|تحریر: ایران سے ایک کمیونسٹ، ترجمہ: عبدالحئی|
13 جون 2025ء کا دن مشرق وسطیٰ کے لیے ایک خطرناک موڑ ثابت ہوا۔ جب اسرائیل نے امریکی سامراج کی پشت پناہی سے ایران پر لاتعداد حملے کیے جن میں فوجی مقامات کو نشانہ بنایا گیا، لیکن اس کے ساتھ ساتھ عام شہری بھی بڑی تعداد میں ہلاک ہوئے۔
انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں
یہ جنگ ایرانی عوام نے منتخب نہیں کی تھی۔ پھر بھی اس کا بوجھ ہمیں ہی بھگتنا پڑا۔ ہم برسوں سے پابندیوں، غربت، جبر اور اب خونریزی کا سامنا کر رہے ہیں، 1054 افراد کی ہلاکت اور 4476 کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں، جن میں زیادہ تر عام شہری ہیں۔
اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ اس نے اسٹریٹجک فوجی اور جوہری تنصیبات کو نشانہ بنایا ہے، لیکن تباہی کی کہانی کچھ اور ہی بیان کرتی ہے۔ مبینہ فوجی مقامات کے قریب شہری علاقوں کو بھی نشانہ بنایا گیا تھا اور عینی شاہدین کے مطابق کئی گھروں کو نقصان پہنچا اور ہلاک ہونے والوں میں عام شہری بھی شامل ہیں۔ سب سے ہولناک حملہ تہران میں حکیم چلڈرن ہسپتال پر بتایا جا رہا ہے، جو کہ بنیادی انسانی اصولوں کی بھی سنگین خلاف ورزی ہے۔
اگرچہ حکومت مکمل نقصان کو چھپانے کی کوشش کر رہی ہے، لیکن سچ بالکل واضح ہے کہ بے گناہ جانیں قربان کی جا رہی ہیں۔ جس کی ذمہ دای صرف تل ابیب اور واشنگٹن میں بیٹھے حملہ آوروں پر ہی نہیں، بلکہ ایران کے کرپٹ اور نااہل حکمرانوں پر بھی برابر عائد ہوتی ہے۔
اسرائیل اور بنیامین نیتن یاہو کا ڈھونگ!
اسرائیل کی جارحیت اس کی طاقت کا اظہار نہیں ہے، بلکہ یہ ایک سیاسی بحران سے دوچار حکومت کی طرف سے اپنی گرتی ہوئی ساکھ کو سہارا دینے کی ایک مایوس کن کوشش ہے۔ وزیرِاعظم بنیامین نیتن یاہو شدید سیاسی بحران کا سامنا کر رہا ہے، اس پر کرپشن کے الزامات، اس کی اپنی حکمران جماعت میں دراڑوں، اسرائیلی فوج اور خفیہ اداروں کے بعض حلقوں میں بڑھتے ہوئے عدم اطمینان اور اس کی عدالتی اصلاحات کے خلاف احتجاجی لہر نے حکومت کو دن بدن تنہائی اور عدم استحکام کا شکار بنا دیا ہے۔
اس صورتحال میں، جنگ بقا کا ایک ہتھیار بن جاتا ہے۔ ایران کے ساتھ کشیدگی بڑھا کر نیتن یاہو اندرونی بحران سے توجہ ہٹانے، بکھری ہوئی حکمران اشرافیہ کو متحد کرنے اور اپنی گرتی ہوئی ساکھ کو بحال کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ایرانی حکومت کو شیطان کے روپ میں پیش کرنا، جو کہ دہائیوں پر محیط سامراجی پراپیگنڈے کا نتیجہ ہے، اس جارحیت کے لیے پہلے سے تیار شدہ جواز فراہم کرتا ہے۔ لیکن یہ جنگ ’سیکیورٹی‘ یا ’دفاع‘ کی خاطر نہیں کی گئی، جیسا کہ نیتن یاہو دعویٰ کرتا ہے، بلکہ یہ ایک موقع پرستانہ چال ہے تاکہ اندرونی تضادات کو بیرونی دشمنی میں منتقل کیا جا سکے اور اقتدار پر گرفت قائم رکھی جا سکے۔
