بھارت: پانچ ریاستی اسمبلیوں کے انتخابات۔۔طبقاتی مفاہمت نہیں طبقاتی جدوجہد!

|تحریر: لوئیس تھامس، ترجمہ: یار یوسفزئی|

بھارت کی پانچ ریاستوں، جن کی مجموعی آبادی تقریباً 25 کروڑ ہے، کے حالیہ انتخابات سے اُس صورتحال کا اندازہ ہو جاتا ہے جس کا سامنا ملک بھر کے محنت کش کر رہے ہیں۔ ایک مشترکہ عنصر بائیں بازو کی کمزوری اور اس کے مختلف بورژوا پارٹیوں سے اتحاد بنانے کی پالیسی ہے۔ چنانچہ بھارتی محنت کش طبقے کی اپنی کوئی آواز موجود نہیں ہے۔ مختلف کمیونسٹ پارٹیوں کو طبقاتی مفاہمت پر مبنی اپنے نظریات ترک کر کے بھارتی محنت کشوں کا متحدہ محاذ تعمیر کرنے کی جانب بڑھنا ہوگا۔

انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

بی جے پی حکومت نے مودی کی قیادت میں پچھلے سات سالوں سے محنت کش طبقے کے خلاف جارحانہ رویہ اپنایا ہوا ہے۔ 2019ء میں ہی معیشت سست روی شکار ہونا شروع ہو چکی تھی اور بے روزگاری 9 فیصد پر تھی۔ مودی کی پالیسیاں، جیسا کہ اسقاطِ زر (ڈی مونیٹائزیشن) اور جی ایس ٹی (2017ء میں متعارف کیا گیا گوڈز اینڈ سروسز ٹیکس)، بے روزگاری اور عمومی معاشی صورتحال میں مزید بگاڑ لانے کا سبب بنیں۔

2020ء میں پُر انتشار لاک ڈاؤن کے بعد بے روزگاری اور غربت میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ جب بِہار، بنگال، اوڈیسہ اور آندھرا پردیش سے تعلق رکھنے والے لاکھوں محنت کش کنگال ہو کر رہ گئے تھے۔ مہاجر محنت کشوں کو اپنے گھر جانے کے لیے طویل فاصلے پیدل طے کرنے پڑے، جن میں سے سینکڑوں رستے پر ہی دم توڑ گئے۔

آئی ایم ایف کی حالیہ رپورٹس کے مطابق، پچھلے 12 مہینوں کے اندر بھارتی معیشت میں 8 فیصد سکڑاؤ آیا ہے۔ کورونا وائرس کی دوسری لہر میں کوئی کمی نہیں آ رہی، جبکہ بے روزگاری میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، اور اندازہ لگایا گیا ہے کہ عالمی سطح پر 9 کروڑ 50 لاکھ مزید افراد غذائی قلت کا شکار ہو جائیں گے۔ روزمرہ کی ضروری اشیاء اور گیس کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں۔ لاکھوں محنت کش اپنی نوکریاں کھو بیٹھے ہیں، اور چھوٹے پیمانے کی ہزاروں صنعتیں بند ہو چکی ہیں۔ تقریباً 3 لاکھ افراد کورونا وائرس کی وجہ سے ہلاک ہو چکے ہیں۔ اس کے باوجود، مودی کے دوست جیسا کہ اڈانی، امبانی اور دیگر کو نہ تو لاک ڈاؤن اور نہ ہی معیشت کا سکڑاؤ اپنی دولت میں بے تحاشا اضافہ کرنے سے روک پایا ہے۔

مودی کو پہلے سے ہی اس کی عوام دشمن پالیسیوں کی وجہ سے لوگوں کے غیظ و غضب کا سامنا تھا، جیسا کہ شہریت کے نئے قانون (سی اے اے)، نیشنل سیٹیزن رجسٹر اور نیشنل پاپولیشن رجسٹر کی پالیسیاں، جس کا مقصد نسلی و مذہبی گروہوں سے حقِ رائے دہی چھیننا تھا تا کہ آبادی کو مذہبی و نسلی بنیادوں پر تقسیم کیا جا سکے، جس کے خلاف بڑے پیمانے پر احتجاج سامنے آئے۔ حکومتی پارٹی بی جے پی اور آر ایس ایس (انتہائی دائیں بازو کی پیرا ملٹری ہندو شاؤنسٹ تنظیم) نے سی اے اے مخالف احتجاجوں پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتے ہوئے مسلمانوں کے خلاف فرقہ وارانہ فسادات کو ہوا دی۔ ان احتجاجوں کے خاتمے میں لاک ڈاؤن نے بھی اپنا کردار ادا کیا۔

مودی سرکار نے آگے بڑھ کر لاک ڈاؤن کے دوران کسانوں کے خلاف انتہائی خونخوار قوانین بھی لاگو کیے۔ مودی نے اپنے کاروباری دوستوں کی دولت میں مزید اضافہ کرنے کے لیے تین زرعی اور مزدور دشمن قوانین متعارف کروائے۔ ان قوانین کے خلاف چار مہینوں سے کسان بڑے پیمانے پر سراپا احتجاج ہیں۔ اسی سلسلے میں پنجاب، ہریانہ، اتر پردیش اور مہاراشٹر کی ریاستوں سے تعلق رکھنے والے کسانوں نے ہزاروں کی تعداد میں دارالحکومت دہلی کا محاصرہ بھی کر لیا۔

مودی سرکار اور آر ایس ایس کے غنڈوں کی جانب سے 26 جنوری کو یومِ جمہوریہ کے موقع پر ہونے والے کسانوں کے احتجاج کا رخ بدلنے کی کوششیں کی گئیں۔ اس موقع پر احتجاج کرنے والا ایک نہتا شخص بھی مارا گیا۔ دی انڈین ایکسپریس کے مطابق، مجموعی طور پر:

”سنیوکٹ کسان مورچہ (ایس کے ایم) کے جمع کردہ اعداد و شمار کے مطابق، تین بنیادی زرعی قوانین کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے صرف 87 دن کے اندر 248 کسان فوت ہو چکے ہیں۔“

”فوت ہونے والوں میں سے 202 کا تعلق پنجاب، 36 کا ہریانہ، 6 کا اتر پردیش سے تھا، اور مدھیا پردیش، مہاراشٹر، تامل ناڈو اور اترکھنڈ میں ایک ایک موت واقع ہوئی۔ زیادہ تر اموات کا سبب دل کا دورہ، سرد موسم کی وجہ سے بیماری اور حادثات بنے۔“ (دی انڈین ایکسپریس، 22 فروری 2021ء)

اس ساری صورتحال کے علاوہ، مودی سرکار کو دیوہیکل قرضوں اور بہت بڑے مالیاتی خسارے کا سامنا ہے اور اسی لیے وہ ریلوے، ریاستی بینکوں، لائف انشورنس کارپوریشن آف انڈیا، بھارت سنچر نیگم لمیٹڈ (ملک کی سب سے بڑی ٹیلی کمیونیکیشن کمپنی)، اور دیگر ریاستی صنعتوں کی نجکاری کی جانب بڑھ رہی ہے۔ ان عوام دشمن قوانین، بشمول لیبر کوڈ، نئی تعلیمی پالیسی، ای آئی اے ایکٹ (انوائرمنٹ امپیکٹ اسیسمنٹ نوٹیفکیشن، جو متعدد صنعتوں کے لیے ماحولیاتی قوانین و ضوابط ختم کر کے انہیں اس کی خلاف ورزی کرنے کی اجازت دے گا)، کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ، اور دیگر حقوق کے اوپر حملوں نے محنت کشوں کی جانب سے احتجاجوں اور عام ہڑتالوں کی راہ ہموار کی ہے۔ مودی سرکار کے پچھلے سات سالوں میں چھے عام ہڑتالیں ہوئی ہیں۔ پچھلے سال نومبر میں ہونے والی آخری عام ہڑتال میں 25 کروڑ محنت کشوں نے حصہ لیا۔

انہی حالات کے دوران انتہائی اہمیت کی حامل پانچ ریاستیں، مغربی بنگال، آسام، کیرالا، تامل ناڈو اور پدوچیری میں ریاستی اسمبلی کے انتخابات منعقد ہو رہے ہیں، جو 6 اپریل سے شروع ہوئے ہیں اور 29 اپریل کو ختم ہوں گے۔

مغربی بنگال

مغربی بنگال کی نو آبادیاتی نظام کے خلاف جدوجہدوں کی ایک لمبی تاریخ ہے۔ بورژوا قائدین جیسا کہ کانگریس کے گاندھی، نہرو اور پاٹیل اور مسلم لیگ کے جناح کے غدارانہ کردار، جس کا ساتھ سوارکر اور گوڈسے کی قیادت میں آر ایس ایس جیسے برطانوی خوشامدیوں نے فرقہ وارانہ تشدد بھڑکا کر دیا، کا نتیجہ 1947ء کی فرقہ وارانہ تقسیم کی صورت میں نکلا۔

