ہندوستان: عام انتخابات اور مودی کی مزدور دشمن پالیسیاں

|تحریر: لوئی تھامس، ترجمہ: ولید خان|

اس وقت ہندوستان میں عام انتخابات جاری ہیں جن کے حتمی نتائج کا اعلان 23 مئی کو کیا جائے گا۔ پورے ہندوستان میں 90 کروڑ افراد اگلے پانچ سالوں کے لئے قومی اسمبلی (لوک سبھا)کا انتخاب کریں گے۔ المیہ یہ ہے کہ اس وقت مودی تیزی سے عوامی حمایت کھو رہا ہے لیکن بائیں بازو کی سیاسی پارٹیاں اپنے شرمناک ماضی اور حال کی ناکام پالیسیوں کی وجہ سے بدترین حالات سے دوچار ہیں۔

2014ء میں منعقد ہونے والے انتخابات میں قومی جمہوری اتحاد (NDA) نے دائیں بازو کی کٹر BJP کی قیادت میں ”سب کا وکاس“ (سب کے لئے ترقی) کے نعرے پر اقتدار حاصل کیا۔ BJP نریندرا مودی کی قیادت میں UPA (جس کی قیادت کانگریس کر رہی تھی)کی دس سالہ حاکمیت ختم کرتے ہوئے حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی۔ اس دس سالہ عرصے میں محنت کش طبقے پر تابڑ توڑ حملے کئے گئے جبکہ دیو ہیکل کرپشن داستانوں کی بھرمار ہو گئی (2G موبائل سروس اور کانوں کے ٹھیکے وغیرہ) جس کا نتیجہ کانگریس کی بدترین تاریخی شکست میں نکلا۔ نریندرا مودی نے حلف اٹھاتے ہوئے سب کے لئے روزگار اور ترقی کا وعدہ کیا۔ لیکن پچھلے پانچ سالوں میں ثابت ہو چکا ہے کہ سب اعلانات جھوٹ، فریب اور شاطر چالبازی تھے۔ پورے ہندوستان کے محنت کشوں کے لئے مودی سرکار بھیانک خواب ثابت ہوئی ہے۔

مودی سرکار کی معیشت

ترقی اور روزگار کے بلند وبانگ دعووں کے سوا بھوک اور غربت کی ماری ہوئی عوام کے لئے نریندر مودی نے کچھ نہیں کیا۔ پانچ سال پہلے اپنی انتخابی مہم میں مودی نے ہر سال 2 کروڑ نوکریاں دینے اور سوئس بینکوں میں چھپائی کھربوں روپے کی لوٹی ہوئی دولت واپس لا کر ہر ہندوستانی کو 15 لاکھ روپیہ دینے کا اعلان کیا تھا۔ لیکن ہندوستانی معیشت کے مانیٹرنگ سینٹر (CMIE) کی رپورٹ کے مطابق 18-2016ء کے درمیان 50 لاکھ نوکریاں ختم ہو گئیں۔ پچھلے 45 سالوں میں نوکریوں کے خاتمے کے حوالے سے یہ بدترین عرصہ ہے جس میں شرحِ بیروزگاری تقریباً 7 فیصد بنتی ہے۔ بیروزگاری کی شرح اعلیٰ تعلیم یافتہ اور کم ہنر مند افراد دونوں میں بلند ہے۔ ہر ہندوستانی کے اکاؤنٹ میں 15 لاکھ روپیہ ڈالنے کے وعدے کو وزیرِ ٹرانسپورٹ نیتیش گڈکاری سمیت ہر کوئی انتخابی ڈھونگ قرار دے رہا ہے۔

2011ء سے ہندوستان میں نوکریاں ختم ہو رہی ہیں لیکن مودی کی نوٹ بندی کی پالیسی کے بعد یہ عمل شدت اختیار کر گیا ہے۔ 8 نومبر 2016ء کو اچانک 500 روپیہ اور 1000 روپیہ کے کرنسی نوٹوں کو ناقابل استعمال قرار دے دیا اور ان کی جگہ فوری طو رپر نئے کرنسی نوٹ مارکیٹ میں لانے کا اعلان کیا گیا۔ ہندوستانی معیشت میں ان نوٹوں کی گردش 86 فیصد تھی۔ اس اچانک فیصلے نے پورے ملک اور ہر گھر میں پریشانی اور افراتفری مچا دی، معیشت میں کرنسی نوٹوں کی قلت ہو گئی اور عوام کو ATM مشینوں کے باہر گھنٹوں پرانے نوٹ تبدیل کر کے نئے نوٹ حاصل کرنے کے لئے میلوں لمبی قطاروں میں خوار ہونا پڑا۔ اس پورے عمل میں طویل قطاروں میں گھنٹوں کھڑے ہونے کی وجہ سے 150 افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