یہ نیتن یاہو کی جانب سے ایک سوچا سمجھی سازش ہے تاکہ اسرائیلی ریاست کو درپیش گہرے داخلی بحران، سیاسی عدم استحکام، غیر یقینی معاشی صورتحال، ریاستی اداروں پر عوام کے عدم اعتماد، حکمران طبقے، فوج اور عام آبادی کے درمیان بڑھتی ہوئی تقسیم سے توجہ ہٹائی جا سکے۔ فلسطین پر جاری ظالمانہ قبضے نے صہیونیت کے تضادات کو مزید بے نقاب کر دیا ہے۔ ایران کے خلاف عشروں پر محیط نفرت انگیز مہم ایک آسان اور کار آمد چال کے طور پر استعمال کی جا رہی ہے، ایک بیرونی دشمن جس کے نام پر قومی یکجہتی کو ابھارا جائے اور اختلاف رائے کو دبایا جائے۔ لیکن یہ جنگ محض ایک چال ہے، جس کا مقصد بیرون ملک اپنی طاقت کا تاثر دینا ہے، جب کہ اندرونِ ملک ریاست کی بنیادیں سکڑ رہی ہیں۔
اسرائیل کا حکمران طبقہ ایرانی عوام کے ساتھ نہ کوئی مشترک مفاد رکھتا ہے اور نہ ہی ان کی تکالیف سے اسے کوئی ہمدردی ہے۔ لیکن نیتن یاہو طویل عرصے سے ایران کو اپنے وجود کے لیے خطرے کے طور پر پیش کرتا آیا ہے، اس لیے نہیں کہ ایران میں داخلی جبر موجود ہے، بلکہ اس لیے کہ ایران مشرقِ وسطیٰ میں طاقت کے توازن کو چیلنج کرتا ہے۔ نیتن یاہو بار ہا ایران میں حکومت کی تبدیلی کا مطالبہ کر چکا ہے۔ 2018ء کی ایک تقریر میں اس نے کہا تھا، ”بالآخر یہ حکومت جب گرے گی، اور ایک دن یہ ضرور گرے گی، تب ایرانی اور اسرائیلی ایک بار پھر گہرے دوست بن جائیں گے۔“ ایک اور بیان میں اس نے مغربی طاقتوں سے مطالبہ کیا تھا، ”ایرانی عوام کو خود کو آزاد کرانے میں مدد کریں۔“ لیکن یہ ’ہمدردی‘ شدید منافقت پر مبنی ہے۔ اسرائیلی ریاست کو سعودی عرب جیسے ظالم حکمرانوں کے ساتھ تعاون کرنے میں کوئی مسئلہ نہیں ہوتا، جب تک کہ وہ امریکہ اسرائیل (US-Israeli) مفادات سے ہم آہنگ ہوں۔
حکومت کی تبدیلی کا یہ مطالبہ آزادی یا جمہوریت کی غرض سے نہیں ہے بلکہ خطے میں سامراجی بالادستی کی راہ میں حائل رکاوٹ کو ہٹانے کے لیے ہے۔ اسرائیل کا مقصد ایرانی عوام کی حمایت نہیں، بلکہ اپنے تسلط کو قائم رکھنا ہے اور وہ ہر اُس ریاست کو کمزور کرنا چاہتا ہے جو اس کے فوجی و معاشی مفادات کے سامنے جھکنے سے انکار کرے۔
اسرائیل کی ایران دشمنی کا ایرانی عوام کی خواہشات یا فلاح و بہبود سے کچھ لینا دینا نہیں ہے، بھلے ہی نیتن یاہو اپنے پراپیگنڈے بھرے بیانات میں ایرانی عوام کی ’حمایت‘ کا دعویٰ کرتا ہو۔ خود صہیونی ریاست مشرقِ وسطیٰ میں ظالمانہ کاروائیوں کا آلہ ہے، جو قبضے، بے دخلی اور جبر پر قائم ہے اور یہ تمام اقدار ایرانی محنت کش طبقے اور نوجوانوں کی انقلابی روایات سے بنیادی طور پر متصادم ہیں۔
