سامراجی جنگ اور بنیادپرستانہ رجعت سے تڑپتا افغانستان

|تحریر: زلمی پاسون|

12 مئی کو افغانستان کے دارالحکومت کابل میں ایم ایس ایف (طبیانِ بے سرحد) کے سو بیڈ پر مشتمل ہسپتال کے زچہ بچہ وارڈ پر دہشت گردوں کے حملے کے نتیجے میں اب تک کی اطلاعات کے مطابق 16 معصوم بچے، خواتین اور دیگر افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں، جبکہ 20 کے قریب افراد کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں جن میں کئی کی حالت تشویش ناک بتائی جا رہی ہے۔ جہاں پر یہ ہسپتال واقع ہے اس علاقے کا نام دشت برچی ہے جہاں شیعہ آبادی کی اکثریت ہے اور اس دہشت گردانہ واقعے کی ذمہ داری داعش نے قبول کی ہے۔ جبکہ اسی دن افغانستان کے ایک اور شہر ننگرہار میں نماز جنازہ پر خودکش حملہ ہوا جس میں اب تک 24 افراد کی ہلاکت اور 60 کے قریب افراد کی زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔ ننگرہار دھماکے کی اب تک کسی نے ذمہ داری قبول نہیں کی جب کہ ترجمان طالبان ذبیح اللہ مجاہد نے ٹویٹر پر صرف کابل حملے سے لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ طالبان کا کابل معاملے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ مگر ننگرہار حملے پر وہ اب تک خاموش ہے۔ ایک دن پہلے کابل شہر میں صرف 90 منٹ کے اندر چار دھماکے ہوئے جن کی ذمہ داری بھی داعش نے قبول کی جبکہ طالبان اور افغان فورسز کے درمیان روزانہ کی بنیاد پر جھڑپیں ہوتی ہیں جس میں ہمیشہ کی طرح مظلوم محنت کش عوام لقمہئ اجل بنتے ہیں۔ مختصراً یہ کہنا بجا ہوگا کہ افغانستان میں دہشت گردی کی آگ صرف دستاویزی شکل میں سامراجی قوتوں اور ان کے پروردہ دہشت گردوں کے درمیان ختم قرار دی جاچکی ہے جبکہ درحقیقت افغان محنت کش عوام روزانہ ایسے خونخوار واقعات کا سامنا کر رہے ہوتے ہیں جو کہ ایک سے بڑھ کر اذیت ناک اور تکلیف دہ ہوتا ہے۔

واضح رہے کہ رواں سال کے اوائل میں 18 سالہ جنگ کا خاتمہ 29 فروری کو امریکی سامراج اور طالبان کے درمیان قطر کے دارالحکومت دوحہ میں نام نہاد امن معاہدے کی شکل میں ہوا، جس میں دونوں فریقین کی جانب سے جنگ کے خاتمے پر زور دیا گیا۔ اس معاہدے کے دو اہم نکات جن میں امریکی فوج کا انخلاء جبکہ طالبان کی طرف سے افغانستان کی سرزمین کو دہشت گردی کے خلاف استعمال نہ کرنے کی یقین دہانی شامل تھی۔ اس معاہدے کے حوالے سے لبرل اور وظیفہ خوار دانشوروں کی رائے یہ تھی کہ یہ معاہدہ افغانستان میں امن کے حوالے سے پہلا قدم ہے جبکہ اصل حالات کا ادراک تو طالبان اور افغان حکومت کے درمیان مذاکرات ہونے کے بعد معلوم ہوں گے، مگر وہ یہ اندیشہ بھی رکھتے ہیں کہ امریکی فوج کے انخلا کے بعد طالبان دوبارہ اقتدار حاصل کرنے کے لیے ایک نیا تنازعہ کھڑا کریں گے جس سے حالات خراب ہوں گے۔

