بلوچستان/ خیبر پختونخوا: ایک طرف ہیلتھ ملازمین کو ”سیلوٹ“، دوسری طرف انتقامی کارروائیوں اور دھمکیوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ!

|رپورٹ: ریڈ ورکرز فرنٹ|

کرونا وائرس کے خلاف فرنٹ لائن پر لڑنے والے طبی عملے کو اس وقت پورے ملک میں حفاظتی تدابیر کے حوالے سے شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جس کی وجہ سے ملک بھر میں طبی عملے کے بہت سارے ساتھیوں میں کرونا وائرس کے مثبت ہونے کا انکشاف ہونے کے بعد ان کو مختلف ہسپتالوں میں داخل کیا گیا ہے۔ جبکہ گلگت میں کرونا وبا سے لڑنے والے ڈاکٹر اسامہ کی موت،جو کہ درحقیقت حکمرانوں کی نااہلی اور بے حسی کے ہاتھوں ایک قتل تھا، کے بعد سے لیکر اب تک حکومت کی طرف سے حفاظتی کٹس کی فراہمی کے حوالے سے صورتحال میں کوئی بہتری نہیں آئی ہے۔ مگر اس پوری صورتحال میں پاکستان کے الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا میں اس حوالے سے کوئی بھی خبر دیکھنے یا پڑھنے کو نہیں ملتی کہ حکومت کس طرح جانتے بوجھتے ہوئے طبی عملے کو موت کے منہ میں دھکیل رہی ہے۔ بلکہ الٹا طبی عملے کو ورغلانے کے لئے نام نہاد میڈیا کے ذریعے سلامی پیش کرنے کی کمپین چلائی گئی۔ حالانکہ اس مزدور دشمن زر خرید الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا نے چند مہینے پہلے پنجاب اور خیبرپختونخوا سمیت پورے ملک میں سرکاری ہسپتالوں کی نجکاری کے خلاف لڑنے والے طبی عملے کی احتجاجی تحریک کو انتہائی منفی کوریج دی تھی اور حکمران طبقے کے ایما پر اسے شدید تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔

واضح رہے کہ آج سے چند دن پہلے خیبر پختونخوا کے علاقے صوابی میں دوران ڈیوٹی ایک ڈاکٹر نے حفاظتی آلات بالخصوص پی پی ای کٹس کی غیر موجودگی میں بطور احتجاج پلاسٹک کے شاپر ہاتھوں اور سر پر اوڑھ رکھے تھے، جن کی تصویریں سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئیں۔ ڈیوٹی کرنے والے ینگ ڈاکٹر کی تصاویر جب میڈیا پر آئیں تو بجائے اسکے کہ حکومت انتظامی افسران سے پوچھ گچھ کرتی، الٹا عجلت میں ایک جھوٹی انکوائری کروائی گئی اور متعلقہ ڈاکٹر کو انتقامی کاروائی کا نشانہ بنایا گیا۔

منہ اور ہاتھوں پر پاسٹک بیگ چڑھا کر کرونا مریض چیک کرنے والے ڈاکٹر کو بھییجا فیا انکوائری نوٹس

ڈیوٹی ڈاکٹر عامر ہی کی تھی کیونکہ متعلقہ ڈاکٹر چھٹی پہ تھا لہذا ڈاکٹر عامر انکی جگہ ڈیوٹی دے رہے تھے، جو کہ ایک لیگل طریقہ کار ہے، اور ایم ایس بھی اس سے با خبر تھا۔ لیکن انکوائری میں حکومتی نمائندوں کی طرف سے یہ موقف رکھا گیا تھا کہ ہسپتال میں حفاظتی کٹس اور سب کچھ موجود ہے مگر اس ڈاکٹر نے بلا وجہ ایسے کیا تھا۔ جبکہ وائی ڈی اے خیبر پختونخوا کے مطابق اگر ہسپتال میں کٹس موجود تھیں تو ڈاکٹر عامر کے علاوہ دیگر اسٹاف کو کیوں نہیں دی گئیں؟

وائی ڈی اے خیبرپختونخوا کے ترجمان کے مطابق ڈی ایچ او صوابی نے کہا کہ ان پر سیاسی دباؤ ہے کہ ڈاکٹر عامر کو مجبور کیا جائے کہ وہ تصاویر کی تردید کرے کیونکہ تصاویر سوشل میڈیا پر کافی وائرل ہو چکی ہیں جس سے حکومت کی بد نامی ہو رہی ہے۔ڈی ایچ او دو دن سے مسلسل ڈاکٹر عامر پر تردیدی ویڈیو بیان دینے کے لئے دباؤ ڈال رہا تھا لیکن ڈاکٹر عامر نے انکار کیا، اور کٹس کی عدم دستیابی کو عوام اور طبی عملے کے لئے یکساں خطرناک قرار دیا، جس کی وجہ سے ڈاکٹر عامر کو انتقامی کاروائی کا نشانہ بنایا گیا۔