اس ردّ انقلابی تقسیم کی وجہ سے سب سے زیادہ بنگال، پنجاب، بِہار اور دیگر شمالی ریاستوں کا محنت کش طبقہ اور عوام متاثر ہوئے۔ تقسیم کے وقت لاکھوں افراد فرقہ وارانہ تشدد کی وجہ سے لقمۂ اجل بنے۔ تقسیم کے بعد بنگال میں نشاۃِ ثانیہ کی تحریک اور انقلابی روایات کا اثر لوگوں کے ذہنوں پر پڑ رہا تھا۔ وہاں آزادی کے بعد کانگریس کئی سالوں تک بر سرِ اقتدار رہی۔ بائیں بازو کی پارٹیوں پر مبنی اتحاد ’لیفٹ فرنٹ‘ نے 1977ء کو مغربی بنگال کا اقتدار سنبھالا اور 34 سالوں تک بر سرِ اقتدار رہا۔ بائیں بازو کی حکومت کی قیادت 1977ء سے 2000ء تک وزیرِ اعلیٰ رہنے والے جیوتی باسو کے تحت کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ) کر رہی تھی۔ ابتدائی طور پر اس حکومت نے زمین اور تعلیم کے حوالے سے کچھ اصلاحات کیں اور دیہاتوں کو کسی حد تک ترقی دی گئی۔

البتہ ان اصلاحات کو زیادہ دیر تک قائم نہیں رکھا جا سکا۔ کسی پسماندہ سرمایہ دار ملک کے اندر سرمایہ دارانہ بنیادوں پر ترقی نا ہموار طرز پر ہی ہوتی ہے۔ کمیونسٹ پارٹی کی جانب سے مرحلہ واریت کے سٹالنسٹ نظریے کے پرچار؛ جس کے مطابق پہلے بورژوا جمہوری انقلاب برپا ہوگا اور اس کے بعد ہی دوسرا مرحلہ یعنی سوشلزم ممکن ہو سکے گا؛ اور نام نہاد ”عوامی جمہوریت“ (پیپلز ڈیموکریسی) نے عوام کو کوئی انقلابی متبادل فراہم نہیں کیا۔ ان کا سیاسی عمل کانگریس کی بتّی کا پیچھا کرنے اور مقامی اور قومی بورژوا پارٹیوں کے ساتھ اتحاد بنانے پر اختتام پذیر ہوا۔ سٹالنسٹ پالیسی اپنانے کے نتیجے میں انہیں ریاستی تشدد کے ساتھ ساتھ مرکزی حکومتوں کی جانب سے جاری نیو لبرل پالیسیوں کی حمایت بھی کرنی پڑی۔

بالآخر اس کا نتیجہ 2006ء میں نندی گرام اور سینگر کے اندر ٹاٹا نینو کارخانے کے خلاف کسانوں کے احتجاج کی صورت میں نکلا، جب نندی گرام کے لوگوں کو ہلدیہ ڈیولپمنٹ اتھارٹی نے آگاہ کیا کہ زمین کے ایک بڑے حصے پر قبضہ کیا جائے گا اور 70 ہزار لوگ بے گھر ہوں گے۔ اس کے خلاف بہت بڑی کسان تحریک ابھری، جس کے دوران پولیس کے ہاتھوں 14 مظاہرین قتل ہوئے۔

ترینامول کانگریس نے اس موقعے کا فائدہ اٹھایا۔ (آل انڈیا ترینامول کانگریس، جس کے لیے ’اے آئی ٹی سی‘ یا ’ٹی ایم سی‘ کا مخفف استعمال کیا جاتا ہے، تب قائم ہوئی تھی جب 1999ء میں ممتا بینرجی نے کانگریس سے علیحدگی اختیار کر کے مغربی بنگال میں اپنی پارٹی بنا لی۔) اس نے کسان تحریک کی قیادت سنبھال لی اور نتیجتاً انتخابات میں اپنی حمایت بڑھانے میں کامیاب ہوئی۔

بہرحال، پچھلے 10 سالوں کے دوران، ٹی ایم سی حکومت کے تحت ریاستی جبر میں اضافہ ہوا ہے۔ کئی سیاسی کارکنان کی گرفتاریاں ہوئی ہیں اور طلبہ قائدین کو مارا جا چکا ہے۔ ’ٹی ایم سی‘ کے پاس لمپن پرولتاریہ کی بڑی تعداد ہے۔ وہ اسے بنگال کے محنت کش طبقے کے خلاف استعمال کرتی ہے۔ ’ٹی ایم سی‘ کی دس سالہ حکومت کے بعد اس کے خلاف نفرت میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ بائیں بازو کی پارلیمانی حماقتوں اور موقع پرستی، جس نے نیو لبرل پالیسیاں بھی لاگو کیں، کے نتیجے میں بنگال کی سیاست میں خلاء نے جنم لیا جس نے ٹی ایم سی کو بطورِ قوت ابھرنے کا موقع دیا۔

بنگال کے مسلمان بھی انتہائی غربت کی حالت میں زندگی گزار رہے ہیں۔ ان کے حالاتِ زندگی میں بہتری نہ آنے کی وجہ سے اسلامی بنیاد پرست تنظیموں کو فروغ ملا ہے۔ در حقیقت، غربت اور نا ہموار ترقی پر مشتمل سرمایہ دارانہ استحصال نے فرقہ وارانہ سیاست کو سازگار ماحول فراہم کیا ہے۔

بی جے پی کی مرکزی حکومت نے اپنے شہریت کے قوانین کے ذریعے فرقہ وارانہ تضادات کو ہوا دی ہے جس کے قائدین، جیسا کہ امیت شاہ، نے مسلمانوں کو ملک سے باہر نکالنے کے ارادوں کا اظہار کیا ہے۔ بی جے پی کے مقابلے میں ٹی ایم سی اور سی پی آئی ایم دونوں کی حمایت میں کمی آئی ہے۔ در حقیقت ٹی ایم سی کے بہت سے اہم قائدین نے بی جے پی میں شمولیت اختیار کی ہے۔ سوویندا آدھیکاری، جو ممتا بینرجی کا رائٹ ہینڈ تھا، پچھلے سال بی جے پی میں شامل ہو کر نندی گرام کے اندر انتخابات میں ممتا بینرجی کے خلاف کھڑا ہوا۔ وہ بنگالی عوام کو نسلی بنیادوں پر متحرک کرنے میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔

حالیہ انتخابات میں، ’سی پی آئی ایم‘ نے ’سی پی آئی‘، کانگریس، اور آئی ایس ایف (اسلامک سیکولر فرنٹ، جس کی قیادت مولوی عباس صدیقی کر رہا ہے) کے ساتھ اتحاد بنایا ہے۔ بنگال کے انتخابات میں ان کی حریف بی جے پی ہے، جس نے 2019ء کے انتخابات میں 18 پارلیمانی سیٹیں حاصل کی تھیں۔

بنگال کے علاقے بھنگار میں ملٹی نیشنل کارپوریشنز کی جانب سے زمین پر قبضے کے خلاف کچھ اہم احتجاج بھی سامنے آئے ہیں۔ اس کی قیادت ایک دوسری سٹالنسٹ پارٹی ’سی پی آئی (ایم ایل) ریڈ سٹار‘ نے کی ہے۔ ’سی پی آئی (ایم ایل) لبریشن‘، ’ریڈ سٹار‘ اور دیگر مارکسسٹ لیننسٹ رجحانات ”بی جے پی کو مسترد کرو“ کی مہم چلا رہے ہیں، اور انہوں نے ’سی پی آئی ایم‘ کے اس اقدام پر تنقید کی ہے کہ اس نے ان انتخابات میں بی جے پی کو اولین دشمن قرار نہیں دیا اور ٹی ایم سی کو بی جے پی کے برابر لا کھڑا کیا۔ انہوں نے اس نعرے کے گرد کچھ بڑے اجلاس بھی منعقد کیے ہیں۔