اگرچہ لاکھوں ایرانی اسلامی جمہوریہ سے اس کی کرپشن، جبر اور غربت کی وجہ سے بجا طور پر نفرت کرتے ہیں، لیکن وہ مغربی سامراج کے بارے میں بھی کسی خوش فہمی کا شکار نہیں ہیں۔ 1953ء میں سی آئی اے – ایم آئی 6 (CIA-MI6) کی بغاوت کی تلخ یادیں، عشروں پر محیط پابندیاں اور مسلسل فوجی دھمکیاں اس بات کو واضح کر چکی ہیں کہ نام نہاد ’جمہوری‘ طاقتیں ایرانی عوام کی دوست نہیں ہیں۔ نیتن یاہو کی جانب سے ”حکومت کی تبدیلی“ کی پکار یکجہتی کا اظہار نہیں، بلکہ غلبے اور تسلط کے عزائم کو چھپانے کا ایک ذریعہ ہے۔
در حقیقت آج ایران میں کسی بھی انقلابی تحریک کے لیے سب سے بڑا خطرہ مغربی سامراج ہی ہے۔ امریکہ یا اسرائیل کی مداخلت عوام کو آزاد نہیں کرے گی بلکہ یہ ایران میں ملائیت کو مزید مضبوط کرنے کا موقع دے گی، جو خود کو غیر ملکی جارحیت کا شکار ظاہر کر کے قومی ہمدردی حاصل کرے گی اور طبقاتی جدوجہد کو قوم پرستی کی راہ پر ڈال کر اس کا رخ موڑ دے گی۔ حقیقی آزادی صرف ایرانی محنت کش طبقے کی خودمختار تنظیم سازی کے ذریعے ہی ممکن ہے نہ کہ سامراجی بموں یا تل ابیب اور واشنگٹن سے آنے والی موقع پرستانہ تقریروں سے۔
ٹرمپ کی دوبارہ صدارت کے تحت امریکی خارجہ پالیسی نے پہلے سے بھی زیادہ جارحانہ رخ اختیار کر لیا ہے۔ ٹرمپ نے اسرائیل کی فوجی کاروائیوں کی کھل کر حمایت کی ہے اور ایران کے حوالے سے اپنے ممکنہ ’آپشنز‘ پر غور کر رہا ہے، جن میں سخت تر پابندیاں اور ممکنہ براہِ راست مداخلت شامل ہیں۔ اس کی حکومت رجعتی اور صیہونیت کے حامی عناصر سے بھری ہوئی ہے، جس نے اسرائیل کو جارحیت بڑھانے کی کھلی چھوٹ دے دی ہے، اسے جدید ہتھیار انٹیلی جنس اور عالمی سطح پر مکمل سفارتی حمایت فراہم کی جا رہی ہے۔
امریکہ اسرائیل کو صرف ایک اتحادی کے طور پر ہی نہیں دیکھتا بلکہ اسے مشرقِ وسطیٰ میں اپنی بالادستی قائم رکھنے، توانائی کے راستوں پر کنٹرول حاصل کرنے اور ایران کے اثر و رسوخ کے ساتھ ساتھ چین کی موجودہ بڑھوتری کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک اسٹریٹجک چوکی کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔ اگرچہ واشنگٹن شاید مکمل جنگ نہیں چاہتا خاص طور پر جب اس کی توجہ زیادہ تر چین پر مرکوز ہو چکی ہے لیکن وہ اسرائیل کو مسلح اور اس کی پشت پناہی کر کے ایک نہایت خطرناک کھیل کھیل رہا ہے۔ وہ ایک ایسے تنازعے کو ہوا دے رہا ہے جس پر شاید وہ خود بھی قابو نہ پا سکے۔
نیتن یاہو کے زیرِ تسلط اسرائیل محض ایک کٹھ پتلی نہیں ہے، بلکہ دن بدن یہ غیر ذمہ دارانہ خودمختاری کے ساتھ عمل کر رہا ہے، اور اپنے داخلی سیاسی مفادات کی تکمیل کے لیے پورے خطے کو جنگ کی لپیٹ میں لے رہا ہے۔
یہ جنگ محض ایران اور اسرائیل کے درمیان ٹکراؤ نہیں ہے، بلکہ یہ امریکی سامراج کی طویل المدتی حکمتِ عملی کا نتیجہ ہے، جو اپنی بالادستی، عدم استحکام پیدا کرنے، اور پراکسی جنگوں پر مبنی ہے۔ ایرانی حکومت، اگرچہ خود ایک رجعتی قوت ہے، لیکن اسے ایک وسیع تر سامراجی شطرنج کے کھیل میں قربانی کا بکرا بنایا جا رہا ہے۔
ایران میں سامراجی مداخلت نامنظور، حکومت تبدیلی نہیں، صرف انقلاب!
