سوال۔کیا یہ ممکن ہے کہ سرمایہ داری سے لڑے بغیر عالمی مالیاتی فنڈ اور عالمی بینک کے خلاف لڑا جائے؟

جواب۔ یہ غیر مساویانہ تبادلہ جس نے غریب ممالک کو غربت اور افلاس کی دلدل میں دھکیل دیا ہے انہیں بڑی طاقتوں یا ان کے تخلیق کردہ مالیاتی اداروں (عالمی مالیاتی فنڈ‘عالمی بینک وغیرہ) سے قرضے لینے پر مجبور بھی کرتا ہے جس سے وہ مکمل طورپر غلام ہو کر رہ جاتے ہیں۔اپنے قرضوں کی وجہ سے وہ قرضے دینے والے اداروں کی جانب سے ان پر مسلط کئے جانے والے معاشی منصوبوں اور بین الاقوامی تعلقات کو قبول کرلینے پر مجبور ہوتے ہیں۔عالمی مالیاتی فنڈ‘ عالمی بینک اور ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن جیسے تمام ادارے سرمایہ دارانہ نظام کو مستحکم کرنے کی کوششیں کرتے ہیں۔ بڑی طاقتیں اور ملٹی نیشنل کمپنیاں ان اداروں کو محض اسی وجہ سے رقوم فراہم کرتی ہیں کیونکہ ان اداروں پر انہی کا غلبہ ہے اور وہ ہی ان کی پالیسیوں کا تعین کرتی ہیں۔ان اداروں کی اصلاح کرنا یا ان کو جمہوری بنانا قطعاً ناممکن ہے کیونکہ اگر یہ ملٹی نیشنل کمپنیوں کیلئے سود مند نہ رہے تووہ انہیں رقوم کی فراہمی بند کرکے نئے ادارے تخلیق کر لیں گے۔ ملٹی نیشنل کمپنیوں کی طاقت کی بنیاد ذرائع پیداوار پر ان کا قبضہ اورملکیت ہے یعنی مشینری ‘ فیکٹریوں‘زمینوں اور سرمائے کی ملکیت۔جب تک ان طفیل خوروں کو بے دخل کر کے ان کی دولت کو عوام کے جمہوری کنٹرول میں نہیں دیا جاتا موجودہ صورتحال کی اصلاح کرنا ممکن نہیں ہو سکتا۔
سوال۔ سیاٹل ‘پراگ‘اورو نیس وغیرہ میں مظاہروں کی کیا وجوہات تھیں؟
جواب۔ عالمی مالیاتی فنڈ اور عالمی بینک کی جانب سے نام نہاد ’’امداد‘‘حاصل کرنے والے ممالک پر جو پالیسیاں مسلط کی جاتی ہیں وہ وہی ہیں جو دنیا بھر کے سرمایہ دار اپنے منافعوں میں اضافے کیلئے کرتے ہیں یعنی ریاست کی جانب سے فراہم کی جانے والی تعلیم اور صحت عامہ کی سہولتوں پر حملہ ‘ اجرتوں میں کمی‘ چھانٹیاں ‘پینشنوں اور دیگر مراعات میں کمی‘ لیبر قوانین میں اصلاحات‘پبلک سیکٹر میں چلنے والی کمپنیوں کی نجکاری وغیرہ۔ غریب ترین ممالک میں ان پالیسیوں پر اور بھی زیادہ تیز رفتاری سے عمل درآمد ہو رہا ہے اور اس کے ساتھ ہی ساتھ ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ہاتھوں ان کے قدرتی وسائل کی لوٹ مار کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ اس کے نتیجہ میں امیر اور غریب کے درمیان خلیج وسیع ہو تی ہے۔ غربت میں مزید اضافہ ہوتا ہے اور دنیا بھر میں ماحول کی تباہی کا سلسلہ اور آگے بڑھتا ہے۔ یہ مظاہرے جن کی شروعات سیاٹل سے ہوئی تھی اوراب ہر اس شہر میں دیکھنے کو ملتے ہیں جہاں عالمی مالیاتی فنڈ‘ عالمی بینک یا دیگر بین الاقوامی اداروں کے اجلاس منعقد ہو رہے ہوں۔یہ درحقیقت نوجوانوں اورمحنت کشوں کے بڑھتے ہوئے غم و غصے اور مزدور بین الاقوامیت کی غمازی کرتے ہیں۔