گرینڈ ہیلتھ الائنس کی شاندار تحریک‘ عدالتی کارروائی اور ریاستی اداروں کا جبر!

|رپورٹ: ریڈ ورکرز فرنٹ، لاہور|

لاہور: سرکاری ہسپتالوں کی نجکاری کیخلاف گرینڈ ہیلتھ الائنس کی ہڑتال کامیابی سے جاری ہے

6نومبر کو لاہور ہائیکورٹ نے گرینڈ ہیلتھ الائنس پنجاب کے نجکاری مخالف احتجاج اور ہڑتال کے خلاف دائر کی گئی ایک رٹ پٹیشن کی سماعت کرتے ہوئے اپنے عوام دشمن اور مزدور کش چہرے سے نقاب اٹھا دیا۔ متعلقہ جج نے عدالت میں ریمارکس دیتے ہوئے سرکاری ہسپتالوں کی نجکاری کے خلاف سراپا احتجاج شعبۂ صحت کے محنت کشوں کو ہڑتال اور احتجاج ختم نہ کرنے کی صورت میں سنگین نتائج کی دھمکیاں دیتے ہوئے حکومت کو ہڑتال ختم کرانے کے لیے جبری برطرفیوں اور ریاستی جبر کے کھلے استعمال کے لیے گرین سگنل دے دیا۔ واضح رہے کہ ہر شعبے کی طرح وکلا میں بھی ایسی کالی بھیڑوں کی کمی نہیں جو مزدور دشمن کاروائیوں میں ملوث ہوتے ہیں اور جن کا کام ہی مزدور تحریکوں کے خلاف عدالت کو حرکت میں آنے کا جواز فراہم کرنا ہوتا ہے۔ موجودہ رٹ پٹیشن بھی اسی قماش کے چند وکیلوں کی ریاستی دلالی کا شاخسانہ ہے۔ ان عوام دشمن قوتوں کی گیدڑ بھبھکیوں کی حقیقی اوقات کیا ہے اور گرینڈ ہیلتھ الائنس کو ان کے جواب میں کیا کرنا چاہیے، اس پر بات کرنے سے پہلے ذرا برطانوی سامراج کی جانب سے بنائے گئے عدلیہ کے اس ادارے کے حقیقی کردار پر بات کر نے کی ضرورت ہے۔

ہم بار بار یہ وضاحت کرتے آئے ہیں کہ ایک طبقاتی سماج کا کوئی بھی ادارہ غیر جانبدار نہیں ہوتا۔ امیر اور غریب، سرمایہ دار اور مزدور، حاکم اور محکوم میں بٹے ہوئے معاشرے کا ہر ادارہ حتمی تجزئیے میں امراء، سرمایہ داروں اور حکمرانوں کے ہی مفادات کا تحفظ کرتا ہے اور ان ہی کی طرف داری کرتا ہے۔ درحقیقت، عدلیہ، پولیس سمیت تمام ریاستی اداروں کی تخلیق کا بنیادی مقصد ہی حکمران طبقے کو محنت کش عوام کے غیض وغضب سے تحفظ فراہم کرنااور ان کے مفادات کی خاطر غریبوں کو کچل کر رکھنا ہوتا ہے۔ لہٰذا، لاہور ہائیکورٹ کے ان عوام دشمن ریمارکس پر بالکل بھی حیران ہونے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ نام نہاد عدلیہ کی اصلیت یہی ہے۔