نوٹ بندی کے اعلان کے بعد بینکوں کے باہر طویل قطاریں لگ ئیں اور اس دوران 150افراد اپنی جان گنوا بیٹھے

ہندوستان جیسی معیشت میں جو 90 فیصد نقد لین دین پر چلتی ہے، اس اچانک فیصلے نے معاشی تباہی مچا دی۔ کئی گھروں، چھوٹے کاروباروں، ملازمین کی اجرتوں اور دیہی معاشی سرگرمیوں پر شدید اثرات پڑے۔ عوام کو کام کاج کرنے کے بجائے سارا سارا دن طویل قطاروں میں خوار ہونا پڑا۔ اس وجہ سے کئی غیر رسمی شعبوں کے مزدوروں کو نوکریوں سے ہاتھ دھونا پڑے۔ درحقیقت نوٹ بندی کی پالیسی عوام پر سفاک دباؤ ڈالتے ہوئے بینکوں کو پیسوں سے بھرنے کی سازش کے علاوہ اور کچھ نہیں تھی کیونکہ 150 ارب ڈالر کے ناقابلِ واپسی قرضوں کی وجہ سے ہندوستانی بینکاری کو روپے کی گردش کے حوالے سے شدید مسائل درپیش تھے۔ نوٹ بندی کی پالیسی کے بعد GST(جنرل سیلز ٹیکس) اور بالواسطہ ٹیکسوں میں اضافوں نے رہی سہی کسر نکال دی۔ معیشت سست روی کا شکار ہوتی چلی گئی اور عوام ذلیل و خوار۔ اس سارے عرصے میں ہندوستانی امراء پر نہ تو کوئی نیا ٹیکس لگایا گیا اور نہ ہی لاگو ٹیکسوں میں کوئی اضافہ کیا گیا۔ ورلڈ اکانومک فورم (WEF) میں شائع ہونے والی آکسفیم کی ایک تحقیقی رپورٹ کے مطابق ہندوستان کے امیر ترین 9 افراد کی دولت سماج کی نچلی 50 فیصد آبادی کی دولت کے برابر ہے۔

تمام ضروری اشیائے صرف میں شدید افراطِ زر، ایندھن اور گیس سلنڈروں کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے، قوتِ خرید میں نمایاں کمی اور بیروزگاری مودی سرکار کا خاصہ بن چکے ہیں۔

صحت، تعلیم اور امیر پرور سرمایہ داری

صحت اور تعلیم کے شعبوں میں حکومت کی طرف سے کوئی قابلِ ذکر سرمایہ کاری نہیں کی جا رہی۔ سالانہ بجٹ میں صحت اور تعلیم کے شعبوں کے لیے مختص کیا گیا حصہ انتہائی قلیل ہے۔ تعلیمی نظام میں موجود ترقی پسندی کی رتی کو تباہ و برباد کر دیا گیا ہے اور ہندوستان جیسے کثیر ثقافتی ملک کے تعلیمی نظام میں ہندو انتہا پسند نظریات مسلط کیے جا رہے ہیں۔ قومی داخلہ ٹیسٹ برائے اہلیت (NEET) لاگو کرنے کے بعد میڈیکل کی تعلیم میں عدم مساوات مزید بڑھے گی اور غریب گھرانوں کے نوجوانوں کا ڈاکٹر بننے کا خواب، خواب ہی رہ جائے گا۔ مودی سرکار آئین کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرتے ہوئے BJP کے حامی افراد کو گورنر مقرر کرتے ہوئے ریاستوں کے حقوق بھی پیروں تلے روند رہی ہے۔