موجودہ بحران نے کئی رجعتی حلقوں کی جانب سے ’حکومت کی بتدیلی‘ کے لیے نئی اور خطرناک آوازیں بلند کر دی ہیں۔ اسرائیلی حکمران طبقہ، جس کی باتیں اب مغربی سیاستدانوں کے بیانات میں بھی سنائی دیتی ہیں، اسلامی جمہوریہ کو گرانے کی کھلی حمایت کر رہا ہے جیسا کہ ہم واضح کر چکے ہیں، یہ ایرانی عوام سے یکجہتی کے جذبے سے نہیں، بلکہ ایک ایسی کٹھ پتلی حکومت کو مسلط کرنے کے لیے ہے جو سامراجی مفادات کی خدمت کرے۔ اسی کے ساتھ ساتھ، جلا وطن ہونے والے شاہ پسند (Monarchist) اور مخالف لبرل گروہ، جن میں سے بعض کو مغربی طاقتوں کی حمایت بھی حاصل ہے، یہ خواب دیکھ رہے ہیں کہ ایران میں شاہ (Shah) کے دورِ حکومت جیسے دن واپس لوٹ آئیں گے، جب امریکی کمپنیاں ملک کو لوٹتی تھیں اور سیاسی مخالفت کو تشدد اور پھانسیوں سے کچلا جاتا تھا۔
لیکن ایرانی محنت کش طبقہ اپنی تاریخ کو بھولا نہیں ہے۔ ہمیں 1953ء کی امریکہ – برطانیہ (US-UK) کا فوجی کُو یاد ہے، جس نے قومی تحریک کو کچلا اور دہائیوں پر محیط آمریت مسلط کی۔ ہم دیکھ چکے ہیں کہ کس طرح عراق، لیبیا اور افغانستان میں سامراج کی پشت پناہی میں ’حکومت کی تبدیلی‘ نے عوام کے لیے تباہی، جنگ اور بد حالی کو جنم دیا۔ اسی لیے، ہم بطور انقلابی کمیونسٹ، ہر قسم کی بیرونی مداخلت کے ذریعے مسلط کی گئی ’حکومت کی تبدیلی‘ کو یکسر مسترد کرتے ہیں۔
ہماری جدوجہد محض چہروں کی تبدیلی کے لیے نہیں، بلکہ پورے سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے کے لیے ہے، چاہے وہ مذہبی حکومت کی شکل میں ہو، بادشاہت کی صورت میں یا نام نہاد جمہوریت کے لبادے میں۔ اور یہ مقصد صرف ایرانی عوام کی باشعور، منظم اور انقلابی جدوجہد کے ذریعے ہی حاصل کیا جا سکتا ہے۔ ایرانی محنت کش طبقہ، جو برسوں کی جدوجہد، استحصال اور غداری سے مضبوط ہو چکا ہے، کسی غیر ملکی نجات دہندہ کا محتاج نہیں۔ اسے طبقاتی اتحاد، انقلابی قیادت اور ایک سوشلسٹ پروگرام درکار ہے تاکہ وہ نہ صرف اسلامی جمہوریہ کا خاتمہ کر سکے، بلکہ اِس سامراجی نظام کو بھی پاش پاش کر دے جس کی مخالفت یہ حکومت محض زبانی دعووں تک محدود رکھتی ہے۔
اس پُر تناؤ ماحول میں دو نہایت خطرناک رجعتی رجحانات ابھر کر سامنے آئے ہیں۔ ایک طرف شاہ پسند (Monarchist) ہیں جو مکمل طور پر ایک بدنام اور رجعتی قوت ہے اور اس بحران سے فائدہ اٹھاتے ہوئے خود کو اسلامی جمہوریہ کے متبادل کے طور پر پیش کر رہی ہے۔ دوسری طرف ان کے نام نہاد ’ولی عہد‘ رضا پہلوی (Reza Pahlavi) آزادی اور جمہوریت کی بات کرتے ہیں، لیکن حقیقت میں وہ محض اُس ظالمانہ آمریت کی بحالی کے نمائندہ ہیں جسے 1979ء میں ایک عوامی انقلابی تحریک نے اکھاڑ پھینکا تھا۔
