انڈیا: ’’مزدور دشمن‘‘ پالیسیوں کیخلاف بیس کروڑ محنت کشوں کی عام ہڑتال

تحریر: آدم پال، ترجمہ: ولید خان

نئے سال کے آغاز پر 8 اور 9 جنوری 2019ء کے دود ن انڈیا کے 20 کروڑ مزدوروں نے عام ہڑتال کر کے ملک کا پہیہ جام کر دیا۔ مودی سرکار کی مزدور دشمن پالیسیوں کے خلاف ہڑتال کی کال انڈیا کی 10 مرکزی ٹریڈ یونینوں نے دی تھی۔ RSS-BJP سے منسلک BMS واحد مرکزی ٹریڈ یونین تھی جس نے نہ صرف ہڑتال کی مخالفت کی بلکہ اس کو سبوتاژ کرنے کی بھی بھرپور کوشش کی۔ باقی سب نے نہ صرف ہڑتال کی حمایت کی بلکہ اس کو کامیاب بنانے کے لئے شاندار کوششیں بھی کیں۔


سرکاری شعبے سے ریلوے، بینک اور بجلی گھروں کے مزدوروں نے ہڑتال میں بھرپور حصہ لیا جبکہ نجی سیکٹر کے کان کنوں، صنعتی علاقوں، ٹرانسپورٹ یہاں تک کہ چھوٹے تاجروں نے بھی ہڑتال میں حصہ لیا۔ ٹریڈ یونینز کی رپورٹوں کے مطابق غیر رسمی شعبوں اور تعمیرات سے منسلک مزدوروں، ریڑھی بانوں، گھروں میں کام کرنے والیمحنت کشوں اور گھریلو دستکاروں، رکشہ ڈرائیوروں اور زراعت سے منسلک مزدوروں نے بھی ہڑتال میں بھرپور حصہ لیا۔

تاریخ کی سب سے بڑی ہڑتال
ہڑتال کو پورے ملک کے طلباء اور کسانوں کی حمایت حاصل تھی اور کہا جا رہا ہے کہ یہ انسانی تاریخ کی سب سے بڑی ہڑتال تھی۔ کسان بہت بڑی تعداد میں ملک کے طول و عرض میں مختلف ریاستوں میں حکومت کے سفاک رویے اور اپنے تباہ کن معیارِزندگی ، جس کی وجہ سے نوبت فاقوں تک پہنچ گئی ہے، کے خلاف مہینوں سے احتجاج کر رہے ہیں۔اس عام ہڑتال نے موقع فراہم کیا کہ وہ نجی اور سرکاری شعبے کے مزدوروں کے ساتھ مل کر اپنے مطالبات کی جدوجہد کریں۔ JNU سمیت مختلف یونیورسٹیوں کے طلبہ بھی کئی سالوں سے حکومت کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں اور اس ہڑتال میں بھی انہوں نے اپنے مطالبات کے ساتھ بھرپور شرکت کی۔


ہڑتال کی کال ستمبر 2018ء میں منعقد ہونے والے ایک نیشنل مزدور کنونشن نے دی جس پر 10 مرکزی ٹریڈ یونینز مکمل طور پر متفق تھیں۔ کنونشن کے 12 نکاتی مطالبات میں مہنگائی کی مخالفت، بے روزگاری، سرکاری اداروں کی نجکاری اور کنٹریکٹ مزدوری کی مخالفت شامل تھے۔ ٹریڈ یونینوں نے تمام مزدوروں کے لئے سوشل سیکورٹی، کم ازکم تنخواہ 18 ہزار روپے ماہانہ، یقینی پینشن، کنٹریکٹ مزدوری کا خاتمہ اور مالکان نواز قوانین کی منسوخی کا بھی مطالبہ کیا۔

