امریکہ: لاس اینجلس میں ٹرمپ کے اقدامات کے خلاف عوامی تحریک

|تحریر: لاس اینجلس آر سی اے، ترجمہ: عرفان منصور|

جون کے پہلے ہفتے کے آخری ایام میں لاس اینجلس میں امیگریشن کسٹمز انفورسمنٹ (ICE) کی جانب سے چھاپے مارنے کی ایک منظم کاروائی کی گئی۔ اس کاروائی میں رائفلز اور آنسو گیس بم لانچرز سے لیس مسلح وفاقی ایجنٹوں کے ساتھ لاس اینجلس پولیس ڈیپارٹمنٹ (LAPD) بھی شانہ بشانہ موجود تھی۔

انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

درجنوں پولیس اہلکاروں نے شہر کے وسطیٰ اور مشرقی علاقوں کے تارکینِ وطن محنت کشوں کی گنجان محلّوں میں قائم کام کی جگہوں پر دھاوا بولا اور کم از کم 44 افراد کو گرفتار کر لیا۔

یہ کاروائیاں آئی سی ای کے بے دخلی کے پرتشدد اور اشتعال انگیز اقدامات میں ایک سنگین اضافہ ہیں، جو اس سے قبل شکاگو (Chicago)، منی ایپلس (Minneapolis) اور جنوبی کیلیفورنیا (Southern California) جیسے علاقوں میں دیکھی جا چکی ہیں۔ ایک طرف اپنے ارب پتی دوستوں کو نوازنے اور دوسری طرف امریکی مزدوروں کا معیارِ زندگی بہتر کرنے جیسے ناممکن کام میں پیہم ناکامی کے ماحول میں یہ ٹرمپ کی خود کو مضبوط اور مؤثر ظاہر کرنے کی فاش کاوش ہے۔

جب ان چھاپوں کی خبر پھیلی تو ہزاروں مزدور اور نوجوان سڑکوں پر نکل آئے۔ لوگوں نے از خود منظم ہو کر کوشش کی کہ آئی سی ای کی گاڑیاں گرفتار شدگان کو لے کر فرار نہ ہو سکیں۔ ایک شخص تو ان گاڑیوں کو روکنے کی سرفروشانہ کاوش میں گاڑی کے نیچے آنے سے بال بال بچا۔ یہ واقعہ ان گنت جرات مندانہ مناظر میں سے ایک تھا جو سڑکوں پر نظر آئے، جب عام شہریوں نے ان حملوں کے خلاف براہِ راست مزاحمت کی۔ پانچ سال قبل، جارج فلائیڈ کی ہلاکت کے نتیجے میں ٹرمپ کو وائٹ ہاؤس کے بنکر میں چھپنے پر مجبور کرنے والی عوامی بغاوت کے بعد اب اس کی نئی اشتعال انگیزیاں ایک اور عوامی تحریک کو جنم دے سکتی ہیں۔

بعد کے ایام میں ہزاروں افراد نے لاس اینجلس بھر میں مظاہرے کیے، جن میں بعض مظاہروں میں شرکاء کی تعداد دس ہزار سے بھی تجاوز کر گئی۔ زیادہ تر احتجاجوں کو غیر قانونی قرار دیا گیا اور مظاہرین پر ہجوم کو کنٹرول کرنے والے ہتھیاروں سے حملے کیے گئے۔ سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ حفاظتی لباس میں ملبوس پولیس اہلکار، مظاہرین پر آنسو گیس، پینٹ بال اور فلیش بینگ گرنیڈ سے حملے کر رہے ہیں۔ آئی سی ای اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی گاڑیوں کو تباہ کیا گیا اور نذرِ آتش کیا گیا۔ پیرا ماؤنٹ (Paramount) کے قریبی علاقے جو زیادہ تر لاطینی باشندوں پر مشتمل ہے، میں مظاہرین کو خبر ملی کہ آئی سی ای ہوم ڈیپو(Home Depot) کے باہر دیہاڑی دار تارکین وطن کو نشانہ بنا رہی ہے، تو وہاں پولیس اور مظاہرین کے مابین سخت جھڑپیں شروع ہو گئیں۔ یہ علاقہ اب کھلا میدانِ جنگ بن چکا ہے۔