کوئی بھی ذی شعور شخص دیکھ سکتا ہے کہ یہ معاہدہ امریکی سامراج کی پسپائی اور شکست کا واضح اظہار ہے جبکہ طالبان بھی صورتحال کو مکمل طور پر کنٹرول کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ دونوں عوام دشمن قوتیں اقتدار کے لیے ایک دوسرے سے برسر پیکار ہیں اور اس کے لیے عوام پر بربادی مسلط کر رہی ہیں۔ افغان عوام کی کوئی حقیقی نمائندگی کسی بھی معاہدے اور مذاکرات میں موجود نہیں اور یہ سامراجی گدھ اور بنیاد پرستانہ رجعتیت کے درمیان معاہدہ ہے جس سے نہ تو امن آئے گا اور نہ ہی افغان عوام کا کوئی ایک مسئلہ بھی حل ہو گا۔ اس سے قبل بھی 2001ء سے لے کر اب تک افغانستان میں امریکی و نیٹو افواج کی موجودگی میں کونسی دودھ اور شہد کی نہریں بہتی تھیں جو کہ امریکی انخلاء کے بعد فنا ہوجائیں گی۔ اس کے علاوہ سیزفائر کے حوالے سے بھی معاہدے کے اندر ایک شرط تھی۔ مگر اس شرط کے باوجود 29 فروری سے لے کر اب تک طالبان اورافغان فوج کے درمیان دو طرفہ جھڑپوں کے واقعات کے علاوہ دہشت گردی کے کئی واقعات میں کئی مظلوم افغان عوام کی جانیں ضائع ہوچکی ہیں۔ ان واقعات کے حوالے سے ذکر کرنا اس لئے ضروری ہے کہ اس نام نہاد امن معاہدے کو میڈیا کے ذریعے بہت اچھالا گیا اور یہ باور کرایا جاتا رہا کہ اس نام نہاد امن معاہدے کے بعد افغانستان کے اندر حالات سنبھل جائیں گے اور امن آئے گا۔ امن لانے کے اعلانات تو جھوٹ پر مبنی ہی تھے جن کی قلعی کھل چکی ہے لیکن اس معاہدے کے بعد سے دنیا کے حالات میں بھی بہت بڑی تبدیلیاں آ چکی ہیں جن کا جائزہ لینا ضروری ہے۔اس کے علاوہ افغانستان کے اندر جو حالات بن رہے ہیں ان کو اس عالمی منظر نامے میں ایک کڑی کی حیثیت سے دیکھنا ازحد ضروری ہے۔

سرمایہ داری کا عالمی بحران

کرونا وبا نے چند مہینوں میں ہی پوری دنیا کو تبدیل کرکے رکھ دیا ہے۔ کرونا وبا نے عالمی سرمایہ دارانہ نظام کی طبعی عمر کی تکمیل اور اس کی زوال پذیری کی حقیقت پوری دنیا پر عیاں کر دی۔ اس وقت کرونا وبا سے پوری دنیا کے اندر سب سے زیادہ متاثر ہونے والا ملک امریکہ ہے جہاں پر اب تک سب سے زیادہ اموات ریکارڈ کی گئی ہیں، جبکہ یہ وبادیگر ترقی یافتہ ممالک برطانیہ، فرانس، اٹلی، سپین، جرمنی وغیرہ سمیت پسماندہ ممالک کو بھی لپیٹ میں لے چکی ہے۔ کرونا وبا نے اس نظام کی افادیت اور عالمی حکمران طبقے کی بے حسی، نااہلی اور منافعوں کی ہوس کو ننگا کر دیا اور عالمی سرمایہ دارانہ نظام کے اندرونی تضادات اور نظام کی کمزوریوں کو سطح پر لانے میں اہم کردار ادا کیا۔ کرونا وبا سے پہلے بھی عالمی طور پر سرمایہ دارانہ نظام شدید بحران سے گزر رہا تھا جس کا آغاز 2008 ء کے عالمی مالیاتی بحران سے ہوا تھا۔ 2008ء سے لے کر 2020 ء تک ایک دہائی سے زیادہ کے عرصے میں عوامی اخراجات میں بدترین کٹوتیوں اور محنت کش طبقے پر شدید حملوں کے باوجود تاریخ کی کمزور ترین بحالی ہوئی۔ مارکس وادیوں کے علاوہ عالمی بورژوازی کے سنجیدہ جرائد اور معیشت دان عالمی معاشی بحران کے حوالے سے پیش گوئیاں کر رہے تھے اور وہ یہ کہتے تھے کہ آنے والے معاشی بحران کے سامنے 2008ء کا مالی بحران ایک پکنک جیسا معلوم ہوگا۔ اور پھر 2008ء کے معاشی بحران کا سیاسی اظہار 2011ء میں ’عرب بہار‘ کی انقلابی تحریکوں سے ہوا۔ یوں یہ سلسلہ مختلف نشیب و فراز کے ساتھ چلتا رہا اور پھر 2019ء میں دنیا بھر کے کئی ایسے ترقی یافتہ، پسماندہ اور ترقی پذیر ممالک میں تحریکیں اٹھی تھی جنہوں نے اس نظام کے مستقبل پر ایک سنجیدہ سوالیہ نشان کھڑا کر دیا۔