شاہ کا دورِ حکومت ایرانی عوام کو مکمل طور پر امریکی سامراج کے تابع کرنے پر قائم تھا۔ اس نے ملک کا تیل اور وسائل غیر ملکی کارپوریشنوں کے حوالے کیے، تمام آزاد مزدور یونینوں کو کچلا اور SAVAK نامی خفیہ پولیس کے ذریعے حکومت کی، جس نے ہزاروں بائیں بازو کے کارکنوں، محنت کشوں اور طلبہ کو اذیتیں دیں، انہیں قتل کیا اور انہیں جبری طور پر گمشدہ کیا۔ محنت کش طبقہ صرف ریاستی جبر کو ہی نہیں، بلکہ اس ذلت کو بھی یاد رکھتا ہے جب انہیں اپنی ہی سرزمین میں غلاموں کی طرح رکھا جاتا ہے، ایک ایسی اشرافیہ کے زیرِ اقتدار جو واشنگٹن کی وفادار ہے۔
شاہ پسند اُس تاریک دور کے علاوہ کچھ بھی پیش نہیں کرتے جس میں استحصال، سامراج پر انحصار اور ہر قسم کے اختلافِ رائے کا وحشیانہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تمام تر میڈیا پراپیگنڈے اور مغربی مالی امداد کے باوجود ان کی حمایت صرف مڈل کلاس کے ایک محدود طبقے اور جلا وطن امیر طبقے تک محدود ہے۔
مغربی سامراجی حلقوں کی پشت پناہی سے قائم شدہ بادشاہت صرف جبر، استحصال اور غیر ملکی سرمائے کی غلامی کا ایک تاریک ماضی ہی مہیا کرتی ہے۔ ایران کا محنت کش طبقہ، جو پہلے سے ہی شاہ کی آمریت کے سائے میں اذیتیں جھیل چکا ہے، فطری طور پر اس پسماندہ سوچ پر مبنی حل کو مسترد کرتا ہے۔
دوسری طرف انقلابی نوجوانوں کے کچھ گروہ جنہوں نے 2022ء کی مہسا امینی کی تحریک میں قیادت کا کردار ادا کیا تھا، اب انتہائی بائیں بازو کی مہم جوئی (adventurism) کے جال میں پھنس چکے ہیں۔ جیسا کہ ان کے حالیہ بیانات سے ظاہر ہوتا ہے، بعض نے فوری اور غیر منظم بغاوتوں اور ہڑتالوں کی اپیلیں کی ہیں، یہاں تک کہ موجودہ جنگ کو ایرانی حکومت کو تیزی سے گرانے کے موقع کے طور پر پیش کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں:
”جو کچھ ہم دیکھ رہے ہیں، وہ صرف اعلیٰ قیادت کے جانی نقصان تک محدود نہیں، بلکہ یہ اسلامی جمہوریہ کی فیصلہ سازی، عسکری اور تزویراتی قیادت کے ڈھانچے پر بھی ایک تباہ کن ضرب ہے۔ IRGC اور فوج کے اندر پیدا ہونے والا یہ سیکیورٹی اور انتظامی خلا ہمارے لیے اس نظام کے زوال کی نشانی ہے، ایک ایسا نظام جو برسوں سے اپنی بقا کو انتہائی غیر انسانی اقدامات کے ذریعے برقرار رکھے ہوئے تھا۔“