اس کے نتیجے میں، 1965ء کے بعد پہلی بار، ریاست کے گورنر کی مرضی کے برعکس ٹرمپ نیشنل گارڈ (the National Guard) کو وفاقی کنٹرول میں لے لیا۔ امیگریشن پالیسیوں کے اہم کردار، ٹام ہومین (Tom Homan) کی سفارش پر دو ہزار فوجی اہلکاروں کو شہر میں تعینات کر دیا گیا ہے۔ وزیرِ دفاع پیٹ ہیگستھ (Pete Hegseth) نے کیمپ پینڈلٹن کی فعال فوجی جتھوں کو متحرک کرنے کی دھمکی بھی دی ہے۔

لاس اینجلس کی میئر کیرن باس (Karen Bass) اور سٹی کونسل کے ارکان نے ICE کی جارحیت پر فوری مگر مچھ کے آنسو بہانے شروع کر دیے۔ وہ لاس اینجلس کے تارکینِ وطن شہریوں کی محنت کی تعریف کرتے ہیں، جنہیں ان کے ارب پتی ڈونرز بے رحمی سے استحصال کا نشانہ بناتے ہیں۔ وہ بلند آواز میں دعویٰ کرتے ہیں کہ لاس اینجلس ایک ”پناہ گزیں شہر“ ہے، جہاں مقامی حکام کبھی بھی بے دخلی کی کاروائیوں میں تعاون نہیں کریں گے۔ لیکن حقیقت بالکل عیاں ہے؛ LAPD نے ”ٹریفک قوانین کی عملداری“ کا واہیات بہانہ بنا کر، ICE کی سڑکوں پر کی گئی کاروائیوں میں پُرتشدد معاونت کی۔ اس خیال کی دھجیاں اُڑ چکی ہیں کہ کوئی بھی شہر ڈیموکریٹس یا ریپبلکنز کی حکمرانی میں انتہائی پسے ہوئے مزدوروں کے لیے حقیقی پناہ گاہ بن سکتا ہے۔

درحقیقت، خوف دونوں سیاسی جماعتوں کی امیگریشن پالیسی کا لازمی حصہ ہے، نہ کہ محض کوئی خرابی۔ سرمایہ دار طبقہ اور ان کی نمائندہ جماعتیں تارکین وطن کو ہر لمحہ بے دخلی کے لٹکتی تلوار دکھا کر کسی بھی قسم کی تنظیم سازی یا مزاحمت سے باز رکھتے ہیں تاکہ ان کی سستی محنت کے استحصال کا ذریعہ قائم رہے۔ جیسا کہ بدنامِ زمانہ سرمایہ دار، ملٹن فرائیڈمین (Milton Friedman) نے واضح انداز میں کہا تھا: ”امیگریشن تب تک فائدہ مند ہے جب تک غیر قانونی ہو۔“

محنت کش طبقے کی سب سے زیادہ استحصال زدہ اور جفاکش پرتوں کو خوف میں مبتلا رکھنا اب ایک منافع بخش کاروبار بھی بن چکا ہے۔ نجی جیلوں کی دو اجارہ دار کمپنیاں، جی ای او گروپ (GEO Group) اور کور سیوِک (CoreCivic)، حکومتی معاہدوں کے ذریعے حراستی مراکز قائم کر کے اربوں کما چکی ہیں۔ ان دونوں کمپنیوں نے ٹرمپ کی انتخابی مہم میں دل کھول کر چندہ دیا اور ٹرمپ کی دوبارہ کامیابی کے بعد جی ای او گروپ کے حصص کی قیمت میں 50 فیصد اضافہ ہوا۔

ٹرمپ کی صدارت میں واپسی کے ساتھ ہی امریکی ٹیکس دہندگان کے پیسوں سے ایک لاکھ مزید قیدیوں کے لیے مراکز تعمیر کرنے کے منافع بخش موقع کی صورت میں ان کمپنیوں کو ان کی سرمایہ کاری کا بھرپور صلہ مل گیا۔ دونوں جماعتوں کی حکومتوں کے تحت ICE کی مسلسل پھیلتی سرگرمیوں کے طفیل ان نجی اداروں نے عشروں تک معاہدوں کی امیدیں باندھے رکھیں اور اب جی ای او گروپ حکومتی خزانے سے کھل کر فائدہ اٹھا رہا ہے۔ کمپنی نے اس سال اپنی سالانہ آمدنی میں ایک ارب ڈالر کے اضافے کی پیشگوئی کی ہے۔