بہرحال، ”کمتر برائی“ کی حکمتِ عملی اپناتے ہوئے ٹی ایم سی کی حمایت کرنا ایک متبادل نہیں ہو سکتا۔ نومبر 2020ء کے انتخابات میں یہ طریقہ بِہار جیسی ریاستوں میں بھی ناکام رہا، جہاں بائیں بازو نے 19 سیٹیں جیتی تھیں، مگر بی جے پی نے زیادہ سیٹیں جیت کر اپنی حکومت قائم کی۔ کمتر برائی کی حمایت کرنے والی سیاست کا یہ طریقہ، جس میں انتہائی دائیں بازو کی ہندو پارٹی کے خلاف دوسری دائیں بازو کی حمایت کی جاتی ہے، ماضی کے اندر بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے حوالے سے مددگار ثابت ہوا ہے۔ اس پالیسی کے نتیجے میں کمیونسٹ تحریک کمزوری کا شکار ہو کر دب چکی ہے۔ بایاں بازو 2004ء میں یونائیٹڈ پروگریسیو گورنمنٹ کے ساتھ اتحاد میں تھا، جس کی قیادت کانگریس کر رہی تھی۔ بایاں بازو 2004ء کے انتخابات میں کانگریس کے ساتھ مل گیا تاکہ بی جے پی کو بطورِ ”اولین دشمن“ کے شکست دی جا سکے۔ 2004ء کے پارلیمانی انتخابات میں بایاں بازو 50 سے زائد سیٹیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوا، مگر اس کے بعد سے، اس کی حمایت سکڑ کر رہ گئی ہے، اور 2019ء کے پارلیمانی انتخابات میں سی پی آئی ایم محض دو سیٹیں حاصل کر پائی۔

کیرالا

نشاۃِ ثانیہ کی تحریک اور انقلابی کسان تحریکوں کے حوالے سے کیرالا بھی تاریخ میں ایک اہم مقام رکھتا ہے۔ 1957ء کے انتخابات میں، کیرالا دنیا کی پہلی ریاست تھی جہاں ایک کمیونسٹ پارٹی، سی پی آئی، انتخابات کے ذریعے اقتدار میں آئی، جس نے زمین، تعلیم اور صحت کے حوالے سے کچھ اہم اصلاحات متعارف کروائیں۔ کیرالا میں خواندگی کی شرح 90 فیصد ہے اور یہ ہیومن ڈویلپمنٹ انڈیکس (جو اوسط عمر، تعلیم اور اجرت ملا کر ترتیب دیا جاتا ہے) کی فہرست میں بہتر درجے پر ہے۔ البتہ ریاست کا انحصار زیادہ تر خلیجی ممالک کے محنت کشوں کی اجرت پر ہوتا ہے۔ ابتدائی طور پر کیرالا کی حکومت، 60ء اور 70ء کی دہائی میں، محنت کش طبقے کے لیے فلاحی اقدامات کرنے کی اہل تھی۔ یہ دوسری عالمی جنگ کے بعد آنے والی معاشی ابھار کی وجہ سے ممکن ہو سکا تھا۔ مگر آخرکار اس کا خاتمہ ہو گیا اور 90ء کی دہائی سے ہر شعبۂ ہائے زندگی میں بڑے پیمانے پر نجکاری اور لبرلائیزیشن ہوتی رہی ہے۔ کیرالا میں بھی معاشی پالیسی کو واپس لینا پڑا۔ حکمران طبقہ مزید رعایتوں کو برداشت نہیں کر سکتا۔ ایل ڈی ایف (لیفٹ ڈیموکریٹک فرنٹ، کمیونسٹ پارٹیوں کا اتحاد) اور یو ڈی ایف (یونائیٹڈ ڈیموکریٹک فرنٹ، کانگریس کے گرد منظم اتحاد) دونوں کی حکومتیں زندگی کے ہر شعبے میں نجکاری کرنے کی جانب واپس گئی ہیں۔

آج کیرالا کی 140 سیٹوں پر اہم سیاسی مخالفین سی پی آئی ایم کی قیادت میں ایل ڈی ایف، اور کانگریس کی قیادت میں یو ڈی ایف کی شکل میں موجود ہے۔ حالیہ برسوں میں، دونوں فرنٹس اقتدار میں آتے رہے ہیں۔ سی پی آئی ایم اور کانگریس دونوں نے مرکزی حکومت کی نیو لبرل پالیسیاں اپنائی ہیں۔ کیرالا میں زرعی اصلاحات دَلِت (سب سے نچلی ذات) کاشتکاروں، جنہیں کچی آبادیوں میں منتقل ہونے پر مجبور کیا گیا تھا، کے لیے مفید ثابت نہیں ہوئی ہیں۔ ذات پات، نو آبادیات اور جاگیرداری کے خلاف جدوجہد کی ترقی یافتہ حاصلات ”نیو لبرل“ دور کے تحت پسِ پشت ڈال دی گئیں۔ کانگریس اور سی پی آئی ایم دونوں کے تحت جاری استحصال کا نتیجہ زمین کی ملکیت میں بہت بڑی نا برابری کی صورت میں نکلا ہے اور زمین چند ہاتھوں کی ملکیت بن چکی ہے۔ ہیریسن اسٹیٹ، جو ٹاٹا کی ملکیت ہے، کے غیر قانونی قبضے میں ہزاروں ایکڑ کی زمین ہے۔ لیفٹ فرنٹ کی موجودہ حکومت اس غیر قانونی قبضے کو ختم کرنے کی بجائے، بائیں بازو کے کارکنان اور ان دَلِت اور قبائلی قائدین کو گرفتار کر رہی ہے جو زمین کے قبضے کے خلاف لڑ رہے ہیں۔ مثال کے طور پر 2016ء میں جیسے ہی لیفٹ فرنٹ اقتدار میں آیا تو پینارئی ویجیئین، جو سی پی آئی ایم کے پولٹ بیورو کا رکن اور کیرالا کا وزیر اعلیٰ ہے، نے نیو لبرل معیشت دان گیتا گوپی ناتھ کو اپنے چیف معاشی مشیر کے طور پر تعینات کیا۔ جو بعد میں آئی ایف کی چیف معیشت دان بن گئی۔ کیرالا کی حکومت مودی سرکار کی پالیسیاں لاگو کرنے میں پیش پیش رہی ہے، جیسا کہ جی ایس ٹی ٹیکس اور میڈیکل کے طلبہ کے لیے ’این ای ای ٹی‘ کے امتحانات۔ موجودہ لیفٹ حکومت پر کرپشن اور سونے کی سمگلنگ کے الزامات بھی لگے ہیں۔ اقتدار سے چمٹے رہنے کی خواہش میں، سی پی آئی ایم اسلاموفوبیا میں مبتلا ہوئی ہے اور ماؤ اسٹ نظریہ پرستوں خاص کر مسلمان کارکنان کو ’اَن لاء فُل ایکٹیویٹیز پریوینشن ایکٹ‘ اور دیگر جابرانہ قوانین کے تحت گرفتار بھی کر رہی ہے۔ وہ کیرالا کی مسلم لیگ پارٹی پر الزام لگا رہی ہے کہ یہ جہادی پارٹی ہے، جبکہ تامل ناڈو میں یہی سی پی آئی ایم مسلم لیگ کے ساتھ اتحاد میں ہے۔

لیفٹ حکومت ’گُونڈاز ایکٹ‘ کو استعمال کرتے ہوئے ان افراد کی گرفتاریاں کر رہی ہیں جو حکومتی پالیسیوں کے خلاف لڑ رہے ہیں۔ یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ کیرالا پولیس نے بہت ہی مشکوک انداز میں سات ماؤ اسٹوں کو قتل کیا۔ ماضی کے اندر سی پی آئی ایم کی حکومت لوگوں کے لیے فلاحی اقدامات کرنے میں کامیاب رہی تھی، مگر اس کے ساتھ ساتھ، وہ ایسی پالیسیاں لاگو کر رہی تھی جس کا فائدہ گوتم اڈانی اور انیل امبانی جیسے طاقتور کاروباریوں کو پہنچ رہا تھا۔ تمام نیشنل ہائی ویز اور بندرگاہوں کو پی پی پی (پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ) کے ذریعے تعمیر کیا گیا ہے۔ ویزینجام میں تقریباً ایک ارب امریکی ڈالر پر بنائے گئے انٹرنیشنل سی پورٹ، ایک قدرتی بندرگاہ جو کیرالا کے دارالحکومت تیرو وانن تھاپورم سے 16 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے، کو بھی مودی کے ایک اور دوست گوتم اڈانی کی کمپنی کے ساتھ پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت تعمیر کیا گیا ہے۔ اس کے لیے جواز فراہم کرنے کی خاطر سی پی آئی ایم کہتی ہے کہ تعمیر و ترقی کا نظریے کے ساتھ کوئی سروکار نہیں ہوتا۔