یہ طرزِ فکر ایرانی عوام کے جذبات اور آمادگی سے مکمل طور پر کٹا ہوا ہے۔ اگرچہ حکومت کے خلاف نفرت گہری اور وسیع ہے لیکن سامراجی حملے کے دوران عام ہڑتالوں کی اپیل کرنا ایک نہایت خطرناک غلطی ہے۔ یہ حکمتِ عملی محنت کش طبقے کی باشعور اور متحرک پرت کو وسیع تر عوامی حمایت سے الگ کر سکتی ہے اور خود حکومت کے ہاتھ مضبوط کر سکتی ہے، جو کسی بھی اندرونی مخالفت کو دشمن کے ساتھ گٹھ جوڑ قرار دے کر کچلنے کی کوشش کرے گی۔
ان کا ’حکومت کو آخری ضرب لگائی جانے“ کا مطالبہ جس کے لیے وہ ”ٹارگٹڈ ہڑتالوں، سرکاری اور ریاستی اداروں کے بائیکاٹ، محلوں، سکولوں، فیکٹریوں اور سڑکوں پر ملک گیر بغاوت و مزاحمتی تنظیم سازی کی بات کرتے ہیں، وہ اس حقیقت کو نظر انداز کرتا ہے کہ سامراجی حملے کے دوران عوام کی نفسیات نہایت پیچیدہ ہوتی ہے۔ فی الحال محنت کش طبقے کی کوئی انقلابی قیادت موجود نہیں ہے اور جو سیاسی متبادل عوام کے سامنے ہے، وہ یا تو غیر مؤثر ہے یا پھر غیر ملکی حمایت یافتہ اپوزیشن پر مشتمل ہے۔
ایرانی عوام کا موڈ پیچیدہ ضرور ہے، لیکن بالکل واضح بھی ہے۔ وہ اسلامی جمہوریہ سے نفرت کرتے ہیں، عشروں پر محیط جبر، معاشی بدانتظامی، کرپشن اور قومی دولت کی منظم لوٹ مار نے ان کے دلوں میں گہری ناراضگی اور بیزاری پیدا کی ہے۔ لیکن جیسا کہ ہم نے بار ہا مشاہدہ کیا ہے کہ وہی محنت کش جو جنگ سے چند روز قبل تک ٹیلی گرام چینلز پر حکومت کو کھلے عام کوس رہے تھے، اب سیکیورٹی اعلانات کو شیئر کر رہے ہیں اور اسرائیل کو گالیاں دے رہے ہیں۔ یہ اچانک حکومت سے محبت نہیں، بلکہ بیرونی جارحیت سے فطری نفرت اور سامراجی مداخلت کے شدید خوف کا اظہار ہے۔
لاشعوری طور پر ہی سہی، عوام یہ بات سمجھتے ہیں کہ اگرچہ موجودہ حکومت نفرت انگیز ہے لیکن بیرونی قوتیں بھی کوئی حقیقی نجات نہیں دے سکتیں۔ وہ حکومت سے نفرت کرتے ہیں مگر بادشاہت پسندوں، امریکہ اور مغرب سے اس سے کہیں زیادہ نفرت کرتے ہیں اور بیرونی مداخلت کے تحت ہونے والی ’حکومت کی تبدیلی‘ کی کسی بھی صورت سے بجا طور پر خوفزدہ ہیں۔ حکومت کے خلاف جدوجہد اور مغربی سامراج کے خلاف مزاحمت، دونوں ایک دوسرے سے الگ نہیں کی جا سکتیں۔ انقلابیوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس خلا کو پُر کریں عوام کو یہ سمجھائیں کہ ایران کی حکومت یک کمزور، خود غرض اور مفاد پرست حکومت ہے جو ایرانی محنت کشوں اور غریبوں کے اصل مفادات کا دفاع کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ یہ وہ حکومت ہے جو ایک کمزور سامراجی معاہدے کے عوض قوم کے مفادات کو بھی بیچنے پر آمادہ ہے۔
ایک سوشلسٹ ایران ہی سامراج کے خلاف لڑ سکتا ہے، سامراجی جنگ کو طبقاتی جنگ میں بدل ڈالو!