مودی سرکار مسلسل ایسی پالیسیاں لاگو کر رہی ہے جن سے ادانی اور امبانی جیسی اجارہ داریوں کے منافعوں میں ہوشربا اضافہ ہو رہا ہے۔ اجارہ داریوں اور کمپنیوں کے اربوں ڈالر مالیت کے Non-Performing Loans کو حکومت نے معاف کر دیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ریاستی بجٹ میں اربوں روپوں کی سالانہ ٹیکس چھوٹ بھی دی جا رہی ہے۔ کمپنیوں کو سرکش گھوڑوں کی طرح کھلی چھوٹ دے دی گئی ہے کہ وہ من کی تسکین ہونے تک ماحولیاتی قوانین اور عوام کے حقوق کی پامالی کرتے رہیں۔ لیکن ہم جانتے ہیں کہ سرمایہ دار کی تسکین کبھی نہیں ہو سکتی۔

کرپشن کے شرمناک واقعات میں سب سے بدنامِ زمانہ رافیل جنگی جہازوں کی خریداری کا معاہدہ ہے جسے ہندوستانی حکومت انتہائی مہنگے داموں ایک فرانسیسی کمپنی ڈاسالٹ ایوی ایشن سے خرید رہی ہے۔ پچھلی UPA حکومت میں یہی ڈیل کافی سستی تھی۔ پہلے یہ پراجیکٹ ایک قومی ادارے ہندوستان ایروناٹیکل لمیٹڈ کو الاٹ کیا گیا لیکن بعد میں یہ انیل امبانی کو دان کر دیا گیا جس کا دفاعی پیداوار میں کوئی تجربہ نہیں ہے۔ کئی رپورٹیں تصدیق کرتی ہیں کہ وزیرِاعظم کی مداخلت کے بعد ہی یہ ڈیل انیل امبانی کے ریلائنس گروپ کو دی گئی۔

BJP۔۔فرقہ ورانہ تشدد کی سرپرستِ اعلی

مودی سرکار اور بی جے پی اپنی عوام اور مزدور دشمن پالیسیوں کو مسلط کرنے اور محنت کشوں کو تقسیم کرنے کے لیے ہندو انتہا پسندوں کو پروان چڑھا رہی ہے جس کے نتیجے میں اقلیتوں پر حملوں میں اضافہ ہوا ہے

1980ء کی دہائی میں BJP کے پاس صرف دو سیٹیں تھیں لیکن اِس وقت وہ ہندوستان کی سب سے بڑی سیاسی پارٹی بن چکی ہے۔ اس کا مرکزی ایجنڈا اور پروگرام ہمیشہ سے اقلیتوں کے خلاف تشدد پی مبنی رہا ہے۔ BJP کا آغاز ایک کیڈر فاشسٹ تنظیم سے ہوا تھا جس کی بنیاد 1925ء میں مسولینی سے متاثر ہو کر رکھی گئی تھی۔ 6 فروری 2018ء کو لوک سبھا میں ایک سوال کے جواب میں وزارتِ داخلہ نے جواب دیا کہ 2014ء میں اقتدار پر براجمان ہونے کے بعد صرف چار سالوں میں (2014-2017ء)پورے ہندوستان میں 2ہزار 920فرقہ ورانہ واقعات رپورٹ ہوئے جن میں 389 اموات واقع ہوئیں جبکہ 8 ہزار 890 افراد زخمی ہوئے۔ اس حوالے سے 7 فروری 2017ء میں firstpost.com نے بھی ایک رپورٹ شائع کی تھی۔ 2016ء میں فرقہ ورانہ فسادات کے سب سے زیادہ واقعات اتر پردیش اور ہریانہ (250)، جھاڑ کھنڈ (176) اور بہار (139) میں ہوئے۔

2015ء میں اتر پردیش کے ایک گاؤں ددری میں ایک اہم بہیمانہ واقعہ رونما ہوا جس میں محمد اخلاق کو گائے ذبح کرنے کے شک میں بلوائیوں نے قتل کر دیا۔ مسلح ہجوم میں مقامی قائدین بھی شامل تھے جن میں بیشتر کاتعلق BJP سے تھا۔ انہوں نے یہ کہہ کر اخلاق کے گھر پر حملہ کیا کہ انہیں شک ہے کہ اس نے ایک گائے چوری کر کے ذبح کر دی ہے۔ اس واقعے میں اس کا بیٹا بھی زخمی ہوا۔