ریاستی قرض بڑھ کر تقریباً 40 ارب امریکی ڈالر تک پہنچ چکا ہے۔ ریاست میں فی کس قرض کی شرح بھارت کے اندر سب سے زیادہ ریاستی قرضوں میں سے ایک ہے۔ نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد روزگار کی خاطر خلیجی اور دیگر ممالک میں جانے پر مجبور ہے۔ ریاستی اور مرکزی حکومت کی جانب سے لیے جانے والے معاشی اقدامات کی وجہ سے محنت کش طبقے کی زندگی میں شدید بد حالی آئی ہے۔ کورونا وائرس کے پیشِ نظر لگائے جانے والے لاک ڈاؤن نے عوام کی حالت مزید بگاڑ دی ہے۔

آسام

آسام میں 126 سیٹوں پر مبنی اسمبلی کے لیے انتخابات منعقد کیے جا رہے ہیں۔ آسام کے اندر 2016ء سے بی جے پی کی حکومت قائم ہے۔ حکومتی اتحاد، جس کی قیادت بی جے پی کر رہی ہے، کے مقابلے میں کانگریس کی قیادت میں ایک اتحاد موجود ہے۔ یہ ایک گرینڈ الائنس ہے جو کانگریس، اے آئی ڈی یو ایف (آل انڈیا یونائیٹڈ ڈیموکریٹک فرنٹ)، سی پی آئی ایم اور ’سی پی آئی ایم ایل لبریشن‘ پر مشتمل ہے۔ اے آئی ڈی یو ایف ایک تنظیم ہے جس کی قیادت بدر الدین اجمل، ایک بڑی کاروباری شخصیت، کر رہا ہے۔ سی پی آئی ایم ایل لبریشن صرف ایک سیٹ کے لیے لڑ رہی ہے۔ علاقائی پارٹیاں بھی بی جے پی کے خلاف کھڑی ہو رہی ہیں، جیسا کہ مقیّد کسان قائد اکھیل گوگوئی کی قیادت میں موجود رائجر ڈَل پارٹی۔

بی جے پی کو شکست دینا مخالف پارٹیوں کا مشترکہ نعرہ رہا ہے۔ یہاں مودی کے متعصب شہریت والے قوانین اور مودی سرکار کے آمرانہ رویے کے خلاف بڑے پیمانے پر اختلاف موجود رہا ہے۔ آسام کا ایک بڑا مسئلہ نسلی بنیادوں پر تقسیم کا ہے۔ آسامی قوم پرست ان بنگالی مسلمانوں، بنگالی ہندوؤں اور قبائلی گروہوں کے مخالف ہیں جو برطانوی راج میں آسام منتقل ہوئے تھے۔ 1971ء میں جب بنگلہ دیش بن رہا تھا، تب بھی بنگالی مسلمان اور ہندو بڑی تعداد میں آسام نقل مکانی کر چکے تھے۔ آسامی طلبہ یونین نے بنگالی مسلمانوں کے خلاف بہت بڑی تحریکوں کی قیادت کی تھی اور 1985ء میں حالات بنگالی مسلمانوں کے بہت بڑے قتلِ عام کے دہانے پر پہنچ گئے تھے جو بالآخر بھارتی حکومت اور آسامی طلبہ یونین ’اے اے ایس یو‘ کے بیچ ہونے والے ’آسام معاہدے‘ پر اختتام پذیر ہوئے۔ اے اے ایس یو بعد میں اے جی پی (آسام گانا پریشاد) بن گئی، جو بعد میں بی جے پی کے ساتھ ضم ہو گئی۔ اس نے 2016ء سے موجودہ حکومت قائم کر رکھی ہے۔ یہاں کانگریس حکومت کے بھی دو طویل ادوار گزر چکے ہیں۔ ان حکومتوں کی اکثریت میں کرپشن کی بہتات رہی ہے اور عوام کی زندگیوں میں بہتری نہیں آئی ہے۔ بہت سی ریاستیں، جیسا کہ میگھا لایا، میزورم اور ناگالینڈ، آسام کی ریاست سے الگ ہو کر قائم ہوئی ہیں۔

آسام کے محنت کش طبقے میں شدید استحصال کا شکار ہونے والی پرت چائے کے محنت کشوں کی ہے، جو کم از کم اجرت سے بھی کم اجرت پر زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے۔ یہ 7 لاکھ 50 ہزار محنت کش اپنی یومیہ اجرت 167 روپوں سے بڑھانے کی جدوجہد کر رہے ہیں۔ پوری ریاست میں ووٹروں کی مجموعی تعداد میں چائے کے محنت کشوں کا حصّہ 30 فیصد بنتا ہے۔ ان کے بیچ کمیونسٹ ٹریڈ یونینز بھی کام کر رہی ہیں۔ یکے بعد دیگرے آنے والی حکومتوں نے اجرتوں میں اضافے کا وعدہ کیا ہے مگر ابھی تک کسی نے بھی اسے پورا نہیں کیا۔ یہاں تک کہ انتخابات شروع ہونے سے تھوڑا عرصہ پہلے حکومت کی جانب سے 167 روپوں میں 50 روپے کے اضافے کا جو حکم دیا گیا تھا، اس کو بھی گوہاٹی ہائیکورٹ نے مالکان کی عرضی پر لاگو ہونے سے روک دیا۔

ایک دوسرے کے بعد اقتدار میں آنے والی سرمایہ دارانہ حکومتیں آسام کے اندر محنت کش طبقے کی زندگی میں کوئی بھی بہتری نہیں لا پائی ہیں۔ ان حالات میں، قوم پرستانہ، نسل پرستانہ، ذات پات اور مذہبی مسائل کو سرمایہ داری کا عمومی بحران بڑھاوا دے رہا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ سرمایہ داری کے تحت آسامی لوگوں کے پاس نجات کا کوئی راستہ نہیں۔

تامل ناڈو

کیرالا کی طرح تامل ناڈو بھی کمیونسٹ تحریک اور دراوڑی تحریک کا روایتی میدان رہا ہے۔ (ابتدائی دراوڑی تحریک، جس کی قیادت پیریار ای وی راماسامی کر رہا تھا، جنوبی بھارت میں دراوڑی زبانیں بولنے والی تمام ریاستوں کو متحد کر کے ایک آزاد دراوڑی ریاست کا مطالبہ سامنے لائی تھی، مگر آخر میں یہ تحریک تامل ناڈو تک محدود ہو کر رہ گئی۔ تقریباً 20 کروڑ 45 لاکھ کی تعداد میں موجود دراوڑی لوگ جنوبی ایشیا کا ایک نسلی و لسانی گروہ ہے جو دراوڑی زبانوں میں سے ایک کے بولنے والے ہیں۔)

دراویڈا کازاگام کی عزتِ نفس (سیلف ریسپیکٹ) تحریک کے بانی پیریار نے توہم پرستی کے خلاف اور ذات پات کے نظام کے خاتمے کی مہم چلائی۔ عزتِ نفس تحریک کے ابھار کی وجہ محنت کش طبقے کے ساتھ ذات پات کی بنیادوں پر امتیازی سلوک تھا، جس کے نتیجے میں وہ روزگار اور تعلیم سے محروم کر دیے جاتے تھے۔ اس تحریک کو برہمن ازم اور زندگی کے ہر شعبے میں برہمنوں کے غلبے کے خلاف تحریک سمجھا جاتا ہے۔ تامل ناڈو میں دَلِتوں اور نچلی ذاتوں کی بہت بڑی آبادی موجود ہے، جن کے لیے ریزرویشن کا لاگو کیا جانا ان پرتوں کی جیت سمجھی جاتی تھی۔ البتہ، گہرے ہوتے ہوئے بحران کے موجودہ حالات میں، بورژوا پارٹیاں محنت کش طبقے کو تقسیم کرنے کے لیے ذات پات کی بنیاد پر دیے جانے والے ریزرویشن کو استعمال کر رہی ہیں۔

تامل ناڈو بھارت کی ان ریاستوں میں سے ہے جہاں سب سے زیادہ صنعت کاری ہوئی ہے۔ کیرالا کی طرح یہاں بھی ترقی کی بنیاد سمجھے جانے والے سماجی عناصر پائے جاتے ہیں۔ مگر مجموعی طور پر ترقی نا ہموار رہی ہے۔ مثال کے طور پر زمینی ملکیت کے حوالے سے بہت زیادہ نا برابری موجود ہے۔ شعبۂ صحت اور تعلیم کا زیادہ تر حصّہ نجی قبضے میں ہے۔ تامل ناڈو کے اندر، جہاں ایک طرف بڑے پیمانے پر شہری ترقی دیکھنے کو ملی ہے، وہیں دیہات کے اندر ذات پات کے نظام کا غلبہ اور پسماندگی بھی آئی ہے۔ یہاں اپنی ذات سے باہر شادی کرنے کے جرم میں غیرت کے نام پر کئی قتل بھی دیکھنے کو ملے ہیں، جس کا نام اس فہرست میں اتر پردیش کے بعد آتا ہے۔ تامل ناڈو کے دیہاتوں میں نچلی ذاتوں کیلئے پانی یا دیگر مشروبات پینے کا الگ الگ انتظام اب بھی رائج ہے۔ یہ دَلِتوں اور دیگر نچلی ہندو ذاتوں کے خلاف تعصب کا ایک طریقہ ہے، جس میں انہیں پینے کے لیے علیحدہ پیالے دیے جاتے ہیں۔ یہ نا ہموار اور مشترکہ ترقی بھارت بھر میں عمومی طور پر رائج ہے۔