اگر کسی کو اس نقطۂ نظر سے اختلاف ہے تو اس سے سوال پوچھنا چاہیے ہیں کہ نجی ملکیت کے تحفظ کے علاوہ اس عدلیہ اور قانون کی کیا بنیاد ہے اور کیا آج تک ان عدالتوں سے کسی محنت کش کو، کسی غریب کو انصاف ملا ہے؟ نجی صنعتوں اور سرکاری اداروں سے جبری بر طرف کیے گئے ہزاروں محنت کشوں کے ساتھ ان عدالتوں میں کیا سلوک کیا جاتا ہے یہ کسی سے بھی ڈھکا چھپانہیں۔ عدالتوں کے دھکے کھاتے ان محنت کشوں کی عمریں گزر جاتی ہیں لیکن طاقتورسرمایہ داروں اور انتظامیہ کے اثر ورسوخ کی وجہ سے ان کے کیسوں کا فیصلہ نہیں ہوتا۔ اگر کبھی کوئی فیصلہ ہو بھی جائے تو عموماً محنت کشوں کی خلاف ہی ہوتا ہے لیکن اگر بالفرض ان کے حق میں بھی ہو تو سرمایہ دار عدالتی فیصلوں پر عملدرآمد کرنے سے صاف انکار کر دیتے ہیں اور یہ عدالتیں ان کا کچھ نہیں بگاڑ پاتیں۔ ملک کی شاید ہی کوئی صنعت ایسی ہو جہاں مالکان لیبر قوانین کی پابندی کرتے ہوں لیکن کیا کبھی ان عدالتوں نے ان کو سزا دی ہے؟ ملک کے طول وعرض میں روزانہ درجنوں محنت کش منافع کی ہوس میں اندھے ہوئے مالکان اور انتظامیہ کی غفلت کے سبب سیفٹی اقدامات نہ ہونے کی وجہ سے کام کے دوران موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ ان میں کوئلے کے کان کنوں سے لے کر واپڈا کے لائن مینوں تک سب شامل ہیں لیکن کیا کبھی ان عدالتوں نے ان حادثات کے ذمہ داران کا گریبان پکڑا ہے؟ کیا ان عدالتوں کی یہ مجال ہے پاکستان کے عوام کو لوٹ کھانے والی ملٹی نیشنل کمپنیوں کے خلاف کوئی قانونی اقدامات کر سکیں؟ کیا ان عدالتوں کی اتنی اوقات ہے کہ یہ آئی ایم ایف، ورلڈ بینک، امریکی، چینی اور سعودی آقاؤں کے ساتھ مختلف حکومتوں اور ریاستی اداروں کی جانب سے کیے جانے والے خفیہ عوام دشمن معاہدوں کی تفصیلات کو عوام کے سامنے لا سکیں؟ پاکستان میں ہر سال پانچ سال سے کم عمر کے ساڑھے چار لاکھ غریب بچے قابل علاج بیماریوں کے ہاتھوں اور لگ بھگ4لاکھ غریب مائیں دوران زچگی جاں بحق ہو جاتی ہیں کیونکہ سرمایہ داروں اور سامراجی مالیاتی اداروں کی دلال حکومتیں عوام کو مفت و معیاری صحت کی سہولیات فراہم نہیں کرتیں۔ کیا ان عدالتوں میں جرأت ہے کہ وہ سرمایہ دار طبقے اور آئی ایم ایف کے احکامات کے خلاف جاتے ہوئے حکومت کو صحت کا بجٹ بڑھانے کا پابند کر سکیں؟

چلیں یہ سب تو پیچیدہ باتیں ہیں، ہم ذرا سیدھے سادھے معاملات کو ہی دیکھتے ہیں۔ کیا انہی عدالتوں نے سانحۂ ساہیوال میں دن دیہاڑے ایک خاندان کو موت کے گھاٹ اتارنے والے درندہ صفت پولیس اہلکاروں کو باعزت بری نہیں کیا؟ کیایہ وہی عدالتیں نہیں ہیں جو سینکڑوں لوگوں کے ماورائے عدالت قتل کے مجرم راؤ انوار کو آج تک سزا دینا تو دور کی بات ایک بار جیل تک نہیں بھیج سکیں۔ کیا انہی عدالتوں نے آج تک ہر فوجی آمر کے تلوے چاٹتے ہوئے ہر مارشل لا کو قانونی سہارا فراہم نہیں کیا؟ کیا آج تک ان عدالتوں سے کسی سرمایہ دار، کسی امیر آدمی کو اس کے عوام دشمن جرائم کی سزا ملی ہے؟ اگر یہاں کوئی نواز شریف اور آصف زرداری کو دی جانے والی سزاؤں کا ذکر کرنا چاہتا ہے تو ہم یہ سوال پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ کیاغریب آدمی کو بھی جیل میں وہی فائیو سٹار سہولیات میسر ہوتی ہیں جو ان دونوں قومی لٹیروں کو فراہم کی جارہی ہیں اور ویسے بھی محنت کشوں کو دھمکیاں دینے والی یہی عدالتیں آنے والے عرصے میں بائیس کروڑ عوام کی نظروں کے سامنے ان دونوں امیر مجرموں کو پورے پروٹوکول کے ساتھ رہا کریں گی۔ قصہ مختصر یہ کہ یہ عدالتیں نہیں بلکہ قانون کی منڈیاں ہیں جہاں روز انصاف کی بولی لگتی ہے۔