ہم سمجھتے ہیں کہ یہ تمام تر تحریکیں ختم نہیں ہوئی ہے بلکہ یہ تحریکیں ایک بلند معیار پر دوبارہ اپنا اظہار کریں گی۔ کرونا وبا کے بعد عالمی معیشت ایک ایسی نہج پر پہنچ چکی ہے جس کی تاریخ میں بہت کم مثال ملتی ہے۔ اس وقت عالمی تجارت 27 فیصد کم ہو چکی ہے جبکہ صرف اپریل کے مہینے میں امریکی بجٹ خسارہ 738 بلین ڈالر تک پہنچ چکا ہے، اور تین کروڑ سے زائد محنت کش بیروزگار ہو چکے ہیں جبکہ کرونا وبا کے بعد صحت کے شعبے کی زبوں حالی واضح ہو چکی ہے۔ نہ صرف امریکہ بلکہ دنیا بھر کی حکومتیں اپنی اپنی معیشتوں میں ٹریلین ڈالر ز انڈیل رہی ہیں، تاکہ کسی نہ کسی طور پر اس بحران سے نکلا جاسکے، مگر اس کے برعکس بڑے سے بڑے مالیاتی ادارے اس بحران کے حوالے سے ایسی تباہ کن رپورٹیں دیتے آرہے ہیں جس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ کرونا وبا سے پہلی والی پوزیشن پر عالمی معیشت کا آنا اب ممکن نہیں۔ امریکہ، جو کہ دنیا کی سب سے بڑی معیشت ہے، اس وقت تاریخ میں پہلی دفعہ تیل بحران کے حوالے سے منفی قیمتوں کا سامنا کر چکی ہے جبکہ شرحِ سود میں بدستور کمی کی جارہی ہے۔ مگر اس کے ساتھ دوسری طرف امریکہ اپنے جنگی جنون اور سامراجی عزائم سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں جس کی واضح مثال 3 مئی کو وینزویلا کے اندر کُو کرانے کی ناکام کوشش تھی، جبکہ اس بحرانی کیفیت میں ایران پر نہ صرف عالمی پابندیوں کو برقرار رکھنا ہے بلکہ انہیں شدید دھمکیاں بھی دی گئی ہیں تاکہ اس بحرانی کیفیت سے محنت کش طبقے کی توجہ ہٹائی جائے، مگر حکمران طبقات کے یہ تمام تر ٹوٹکے عالمی طور پر اب ناکامی سے دوچار ہو رہے ہیں۔ علاوہ ازیں، چین جس نے 2008 ء کے بحران میں عالمی معیشت کو بحران سے نکالا تھا اس بار عالمی بحران کا سبب بن رہا ہے۔ اس وقت پوری دنیا کی معیشت ایک ایسی کھائی کی طرف جارہی ہے جہاں سے نکلنا سوائے نظام کے تبدیلی کے ناممکن ہے۔

افغان امن معاہدہ

مختصر یہ کہ اس وقت ہم جس عہد میں داخل ہوچکے ہیں وہ افغانستان کے نام نہاد امن معاہدے کے وقت کی دنیا سے مکمل تبدیل دنیا ہے۔ اس نام نہاد معاہدے کے ذریعے امریکہ افغانستان سے اپنی طویل ترین جنگ میں دیوہیکل سرمایہ کاری کے باوجود بری طرح ناکام ہوا، اور دنیا کی سب سے بڑی معیشت اور عسکری قوت امریکی سامراج کو اپنے خصی پن کے باعث اس شرمناک معاہدے کو قبول کرنا پڑا۔ کیونکہ مالی بحران کے پیش نظر امریکی سامراج مزید اس جنگ کے اخراجات برداشت کرنے سے قاصر تھا۔ علاوہ ازیں ٹرمپ نے صدارتی انتخابات میں کامیابی کیلئے بھی اس معاہدے کو ایک زینے کے طور پر استعمال کرنا چاہتا تھا۔ نام نہاد امن مذاکرات کے بعد افغانستان میں خطے کے دیگر سامراجی ممالک کو کردار ادا کرنے کا موقع مل بھی گیا، مگر وہ اپنے اپنے اندرونی بحرانوں، جو کہ اس نظام کا نامیاتی بحران ہی ہے، کی وجہ سے وہ کردار ادا کرنے سے بدستور قاصر ہیں جن کے حوالے سے لبرل میڈیا پر خوف اور ڈر جنم لے چکا ہے۔ ہم نے پہلے بھی واضح کیا تھا کہ افغانستان کے حالات اس امن معاہدے سے حل ہونے والے نہیں ہیں۔