دراوڑی تحریک کا ماخذ ’ڈی ایم کے‘ (دراویڈا منیترا کازاگام) اور ’اے آئی اے ڈی ایم کے‘ (آل انڈیا انا دراویڈا منیترا کازاگام) کی صورتوں میں موجود ہے۔ تامل ناڈو میں پچھلے 50 سالوں سے انہی دو دراوڑی پارٹیوں کی حکومت رہی ہے۔ ’اے آئی اے ڈی ایم کے‘ پچھلے 10 سالوں سے بر سرِ اقتدار ہے۔ یہ مودی سرکار کی گماشتہ حکومت مانی جاتی ہے۔ ’ڈی ایم کے‘ کی قیادت موتھو ویل کارَنانیدھی سٹالن کر رہا ہے، جو فوت شدہ وزیر اعلیٰ کارَنانیدھی کا بیٹا ہے۔ ڈی ایم کے، جو اگرچہ سیکولر ہونے کا دعویٰ کرتی ہے، نے ماضی کے اندر بی جے پی حکومت کے ساتھ انتخابی اتحاد بنائے ہیں۔ ان دونوں پارٹیوں نے اپنے اپنے دورِ حکومت میں بھرپور کرپشن کی ہے۔ تامل ناڈو میں انتخابات پیسے کاننگا کھیل ہوتا ہے، جہاں دونوں پارٹیاں پیسے دے کر ووٹ خریدتی ہیں۔

’ڈی ایم کے‘ ابھی ’اے آئی اے ڈی ایم کے‘ حکومت کے خلاف گرینڈ الائنس کی قیادت کر رہی ہے۔ تامل ناڈو میں بڑے پیمانے پر مودی مخالف اور بی جے پی مخالف لہر کا ابھار دیکھنے کو ملا ہے، جیسا کہ ”مودی واپس جاؤ“ تحریک۔ تامل ناڈو کے عوام بی جے پی کے ”ایک زبان اور ایک ثقافت“ پر مبنی آمرانہ رجحانات سے اختلاف رکھتے ہیں۔ 2020ء میں نیو ایجوکیشن پالیسی، اوپری ذاتوں کی معاشی ریزرویشن اور میڈیکل انٹری ٹیسٹ ’این ای ای ٹی‘ کے خلاف بڑے مظاہرے ہوئے ہیں۔

اگرچہ بی جے پی تامل ناڈو کے اندر کوئی بڑی قوت نہیں ہے مگر وہ ’اے آئی اے ڈی ایم کے‘ کے ساتھ اتحاد میں 20 سیٹوں کے لیے کھڑی ہوئی ہے۔ ’سی پی آئی‘ اور ’سی پی آئی ایم‘، ’ڈی ایم کے‘ کی قیادت میں موجود سیکولر الائنس کا حصہ ہیں، اور وہ 12 سیٹوں کے لیے لڑ رہے ہیں۔ ’اے آئی اے ڈی ایم کے‘ اور ’بی جے پی‘ کے اتحاد کو شکست دینے کے لیے کمیونسٹ پارٹیوں نے ’ڈی ایم کے‘ کے ساتھ اتحاد بنا لیا ہے، کیونکہ بی جے پی کو ان انتخابات میں ایک بڑا خطرہ تصور کیا جا رہا ہے اور ’ڈی ایم کے‘ کی قیادت میں موجود سیکولر الائنس نہیں چاہتی کہ بی جے پی تامل ناڈو میں اپنے پنجے گاڑے۔

موجودہ عوامی مسائل کے لیے دراوڑی پارٹیاں جو حل پیش کر رہی ہیں، وہ سرمایہ داری میں چند ایک اصلاحات کرتے ہوئے اس کو منظم کرنے تک محدود ہیں، جبکہ اس دوران دونوں پارٹیوں کی جانب سے جاری کرپشن کی بھرمار رکنے والی نہیں ہے۔ صنعت کے اور صفائی کے محنت کشوں کی اجرتیں کم از کم اجرت کی سطح کے نیچے قائم ہیں۔ دونوں پارٹیوں نے اپنے اپنے اقتدار میں محنت کشوں اور طلبہ کے لیے یونین کے حق کو کم کیا ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ عوام جس بے روزگاری، غربت اور جاگیردارانہ پسماندگی کو برداشت کر رہے ہیں، یہ دونوں دراوڑی پارٹیاں اس کے لیے کوئی بھی متبادل پیش کرنے سے قاصر ہیں۔

پدوچیری

پدوچیری ایک یونین ٹیریٹری ہے جس کی اسمبلی 33 سیٹوں پر مبنی ہے۔ ”یونین ٹیریٹری“ کی بھارتی ریاستوں کے طرز پر اپنی حکومت نہیں ہوتی، بلکہ یہ ”وفاقی علاقہ“ ہوتا ہے جس کے اوپر جزوی یا مکمل طور پر مرکزی حکومت کا اختیار ہوتا ہے۔ پدوچیری کے اندر انڈین نیشنل کانگریس نمایاں طاقت کے طور پر موجود ہے اور موجودہ مقامی کانگریس حکومت کی قیادت نریاناسامی کر رہا ہے، جو وہاں کا وزیرِ اعلیٰ ہے۔

بی جے پی، ٹیریٹری کے لیفٹیننٹ گورنر کی مدد سے، بلا واسطہ طور پر ٹیریٹری کے معاملات میں مداخلت کرتی ہے۔ بی جے پی حکومت نے مرکزی سطح پر لیفٹیننٹ گورنر کو اپوزیشن پارٹیوں کی قیادت میں موجود مقامی حکومت گرانے کے لیے استعمال کیا ہے۔ لیفٹیننٹ گورنر کرن بیدی، ایک سابقہ پولیس افسر، نے یونین ٹیریٹری کی جانب سے منظور کیے جانے والے بِلوں کی حمایت کرنے کو روک دیا ہے۔ جہاں کہیں بھی بی جے پی اقتدار میں نہیں ہوتی، وہاں پر وہ قانون ساز اسمبلی میں کانگریس اور دیگر پارٹیوں کے ممبران کو خرید کر حکومت کو گرا دیتی ہے۔ قومی سطح پر بر سرِ اقتدار رہنے والی تمام بورژوا پارٹیوں کا ہمیشہ سے یہ شیوہ رہا ہے کہ وہ سودے بازی کر کے ریاستی حکومتوں کو گرانے کی کوشش کرتی ہیں۔ پدوچیری کے اندر کانگریس کی قیادت میں موجود حکومت اس سال 19 فروری کو گر گئی، جب کانگریس کے دو اور ’ڈی ایم کے‘ کے ایک ایم ایل اے نے حکومت کی حمایت ختم کر دی۔ بہرحال، پدوچیری میں ایک طاقتور ٹریڈ یونین تحریک موجود ہے، اور اس دفعہ سی پی آئی ایم ایل ایک سیٹ پر اکیلے لڑ رہی ہے۔

اصلاح پسندی اور فرقہ پرستی

بھارت بھر میں سی پی آئی، سی پی آئی ایم، سی پی آئی (ایم ایل) کی کمیونسٹ پارٹیاں اور بائیں بازو کے دیگر تمام رجحانات خاصا اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔ بھارت میں ایک طاقتور ٹریڈ یونین تحریک بھی موجود ہے۔ تامل ناڈو کے اندر سی پی آئی ایم کی قیادت میں موجود کمیونسٹ پارٹیوں کے ساتھ ساتھ تمام اہم ٹریڈ یونین فیڈریشنز ’ڈی ایم کے‘ کی قیادت میں منظم حزبِ اختلاف کی حمایت کر رہی ہیں۔ ’سی پی آئی ایم ایل لبریشن‘ بھی تامل ناڈو میں 12 سیٹوں کے لیے لڑ رہی ہے، جبکہ دیگر سیٹوں پر وہ ’ڈی ایم کے‘ کی اپوزیشن الائنس کی حمایت کر رہی ہے۔