ایسے کئی واقعات رونما ہو چکے ہیں جن میں مال مویشی کے تاجران کو گؤ رکھشکوں نے حملہ کرکے قتل کر دیا جبکہ گجرات میں دلتوں (نیچ ذات) کو بھی مری ہوئی گائیوں کی کھال اتارنے کی پاداش میں قتل کر دیا گیا۔ مسلمانوں اور دلتوں کے خلاف تشدد کے واقعات میں مسلسل اضافہ ہوا ہے۔

2018ء میں بھارتی مقبوضہ کشمیر کے علاقے کٹھوا میں ایک آٹھ سالہ مسلمان لڑکی آصفہ بانو کو کئی دن گینگ ریپ کرنے کے بعدبے دردی سے قتل کر دیا گیا۔ BJP سے منسلک وکلاء نے پولیس کو کورٹ میں چارج شیٹ پیش کرنے سے جبراً روک دیا جبکہ BJP کے دو ریاستی وزراء نے ملزمان کی حمایت میں نکالے جانے والی ایک ریلی میں شرکت بھی کی۔ تفتیشی افسران کے مطابق آصفہ کو کئی دن ایک مقامی مندر میں قید رکھا گیا اور اسے مسلسل بے ہوشی کی دوائی دی جاتی رہی۔ چارج شیٹ کے مطابق اس کو کئی دن عصمت دری اور ٹارچر کرنے کے بعد قتل کر دیا گیا۔ اس کا گلا گھونٹ کر قتل کیا گیا اور پھر دو دفعہ پتھر مار کر اس کا سر کچل دیا گیا۔ مودی سرکار میں خواتین اور بچوں پر انتہائی دائیں بازو کے رجعتی ہندو انتہا پسند گروہوں کے حملوں میں کثرت سے اضافہ ہوا ہے۔ وزیرِ اعظم نے ان واقعات پر کوئی ردِ عمل نہیں دیا۔

مودی سرکار اسمبلی میں ایک نیا بل بھی لے کر آئی ہے جس کا نام قومی شہریت بل ہے۔ اس بل کی شمال مشرقی ریاستوں کی جانب سے شدید مخالفت کی جا رہی ہے۔ اس بل کا مقصد ان ریاستوں میں رہنے والے مسلمان تارکین وطن کے خلاف تعصبانہ برتاؤ کو قانونی حیثیت دینا ہے۔ اس بل کے مطابق دیگر علاقوں سے آئے ہندو تارکینِ وطن کو شہریت دی جائے گی لیکن غیر ہندوؤں کو جبراً واپس آبائی ریاستوں میں بھیج دیا جائے گا۔ حکومت کی جانب سے شائع ہونے والے قومی شہریت رجسٹر میں تقریباً 40 لاکھ تارکینِ وطن کے نام حذف کر دیے ہیں جو پچھلے 50 سالوں سے ہندوستان میں رہ رہے ہیں۔

ایسے واقعات روزانہ رونما ہو رہے ہیں جن میں اقلیتوں، دلتوں اور خواتین کو تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور مجرموں کو ہر قسم کا تحفظ فراہم کیا جا رہا ہے۔ جمہوری حقوق روزانہ پامال ہو رہے ہیں اور لاقانونیت کا اندھا راج ہے۔

محنت کش طبقے کی جدوجہد

پانچ سال سے حاکم مودی سرکار نے ہندوستانی مزدوروں اور کسانوں کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیا ہے۔ پاکستان جیسے ہمسایہ ممالک کے ساتھ تیزوتند جنگی لفاظی، زہریلی قوم پرستی، بے قابو افراطِ زر، بیروزگاری، غربت، جان لیوا فرقہ ورانہ بلوے، جمہوری حقوق کی بربادی، سفاک مزدور مخالف قوانین، نریندر دبلاکر، گوری لنکیش اور گووِند پنسارے جیسے ترقی پسند لکھاریوں کا سرد مہر قتل اور سرگرم سماجی افراد کی گرفتاریاں مودی سرکار میں معمول بن چکی ہیں۔ عدلیہ، سنٹرل بیورو آف انوسٹی گیشن (CBI)اور الیکشن کمیشن جیسے کئی کلیدی اداروں سمیت تمام مرکزی اداروں کی آزادی داؤ پر لگی ہوئی ہے۔