سامراج کے خلاف حقیقی دفاع اور حقیقی آزادی کا واحد راستہ، ایک سوشلسٹ انقلاب ہے۔ کیوں؟ کیونکہ صرف محنت کش طبقے ہی وہ معروضی مفاد اور مادی قوت رکھتا ہے جو سامراج سے مکمل طور پر پاش پاش کر سکتا ہے۔ سرمایہ داروں اور ملا اشرافیہ کے برعکس، جو غیر ملکی معاہدوں، ذاتی منافعوں اور سیاسی جبر پر انحصار کرتے ہیں، جبکہ غیر ملکی اور مقامی سرمائے کو قومی تحویل میں لینے سے، استحصالی تعلقات کا خاتمہ کرنے سے اور پیداوار کو منافع خوری کی بجائے انسانی ضروریات کے تحت منظم کرنے سے محنت کش طبقے کا کوئی نقصان نہیں ہو گا۔
ایک سوشلسٹ ایران جو محنت کشوں اور غریب عوام کے جمہوری کنٹرول میں ہو، سامراجی طاقتوں پر ہر قسم کے انحصار کو فوراً ختم کر دے گا۔ یہ ریاست معیشت کے اہم شعبوں کو محنت کشوں کے جمہوری کنٹرول میں دے گی، غیر ملکی کارپوریشنوں اور مقامی سرمایہ داروں کے ہاتھوں قومی دولت کی لوٹ مار کا خاتمہ کرے گی اور پورے خطے کے مظلوم عوام کے ساتھ حقیقی یکجہتی پر مبنی تعلقات استوار کرے گی۔
یہ چین یا روس کے ساتھ گھٹیا سودے بازی پر انحصار کرے گی اور نہ ہی موجودہ حکومت کی طرح کھوکھلے سامراج مخالف نعروں کی آڑ میں اپنے ہی عوام کو ظالمانہ طریقے سے کچلے گی۔ بلکہ ایک سوشلسٹ ایران، ایرانی عوام کی انقلابی توانائی کو متحرک کر کے نہ صرف سامراجی جارحیت کے خلاف مزاحمت کے لیے، بلکہ پورے مشرق وسطیٰ میں محنت کش طبقے کی بغاوتوں کو شکتی بخشے گی۔
اسلامی جمہوریہ، اپنے امریکی مخالف نعروں کے باوجود، ایک سرمایہ دارانہ ریاست ہے جو نجی ملکیت کا دفاع کرتی ہے، غیر ملکی طاقتوں سے سودے بازی کرتی ہے اور اسرائیلی بموں سے کہیں زیادہ اپنے ہی محنت کش طبقے سے خوفزدہ ہے۔ اس کی فوج کرپشن سے لبریز ہے، اس کا کمانڈ اسٹرکچر کسی کو جوابدہ نہیں ہے اور پورا عسکری نظام سیاسی اقربا پروری پر مبنی ہے۔ یہ سب اُس وقت عیاں ہوا جب اسرائیل کے حملوں کے دوران انٹیلی جنس کی ناکامیوں نے حکومت کو بری طرح بے نقاب کر دیا اور وہ باآسانی دباؤ میں آ گئی۔ اس کی نام نہاد ’مزاحمت‘ عوام کے لیے نہیں بلکہ ایک تنگ نظر اشرافیہ کے مفادات کے تابع ہے، ایک ایسی اشرافیہ جس نے ایران کو تکنیکی اعتبار سے پسماندہ اور عالمی سطح پر تنہا کر دیا ہے، جبکہ خطے میں اس کے اتحادی اور پراکسی گروہ اسرائیل کے ہاتھوں مسلسل دھچکے کھا رہے ہیں۔ حالیہ عرصے میں حکومت اور اس کے اتحادیوں کو جتنے بھی نقصانات اٹھانے پڑے ہیں، ان سب کی جڑ سرمایہ دارانہ نظام ہے، جو معیشت کو کمزور کر دیا ہے اور معاشرے کی ہر سطح پر کرپشن کو فروغ دیا ہے۔
