گوجرانوالہ: نجی سکولوں کے اساتذہ کا یونین سازی کے لئے اجلاس

|رپورٹ:ریڈ ورکرز فرنٹ، گوجرانوالہ|

گوجرانوالہ میں چیف جسٹس کی جانب سے بڑے بڑے نجی سکولوں کو فیس کم کرنے کا حکم ملنے کے بعد نجی سکولوں کی جانب سے، جن میں روٹس سکول سرِ فہرست ہے، ٹیچرز کی جبری بر طرفیوں کے خلاف احتجاج کے لئے ایک میٹنگ کا اہتمام کیا گیا، جس میں گجرات، کامونکی، وزیرآباد، گوجرانوالہ اور گکھڑ سے اساتذہ نے شرکت کی ۔ میٹنگ کا آغازریڈ ورکرز فرنٹ کی جانب سے آدم پال نے پرائیویٹ ٹیچرز کے مسائل کے ذکر سے کیا۔ انہوں نے کہا کہ نجی سکولوں کے اساتذہ کی تنخواہ بہت کم ہے، کوئی جاب ڈسکرپشن نہیں ہے ، تیسرا جو معاہدہ یا کنٹریکٹ کیا جاتا ہے اس کی کئی شقیں غیر قانونی ہیں۔ علاوہ ازیں اساتذہ کو ایک عدم تحفظ یہ بھی ہوتا ہے کہ وہ کنٹریکٹ کو توڑ نہیں سکتے۔ ان حالات میں نجی سکولوں کے اساتذہ کے پاس کوئی پلیٹ فارم نہیں جہاں پر وہ اپنے مسائل رکھ سکیں۔ انہوں نے نجی سکولوں میں پڑھانے والے اساتذہ کے حقوق کے حصول کے لیے ان کی ایک یونین کے ہونے پر زور دیا تاکہ نجی سکولوں اور کالجوں میں پڑھانے والے اساتذہ کے مسائل کو سامنے لایا جائے اور ان کے حل کی کوشش کی جائے۔ وزیر آباد سے تشریف لائے اویس قرنی جو کہ ایک نجی سکول میں پڑھاتے ہیں،نے اس بحث کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ اساتذہ کو بے شمار مسائل کا سامنا ہوتا ہے لیکن جن اساتذہ کی جبری برطرفی کی جاتی ہے ان کو خود اپنے حق کے لئے آواز اٹھانی چاہئے۔ بعض اوقات ایسا دیکھنے میں آتا ہے کہ دوسرے ساتھی تو ان کے لئے آواز بلند کرتے ہیں لیکن جبری برطرف کئے گئے اساتذہ خود پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔اسی طرح فہد صاحب نے کچھ اپنے تجربات بتائے کہ جو اساتذہ نوکری چھوڑجاتے ہیں ان کو دھمکی دی جاتی ہے کہ اگلے سکول میں ان کی شکایت کریں گے اور ان کی وہ تنخواہ بھی ادا نہیں کی جاتی جو سکیورٹی کے نام پر سکول نے رکھی ہوتی ہے۔ اسی طرح اصلی اسناد اپنے پاس رکھ کر بھی اساتذہ کو بلیک میل کیا جاتا ہے۔گجرات سے آئی عرشہ صنوبر جو کہ پہلے ایک نجی سکول میں جاب کرتی تھیں اور اب ایک نجی کالج میں جاب کرتی ہیں،نے بتایا کہ جب وہ راہوالی کے اساس سکول میں جاب کرتی تھیں تو جس دن ان کی تنخواہ کا دن ہوتا وہیں ایک عورت بٹھا دی جاتی جو ہر تنخواہ وصول کرنے والی ٹیچر سے پانچ سو روپیہ واپس لے لیتی۔ پوچھنے پر بتایا گیا کہ سکول والوں کی ایک انجمن ہے جو ان پیسوں سے ان بچوں کی فیس(واپس سکول کو) ادا کرتی ہے جو کہ یتیم، مسکین ہیں یا غربت کی وجہ سے فیس ادا نہیں کر سکتے۔ اس کے بعد گکھڑ سے آئے ارسلان صاحب نے بتایا کہ نجی سکولوں کے اساتذہ کی تنخواہوں میں بیس بیس سال تک کوئی قابل ذکر اضافہ نہیں کیا جاتا۔ پنجاب ٹیچرز یونین کے انفارمیشن سیکرٹری گل زادہ صافی نے نجی سکولوں کے اساتذہ کے ساتھ اظہارِیکجہتی کیا اور بتایا کہ کس طرح سرکاری اساتذہ نے اپنی تنخواہ کے لئے احتجاج کئے اور اپنے مطالبات منوانے میں کامیاب رہے۔انہوں نے یقین دلایا کہ اگر نجی اساتذہ کو ان کے تعاون کی ضرورت ہوئی تو وہ اور ان کی یونین ہر مرحلہ میں ان کا ساتھ دیں گے۔
اس کے بعد ناصرہ وائیں جو کہ گوجرانوالہ کے مختلف سکولوں اور کالجوں میں جاب کرتی رہی ہیں، اور اب ایک کالج میں پڑھاتی ہیں، نے بتایا کہ نجی سکولوں کے اساتذہ کا بے حد استحصال کیا جاتا ہے اور ان سے بہت کام کروایاجاتا ہے۔ تنخواہ پہلے ہی بہت کم دی جاتی ہے لیکن اوقات کار میں مسلسل اضافہ کیا جاتا ہے اور ایسا کرتے ہوئے ان کی تنخواہ بالکل نہیں بڑھائی جاتی۔ جو استاد اپنے حقوق کے لئے آواز اٹھاتا ہے اس کو جبراً فارغ کردیا جاتا ہے۔عام سکول (فرنچائز سکول وغیرہ) مالکان چاہتے ہیں کہ اساتذہ کام تو اشرافیہ کے سکول والا کریں، لیکن تنخواہ ان کو دکان سکول والی دی جائے۔ سلمیٰ جو کہ ایک نجی سکول میں پڑھاتی ہیں، نے بات آگے بڑھائی کہ کس طرح اساتذہ کو تنگ کیا جاتا ہے۔ان کے اوقات کار بڑھادیے جاتے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ وقت کی ضرورت ہے کہ تمام اساتذہ مل کر اپنے لئے کوئی لائحہ عمل ترتیب دیں تاکہ وہ اپنے مسائل کو موثر انداز میں پیش کرسکیں اور ان کو حل کر سکیں۔ اساتذہ کو اپنے حقوق جاننے کی ضرورت ہے تا کہ وہ ان کے حصول کی جدوجہد کر سکیں۔
اس کے بعد صبغت وائیں جو کہ ایک نجی کالج میں پڑھاتے ہیں، نے بات کو بڑھاتے ہوئے کہا کہ ہمیں ایک یونین کی ضرورت ہے جو کہ ہر ضلع میں اور ہر شہر میں ہو۔ تاکہ اگر کسی ایک ساتھی استاد پر کوئی افتاد آتی ہے، تو سارے پاکستان کے اساتذہ اس کے خلاف آواز اٹھائیں۔انہوں نے کہا کہ نجی سکولوں میں استحصال تو اپنی جگہ مگر یہ اس کے ساتھ ساتھ ظلم، بربریت اور ہراسمنٹ کی آماجگاہ بھی بن چکے ہیں۔ ان کو کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ ہم نے ایک یونین بنانی ہے جو کہ ہمارا آئینی اور قانونی حق بھی ہے اور وقت کا تقاضا بھی۔
اس کے بعد آدم پال نے میٹنگ کا سم اپ کیا اور کہا کہ جلد از جلد دوستوں کو اکٹھا کرتے ہوئے ان کو ایک نیٹ ورک میں لایا جائے تاکہ ہم تنظیم سازی کا اگلا قدم اٹھانے کا لائحہ عمل تیار کر سکیں۔مزید برآں انہوں نے اساتذہ کواس سلسلے میں ریڈ ورکرز فرنٹ کی جانب سے ہر ممکن تعاون کی یقین دہانی کرائی۔

Comments are closed.