اشرافیہ کی مودی سرکار کو سنجیدہ چیلنج
جب سے مودی سرکار آئی ہے اس وقت سے شدید افراطِ زر اور بے نظیر بیروزگاری نے محنت کش طبقے کو کچل کر رکھ دیا ہے جبکہ بڑے کاروباریوں کی لوٹ مار تاریخی سطح پر پہنچ چکی ہے۔ مودی نے 2014ء میں انتخابات ’’وکاس‘‘ یا ’’ترقی‘‘ کے نعرے پر جیتے تھے اور وعدہ کیا تھا کہ وہ ایک کروڑ نوکریاں سالانہ پیدا کرے گا۔ کانگریس حکومت کی شرمناک ناکامی کے بعد عوام کی بڑی تعداد ان نعروں کی طرف مائل ہوئی اور انہوں ے BJP کے انتہائی دائیں بازو شدت پسند ماضی کو فراموش کرتے ہوئے انہیں ووٹ ڈالا۔ لیکن اپنی حکومت کے پانچ سالوں میں مودی اپنا کیا ہوا ایک وعدہ پورا نہیں کر سکا جبکہ اس کی پالیسیوں نے بڑے کاروباریوں کو دولت میں تول دیا ہے۔


دسمبر 2018ء میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق بے روزگاری کی شرح 7.4 فیصد تھی جو کہ پچھلے ستائیس مہینوں کی بلند ترین شرح تھی۔ سنٹر فار مانیٹرنگ انڈین اکانومی کے مطابق صرف 2018ء میں 1.1 کروڑ افراد بے روزگار ہوئے۔زیادہ تر ختم ہونے والی نوکریاں دیہی علاقوں میں تھیں لیکن انڈیا کے ٹیکنالوجی سیکٹر میں بھی پچھلے کئی سالوں میں دیو ہیکل بیروزگاری اور برطرفیاں دیکھنے میں آئی ہیں۔
بے روزگاری کے علاوہ حالیہ قیمتوں میں اضافے کا بھی مزدوروں پر خوفناک اثر پڑا ہے اور ان کی بچتوں میں خوفناک کمی ہوئی ہے۔ افراطِ زر کی مناسبت سے تنخواہوں میں خاطر خواہ اضافہ نہیں ہو رہا اور نتیجے میں مزدوروں کی زندگیاں جہنم بنتی جا رہی ہیں۔ ہڑتال کے دن دہلی میں نیوز کلک کو انٹرویو دیتے ہوئے کئی مزدورں نے اپنی کسمپرسی کی دہائی دیتے ہوئے کہا کہ 12 گھنٹے یومیہ کام کے بعد ان کی تنخواہ اوسطاً 7ہزار سے 12ہزار روپے ماہانہ ہے(تقریباً 100-170ڈالر ماہانہ)۔ مزدوروں کا مطالبہ تھا کہ حکومت کم ازکم تنخواہ 18ہزار روپیہ ماہانہ کرے تاکہ زندگی بسر کرنے میں کچھ آسانی ہو۔
صنعتی مزدور بھی بغیر کسی حفاظتی سازوسامان کے خوفناک حالات میں کام کر رہے ہیں۔ خاص طور پر پچھلے کئی سالوں میں تیز تر ترقی کرنے والے تعمیراتی شعبے میں کام کی جگہ پر اموات معمول بن چکی ہیں لیکن پھر بھی مزدور کام کرنے پر مجبور ہیں کیونکہ ان کے پاس اور کوئی متبادل موجود نہیں۔ اگر وہ کام چھوڑتے ہیں تو نتیجہ بھوک سے موت ہے۔
مودی سرکار نے معینہ مدت روزگار بھی متعارف کرائی ہے تاکہ ’’آسانی‘‘ سے کاروبار کیا جا سکے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک مالک بغیر اضافی مراعات کے کسی بھی مزدور کو ایک مخصوص پراجیکٹ یا وقت کے لئے روزگار پر رکھ سکتا ہے اور کسی بھی وقت نکال سکتا ہے۔اس سے پہلے ہی خوفناک حالات اور کم تر تنخواہوں پر کام کرنے والے مزدوروں کے استحصال میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ ٹریڈ یونینز نے اس طرح کے دیگر جابرانہ قوانین کی مخالفت کرتے ہوئے اس قانون کے خاتمے کا مطالبہ کیا ہے۔