عالمی و علاقائی سامراجی عزائم کے تحت افغانستان میں اس وقت داعش بھی جنم لے چکی ہے جو کہ فرقہ وارانہ بنیادوں پر دہشت گرد کاروائیاں کر رہے ہیں۔ یہاں پر داعش اور طالبان کے حوالے سے مختصر جائزہ لینے کی شدید ضرورت ہے۔ یہاں اس بات کی نشاندہی ضروری ہے کہ افغانستان میں بیس سال کے قریب عالمی و علاقائی سامراجی ممالک کی کھلم کھلا مداخلت کے باوجود افغانستان میں کوئی ایسا متبادل سیاسی پارٹی تشکیل دینے میں مکمل طور پر ناکام رہے جوکہ کسی حد تک عوامی متبادل ثابت ہوسکے، جس کی وجہ سے شدید عوامی نفرت کے باوجود سامراجی طاقتوں کی پشت پناہی سے طالبان افغانستان میں ایک محدود قوت کی شکل میں موجود رہے ہیں۔ جبکہ افغان سماج کے اندر طالبان سے نفرت کے اظہار کا عملی طور پر مختلف عوامی احتجاجوں کی شکل میں دیکھنے کو ملا ہے، گو کہ لبرل تجزیہ نگار اور دانشور افغانستان کے سماج کو مذہبی بنیاد پرستی سے تعبیر کرتے ہیں مگر وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ اسی سماج کے اندر 1978ء کے اندر ثور انقلاب کا ایک واقعہ رونما ہوا تھا جس کے نتیجے میں ماضی کی تمام قبائلی اور نیم جاگیر دارانہ رجعتی باقیات کا خاتمہ کرتے ہوئے کئی ترقی پسندانہ اصلاحات کی گئیں۔

طالبان کو افغان ثور انقلاب کے خلاف امریکی سامراج، پاکستان اور سعودی عرب نے مل کر تخلیق کیا تھا، جوکہ پٹرو ڈالر جہاد کے نام سے جانا جاتا ہے اس ضمن میں پاکستانی ریاست کا سامراجی کاسہ لیسی کا کردار کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ اپنے سامراجی عزائم کی تکمیل کے لیے افغان سماج سمیت پاکستان کے اندر پشتونوں کو رجعت پسندی کی طرف دھکیلا گیاجبکہ افغان سماج کو خانہ جنگی اور نام نہاد جہاد کے نام پر پتھر کے زمانے میں لے جایا گیا۔ مگر 1996ء سے لے کر 2001ء تک طالبان کو اقتدار پر بٹھانے کے بعد امریکی سامراج نے واپس خطے کے اندر اپنی طاقت دکھانے اور وسعت دینے کے لیے اپنے بنائے گئے دہشت گردوں کے بُت توڑنے کی غرض سے وار آن ٹیرر کا آغاز کیا، جو کہ اب تک چل رہا ہے۔ افغانستان کے بعد عراق پر چڑھائی کی جہاں پر اپنی ہی مسلط کردہ آمرانہ ریاست کو ختم کرتے ہوئے عراق کو تاریخ کا حصہ بنا ڈالا اور آج عراق سمیت مشرق وسطیٰ میں ایسی کئی ریاستیں ہیں جوٹوٹ کر بکھر رہی ہیں۔ مشرق وسطیٰ میں داعش کو بنانے والے امریکی سامراج اور سعودی سامراج کا کردار واضح ہے مگر مشرق وسطیٰ میں داعش کو شکست دینے کے لیے مختلف سیاسی قوتوں کا استعمال کیا بالخصوص کرد قومی تحریک نے مسلح جدوجہد کے ذریعے داعش کا قلع قمع کردیا۔ وہاں بھی امریکی سامراج نے آزاد کردستان کے وعدے کے ساتھ کُرد قومی تحریک کو استعمال کیا لیکن آزاد کردستان کا وعدہ اب تک ایک وعدہ ہی ہے، جو درحقیقت امریکی سامراج کی طرف سے اپنے مفادات حاصل کرنے کا ایک ڈھونگ تھا۔ کُرد قومی سوال کا حل اس نظام کی موجودگی میں ناممکن ہے۔ اور دیگر جمہوری سوالات کی طرح یہ سوال بھی سرمایہ دارانہ نظام کی بیخ کُنی کیساتھ جُڑا ہے۔