یاد رہے کہ ڈاکٹر عامر نے 2019ء میں پوسٹنگ کے وقت، آئیرلینڈ سے سپیشلائیزیشن کی بنیاد پر صوابی کے کمپلیکس ہسپتال میں تعیناتی کا آپشن دیا تھا، لیکن انھیں یار حسین میں تعینات کیا گیا، جس پر بھی ڈاکٹر عامر مطمئن اور خوش ہیں، لیکن ڈی ایچ او صوابی نے سیاسی دباؤ میں آکر اس بے تکی بات کو دفتری انکوائری میں شامل کیا۔ اگر انتظامیہ کے بقول ڈاکٹر عامر سے پولیو کیمپین میں کوئی کوتاہی ہوئی تھی تو اس وقت کوئی محکمانہ کاروائی کیوں نہ کی گئی۔ یہ سب کچھ سوائے نالائقی اور انتقامی کاروائی کے اور کچھ نہیں۔ ڈی ایچ او صوابی کو 2019ء میں بھی خراب کارکردگی پر ڈائریکٹر ہیلتھ سروسز ضم شدہ اضلاع کے عہدے سے ہٹایا گیا تھا، لیکن اس کے باوجود دوبارہ صوابی میں تعینات کیا گیا۔

وائی ڈی اے کے ترجمان نے مزید کہا کہ حکومت اس نازک وقت میں ہمارے صبر کا امتحان لے رہی ہے۔ ڈیوٹی ہمارا فرض اور حفاظتی کٹ مانگنا ہمارا حق ہے، اس مطالبے پر کسی ڈاکٹر کو انتقامی کاروائی کا نشانہ بنایا جائیگا تو ہم بھی خاموش نہیں بیٹھیں گے۔

حفاظتی سامان کی عدم فراہمی بابت حکومتی جھوتوں کا پردہ فاش کرنے پر ڈاکٹر ضیا کو بھیجا گیا شوکاز نوٹس

اس کے علاوہ گزشتہ روز ایک نجی ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے حقائق کی نشاندہی کرنے والے ڈاکٹر ضیاء الر حمان کو انتظامیہ کی طرف سے شوکاز نوٹس دیا گیا ہے جس میں ان سے وضاحت مانگی گئی ہے کہ آپ نے کیوں ایک ٹی وی چینل کو ان تمام تر حقائق سے روشناس کرایا جن پر ہم پردہ ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ڈاکٹر ضیاء الر حمان کا تعلق مردان سے ہے اور مردان کی ضلعی انتظامیہ کی طرف سے انہیں یہ شوکاز نوٹس ملا تھا۔

اسی طرح، چند روز قبل محکمہ صحت پنجاب نے بھی ایک سرکلر جاری کیا گیا جس میں کسی بھی ڈاکٹر، نرس، پیرامیڈک یا دیگر ہیلتھ سٹاف کو میڈیا یا سوشل میڈیا پر کسی بھی قسم کی معلومات یا بیان دینے سے روک دیا گیا ہے۔ وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ اس سے افواہیں پھیلتی ہیں جو کہ اس وقت خطرے کا باعث ہیں۔ مگر ہر ذی عقل شخص یہ جانتا ہے کہ اس کا مقصد صرف اور صرف بے سروسامانی کے عالم میں کرونا وبا کا مقابلہ کرنے والے ہیلتھ سٹاف کو حکومتی و ریاستی نااہلی اور بے حسی کا پردہ چاک کرنے سے روکنا ہے۔ 

علاوہ ازیں ملک بھر میں طبی عملے کو نااہل صوبائی و وفاقی حکومتوں اور کرپٹ بیوروکریسی کی جانب سے ایسے دھمکی آمیز اور آمرانہ رویے کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور اس میں شدت آرہی ہے، کیونکہ اس نا اہل حکمران طبقے اور کرپٹ افسر شاہی کے پاس عوامی مسائل کو حل کرنے کی اہلیت نہیں ہے اور اس ضمن میں وہ اپنی نااہلی کو چھپانے کے لئے طبی عملے کو بے جا تنقید اور دھمکیوں کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ بلوچستان میں بھی ینگ ڈاکٹرز اسی طرح حفاظتی کٹس کی فراہمی کا مطالبہ کر رہے ہیں مگر ان کو کہیں پر بھی ان کی فراہمی نہیں کی جارہی ہے بلکہ الٹا ان کو ڈیوٹی نہ دینے کی صورت میں سولی پر لٹکانے جیسی غلیظ دھمکیاں دی جارہی ہیں جن کی ریڈ ورکرز فرنٹ نہ صرف مذمت کرتا ہے بلکہ سمجھتا ہے کہ ان نااہل حکومتی نمائندوں اور کرپٹ افسر شاہی کے خلاف اگر طبی عملہ احتجاج کرتا ہے تو وہ بالکل حق بجانب ہو گا۔

ریڈ ورکرز فرنٹ ہمیشہ کی طرح عالمی وبا کی اس بحرانی کیفیت میں فرنٹ لائن پر لڑنے والے ملک بھر کے طبی عملے کے شانہ بشانہ کھڑا ہے۔ اور ہم یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ اس وقت ملک بھر کے طبی عملے کو سلامی دینے جیسے منافقانہ پروپیگنڈے سے ورغلانا مشکل ہے اور ضرورت اس بات کی ہے کہ طبی عملے کو فوری طور پر درکار مقدار میں معیاری حفاظتی کٹس کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔

Comments are closed.