گرینڈ ہیلتھ الائنس کی قیادت اور شعبۂ صحت کے محنت کشوں کو ان عوام دشمن بزدل عدالتوں کی گیدڑ بھبھکیوں سے بالکل بھی گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ یاد رکھیے! یہ ہسپتال ان میں کام کرنے والے محنت کشوں کی شب وروز کی محنت سے چلتے ہیں۔ اگر یہ محنت کش اپنا ہاتھ روک لیں تو کوئی عدالت، کوئی جج، کوئی پولیس، کوئی ریاستی ادارہ، غرض دنیا کی کوئی بھی طاقت انہیں نہیں چلا سکتی۔ درحقیقت، عدالت کے پیچھے چھپ کر حکومت نے بالواسطہ طور پر محنت کشوں کی طاقت کے سامنے شکست تسلیم کر لی ہے اور اب وہ عدالتی جبر کے ذریعے تحریک کو کچلنے کی کوشش کر رہی ہے۔

ماضی میں بھی مختلف عوامی اداروں کی نجکاری مخالف تحریکوں میں ایسا ہو چکا ہے کہ جب حکومت وقت براہ راست ان تحریکوں کو قابو کرنے میں ناکام رہی تو اس نے عدالت کا سہارا لیا اور عدالت نے دھمکیوں، قانونی لفاظیوں اور معاملات حل کرانے کے جھوٹے وعدے کر کے ان تحریکوں کو دھوکہ دہی سے زائل کر دیا۔ گرینڈ ہیلتھ الائنس کو جہاں ایک طرف ہڑتال پر قائم رہتے ہوئے اور اپنے احتجاج میں مزید شدت لاتے ہوئے عدلیہ کے ریاستی جبرکے خلاف بھی نبرد آزما ہونے کی ضرورت ہے اور وہیں دوسری جانب قیادت کو عدالت کی طرف سے کیے گئے جھوٹے وعدوں اور دھوکہ دہی سے بھی ہوشیار رہنا ہو گا۔ یقین کیجیے کہ یہ حکومت کا آخری حربہ ہے۔ اگر آپ ثابت قدمی اور جرأت کے ساتھ اپنی جدوجہد میں قائم رہے تو اس سے آگے فتح آپ کی منتظر ہے۔ لیکن حکومت کے اس آخری وار کا مقابلہ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ سرکاری ہسپتالوں کی نجکاری کی مذموم حکومتی کوششوں کے بارے میں ایک بھر پور عوامی آگہی مہم چلائی جائے تاکہ حکومتی پراپیگنڈے کا توڑ کرتے ہوئے تحریک کو وسیع عوامی حمایت حاصل ہو سکے۔ اسی طرح پنجاب اور خیبر پختونخوا میں جی ایچ اے کے ہی بینر تلے چلنے والی دونوں نجکاری مخالف تحریکوں کو اپنے روابط آگے بڑھاتے ہوئے ایک مشترکہ پلیٹ فارم پر آنے کی ضرورت ہے۔ مزید برآں، وقت کا تقاضا ہے کہ جی ایچ اے کی قیادت تمام صنعتوں اور خصوصاً نجکاری کے حملے کا شکار دیگر عوامی اداروں کی ٹریڈیونینز کے نام کھلی اپیل کرے کہ وہ اس تحریک میں شعبۂ صحت کے محنت کشوں کا عملی طور پر ساتھ دیں۔ ریڈ ورکرز فرنٹ، اس زبر دست جدوجہد کے ہر قدم پر شعبۂ صحت کے محنت کشوں کے شانہ بشانہ کھڑے رہنے کے عزم کا اعادہ کرتا ہے۔

آگے بڑھو ساتھیو!
فتح تمہاری منتظر ہے!

Comments are closed.