ٹرمپ اور افغانستان

عالمی منظرنامے پر حالات کی تبدیلی کے ساتھ امریکی سامراج کے کردار میں بھی تبدیلی آتی گئی بالخصوص 2016ء میں صدر ٹرمپ کے برسر اقتدار آنے کے بعد، جس نے اس نظام کی منافقانہ پالیسیوں کا کھل کر اظہار کرنا شروع کیا۔ اور اس کے ساتھ داعش سے افغانستان سمیت دیگر ممالک کا رخ کروایا گیا، جہاں پر طالبان کے ساتھ نام نہاد امن مذاکرات کا ڈھونگ رچایا گیا یہاں پر طالبان کے اندر شروع دن سے کالی معیشت اور سمگلنگ کے علاوہ مختلف علاقائی و عالمی سامراجی ممالک کی پراکسیز کے بنیاد پر تقسیم موجود تھی۔ اس کے بعد مذاکرات کے دوران جو طالبان سخت گیر موقف کی بنا پر ناراض ہوجاتے، انہوں نے اپنی دوسری دہشت گرد تنظیم داعش کا رخ کیا اور آج افغانستان میں داعش کافی حد تک فعال ہوچکی ہے۔ اس بحث کا مقصد صرف یہ ہے کہ افغانستان کی سیاست میں دلچسپی رکھنے والے لوگ اور (عظیم افغانستان) کے نام پر اپنی روحانی تسکین اور مظلوم عوام کو ورغلانے کیلئے داعش اور طالبان کو الگ الگ سمجھتے ہیں جو کہ محض خود کو دھوکا دینے کے مترادف ہے۔ مگر نام نہاد امن معاہدے کے بعد جو منظرنامہ وجود میں آیا ہے اس کے بعد قوم پرستی کے زیرِ سایہ کیمپوں میں نچلی سطح پر امریکی سامراج پر تحفظات پیدا ہونے لگے ہیں۔

افغانستان میں امریکی سامراج کی کوشش ہے کہ وہ اپنے علاوہ کسی اور مخالف سامراجی ملک ایران، روس اور چین کو کردار ادا کرنے کی نوبت نہ آنے دیں۔ اسی بنیاد پر انہوں نے اس خطے کے اندر پاکستانی ریاست کا کردار بھی تبدیل کیا اور افغانستان کے اندر انڈیاکو کردار ادا کرنے کے لئے آگے لایا جا رہا ہے۔ مگراس وقت حالات اتنے تبدیل ہوچکے ہیں کہ انڈیا، جو کہ ایک وقت میں ابھرتی ہوئی معیشت تھی، اب کرونا سے پہلے اور کرونا کے بعد جن حالات کا سامنا کر رہا ہے اس کی وجہ سے وہ افغانستان کے اندر کردار ادا کرنے سے قاصر رہے گا۔ 2019ء میں انڈیا کے اندر شہریت بل کیخلاف جو تحریک چلی ہے اس تحریک نے محنت کش طبقے کے شعوری ترقی میں جست لگائی ہے۔ اس کے علاوہ انڈیا کے اندر اس وقت محنت کش طبقے میں معیاری ارتعاش موجود ہے۔ جبکہ دوسری طرف کرونا وبا کے بعد جو حالات بنے ہیں اس حالات کی بنیاد پر نہ صرف انڈیا بلکہ دنیا بھر کے ممالک معاشی بحران کے باعث شدید ہیجان کی کیفیت میں موجود ہیں۔ اس سال کی پہلی سہ ماہی میں انڈیا کی معیشت کے حجم میں 45فیصد تک کمی آئی ہے اور شرح نمو پانچ فیصد تک کم ہوئی ہے۔ ایسے میں اس کے لیے کوئی نیا کردار ادا کرنا پہلے کی نسبت مشکل ہوگا گوکہ خطے میں محدود پیمانے کی نئی جنگوں کے امکان پہلے کی نسبت بڑھ گئے ہیں او ر عوامی تحریکوں کو کچلنے کے لیے نئی جنگوں کا سہارا لیا جا سکتا ہے۔

لبرلزم اور ملائیت، ایک ہی سکے کے دو رخ

ہم پہلے بھی کئی بار لکھ چکے ہیں کہ لبرلزم اور ملائیت ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں اور حال ہی امریکہ کے طالبان سے ہونے والے معاہدے نے اس کو واضح بھی کر دیا۔ جن لوگوں کا دو دہائیوں سے یہ خیال تھا کہ امریکی سامراج اب ملائیت اور اسلامی بنیاد پرست کا خاتمہ کرے گا اور اس کے بدلے میں لبرلز پر سامراجی ڈالروں کی برسات ہو گی انہیں اب شدید پشیمانی کا سامنا ہے۔ وہ اپنے آقا امریکی سامراج سے اکثر بے وفائی کا گلہ کرتے نظر آتے ہیں اور پہلے والے دست شفقت کے متلاشی ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اسلامی بنیاد پرستی کو پروان چڑھانے والا بھی امریکی سامراج تھا اور ”دہشت گردی کیخلاف“ جنگ کا مقصد بھی اس کو ختم کرنا نہیں بلکہ دنیا بھر میں اپنے سامراجی مفادات کی تکمیل اور محنت کش طبقے کی تحریکوں کو کچلنے کے لیے اسلامی بنیاد پرستی کا ہوا کھڑا کرنا تھا۔ آنے والے عرصے میں ان لبرلز اور بنیاد پرستوں کی مال پر لڑائیوں سے لے کر گلے لگنے اور مل کر کھانے کے معاہدے بھی نظرآئیں گے جن سے ان کی عوام دشمن اصلیت مزید واضح ہوگی، لیکن یہ بھی صاف نظر آئے گا کہ دونوں میں سے کوئی بھی افغان عوام کا ہمدرد نہیں بلکہ ان کا مقصد لوٹ کے مال میں اپنے حصے کا حصول ہے۔