CPIM election decorations Image Ranjithsiji

بائیں بازو کی مختلف پارٹیوں کو طبقاتی مفاہمت کی پالیسی کو ترک کرتے ہوئے محنت کش طبقے کے ینائیٹڈ فرنٹ بنانے کی جانب بڑھنا ہوگا۔

مغربی بنگال میں سی پی آئی ایم، سی پی آئی، اور کانگریس کا اتحاد ٹی ایم سی حکومت اور بی جے پی اتحاد کے خلاف لڑ رہا ہے۔ یہاں تین طرفہ مقابلہ جاری ہے، جہاں بی جے پی اپنی حکومت بنانے کے لیے اپنی قوتوں کو یکجا کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ سی پی آئی ایم ایل لبریشن 12 سیٹوں پر اکیلی لڑ رہی ہے جبکہ باقی سیٹوں پر وہ سی پی آئی (ایم ایل) ریڈ سٹار جیسی دیگر مارکسسٹ لیننسٹ پارٹیوں کے لیے مہم چلا رہی ہے، جس کی فوری حکمتِ عملی بی جے پی کو شکست دینا ہے۔ ریڈ سٹار چار سیٹوں پر اکیلی لڑ رہی ہے اور دیگر حلقوں میں وہ بی جے پی کو شکست دینے کی مہم چلا رہی ہے۔ ’سی پی آئی ایم ایل لبریشن‘ کے قائد دیپّاناکر بھتّاچاریا اور ’سی پی آئی ایم ریڈ سٹار‘ کے قائد راما چندرن نے ’سی پی آئی ایم‘ کی اس حکمتِ عملی کو ہلاکت خیز قرار دے کر تنقید کا نشانہ بنایا ہے کہ وہ ’ٹی ایم سی‘ اور ’بی جے پی‘ کے بیچ تفریق نہیں کر رہی اور دونوں کو ایک ساتھ ہرانا چاہ رہی ہے، ان کا کہنا ہے کہ بی جے پی سب سے اولین دشمن ہے جس کو پہلے ہرانا ضروری ہے۔

آسام کے اندر، ’سی پی آئی ایم‘ اور ’سی پی آئی ایم ایل لبریشن‘ اس گرینڈ الائنس کا حصہ ہیں جو کانگریس کی قیادت میں بی جے پی کو ہرانا چاہتی ہے۔ کیرالا کے اندر، ’سی پی ایم‘ کے تحت موجود ’ایل ڈی ایف‘ کی حکومت کانگریس اور بی جے پی کے خلاف لڑ رہی ہے۔ بی جے پی ان انتخابات میں سبقت لے جانے کی ہر ممکن کوشش کر رہی ہے اور اسی عمل کے ذریعے کیرالا اور تامل ناڈو کے اندر اپنے قدم جمانا چاہتی ہے۔

’سی پی آئی‘، ’سی پی آئی ایم‘ اور ’سی پی آئی (ایم ایل)‘ کے گرد منظم روایتی بایاں بازو، دائیں بازو کے بی جے پی کے خلاف کوئی حقیقی متبادل پیش نہیں کرتا۔ کانگریس کی پچھلی حکومتوں کی جانب سے نجکاری اور لبرلائیزیشن کی پالیسیوں، جن کے ساتھ ساتھ کرپشن اور مہنگائی بھی برابر جاری رہی، نے عوام کے حالات مزید بگاڑ دیے تھے۔ 2014ء میں دائیں بازو والی بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے پیچھے یہی وجہ تھی۔ مختلف کمیونسٹ پارٹیوں کی شکل میں موجود سٹالنسٹ بایاں بازو کا اس سارے عمل میں ایک بڑا کردار رہا ہے، جو کانگریس اور اس کی مزدور دشمن پالیسیوں کا کوئی متبادل پیش کرنے سے قاصر رہا ہے، اور یوں ایک آزادانہ سیاسی مؤقف اور انقلابی پالیسی اپنا کر سیاسی خلاء کو پُر نہیں کر پایا ہے۔

بائیں بازو کی عمومی طور پر یہی پالیسی رہی ہے کہ وہ کانگریس جیسی بورژوا پارٹیوں اور ’آر جے ڈی‘ اور ’ڈی ایم کے‘ جیسی علاقائی پارٹیوں کے پیچھے پیچھے چل رہا ہوتا ہے۔ سٹالنسٹ بائیں بازو نے ان انتخابات میں کمتر برائی والی سیاست کا حربہ اپنایا ہے، جو دائیں بازو کی بی جے پی کے خلاف کانگریس اور بعض علاقائی پارٹیوں کی حمایت کر رہا ہے۔

چنانچہ تامل ناڈو کے اندر ’سی پی آئی‘ اور ’سی پی آئی ایم‘ 12 سیٹوں پر ’ڈی ایم کے‘ کی الائنس میں شامل ہو چکی ہیں، ایسا اس تناظر کے پیشِ نظر کیا گیا کہ آزادانہ طور پر لڑنے سے ووٹ منقسم ہو جائیں گے اور رجعتی اقتدار میں آ جائیں گے۔ بورژوا میڈیا، کانگریس، علاقائی پارٹیوں، پیٹی بورژوازی، درمیانے طبقے کے دانشوروں اور محنت کش طبقے کی تحریک میں موجود سرمایہ دار کارندوں کی پرتیں سارے مل کر ٹریڈ یونین تحریک کے اوپر بے تحاشا دباؤ ڈالتی رہتی ہیں کہ آزادانہ طور پر کھڑا نہیں ہونا۔

کمیونسٹ تحریک کے بانی، مارکس اور اینگلز، اس حوالے سے بہت واضح مؤقف رکھتے تھے کہ جب انتخابات میں کمیونسٹوں کے پاس مختلف بورژوا پارٹیوں میں سے ایک کی حمایت چننے کا راستہ موجود ہو تو انہیں کیا کرنا چاہیے۔ مارچ 1850ء کے اندر ”کمیونسٹ لیگ کی مرکزی کمیٹی سے خطاب“ میں انہوں نے مندرجہ ذیل موقف پیش کیا:

”موجودہ حکومتوں کو گرانے کا فوری نتیجہ قومی سطح پر ایک نمائندہ گروہ منتخب کرنے کی صورت میں نکلے گا۔ یہاں پرولتاریہ کو اس بات کا خیال رکھنا پڑے گا کہ؛ 1) علاقائی انتظامیہ اور حکومتی منتظمین کسی بھی صورت میں محنت کشوں کے کسی بھی حصے کو اپنے دھوکہ دہی والے عمل سے محفوظ نہیں رکھیں گے؛ 2) ہر ایک جگہ پر بورژوا جمہوری امیدواروں کے خلاف مزدور امیدواروں کو کھڑا کیا جائے گا۔ جہاں تک ممکن ہے لیگ کے ممبران کو بطورِ امیدوار کھڑا کرنا چاہیے اور ہر ممکن ذریعے کا استعمال کرتے ہوئے انہیں منتخب کروانا چاہیے۔ یہاں تک کہ جہاں پر جیتنا ممکن نظر نہ آ رہا ہو، وہاں بھی محنت کشوں کو اپنی آزادی یقینی بنانے، اپنی طاقت ماپنے، اور اپنا انقلابی مؤقف اور پارٹی کا نظریہ عوام کے سامنے لانے کے لیے اپنے امیدوار کھڑے کرنے چاہئیں۔ انہیں ڈیموکریٹس کی خالی بیان بازیوں سے بالکل بھی گمراہ نہیں ہونا چاہیے، جو یہی بات دہراتے رہتے ہیں کہ مزدور امیدوار ڈیموکریٹک پارٹی میں پھوٹ ڈالنے کا باعث بنیں گے اور یوں رجعتی قوتوں کو جیتنے کا موقع میسر آئے گا۔ حتمی تجزیے میں ان ساری باتوں کا مقصد یہی ہے کہ پرولتاریہ کو دھوکہ دے کر محروم رکھا جائے۔ پرولتاریہ کی پارٹی آزادانہ طور پر کام کرتے ہوئے جو ترقی حاصل کرے گی، وہ پارلیمان میں چند رجعتیوں کے منتخب ہونے سے پہنچنے والے نقصانات سے کہیں زیادہ بڑھ کر ہوگی۔۔۔“

یہاں واضح طور پر بیان کیا گیا ہے کہ انتخابات کے دوران محنت کشوں کی پارٹیوں کی انقلابی و طبقاتی پالیسی کیا ہونی چاہئیے۔ مارکس اور اینگلز نے بورژوا لبرلز کے موقع پرست مباحثوں کے خلاف اور فرقہ پروروں کی جانب سے انتخابات کا بائیکاٹ کرنے کے خلاف بھی واضح مؤقف اپنایا تھا۔

