹکس کے اعداد و شمار کے مطابق پچھلے تین سال میں مہنگائی میں مجموعی طور پر 30 فیصد اضافہ ہو چکا ہے۔ آٹے کے 20 کلو تھیلے کی قیمت 2018ء کی نسبت تقریباً دو گنا یعنی 1200 روپے کے قریب چل رہی ہے۔ سندھ اور پنچاب کے کچھ شہروں میں تو اس سے بھی اوپر فروخت ہو رہا ہے۔

رواں سال کے پہلے دس ماہ میں 7.5 ارب ڈالر قرض واپسی کی گئی۔ اب آنے والے بجٹ میں ایک بار پھر عوامی پیسے کا بڑا حصہ سامراجی قوتوں کو قرض واپسی میں دیا جائے گا جس کا بوجھ محنت کشوں کے کندھوں پر ڈالا جائے گا۔ یہ سارے قرضے یہاں کے محنت کشوں، سرکاری ایمپلائز اور غریب عوام کے بچوں کی دو وقت کی روٹی چھین کر واپس کیے جائیں گے اور مزید ان کے نام پر قرضے لے کر حکومتی وزیروں، مشیروں، سرمایہ داروں، جاگیرداروں، ملٹری اشرافیہ، ججوں اور سیکرٹریوں تک کی جیبوں میں ڈالے جائیں گے اور ان کے لئے عیاشی کا سامان فراہم کیا جاتا رہے گا۔

آئی ایم ایف کے ساتھ کئے گئے 6 ارب ڈالر کے تین سالا پیکیج کے معاہدے کے تحت حکومت پبلک اخراجات کو کم کرے گی، جس کے نتیجے میں تعلیم کا بجٹ پہلے ہی سے تقریباً ختم کیا جا چکا ہے۔ شعبہ صحت کی نجکاری کرکے اسے پیسہ بنانے کی فیکٹریوں میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ اشیاء خورد و نوش، تیل اور بجلی کی قیمتوں میں ہر ماہ اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ مختصر یہ کہ ریاست اگر محنت کشوں کی شاندار مزاحمت کے دباؤ میں مجبور ہوکر تنخواہوں میں کچھ اضافہ کرتی بھی ہے تو دوسرے ہاتھ سے پہلے سے زیادہ واپس بھی لے لیتی ہے۔

اس کے علاوہ تنخواہوں میں 25 فیصد اضافے کے حوالے سے یہ امکان بھی موجود ہے کہ حکومت ملازمین کو دھوکہ دینے کی کوشش کرے۔ سرکاری ملازمین نے پچھلے پانچ ماہ سے تنخواہوں میں فرق کو کم کرنے کی بنیاد پر 25 فیصد اضافے کیلئے جدوجہد کی ہے۔ مگر حکومت اس میں اس بات کو غائب کرکے صرف اضافہ کرنے کا اعلان کر چکی ہے۔ یہ وہ اضافہ ہے جو کہ حکومت کو ہر حال میں کرنا تھا اور 25 فیصد کی بجائے مہنگائی کے تناسب سے 100 فیصد اضافہ کرنا بنتا تھا مگر اس کے ساتھ ہی 25 فیصد ڈسپیریٹی ریڈکشن الاؤنس کے تحت تنخواہوں میں اضافہ کرنا تھا۔ اس حوالے سے مزید تفصیلات ابھی تک سامنے نہیں آئی ہے اور نہ ہی حکومت نے کوئی وضاحت کی ہے۔

اس تمام تر صورتحال سے ثابت ہوتا ہے کہ جس طرح نجی سیکٹر میں سرمایہ داروں اور مزدروں کے درمیان کشمکش موجود ہوتی ہے اسی طرح حکومت اور محنت کشوں کے بیچ بھی ایک مسلسل کشمکش موجود ہوتی ہے۔ حکومت ہر قدم پر محنت کشوں کو مزید لوٹنے اور ان سے کم تنخواہ اور اخراجات پر زیادہ سے زیادہ کام لینے کی کوشش کرتی ہے، تاکہ بچت کئے گئے پیسے سے سامرجی آقاؤں اور اپنے لئے زیادہ سے زیادہ حصہ حاصل کیا جا سکے، جبکہ مزدور ہمیشہ کوشش کرتے ہیں کہ ان کو زیادہ سے زیادہ تنخوا دی جائے اور ان کے الاؤنسز میں اضافہ کیا جائے، مہنگائی کم ہو تاکہ وہ اپنے خاندانوں کی معاشی ضروریات پوری کر سکیں۔ اس معاشی کشمکش میں حکومت کبھی بھی جذبہ انسانیت کے تحت محنت کشوں کو مراعات نہیں دے گی، بلکہ صرف اور صرف مزاحمت کا راستہ اپنا کر ہی اپنے حقوق حاصل کئے جاسکتے ہیں۔ جبکہ حکومت محنت کشوں کو یہ باور کرانا چاہتی ہے کہ وہ کمزور ہیں اور حکومتی رحم وکرم پر ہی رہنے چاہئیں۔ مگر محنت کشوں کو یہ واضح طور پر سمجھنے کی ضرورت ہے کہ یہ ایک جنگ ہے دو طبقوں کے درمیان، اور اس میں ریاستیں صرف سرمایہ دار طبقے کے مفادات اور منافعوں کا تحافظ کرتی ہیں۔ اس لیے محنت کشوں کی طرف سے حکومت کے وزیروں کی جتنی بھی خوشامد کی جائے یا ان کی جتنی بھی منت سماجت اور درخواست کی جائے ان پر اثر نہیں پڑے گا۔ کیونکہ وہ جن پالیسیوں پر عمل درآمد کرتے ہیں وہ کسی ایک فرد یا کچھ افراد کی ذاتی خواہشات کی بنیاد پر نہیں بنائی جاتیں بلکہ وہ مجموعی طور پر حکمران طبقے کے مفادات کے تحت ہوتی ہیں لہٰذا اگر ایک اچھا، رحم دل اور انسانی جذبے سے سرشار شخص حکمران طبقے کے اندر موجود ہوگا بھی (جس کے موجودہ نظام میں امکانات بالکل نہیں ہیں) تو مجموعی طور پر لوٹ مار کے نظام پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ لہٰذا نظام کو بدلنے کیلئے اگر کوئی طبقہ سب سے اہم کردار ادا کر سکتا ہے تو وہ محنت کش طبقہ ہے۔ محنت کش طبقہ ہی وہ طبقہ ہے جو اس نظام کو چلاتا ہے، لہٰذا یہی وہ طبقہ ہے جو اس نظام کو روک بھی سکتا ہے اور تبدیل بھی کر سکتا ہے۔ آج یہ نظام جس بحران کا شکار ہے یہ محنت کشوں کو مزید کچلتا چلا جائے گا۔ اس نظام میں اب مزید بہتری کی گنجائش موجود نہیں ہے۔ مگر اس کے لئے محنت کش طبقے کو اس نظام اور اس پر پلنے والے سرمایہ دار طبقے کے خلاف کھلی طبقاتی لڑائی یعنی محنت کش طبقے کی سیاسی جدوجہد کا آغاز کرنا ہوگا تاکہ اربوں محنت کشوں کو ظلم، جبر، استحصال سے نجات دلایا جا سکے۔

Tags: × × ×

Comments are closed.