ڈیموکریٹس ٹرمپ حکومت کی کھلی جارحیت اور ”جان بوجھ کر اشتعال انگیز“ حکمتِ عملیوں پر واویلا مچاتے ہیں، مگر وہ خود تارکینِ وطن مزدوروں کو خوفزدہ کرنے کے لیے اتنا ہی تباہ کن لیکن نسبتاً ”مہذب“ انداز اپنانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اقتدار میں چاہے کوئی بھی جماعت ہو، تارکینِ وطن کے خلاف پالیسی ایک جیسی رہتی ہے۔ ٹرمپ نے امریکی سرمایہ داری کے بحران کا سارا ملبہ مہاجرین پر ڈال کر مشتعل مزدور طبقے کو گمراہ کیا، اور یوں ایک ثقافتی جنگ بھڑکائی جس نے مقامی اور غیر ملکی مزدوروں کے مابین تفریق پیدا کر دی۔ مگر ڈیموکریٹس کی نام نہاد ہمدردی محض فریب ہے۔ صدر اوباما اور بائیڈن، دونوں نے اپنے ادوار میں ٹرمپ کی پہلی مدتِ صدارت سے کہیں زیادہ لوگوں کو ملک بدر کیا۔

خود کو MAGA کے خلاف مزاحم کہنے والے کیلیفورنیا کے گورنر گیوِن نیوسم (Gavin Newsom) نے حال ہی میں ایک تجویز دی کہ جن تارکینِ وطن کے پاس قانونی حیثیت نہیں، انہیں Medi-Calکے تحت صحت کی سہولیات نہ دی جائیں۔ چھاپوں سے کچھ ہی دن پہلے، نیوسم نے مہاجر بچوں کے لیے قانونی امداد مہیا کرنے والے پروگرام کی فنڈنگ منقطع کر دی۔ ریاست کے ڈیموکریٹس بے ضرر سے قوانین کا نام دہراتے ہیں اور دعویٰ کرتے ہیں کہ ICE کو سکولوں اور ہسپتالوں سے دور رکھا جائے گا۔

ٹرمپ سے ایک ٹیلیفونک گفتگو میں، گورنر نیوسم نے یقین دلایا کہ وہ ریاستی مسلح افواج کے ذریعے ہنگامہ فرو کر سکتا ہے۔ جب ٹرمپ نے نیشنل گارڈ کو وفاقی کنٹرول میں لیا تو نیوسم نے محض ایک سخت الفاظ پر مشتمل خط لکھ کر اس فیصلے کو واپس لینے کا کہا۔ لیکن بے دخلی کی پالیسیوں کو چیلنج کرنے پر ایک لفظ بھی ضائع نہیں کیا۔

جب ملک بھر میں لاکھوں مزدور یہ منظر دیکھتے ہیں کہ والدین کو ان کے بچوں سے جدا کیا جا رہا ہے اور جو بھی آواز اٹھاتا ہے اسے تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے، تو یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ کوئی بھی سیاسی جماعت ان کی نمائندہ نہیں ہے۔ ان چھاپوں کے خلاف واحد مؤثر دفاع مزدور طبقے کے اپنے ہاتھوں سے ہی ممکن ہے۔

مزدور تحریک، خصوصاً وہ یونینز جو لاس اینجلس میں ہزاروں غیر دستاویزی محنت کشوں کی نمائندگی کرتی ہیں، کو محض دعووں سے نہیں بلکہ عملی اقدامات سے یہ ثابت کرنا ہو گا کہ وہ واقعی مزدوروں کے حقوق کا دفاع کرتی ہیں۔ کیلیفورنیا SEIU اور SEIU-USWW کے صدر ڈیوڈ ہیورٹا (David Huerta) کو مظاہروں کے دوران پولیس بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنا کر اور گرفتار کر کے، ریاست پہلے ہی مزدور تحریک پر ظلم کا آغاز کر چکی ہے۔ سر پر شدید چوٹ لگنے کے باعث انہیں ہسپتال پہنچایا گیا، اور بعد ازاں وہ میٹرو پولیٹن حراستی مرکز منتقل کر دیے گئے، جہاں وہ اب بھی زیرِ حراست ہیں۔