لینن اور ٹراٹسکی کی قیادت میں ہونے والے بالشویک انقلاب کی کامیابی کی یہی وجہ تھی کہ انہوں نے آزادانہ انقلابی پالیسی اور طبقاتی بیانیہ اپنایا تھا۔ لینن اور ٹراٹسکی روس میں موجود انتہائی دائیں بازو کی فاشسٹ قوت بلیک ہنڈرڈز سے لڑنے کی خاطر کیڈٹس جیسی بورژوا قوتوں کے ساتھ کسی بھی قسم کا انتخابی اتحاد بنانے کے خلاف تھے، جبکہ منشویک اس نقطۂ نظر سے بورژوازی کی حمایت کر رہے تھے کہ روسی انقلاب ایک بورژوا انقلاب ہوگا اور اسی لیے اس کی قیادت بورژوا پارٹیاں کریں گی۔ جب انقلاب کے حوالے سے بورژوا پارٹیوں کے غدارانہ کردار کی بات آئی تو لینن اور ٹراٹسکی اس کے خلاف کھڑے ہو گئے، اور وضاحت کی کہ وقت آنے پر یہ پارٹیاں انقلابی پرولتاریہ کے مقابلے میں جاگیرداری کا ساتھ دیں گی۔ روسی انقلاب اکتوبر میں فتح یاب ہو گیا اور اس نے پہلی مزدور ریاست کے قیام کے لیے راہ ہموار کی۔

لینن اور ٹراٹسکی کے تحت انقلاب کے بعد پہلے سالوں کے دوران جو مزدور جمہوریت قائم ہو گئی تھی، وہ لینن کی موت کے بعد تباہ کر دی گئی۔ خانہ جنگی، بہت سے محنت کشوں کی اموات، مزدور جمہوریت کا گلا گھونٹے جانے اور انقلاب کے تنہا رہ جانے نے مل کر مسخ شدہ مزدور ریاست اور سٹالن کے تحت افسر شاہی کے ابھار کے لیے حالات تیار کیے۔ ابتدائی عرصے کی حقیقی مزدور جمہوریت کی بجائے سٹالن کی آمریت رونما ہوتی ہوئی نظر آئی، جو مراعات یافتہ افسر شاہی پرت کے مادی مفادات کا اظہار تھا۔

اس عرصے میں سٹالن کی قیادت کے تحت کامنٹرن (تیسری انٹرنیشنل) نے لینن اور ٹراٹسکی کا تجزیہ ترک کر دیا اور پسماندہ نو آبادیاتی ممالک میں انقلاب کے حوالے سے میکانکی انداز میں مرحلہ واریت والا نظریہ (ٹُو سٹیج تھیوری) سامنے لایا۔ اب سوشلسٹ انقلاب کی بجائے جمہوری انقلاب پر زور دیا جانے لگا؛ کہا گیا کہ سوشلسٹ انقلاب کا دوسرا مرحلہ پہلے مرحلے کے لمبے عرصے کے بعد ہی ممکن ہو پائے گا۔ آج بھارت کے اندر سٹالنسٹ روایات پر مبنی تمام گروہ اور پارٹیاں اسی پالیسی کو اپناتی ہیں، اور اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ وہ سارے کیوں، کسی ایک یا دوسری شکل میں، بورژوا پارٹیوں کے ساتھ اتحاد بنانے کی کوششیں کرتی رہتی ہیں۔

روسی انقلاب کے بعد نام نہاد ”عوامی جمہوریت“ کے طویل دور کی ضرورت نہیں پڑی تھی۔ اس حوالے سے ٹراٹسکی اس نتیجے پر 1906ء میں پہنچ گیا تھا، جس پر بعد میں لینن بھی 1917ء میں پہنچ گیا، کہ سامراجیت کے غلبے کے تحت، بورژوا جمہوری مطالبات محض پرولتاریہ کی آمریت کے ذریعے ہی پورے کیے جا سکتے ہیں۔ حتیٰ کہ چین میں بھی، جہاں کمیونسٹ پارٹی کے قائدین مرحلہ واریت پر پختہ یقین رکھتے تھے، 1949ء کے اندر اقتدار میں آنے والی حکومت نے بہت جلد اس بات کو دریافت کیا کہ ایسی کوئی بورژوازی وجود نہیں رکھتی جس کے ساتھ وہ اتحاد بنا سکیں۔

”عوامی جمہوریت“ کے سٹالنسٹ پروگرام کا مقصد بورژوا حکمرانی کے اوپر پردہ ڈالنے کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔ جیسا کہ ٹراٹسکی نے کہا تھا، سامراجیت کے دور میں صرف دو متبادل موجود ہوتے ہیں، یا تو ”پرولتاریہ کی آمریت یا سرمائے کی آمریت“۔ روس کے اندر ”عوامی جمہوریت“ فروری 1917ء کی کیرینسکی حکومت کی صورت میں قائم کی گئی تھی، چین کے اندر 1920ء کی دہائی میں چیانگ کائی شیک حکومت کی صورت میں، اور نیپال میں انقلاب ناکام ہونے کے بعد موجودہ حکومت کی صورت میں۔ ”عوامی جمہوریت“ سرمائے کی حکمرانی کے لیے محض پردے کا کام کرتی ہے۔

آج بھارت میں سٹالنسٹ بایاں بازو مرحلہ واریت کی یہی پالیسی اپنائے ہوئے ہے۔ وہ بورژوا پارٹیوں اور پیٹی بورژوا تنظیموں کے ساتھ انتخاباتی اتحاد اور متحدہ محاذ بناتا رہتا ہے۔ 1917ء کے اندر، روس جیسے پسماندہ ملک کے ٹھوس اور زندہ تجربے نے واضح کیا کہ سوشلسٹ انقلاب جمہوری فرائض پورا کرنے کا پوری طرح سے اہل ہے۔ روس کے محنت کشوں نے اپنا سوشلسٹ انقلاب برپا کرنے کے لیے دہائیوں تک سرمایہ دارانہ ترقی سے گزرتے ہوئے انتظار نہیں کیا۔ آج کے دور میں، قومی اور بین الاقوامی سطح پر پیداواری قوتیں اتنی ترقی کر چکی ہیں جتنی سوشلسٹ انقلاب کے لیے درکار ہے۔ جیسا کہ لینن نے کہا تھا، سامراجیت کا زمانہ سوشلسٹ انقلاب کا دور ہے۔

چنانچہ سٹالنسٹ بایاں بازو محنت کش طبقے کے سامنے کوئی انقلابی متبادل نہیں رکھ رہا۔ وہ یا تو سرمایہ دارانہ پارٹیوں کے ساتھ بڑے بڑے اتحاد بنا رہا ہے یا پھر ”انقلابی بائیں بازو“ پر مشتمل فرقہ پرستانہ اتحاد۔ ایک برائی (بی جے پی کا ہندو دایاں بازو) کے مقابلے میں دوسری برائی (دائیں بازو کی دوسری پارٹی) کی حمایت کرنے والی سٹالنسٹ پالیسی کے بعد عوام کے سامنے انقلابی متبادل پیش کرنے کی گنجائش باقی نہیں بچتی۔ کمیونسٹ پارٹیاں اس نظریے کی جکڑ بندیوں میں مقید ہیں اور عوام کو انقلابی متبادل دینے کی اہلیت نہیں رکھتیں، اور بورژوا پارٹیوں کے ساتھ غیر مقدس اتحاد کے ذریعے چمٹی رہتی ہیں۔ طبقاتی مفاہمت کی اس پالیسی سے بھارتی کمیونسٹ تحریک کے دب جانے اور اس کا کردار محض بائیں بازو کی سرمایہ داری تک محدود رہنے کا خطرہ ہے۔

آگے کا راستہ

2008ء کے عالمی معاشی بحران نے عوام کے حالات مزید بد تر کر دیے تھے۔ بھارتی معیشت، جو عالمی معیشت کا لازمی جز ہے، معاشی بد حالی اور بحران سے خود کو محفوظ نہیں رکھ سکتی۔ دائیں بازو والی بی جے پی حکومت پچھلے سات سالوں سے محنت کش طبقے، اقلیتوں، اور خصوصاً مسلمانوں اور دَلِتوں کے حقوق پر حملے کرتی رہی ہے۔ اس نے اپنے گورنروں، انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ (معاشی قوانین نافذ کرنے والی ایجنسی)، مرکزی تحقیقاتی بیورو (سی بی آئی) اور دیگر مرکزی ایجنسیوں کی مدد سے یا تو ریاستی حکومتوں کو گرایا ہے یا پھر ان سے بی جے پی کی پالیسیاں تسلیم کروائی ہیں۔ اس کے مالیاتی اور بجٹ پیکجز عوامی اداروں، ریلوے، انشورنس اور بینکوں وغیرہ کی نجکاری کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔ تیل اور گیس کی قیمتیں بھی برابر بڑھتی رہی ہیں، جس سے عوام کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوا ہے۔