مودی کا ظہور اور BJP کا ابھار سرمایہ دارانہ بحران کا نتیجہ ہے جس میں بائیں بازو کی سیاسی پارٹیوں کے چھوڑے گئے خلا نے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ سرمایہ داری کے موجودہ بحران نے تو بس اس عمل کو ایک جست فراہم کی ہے۔

مودی سرکار میں مسلمانوں اور تارکین وطن کو خاص طور پر نفرت کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ نجکاری، جبری کٹوتیوں اور لبرلائزیشن کی پالیسیاں بڑے پیمانے پر مسلط کی گئی ہیں جس سے عدم مساوات کئی گنا بڑھ چکی ہے۔ اگرچہ شرح نمو اور دیگر معاشی اشاریوں کے اعدادوشمار بے پناہ ترقی کی غمازی کرتے ہیں لیکن حقائق اس کے برعکس ہیں۔ غربت، مایوسی، بھوک اور بیماری کئی گنا بڑھ چکے ہیں اور متعدد کسان کمر توڑ قرضوں سے جان چھڑانے کے لئے خود کشیاں کر رہے ہیں۔ محنت کش طبقے پر بحیثیتِ مجموعی تابڑ توڑ حملے کئے جا رہے ہیں۔ روزگار شدید عدم استحکام کا شکار ہے جس میں مستقل نوکریاں تیزی سے ختم کی جا رہی ہیں۔ کمپنیوں کے لئے ہوشربا ٹیکس چھوٹ ہے جبکہ حکومت عوامی فلاح و بہبود پر مسلسل کمپنیوں کے منافعوں کو ترجیح دے رہی ہے۔ تامل ناڈو کے ضلع تھوتھوکوڈی میں سٹرلائٹ قتلِ عام صرف مودی سرکار کی سرمایہ داروں کی ننگی حمایت میں ہی ممکن تھا۔

اس ساری صورتحال میں محنت کش طبقہ مجبور ہو چکا ہے کہ ان حکومتی حملوں، حکمران طبقے کی فلک بوس رکاوٹوں اور اپنے قائدین کی دھوکے بازی اور غداریوں کے خلاف جدوجہد کرے۔ مودی سرکار کے خلاف محنت کشوں اور کسانوں نے دیو ہیکل ہڑتالیں اور احتجاج کئے ہیں۔ اس سال 9 اور 8 جنوری کو 20 کروڑ مزدوروں نے ملک گیر عام ہڑتال منظم کرتے ہوئے پورا ملک جام کر دیا۔ یہ عام ہڑتال تاریخ کی سب سے بڑی عام ہڑتال تھی۔

مودی سرکار کی مزدور دشمن پالیسیوں کے خلاف ہندوستانی محنت کش طبقہ مسلسل نفرت اور غم و غصے کا اظہار کر رہا ہے اور اس سال کے آغاز میں انسانی تاریخ کی سب سے بڑی عام ہڑتال کی گئی

مودی سرکار میں ہر سال یونینز نے بڑے بڑے احتجاج کئے ہیں جبکہ مہاراشٹراور دیگر ریاستوں کے کسانوں نے حکومت کی عوام دشمن پالیسیوں کے خلاف ملک گیر احتجاج کئے ہیں۔ محنت کش طبقہ عام ہڑتالوں کے ذریعے اپنا اظہار کر رہا ہے اور جاری عام انتخابات میں حکمران طبقے کو موزوں جواب دینے کے لئے پر تول رہا ہے۔ محنت کش طبقہ مودی سرکار کو عبرت ناک شکست دینے کے لئے بیتاب ہے لیکن کانگریس محنت کش طبقے کے لئے کسی صورت مناسب متبادل نہیں ہے۔ اس لئے اس وقت افسوسناک صورتحال یہ ہے کہ ہندوستان کے محنت کشوں کی کثیر پرتوں میں حمایت کھونے کے باوجود کسی موزوں متبادل کی عدم موجودگی میں مودی ایک بار پھرسرکار بنانے میں کامیاب ہو سکتا ہے۔ اس بھیانک حقیقت کی تمام تر ذمہ داری بائیں بازو کی سیاسی پارٹیوں، تنظیموں اور قائدین پر عائد ہوتی ہے۔