SEIUکے 17 مقامی یونینز میں 7 لاکھ ارکان ہیں، جو کیلیفورنیا کے 58 مقامات میں پھیلی ہوئی ہیں، صرف لاس اینجلس کے علاقے میں 2 لاکھ 5 ہزار ارکان ہیں۔ یہ وہ وقت ہے کہ جب ”ایک کا دکھ، سب کا دکھ“ کے نعرے کی عملی تجسیم کی جائے۔ جیسا کہ نیو یارک ٹائمز نے رپورٹ کیا:

”SEIU نے اعلان کیا ہے کہ وہ مسٹر ہیورٹا کی رہائی کے لیے پیر کے روز لاس اینجلس اور ایک درجن سے زائد شہروں میں ریلیاں نکالے گی۔ یونیورسٹی آف کیلیفورنیا، اِروِن (Irvine) کی قانون کی پروفیسر محترمہ ڈُبال (Dubal) نے کہا: ’ان کی گرفتاری نے مزدور تحریک کے نسبتاً قدامت پسند حلقوں کو بھی جھنجھوڑ دیا ہے۔ اگر حکومت ملک کی سب سے بڑی معیشت رکھنے والی مزدور دوست ریاست کی سب سے بڑی مزدور یونین کے سربراہ کو نشانہ بنا سکتی ہے، تو پھر کون محفوظ ہے؟‘

متعدد مزدور یونینز، جن میں ILWU اور قومی AFL-CIO شامل ہیں، جو تقریباً ڈیڑھ کروڑ مزدوروں کی نمائندگی کرتی ہیں، نے ڈیوڈ ہیورٹا کی رہائی کا مطالبے کے بیانات جاری کیے ہیں۔ تاہم، لفظی اظہارِ یکجہتی کی عملی تجسیم کرنی ہو گی۔ کیلیفورنیا کی AFL-CIO کے پاس اتنے وسائل موجود ہیں کہ وہ اپنی 23 لاکھ کی ممبر شپ کو متحرک کر کے ٹرمپ کے حملوں کے خلاف ایک وسیع عوامی تحریک شروع کر سکے۔ ملک گیر سطح پر براعظم کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک، وہ مقامی اور پناہ گزین دونوں محنت کشوں کی کروڑوں کی تعداد میں یونین سازی کے لیے مہم چلا سکتی ہے۔ مگر ایسی تحریک مؤثر انداز میں تبھی منظم کی جا سکتی ہے جب قیادت محنت کش طبقے کی جدوجہد کے نقطہ نظر اور طریقہ کار کو اپنائے اور اپنے عمل کے ذریعے عوام کے دل و دماغ کو جیتے۔

رولوشنری کمیونسٹ آف امریکہ، ICE کے خلاف عام محنت کشوں کی سرفروشانہ عملی یکجہتی اور کاوشوں کی مکمل حمایت کرتی ہے۔ تاہم، جیسا کہ 2020ء کے تجربے نے ثابت کیا، عوامی جوش و جذبے کی خود رو تحریکیں مسلح ریاستی اداروں کا مؤثر مقابلہ کرنے کے لیے ناکافی ہوتی ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ محنت کش طبقہ منظم اور اجتماعی طور پر میدانِ عمل میں آئے۔ موجودہ مظاہرے ایسی کمیں گاہیں بنیں، جہاں سے نہ صرف ریاستی خوف کے خلاف مزاحمت کی منظم کوششیں کی جائیں، بلکہ اسے پیدا کرنے والے، اس نظام کو جڑ سے اکھاڑنے کے طریقہ کار پر بھی کھلے عام بحث کی جائے۔

جارج فلوئڈ کے قتل پر جنم لینے والی بغاوت کے دوران قائم ہونے والی محلہ جاتی دفاعی کمیٹیوں کی طرز پر لاس اینجلس سمیت اُن تمام علاقوں میں جہاں ICE کے حملوں کا خطرہ موجود ہو، ایسی کمیٹیاں تشکیل دی جانی چاہئیں۔ جمہوری طور پر منتخب کونسلز کا قیام عمل میں لایا جائے اور وہ ملک گیر سطح پر مربوط مظاہروں اور ہڑتالوں کا انعقاد کریں۔ مظاہرین پر استعمال ہونے والا زیادہ تر اسلحہ کیلیفورنیا کی فیکٹریوں میں تیار ہوتا ہے۔ لہٰذا، ان کونسلون کا وفد ان اسلحہ ساز فیکٹریوں کے مزدوروں سے رجوع کر سکتا ہے اور انہیں کام چھوڑ ہڑتال کرنے کی دعوت دے سکتا ہے۔

