گوجرانوالہ: کرونا لاک ڈاؤن میں بھی سرمایہ داروں کو لوٹ مار کی کھلی اجازت‘ ماسٹر ٹائلز کے مزدور اجرتوں کی ادائیگی کے لیے احتجاج پر مجبور!

|رپورٹ: گلزادہ صافی|

کرونا وبا کو کنٹرول کرنے کے لیے جاری لاک ڈاؤن کو بنیاد بناتے ہوئے جی ٹی روڈگوجرانوالہ پر واقع ماسٹر ٹائیل فیکٹری سیل کردی گئی ہے۔ کرونا وائرس کی وباء کے دوران فیکٹری ملازمین کو مالکان کی جانب سے راشن دینا تو درکنار 5 یونٹس میں کام کرنے والے 5000 سے زیادہ ملازمین کو فارغ کردیا گیا ہے اور فیکٹری کے ذمہ واجب الادا دو ماہ کی تنخواہیں بھی نہیں دی جارہی ہیں۔

آج بارش کے باوجود بہت بڑی تعداد میں ملازمین فیکٹری تنخواہ لینے کے لئے آئے تو گارڈز نے انہیں دھکے دے کر فیکٹری سے نکال دیا۔ مزدوروں کا کہنا ہے کہ گھروں میں ان کے بچے بھوکے ہیں اور فیکٹری مالکان انکی امداد تو درکنار انہیں ان کی تنخواہیں بھی ادا نہیں کر رہے ہیں۔

مزدوروں کا کہنا ہے کہ جب رینجرز کے افسران فیکٹری سیل کرنے آئے تو ہمیں تو لاٹھی چارج کرکے فیکٹری سے نکال دیا گیا پر فیکٹری مالکان کو ان کے ذمہ واجب الادا تنخواہوں کی ادائیگی کا پابند نہیں کیا گیا۔

یہ اس ریاست اور اس ملک کے خون آشام سرمایہ داروں کا اصلی چہرہ ہے۔ ریڈ ورکرز فرنٹ اس عمل کی شدید مذمت کرتا ہے اور مطالبہ کرتا ہے کہ نہ صرف تمام مزدوروں کو فوری طور پر تمام بقایا جات ادا کیے جائیں بلکہ آنے والے عرصے میں بھی پوری تنخواہ ادا کی جائے۔ ایک ایسی صورتحال میں جب حکومت کی جانب سے گھروں میں بیٹھنے کی تلقین کی جا رہی ہے مگر یہ مزدور حالات سے تنگ آ کر احتجاج کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔

ایک طرف یہ سرمایہ دار کرونا وبا اور لاک ڈاؤن کو بنیاد بناتے ہوئے حکومت سے سبسڈیوں اور ٹیکس چھوٹوں کا مطالبہ کر رہے ہیں تو دوسری جانب فیکٹریوں میں کام کرنے والے مزدوروں کو کئی کئی ماہ کی تنخواہیں ادا کیے بغیر گھر بھیج دیا گیا۔ درحقیقت، کرونا وبا تو اس ملک کے سرمایہ داروں کے لیے ایک نعمت بن کر آئی ہے۔ ایک طرف حکومت سے عوامی ٹیکس کے پیسوں سے اربوں روپے کی سبسڈیاں لی جا رہی ہیں تو دوسری جانب محنت کشوں کو واجبات ادا کیے بغیر بیروزگاری کی دلدل میں دھکیل دیا گیا ہے۔ آج کل وزیر اعظم عمران خان دیہاڑی داروں اور مزدوروں کی گردان کرتے نہیں تھک رہے مگر اس حکومت اور ریاستی اداروں کی عین ناک کے نیچے یہ سرمایہ دار لوٹ کھسوٹ اور استحصال کا بازار گرم کیے ہوئے ہیں جس کو نوٹس کوئی لینے کو تیار نہیں۔ سونے پر سہاگہ انہیں سرمایہ داروں کے لیے اربوں روپے کے خصوصی پیکج کا بھی اعلان ہوچکا ہے مگر ان محنت کشوں کا والی واث اس سرمایہ دارانہ نظام میں کوئی نہیں۔ باہر نکلیں تو کرونا سے متاثر ہونے کا خطرہ، گھر میں رہیں تو بھوک اور غربت جان لینے کے درپے ہے۔ پورے ملک میں یہی صورتحال ہے جو سرمایہ دار اپنے منافعوں کو جاری رکھنے کے لیے غیر ضروری شعبوں سے تعلق رکھنے والی فیکٹریاں چلا رہے ہیں وہ ان مزدوروں کو حفاظتی سامان دینے کے روادار نہیں کیونکہ یہ ایک ”اضافی“ خرچہ ہوگا۔ جن سرمایہ داروں نے فیکٹریاں بند کی ہیں انہوں نے ایسا ہرگز ان مزدوروں کی حفاظت کے پیش نظر نہیں کیا بلکہ وہ تو شاید ایسے کسی موقع کی تلاش میں تھے کہ مال تو معاشی سست روی کے باعث پہلے ہی نہیں بک رہا تھا، ان مزدوروں کو بھی نکال باہر کریں اور حکومت سے سبسڈیاں بھی حاصل کرلیں۔

اس صورتحال میں ملک بھر کے مزدوروں کو اپنی قوت بازو پر بھروسہ کرنا ہوگا۔ یہ حکومت اور ریاستی ادارے بھی انہی سرمایہ داروں کے مفادات کے تحفظ کے لیے ہیں۔ ان کے لیے خزانے کا منہ کھول دیا گیا ہے مگر جب محنت کشوں کی بات آتی ہے، مفت تعلیم کی بات آتی ہے، مفت اور معیاری علاج کی بات آتی ہے، محنت کشوں کے لیے مکانوں کی بات آتی ہے تو خزانہ خالی ہوتا ہے۔ لیبر ڈیپارٹمنٹ حسب معمول آنکھیں بند کیے ان سرمایہ داروں کے مفادات کی تکمیل کی خاطر چپ سادھے بیٹھا ہے۔ حکومت نے اسی لیے لاک ڈاؤن کو بنیاد بناتے ہوئے تمام جمہوری حقوق بھی سلب کر لیے ہیں اور احتجاجوں پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ مگر اس لاک ڈاؤن میں بھی سرمایہ داروں کو لوٹ مار اور استحصال کی کھلی اجازت ہے۔ یہی اس سرمایہ دارانہ نظام اور اس کی پروردہ ریاست کا حقیقی چہرہ ہے۔

ریڈ ورکرز فرنٹ حکومت اور ریاستی اداروں سے مطالبہ کرتا ہے کہ تمام غیر ضروری پیداواری صنعتوں اور شعبوں کو بند کیا جائے اور ان میں کام کرنے والے محنت کشوں کو پوری تنخواہ کے ساتھ رخصت پر بھیجا جائے۔ فیکٹری مالکان کو پابند کیا جائے کہ وہ لاک ڈاؤن کو جواز بناتے ہوئے کسی محنت کش کو برخاست نہیں کریں گے۔ وہ محنت کش جو لازمی پیداواری شعبوں میں کام کرتے ہیں ان کو مکمل حفاظتی سامان فراہم کیا جائے۔ فیکٹری آنے جانے کے لیے ٹرانسپورٹ فراہم کی جائے جس میں سماجی تفاصل کو یقینی بنایا جائے۔ اگر کوئی مل یا فیکٹری مالک ایسا کرنے سے انکار کرے تو اس کو فیکٹری کو ریاستی تحویل میں لے کر محنت کشوں کو حوالے کیا جائے۔

Comments are closed.