اس صورتحال میں کمیونسٹوں کو انتخابات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنا انقلابی پیغام عوام تک پہنچانے کی ضرورت ہے۔ سٹالنسٹ بائیں بازو نے، دائیں بازو والی بی جے پی کے خلاف عوام کے سامنے انقلابی مطالبات رکھنے کی بجائے، خود کو سرمایہ دارانہ پارٹیوں کی چمچہ گیری تک محدود کر دیا ہے۔ در حقیقت وہ بورژوا پارٹیوں کے کارندے بن گئے ہیں۔ بھارت میں دنیا کی سب سے بڑی عام ہڑتالوں میں سے کچھ دیکھنے کو ملی ہیں جس میں 25 کروڑ محنت کشوں نے حصہ لیا۔

حکمران پارٹیاں ووٹوں کے بدلے پیسوں کے علاوہ کسی چیز کی پیشکش نہیں کرتیں۔ کمیونسٹ پارٹیوں کو ان ساری باتوں کی مذمت کر کے بی جے پی کو شکست دینے کے لیے متحدہ محاذ بنانے کی کال دینی چاہیے تھی۔ بائیں بازو کے متحدہ محاذ کو، جہاں بھی وہ موجود ہیں، محنت کش امیدواروں کو نامزد کرنا چاہیے اور فوری طور پر عوامی مطالبات سامنے لانے چاہئیں، جیسا کہ مودی کے مزدور مخالف اور کسان مخالف قوانین کی واپسی کے مطالبات، اور ان کے مندرجہ ذیل انقلابی مطالبات کے ساتھ جوڑنا چاہئیے:

جاگیردارانہ ملکیتوں پر قبضہ؛ نجی بینکوں، ملٹی نیشنل کمپنیوں اور تمام بڑی صنعتوں پر قبضہ؛ تعلیم اور صحت کے شعبوں کو قومیا کر انہیں ریاست اور محنت کشوں کے اختیارات میں دینا، اور محنت کشوں اور نوجوانوں کی ایکشن کمیٹیوں کو قائم کرنا۔

کئی لوگ کہہ رہے ہیں کہ مودی سرکار فاشسٹ ہے۔ یہ سوچ حقیقت کو نظر انداز کرنے اور تاریخ کو بھلا دینے کا نتیجہ ہے۔ جرمن اور اطالوی فاشزم کے برعکس، بھارت میں بورژوا جمہوریت ہے، جہاں نیم جاگیردارانہ اور نیم سرمایہ دارانہ معیشت قائم ہے، اور جہاں ہر پانچ سال بعد انتخابات بھی ہوتے رہتے ہیں۔ ٹریڈ یونین تحریک پر کوئی پابندی نہیں، جیسا کہ جرمنی اور اٹلی میں تھی۔

بھارتی عوام کسی فاشسٹ آمریت کے تحت زندگی نہیں گزار رہے، نہ ہی میانمار کی طرح فوجی بوناپارٹسٹ آمریت کے تحت۔ بھارت میں طاقتور ٹریڈ یونین اور مزدور تحریک موجود ہے جو آر ایس ایس جیسی دائیں بازو کی فاشسٹ قوتوں کو شکست دینے کی اہل ہے۔ دہلی میں ایک متاثر کن کسان تحریک بھی جاری ہے۔ لاکھوں کسانوں نے پچھلے چار مہینوں سے منظم ہو کر دارالحکومت کا محاصرہ کر رکھا ہے۔ بھارت کے اندر مزدور بھی متحرک ہوتے رہے ہیں اور کئی مواقعوں پر عام ہڑتالوں میں حصہ لیا ہے۔ آزادی کے بعد سے محنت کش طبقے کی قوت میں بے تحاشا اضافہ ہوا ہے۔ بھارت کے اندر کسی بھی قسم کی فاشسٹ قوتوں کے مقابلے میں بہت بڑا محنت کش طبقہ موجود ہے جو انقلابی کردار ادا کر سکتا ہے۔

مسئلہ مختلف پارٹیوں کی سٹالنسٹ قیادت اور ٹریڈ یونینوں کی قیادت کا ہے، جو محنت کش طبقے کو لگام دیتے رہتے ہیں۔ اگرچہ انہوں نے ایک روزہ طاقتور عام ہڑتالیں کی ہوئی ہیں، مگر وہ اس سے آگے نہیں بڑھ پا رہے۔ جب تک مزدور اس سے آگے بڑھ نہیں جاتے، مودی سرکار اور بھارتی سرمایہ دار طبقے کو وقفہ بہ وقفہ عام ہڑتال سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ جس چیز کی ضرورت ہے وہ وسیع پیمانے پر غیر معینہ مدت تک عام ہڑتال منظم کرنے کی ہے، جس میں مزدوروں اور کسانوں کو متحد کرتے ہوئے تب تک لڑائی جاری رکھنی چاہئیے جب تک مزدور دشمن اور کسان دشمن قوانین کو واپس نہیں لیا جاتا اور مودی سرکار گرا نہیں دی جاتی۔ بحران کے خاتمے اور غربت زدہ عوام کی نجات کے لیے یہی ایک متبادل اپنایا جا سکتا ہے۔

ایسا کرنے کے لیے سب سے پہلے بھارت کے روایتی بائیں بازو کو اپنی اس پالیسی کو ترک کرنا پڑے گا جس کے تحت وہ بورژوا پارٹیوں کے ساتھ اتحاد میں چلے جاتے ہیں۔ اسے خود کو محنت کشوں کی ایک خودمختار قوت کے طور پر پیش کرنا پڑے گا۔ بد قسمتی سے، انقلابی متبادل سامنے لانے کے راستے میں موجودہ سٹالنسٹ قیادت سب سے بڑی رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔

دائیں بازو والی ہندو بی جے پی کو صرف انقلابی پالیسی اپنا کر اور بھارتی کمیونسٹ تحریک میں طبقاتی مؤقف کو ترجیح دے کر ہی شکست دی جا سکتی ہے۔ نہ تو پارلیمانی سطح پر طبقاتی مفاہمت والی موقع پرست سٹالنسٹ پالیسی (کمتر برائی کی سیاست) سے، اور نہ ہی الٹرا لیفٹ سٹالنسٹوں کی فرقہ پرستی اپنا کر (”سوشل فاشزم“ کی سوچ) اور ماؤ ازم کی انفرادی مہم جوئی اپنا کر عوام کو متبادل فراہم کیا جا سکتا ہے۔

خود کو فرقہ پرستی کی بنجر دنیا میں قید کرنے کی بجائے، انقلابی کمیونسٹوں کو روایتی بائیں بازو کے ساتھ ٹریڈ یونینز کی صفوں میں بھی جا کر ساری صورتحال سمجھانے کی ضرورت ہے، اور صبر کے ساتھ وضاحت کرنی چاہئیے کہ آگے کس طرف بڑھا جائے۔ جیسا کہ لینن نے اپنی کتاب ’بائیں بازو کا کمیونزم: ایک طفلانہ بیماری‘ میں وضاحت کی ہے، یہ سچ ہے کہ بعض یونینز میں رجعتی مؤقف اپنایا جاتا ہے، اس امر کی بنیاد پر کمیونسٹوں کو ان کے اندر کام کرنے سے نہیں رُکنا چاہئیے اور صبر کے ساتھ وضاحت کر کے انہیں انقلابی پروگرام کے گرد جیتنا چاہئیے۔

بی جے پی جس مذہبی منافرت کو پھیلا رہی ہے، اس کا مقابلہ تمام نسلوں اور مذاہب کے محنت کشوں کو یکجا کر کے کرنا ہوگا۔ بالشیویک پالیسیوں کو جیسا کہ طبقاتی جدوجہد، آزادانہ طبقاتی مؤقف، انقلابی پیغام کو پھیلانا اور محنت کشوں کے متحدہ محاذ کی حمایت کرنا، کو اپناتے ہوئے انہیں بین الاقوامیت کی پالیسی کے ساتھ جوڑ کر ہی ایک ایسا متبادل پیش کیا جا سکتا ہے جس کے ذریعے بھارت کے اندر انقلابی تحریک کو کامیابی سے ہم کنار کیا جا سکے۔ یہی وہ مقصد ہے جس کی خاطر بھارت کے اندر عالمی مارکسی رجحان کے حامی جدوجہد کر رہے ہیں۔ ہم اس جدوجہد میں ہمارا حصہ بننے کیلئے آپ کو دعوت دیتے ہیں۔

Comments are closed.