لاس اینجلس اور دیگر شہروں میں بھی محنت کشوں کی تعداد ICE اور مقامی پولیس فورسز سے کہیں زیادہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ٹرمپ نے نیشنل گارڈ کو تعینات کیا ہے۔ اس نے اندازہ لگایا کہ طاقت کا یہ مظاہرہ اس کی سخت گیر امیگریشن مخالف سیاسی بنیاد کو خوش کرے گا۔ وہ ملک کے کچھ حصوں کو ”ناقابلِ حکمرانی“ ظاہر کر کے صدارتی اختیارات کو مزید وسعت دینا چاہتا ہے۔ مگر یہ آگ سے کھیلنے جیسا ہے۔ عارضی فوجیوں کو ان کے اپنے ہی لوگوں کے خلاف بھیجنا ایک خطرناک کھیل ہے۔

موسمِ گرما 2020ء میں، نیشنل گارڈ کے کئی اہلکار مظاہرین سے گھل مل گئے تھے۔ LA میں BBC کے نمائندے کی براہِ براہ راست نشریات میں مظاہرین کو نیشنل گارڈ سے مخاطب ہو کر یہ کہتے ہوئے سنا گیا: ”کیا تم نے اسی لیے وردی پہنی تھی؟ مجھے یقین ہے کہ ایسا نہیں ہو سکتا، کیا تم اپنے خاندان کے ساتھ گھر پر نہیں ہونا چاہتے؟ اسی لیے تو ہم یہاں ہیں، بھائی۔ ہم یہاں اپنے لوگوں کا دفاع کرنے آئے ہیں۔“

ایک سابق امریکی فوجی کیپٹن، جو اب ایک کمیونسٹ بن چکا ہے، نے وفاقی طور پر تعینات کیلیفورنیا نیشنل گارڈ کے فوجیوں کی سوشل میڈیا پوسٹوں کا جائزہ لیتے ہوئے کہا:

”یہ بحثیں بالکل ویسی ہی ہیں جیسی ہم 2020ء میں کر رہے تھے، جب میرے بریگیڈ سے پیرا ٹروپرز (paratroopers) کو جارج فلوئڈ احتجاج کے دوران ڈی سی بھیجا گیا تھا۔ وہ زیادہ تر وقت کسی گودام میں سوتے رہے اور ’آن کال‘ رہے۔ تب بھی ہم یہ ہی سوال اٹھا رہے تھے کہ امریکی سر زمین پر وفاقی فوج کی تعیناتی کی قانونی حیثیت کیا ہے؟ کیا یہ فوج پر عوام کے اعتماد کو مجروح نہیں کرے گا؟ کیا ہم نے اس لیے حلف اٹھایا تھا کہ مظاہرین کو دبانے کے لیے استعمال ہوں؟ مگر آج کی گفتگو پانچ سال پہلے کی نسبت کہیں زیادہ شدید ہو چکی ہے۔“

ٹرمپ بے سمت ہاتھ پاؤں مار رہا ہے کیونکہ اس کی مقبولیت گرتی جا رہی ہے۔ وہ اپنے آپ کو طاقتور اور فیصلہ کن ظاہر کرنے کے لیے بے تاب ہے، خاص طور پر اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف۔ امریکی سرمایہ داری کے ملکی اور عالمی پیمانے پر گھمبیر مسائل سے توجہ ہٹانے کے لیے وہ نفرت پر مبنی امیگریشن مخالف بیانیے کو مزید بھڑکا رہا ہے تاکہ اپنی بنیاد کو مضبوط رکھ سکے۔ عین اسی وقت، اس کا ”بڑا، دلکش بِل“ (‘Big Beautiful Bill’) اس کے اپنے حامیوں کی ایک بہت بڑی تعداد کے لیے میڈیکیڈ (Medicaid) اور دیگر بنیادی سماجی خدمات میں کٹوتی کا پروانہ لا چکا ہے۔