اس دوران پاکستان میں موجود عوام دشمن قوم پرست قیادتیں نہ صرف افغان حکومت، جو کہ امریکی سامراج کی کٹھ پتلی حکومت ہے، سے افغانستان کی تعمیر و ترقی کی جھوٹی آس لگا کر بیٹھی رہیں بلکہ پاکستان میں موجود مظلوم قومیتوں کے مسائل حل کرنے کے حوالے سے افغان حکومت سے امداد کی اپیل بھی کرتی ر ہیں جو ان مظلوم قومیتوں کے زخموں پر نمک پاشی کے سوا کچھ بھی نہیں۔ یہ نہ صرف قابل مذمت ہے بلکہ اس عوام دشمن اقدام کی حقیقت کو عوام پر عیاں کرنا ایک انقلابی فریضہ ہے۔ سامراجی کاسہ لیسی کے ان اقدامات میں جہاں سابقہ بایاں بازو اور قوم پرست بڑی تعداد میں شامل ہیں وہاں کچھ ہی عرصہ قبل ابھرنے والی تحریک کی قیادت بھی شامل ہے۔

پشتون محنت کشوں نے گزشتہ عرصے میں سامراجی جنگوں، فوجی آپریشنوں اور دہشت گردی کے عفریت کیخلاف شاندار عوامی تحریک برپا کی ہے اور ریاستی جبر سمیت ہر قسم کے مظالم کیخلاف لاکھوں لوگ سڑکوں پر آئے ہیں۔ لیکن ان کی قیادت نے ان تمام حالات کے ذمہ داران سے گٹھ جوڑ کر کے اس تحریک کو نقصان پہنچایا ہے۔ دہشت گردی اورطالبان کے کردار کو پروان چڑھانے میں امریکی سامراج نے ہمیشہ ایک بنیادی کردار ادا کیا ہے اور اس سامراجی طاقت اور اس کے پروردہ سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے کے بغیر یہ عفریت ختم نہیں ہو سکتا۔ لیکن یہ جانتے ہوئے امریکی سامراج اور اس کے کٹھ پتلیوں سے مراسم بڑھانا تحریک کو آگے لیجانے کی بجائے پیچھے دھکیلتا ہے، جس کا عملی اظہار پچھلے عرصے میں نظر آیا۔ یہاں پر یہ واضح کرنا بھی انتہائی ضروری ہے کہ امریکی سامراج نے گزشتہ بیس سال کے اندر افغان مظلوم عوام کو کیا دیا ہے؟ افغانستان کے اندر اب بھی لوگ بنیادی ضروریات زندگی کے لیے ترستے رہتے ہیں۔ لیکن قوم پرست قیادتوں کو اس سے کوئی سروکار نہیں اور وہ اپنے خطے سمیت دنیا بھر کے محنت کش عوام کو نظرانداز کرتے ہوئے بین الاقوامی سامراجی قوتوں سے امداد کی اپیل کو اپنی سیاست کا ایجنڈا بناتے ہیں۔ افغانستان میں صرف اگر امریکی سامراج کے جرائم کے حوالے سے لکھا جائے تو یہ مضمون محض تعارف محسوس ہوگا۔ پچھلی چار دہائیوں سے لے کر آج تک افغانستان میں ہونے والی تمام تر تباہی و بربادی کا ذمہ دار امریکی سامراج ہے مگر محض اندھی تقلید جذبات اور واضح نظریات و پروگرام کی عدم موجودگی میں تعصبات اور نفرت پر مشتمل مؤقف رکھنا، اور حقائق سے روگردانی کرنا اُن تمام تر تحریکوں کی عوامی حمایت سے انحراف کرنے کے مترادف ہوتا ہے۔ پاکستان کے کردار کے حوالے سے مارکسی شروع دن سے بالکل واضح مؤقف رکھتے ہیں کہ یہ خطے میں امریکی سامراج کے گماشتے کا کردار ادا کرتا رہا ہے اور آج بھی کر رہا ہے۔ اس کی تمام تر مالیاتی بنیادیں آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے قرضوں کی مرہون منت ہیں اور تمام تر اسلحہ امریکی سامراج کا عنایت کردہ ہے۔ پاکستان کی ریاست خطے میں امریکی سامراج کے مفادات سے ٹکرانے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ چین سے قریبی تعلقات کی بنیاد بھی چین کا سرمایہ دارانہ بنیادوں پر مبنی مالیاتی نظام ہے اور جیسے ہی آئی ایم ایف کی جانب سے سختی کی گئی تو چینی قرضوں کی ادائیگی کا سلسلہ روک دیا گیا۔ اس حوالے سے افغانستان یا خطے میں دیگر پالیسیاں بھی امریکی سامراج سے الگ رہ کر ترتیب نہیں دی جا سکتیں۔ اس لیے اس ملک کے حکمران طبقات امریکی سامراج سے الگ کوئی آزادانہ کردار ادا کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ آنے والے عرصے میں عالمی مالیاتی نظام اور امریکی سامراج کی کمزوری اس ریاست کو بھی کمزور کر دے گی اور افغانستان میں جاری آگ اورخون کے اس کھیل میں یہ سامراجی گماشتہ حکمران بھی لوٹ مار کے لیے اپنے مہرے آزمائیں گے۔ ان تمام قوتوں کیخلاف لڑنے کے لیے ضروری ہے کہ اس نظام اور اس کی بنیادوں کیخلاف جدوجہد منظم کی جائے اور تمام طاقتوں کیخلاف ایک طبقاتی لڑائی منظم کی جائے۔