محنت کشوں، طلبہ، خواتین اور قومی اقلیتوں پر حکومت کا جبر ایک بار پھر اس کی سیاسی محدودیت کو بے نقاب کر چکا ہے۔ اگر ایران میں محنت کش طبقہ اقتدار میں ہوتا، تو وہ ایک مشترکہ انقلابی سوشلسٹ جدوجہد کے لیے نہ صرف ایران بلکہ پورے خطے میں تمام مظلوم پرتوں کو سامراجیوں اور ہر ملک کے حکمرانوں کے خلاف متحرک کرتا۔ لیکن چونکہ اسلامی حکومت کا نقطہ نظر ایک تنگ نظر سرمایہ دارانہ سوچ تک محدود ہے، اس لیے اس کا ’سامراج مخالف‘ رویہ صرف اس حد تک ہے کہ وہ خطے میں ایک بڑی طاقت کے طور پر سامراجی مذاکرات کی میز پر جگہ حاصل کرنا چاہتی ہے۔ کسی بھی قومی بورژوازی کی سامراج دشمنی یہیں تک محدود ہوتی ہے۔
2025ء کی ایران-اسرائیل جنگ مشرقِ وسطیٰ میں سرمایہ داری اور سامراج کو بند گلی تک لے جانے کی ایک المناک مثال ہے۔ اس تاریخی لمحے کا سب سے اہم فریضہ یہ ہے کہ ایک ایسی مضبوط انقلابی پارٹی کی تعمیر کی جائے جو نہ صرف سامراج سے آزاد ہو بلکہ ایرانی سرمایہ داری سے بھی مکمل طور پر خودمختار ہو۔ اس پارٹی کو چاہیے کہ وہ صبر و تحمل کے ساتھ محنت کش طبقے کے سامنے وضاحت کرے کہ نہ تو موجودہ ملا اشرافیہ، نہ بدنام بادشاہت پسند اور نہ ہی کوئی اور سرمایہ دار طبقہ اس بحران سے نکلنے کا راستہ فراہم کر سکتا ہے۔ اسے محنت کش طبقے کو نظریات کی وضاحت اور تنظیمی نظم و ضبط سے لیس کرنا ہو گا تاکہ وہ خود اپنی نجات کی لڑائی کی قیادت کر سکے۔
عوام کا غصہ محسوس کیا جا سکتا ہے اور ان کی بہتر زندگی کی خواہش سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن اس کے لیے صرف انقلابی جذبہ کافی نہیں ہے۔ حالیہ جدوجہد، جس میں ٹرک ڈرائیوروں کی ہڑتال سے لے کر گزشتہ عوامی بغاوتیں بھی شامل ہیں، نے ایرانی محنت کش طبقے کی بے پناہ طاقت کا مظاہرہ کیا ہے، لیکن ساتھ ہی یہ بھی ظاہر کیا ہے کہ ایک واضح مارکسی پروگرام سے لیس قیادت کی شدید کمی موجود ہے۔
آگے کا راستہ مشکل ضرور ہے لیکن واضح ہے، غربت، استحصال اور جبر کے خلاف جدوجہد کو سامراج مخالف جدوجہد کے ساتھ جوڑنا، حکومت کی کمزوری اور اس کی آمادگی کو بے نقاب کرنا کہ وہ حکمران طبقے کے مفادات کی خاطر عوام سے غداری کرنا چاہتا ہے، اور یہ واضح کرنا کہ حقیقی سلامتی اور خوشحالی صرف ایک مزدور ریاست کے قیام سے ہی حاصل کی جا سکتی ہے۔ صرف اسی صورت میں ایرانی محنت کش طبقہ ہی اندرونی ظلم اور بیرونی غلبے دونوں کی زنجیروں کو توڑ سکتا ہے اور اس سامراجی جنگ کے دور کو ایک فاتح سوشلسٹ انقلاب کے احاطے میں بدل سکتا ہے۔
ایران میں انقلابی کمیونسٹ پارٹی قائم کرو!
صہیونی اور سامراجی درندے مردہ باد!
ایرانی سوشلسٹ جمہوریہ قائم کرو جو مشرقِ وسطیٰ کی سوشلسٹ فیڈریشن کا حصہ ہو!