یہ کہنا قبل از وقت ہو گا کہ آیا لاس اینجلس سے اٹھنے والی یہ چنگاری کسی وسیع تر آگ کا پیش خیمہ بنے گی یا نہیں۔ مگر ایک بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ ان چھاپوں کے خلاف اُبھرنے والا مزاحمتی اور باغیانہ جذبہ مستقبل کی جھلک پیش کر رہا ہے۔ جو چیز مفقود ہے وہ مزدور طبقے کی خود رو قربانی یا بہادری نہیں، یہ تو بارہا ثابت ہو چکی ہے، بلکہ ایسی قیادت کی کمی ہے جو سرمایہ داری کے بحران کے تمام دھاروں کو ایک دھارے میں پروئے، ایک واضح تناظر دے اور انقلابی راستہ دکھائے جو ICE اور اُس سرمایہ دارانہ نظام کو ڈھا دے جس کی یہ حفاظت کرتا ہے۔

کئی مزدور ناگزیر طور پر، مایوسی سے پیدا ہونے والے جلد بازی کے عالم میں، ’قلعے پر دھاوا بولنے‘ کی کوشش کریں گے۔ مگر ICE کو توڑنے کے لیے صرف غیظ و غضب کافی نہیں، اس کے لیے ایک عظیم الشان اور منظم ہتھیار درکار ہے؛ ایک انقلابی کمیونسٹ پارٹی جو ہر شہر میں جڑیں رکھتی ہو۔ ملک گیر سطح پر مربوط اور حکمت عملی پر مبنی جدوجہد کرتے ہوئے، یہی ہتھیار مزدور طبقے کی سیاسی و معاشی طاقت کے حصول کی راہ میں حائل تمام رکاوٹوں کو پاش پاش کر سکتا ہے۔ جب دنیا کی سب سے طاقتور رجعتی قوت زمین بوس ہو گی تو براعظم امریکہ میں ایک سوشلسٹ فیڈریشن کا قیام اور تمام مصنوعی سرحدوں کا خاتمہ ایک زندہ حقیقت بن سکے گا۔

ریولیوشنری کمیونسٹ آف امریکہ اسی ہتھیار کی تعمیر میں مصروف ہے۔ نہ صرف اس نسل پرست اور پناہ گزین دشمن حکومت کے خلاف، بلکہ اس تمام گلے سڑے سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف ہم اپنے طبقے کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔ ہم معیاری روزگار، صحت کی سہولیات، تعلیم اور ہر فرد کو رہائش کی ضمانت کے لیے، تمام غیر دستاویزی محنت کشوں کے لیے فوری، غیر مشروط قانونی حیثیت اور مکمل شہری حقوق کے لیے، امیگریشن اور پناہ گزینی کے تمام نسل پرستانہ قوانین اور ضوابط کے خاتمے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ بڑے کاروباروں کو محنت کشوں کے اختیار میں دے کر اس دولت کو متذکرہ عوامی بہبود پر خرچ کریں گے جبکہ سرمایہ دارانہ ریاست، ICE، بارڈر پٹرول، پولیس، حراستی مراکز، جیلیں، وغیرہ، ان کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے گا۔ یہ ہے وہ انقلابی پروگرام جو مزدور تحریک کو آنے والی لڑائیوں کے لیے مسلح کر سکتا ہے اور اسے ایک ناقابلِ شکست طاقت میں ڈھال سکتا ہے۔

ایک کا دکھ سب کا دکھ! مزدور تحریک کو منظم ہو کر آگے بڑھنا ہو گا!

ڈیموکریٹس پر کوئی بھروسہ نہیں! حکمران طبقے کی دونوں پارٹیاں مردہ باد!

ہر اُس فیکٹری، دفتر اور محلے میں مزدوروں کی دفاعی کمیٹیاں قائم کی جائیں جہاں ICE حملہ آور ہو سکتی ہے!

غیر دستاویزی محنت کشوں اور ان کے خاندانوں کے لیے فوری معافی اور مکمل حقوق!

ایک ایسی پارٹی کی تعمیر کرو جو ICE اور سرمایہ دارانہ نظام کو ہمیشہ کے لیے خاک میں ملا دے!

Comments are closed.