افغانستان کی شکستہ ریاست اور عوام کی حالت زار

دوسری طرف افغانستان کے اندر حالیہ خونریزی کو قومی اور لسانی بنیادوں پر تقسیم کرنے کی بات بھی منظر عام پر آرہی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ افغانستان میں شیعہ آبادی کے خلاف فرقہ وارانہ بنیادوں پر ایک جبر طویل عرصے سے موجود رہا ہے۔ اس کے خلاف افغان محنت کش طبقے کے اندر ایک شدید نفرت اور غصہ بھی موجود ہے مگر دہشت گردی اور بنیاد پرستی کے خلاف یکجا ہونے کی بجائے غلیظ قوم پرست ایک دوسرے پر لسانی بنیادوں پر کیچڑ اچھال رہے ہیں۔ جس میں دہشت گردی اور بنیاد پرستی کے اصل موجد کے خلاف کوئی بھی بات نہیں ہوتی بلکہ دونوں اطراف سے قوم پرست امریکی سامراج سے مدد مانگنے اور اس کے تحت افغانستان کے اندر امن لانے کا پروگرام دیتے ہیں۔ اس وقت افغانستان میں موجودہ سیٹ اپ کے اندر پشتون، تاجک، ازبک اور ہزارہ سب موجود ہیں۔ گو کہ غیر پشتون قومیتوں کے حوالے سے محرومی اور قومی جبر کے تحفظات کسی حد تک درست ہیں مگر سامراجی جبر اور پسپائی کے عرصے میں اس قومی جبر سے چھٹکارا ممکن نہیں۔ قومی آزادی کے حصول کے لیے ایک طبقاتی لڑائی منظم کرنے کی ضرورت ہے اور اس نظام کو خطے کے دیگر محنت کشوں کے ذریعے مل کر اکھاڑنا ہو گا۔

قوم پرست قیادتوں کے پاس تمام ترصورتحال میں کوئی واضح مؤقف نہیں ہے اور نہ ہی بنیاد پرستی کے خاتمے کے حوالے سے کوئی سنجیدہ سیاسی پروگرام اور لائحہ عمل ہے۔ بالخصوص لراوبر یو افغان (اس پار اور اُس پار ایک افغان) کا نعرہ تو لگایا جاتا ہے لیکن ابھی تک کوئی سیاسی پارٹی اس کو عملی جامہ پہنانے کے لیے کوئی واضح انقلابی اور سیاسی پروگرام نہیں دے سکی۔ اور کیا سرمایہ د ارانہ نظام کی حدود میں رہتے ہوئے یا امریکی سامراج سے بھیک مانگتے ہوئے اس کو عملی جامہ پہنایا جا سکتا ہے؟ بالکل بھی نہیں۔ آنے والے عرصے میں سرمایہ دارانہ نظام کے گہرے ہوتے بحران اور ورلڈ آرڈر کی ٹوٹ پھوٹ سے صورتحال مزید ابتر ہوتی چلی جائے گی۔ ایسے میں کسی واضح سیاسی پروگرام اور حکمت عملی کے بغیر نہ تو رجعتی قوتوں کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی افغانستان کے محنت کشوں کو اس خونی دلدل میں سے نکالا جا سکتا ہے۔اس کے لیے ضروری ہے کہ اس نظام کی بنیادوں پر درست نظریات کے تحت ایک بحث کاآغاز کیا جائے اورسماج میں موجود امیر اور غریب کی تفریق کی بنیاد پر درست سیاسی پروگرام ترتیب دیا جائے۔

