ہانگ کانگ: عام ہڑتال کی پہلی کوشش نے سماج کو جھنجھوڑ دیا

|تحریر: پارسن ینگ، ترجمہ: اختر منیر|

ہانگ کانگ میں حکومت اپنے موقف پر اڑی ہوئی ہے اور کیری لیم کئی روز تک منظر عام سے غائب رہی، یوں پچھلے کئی ہفتوں سے عام ہڑتال کی باتیں دوبارہ سے سامنے آنے لگیں۔ سوموار کے دن (5 اگست کو) ایک خودرو عام ہڑتال کا اعلان کیا گیا جس کے ساتھ سات مختلف اضلاع میں ریلیوں کا بھی منصوبہ بنایا گیا۔

ہانگ کانگ کنفیڈریشن آف ٹریڈ یونینز نے اعلان کیا کہ اس کی قیادت میں موجود 96 یونینز ہڑتال میں حصہ لیں گی، جو بڑی تعداد میں بیماری کی چھٹی کی درخواستوں کی شکل میں ہوگی۔ ہوائی سفر، ریل، پبلک ٹرانسپورٹ، مالیاتی شعبے، سماجی سہولیات، اور دیگر بہت سے شعبوں نے عام ہڑتال میں شرکت کا اعلان کیا۔ سرکاری شعبے کے بہت سے ملازمین، جن میں خاص طور پر سرکاری دفتروں میں کام کرنے والے ملازمین شامل ہیں، نے بھی ہڑتال میں شرکت کا اشارہ دیا۔

عام ہڑتال کے دن کا آغاز ہانگ کانگ انٹرنیشنل ایئرپورٹ کے جام ہونے سے ہوا، جہاں تین سو سے زیادہ پائلٹ، معاون اور زمینی عملے سے تعلق رکھنے والے ملازمین بیماری کی چھٹی پر چلے گئے جس سے فوری طور پر ڈھائی سو پروازیں منسوخ ہو گئیں۔ بہت سے سب وے سٹیشنز پر بھی وہاں کام کرنے والوں نے اسٹیشن بند رکھے یا پھر مظاہرین نے دروازے کھلے رکھ کر آمدورفت کو روکے رکھا۔ پانچ سے زائد مرکزی سب وے لائنیں بند رہیں۔ زمین کے اوپر بھی مظاہرین نے رکاوٹیں کھڑی کر کے شہروں کی ٹریفک کو متاثر کیے رکھا۔

صبح دس بجے کیری لیم اور دوسرے اعلیٰ سرکاری حکام نے کئی دنوں تک عوام سے چھپنے کے بعد پہلی مرتبہ ایک پریس کانفرنس کا انعقاد کیا۔ اس میں اس نے اپنے تحریک مخالف موقف کو دہراتے ہوئے کسی قسم کی رعایت دینے سے انکار کر دیا۔ اس نے تنبیہ کی کہ ہانگ کانگ تیزی سے ’’ناقابل واپسی حالات‘‘ کی جانب بڑھ رہا ہے۔ اسی دوران چینی کمیونسٹ پارٹی کی حکومت کے ہانگ کانگ اور مکاؤ کے معاملات دیکھنے والے دفتر نے اگلے روز اس صورتحال پر بات کرنے کے لیے ایک پریس کانفرنس کا اعلان کیا۔ بہت کم تعداد میں ہانگ کانگ کے میڈیا کو دعوت دی گئی جبکہ تائیوان کے میڈیا کو آنے سے روک دیا گیا۔

یانگ کانگ: عام ہڑتال کے دوران ایک ہڑتالی نوجوان ٹرین کا دروازہ روکے کھڑا ہے

دن گزرنے کے ساتھ یہ واضح نہیں تھا کہ ٹرانسپورٹ اور سماجی سہولیات کے علاوہ اور کون کون سے شعبے ہڑتال میں شامل ہیں۔ سات ضلعوں میں کی جانے والی ریلیوں میں بھی لوگ اکٹھے ہونا شروع ہوئے (بعد میں ڈزنی لینڈ بھی ان کے ساتھ آٹھویں مقام کے طور پر شامل ہو گیا)۔ ایک مقام پر کچھ مظاہرین، جو پچھلے ہفتے کے اختتام پر ہونے والے ایک واقعے پر مشتمل تھے جس میں پولیس نے احتجاج میں شامل ایک خاتون کا پاجامہ اور زیر جامہ پھاڑ کر اسے سڑک پر ننگا گھسیٹا تھا، نے پولیس پر اینٹوں سے حملہ کیا، جس کے جواب میں پولیس نے مظاہرین پر آنسو گیس اور ربڑ کی گولیوں سے حملہ کرتے ہوئے انہیں منتشر ہونے پر مجبور کر دیا۔

شام کو سفید شرٹوں میں ملبوس غنڈوں نے کچھ ہفتے پہلے یوین لونگ میں ہونے والے واقعے کو دہراتے ہوئے بہت سے مظاہرین پر ہتھیاروں سے حملہ کیا۔ مظاہرین گلیوں میں غنڈوں اور پولیس والوں کا مقابلہ کرتے رہے۔

ہانگ کانگ کی تحریک ایک باغیانہ کردار اپناتی جا رہی ہے۔ مگر اس تحریک کو جاری رکھنے اور مضبوط کرنے کے لیے مزدور قیادت کو ایک سوشلسٹ پروگرام کی بنیاد پر منظم ہونا پڑے گا اور ساتھ ہی ساتھ چینی محنت کشوں سے مدد کی اپیل بھی کرنا ہو گی۔

جیسے جیسے حالات تبدیل ہوں گے ہم ان کے متعلق مزید رپورٹیں شائع کریں گے۔۔۔

متعلقہ:

ہانگ کانگ: عوام دشمن قانون کے خلاف لاکھوں لوگ سڑکوں پر

Comments are closed.