بائیں بازوکے لیڈران کی ماضی کی غداریاں

المیہ یہ ہے کہ ہندوستان کی کمیونسٹ پارٹیوں نے، جن میں سب سے بڑی اور مرکزی CPI اور CPI-Mہیں، مختلف حربوں سے ماضی میں محنت کش طبقے کو کئی مرتبہ دھوکہ دیا ہے۔ ماضی کے دھوکے ہندوستانی بائیں بازو اور خاص طور پر دو اہم کمیونسٹ پارٹیوں کے مایوس کن حالات کا منہ چڑاتا ثبوت ہیں۔ 2011ء میں ہم نے ان غداریوں کا عملی ثبوت دیکھا جب 34سال مسلسل مغربی بنگال پر حکومت کرنے کے بعد CPI-M کی قیادت میں لیفٹ فرنٹ کو عبرتناک شکست ہوئی اور وہ صرف 61 سیٹیں حاصل کر سکے۔ اس سے پہلے 2007ء میں مغربی بنگال کے قصبے نندی گرام میں زمینوں پر غیر قانونی قبضے کے خلاف احتجاج کرتے تقریباً 100 کسانوں کو پولیس نے گولیاں برسا کر بھون ڈالا۔ اس وقت حاکم CPI-M نے آپریشن کا دفاع کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ پولیس آپریشن نام نہاد ”ترقیاتی ماڈل“ کا حصہ ہے۔ اس واقعہ نے CPI-M کی قسمت کا ہمیشہ کے لئے فیصلہ کر دیا اور تضادات پھٹ کر سامنے آ گئے۔ 2014ء کے انتخابات میں تصویر بالکل واضح ہو گئی جب لوک سبھا میں بائیں بازو کے 2009ء کے انتخابات کے مقابلے میں 24 سے محض 10 ممبران رہ گئے۔ CPI-M کا ووٹ 5.33 فیصد سے گھٹ کر 3.2 فیصد رہ گیا جبکہ CPI کا ووٹ 1.43 فیصد سے گر کر 0.8 فیصد رہ گیا۔ یاد رہے کہ 2004ء کے انتخابات میں بائیں بازو پارٹیوں کا مجموعی حصہ 60 تھا جبکہ 1989ء میں CPI-M نے 6.55فیصد ووٹ لئے اور 1960ء کی دہائی میں CPI کاووٹ بینک 10 فیصد کے قریب تھا۔ ان اعدادوشمار سے واضح ہو جاتا ہے کہ ایک طویل عرصے کی گراوٹ کے بعد آج کمیونسٹ پارٹیاں غیر مقبولیت، نفرت اور مایوسی کی اتھا ہ گہرائیوں میں گری پڑی ہیں۔

یہ محنت کش طبقے کے لئے ایک دردناک حقیقت ہے۔ وقت آ چکا ہے کہ بائیں بازو کی قوتیں ماضی کا محاسبہ کریں، طبقاتی دشمنوں کے ساتھ تعاون کرنے کی اپنی سابقہ پالیسی سے منطقی اسباق سیکھیں اور ایک حقیقی لڑاکا سوشلسٹ پروگرام اختیار کریں۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ قیادت میں موجود گلے سڑے عناصر کو بے رحم جراحی کر کے باہر نکال پھینکا جائے اور ان کی جگہ حقیقی طبقاتی جنگجوؤں کو لایا جائے۔ یہی ایک طریقہ کار ہے جس کے ذریعے بایاں بازو ماضی کی کھوئی ہوئی قوتوں کو بحال کرتے ہوئے ہندوستانی محنت کشوں اور کسانوں کو ایک حقیقی متبادل فراہم کر سکتا ہے۔

ہندوستان کی عوام صرف ایک حقیقی طبقاتی جدوجہد کے ذریعے ہی آنے والے سالوں میں اور زیادہ گھمبیر ہوتے درپیش مسائل کو حل کر سکتی ہے۔ سرمایہ داری کے پاس لوگوں کو لاحق مسائل کا کوئی حل موجود نہیں۔ صرف ہندوستان کی سوشلسٹ تبدیلی ہی عوام کو حقیقی آزادی عطا کر سکتی ہے۔

Comments are closed.