افغانستان میں دہشت گردی اور بنیاد پرستی کے ذریعے جاری جبر، ظلم اور بربریت کے ساتھ ساتھ افغان محنت کش عوام بے روزگاری، غربت، لاعلاجی، بدامنی اور دیگر بنیادی ضروریات زندگی کے حوالے سے کسمپرسی کا شکار ہیں۔ افغانستان کی معیشت میں کالی معیشت کے مقابلے میں رسمی معیشت کا حصہ بہت کم ہے جبکہ انفراسٹرکچر کے حوالے سے افغانستان کی تصویر انتہائی تباہ کن ہے۔ عالمی سامراجی قوتوں نے جو ریاستی ڈھانچہ یہاں بنایا ہے وہ انتہائی کمزور ہے اور تیزی سے ٹوٹ کر ختم ہو رہا ہے۔ افغان نیشنل آرمی، جس کی تعداد لگ بھگ 180,000 ہے، کے ساتھ ساتھ امریکی سامراج کے بنائے ہوئے دیگر سکیورٹی اداروں کے حوالے سے بھی بہت سے لوگ خوش فہمی کا شکار ہیں جو ان کی سیاسی نا پختگی کا ثبوت ہے۔ افغان آرمی سماج کی ان پچھڑی ہوئے پرتوں سے بنائی گئی ہے جو کہ سماج کے اندر کسی اور کام کے قابل نہیں تھے اور یہ تلخ حقائق ہیں جن کو قبول کرنا ہوگا۔ آرمی کے اندر روزانہ کی بنیاد پر آپس میں جھگڑے ہوتے رہتے ہیں جس کے نتیجے میں ہلاکتیں تک ہوتی ہیں اور آرمی سے انحراف کرنے والے جوان طالبان سے جا ملتے ہیں۔ عوام کے اندر افغان آرمی طالبان اور نیٹو وامریکی فوج کے حوالے سے ایک ہی قسم کی نفرت پائی جاتی ہے اور ایسے کئی بے شمار واقعات واقع ہوئے ہیں جن کی وجہ سے اکثر اوقات مظلوم محنت کش عوام ان کے جبر کا نشانہ بنتے ہیں۔

افغانستان میں ابھی کوئی عوامی تحریک موجود نہیں مگر اس کا مطلب ہرگز کہ نہیں ہے کہ یہ تحریک کبھی بھی نہیں ابھر سکتی۔ آنے والے عرصے میں یقیناً ایسے حالات پیدا ہوں گے جو افغان عوام کو اپنے مسائل کے حل کے لیے ان تمام قوتوں کے خلاف باہر نکلنے پر مجبور کریں گے۔ خاص طور پر خطے کے دیگر علاقوں میں آنے والے عرصے میں ابھرنے والی بڑی عوامی تحریکیں افغانستان کے سماج کو بھی یکسر تبدیل کر دیں گی۔لیکن آج یہ واضح ہو چکا ہے کہ افغان محنت کش طبقے کی تقدیر خطے کے دیگر ممالک کے محنت کش طبقے کے ساتھ جڑ چکی ہے اور انہی کے ساتھ مل کر یہاں پر ایک حقیقی تبدیلی کا آغاز کیا جا سکتا ہے۔
افغانستان میں جاری جبر، ظلم، بربریت اور کشت و خون کا خاتمہ اس نظام کے اندر موجود نہیں بلکہ اس نظام کے گرانے کے ساتھ مشروط ہے۔ کیونکہ اس نظام کی آبیاری ہی معصوم انسانی خون کے بل بوتے پر ہوتی ہے۔ اورآج یہ واضح ہو چکا ہے کہ بدلتے عہد کے ساتھ سامراجی ممالک کے کردار اور سامراجی عزائم بھی تبدیل ہوتے جا رہے ہیں۔ اس ضمن میں خطے کے اندر محنت کش طبقے کی تحریک چاہے وہ ایران، پاکستان، انڈیا اور دیگر ہمسایہ ممالک سے اٹھتی ہے تو وہ مظلوم افغان محنت کش عوام کو اپنے ساتھ جوڑتے ہوئے نہ صرف ان ظالم سرمایہ دارانہ ریاستوں کا خاتمہ کرے گی بلکہ سرمائے اور محنت کے تضاد پر مبنی اس ظالم سرمایہ دارانہ نظام کا قلع قمع کرتے ہوئے جنوبی ایشیا کی ایک رضاکارانہ سوشلسٹ فیڈریشن تشکیل دے کر اس ظلم اور بربریت کا ہمیشہ کیلئے خاتمہ کرے گی۔

Comments are closed.