محنت کش متحد!
اس ہڑتال میں سرکاری شعبے کے مزدوروں نے بھی بڑی تعداد میں حصہ لیا۔ ان کا مطالبہ تھا کہ سرکاری شعبے میں بیرونی سرمایہ کاری بند کی جائے جس کی وجہ سے لاکھوں نوکریاں ختم ہو چکی ہیں۔ مرکزی ٹریڈ یونینوں کا مطالبہ ہے کہ مرکزی یا ریاستی حکومتوں کے کنٹرول میں موجود پبلک سیکٹروں کی نجکاری روکی جائے جن میں خاص طور پر ریلوے، انشورنس اور دفاعی شعبے شامل ہیں۔


لائف انشورنس کارپوریشن کے مزدوروں نے 8جنوری کو دہلی میں کاناٹ پلیس میں جیون بھارتی عمارت کے سامنے ا حتجاج کیا۔ آل انڈیا انشورنس ایمپلائز ایسوسی ایشن کے قائدین نے مظاہرے سے خطاب کیا۔ میڈیا سے بات کرتے ہوئے AIIEA کے نائب صدر انیل کمار بھٹناگر نے کہا کہ پہلے ہی دو سرکاری انشورنس کمپنیوں کی نجکاری کی جا چکی ہے جبکہ دیگر حکومتی نشانے پر ہیں۔ مزدور قائدین کا کہنا تھا کہ سرکاری انشورنس کمپنیوں میں کیسوں کورد کرنے کی شرح 3-4 فیصد ہے جبکہ نجی سیکٹر میں یہ شرح 25-40فیصد ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ نجی سیکٹر میں انشورنس کمپنیاں عوام کو کھلے عام لوٹ رہی ہیں لیکن پھر بھی حکومت سرکاری کمپنیوں کی نجکاری کرنے پر بضد ہے جس کے نتیجے میں لاکھوں افراد بیروزگار ہو جائیں گے۔
تمام سرکاری بینکوں کی یونینز نے بھی ہڑتال کی حمایت کی اور تمام بینکوں کی نجکاری کی شدید مخالفت کی۔ آل انڈیا بینک ایمپلائز ایسو سی ایشن اور بینک ایمپلائز فیڈریشن آف انڈیا نے ہڑتال کی حمایت کی۔ ٹائمز آف انڈیا کے مطابق چائے کی پتی کے باغات کے مزدوروں اور بیڑی مزدوروں سمیت کان کنی کے سیکٹر میں 100 فیصد ہڑتال رہی۔
آل انڈیا ٹریڈ یونین کانگریس کی جنرل سیکرٹری امرجیت کور نے پریس ٹرسٹ آف انڈیا کو بتایا کہ پانچ ریاستوں میں ہڑتال کے پہلے دن زندگی بالکل منجمد ہو کر رہ گئی۔ ان میں آسام، منی پور، میگھالایا اور اوڑیسہ کی مشرقی ریاستیں جبکہ کیرالا کی جنوبی ریاست بھی شامل ہے جہاں کمیونسٹ پارٹی کی حکومت ہے۔ ان ریاستوں میں ہر قسم کی جگہ مثلاً اسکول، کالج، ہسپتال، ڈاک خانے، بینک، صنعتی علاقے وغیرہ بند رہے۔ کور کے مطابق باقی ملک میں بھی بینک اور ڈاک سروسز متاثر رہے۔ کئی ریاستوں میں ٹریڈ یونینز کے سرگرم کارکنوں نے ٹرینوں کو روکنے کے لئے احتجاج کئے جس کی وجہ سے ریلوے کا نظام متاثر رہا۔ اس طرح کے اقدامات کی رپورٹیں اوڑیسہ، تامل ناڈواور دیگر ریاستوں سے بھی آتی رہیں۔
تلنگانا کی جنوبی ریاست میں 20 لاکھ حکومتی اہلکاروں نے ہڑتال میں حصہ لیا جبکہ ممبئی کے صنعتی شہر میں ٹرانسپورٹ اور بجلی مزدور بھی ہڑتال پر تھے۔ کرناٹکا میں کرناٹکا سٹیٹ روڈ ٹرانسپورٹ کارپوریشن کی ہڑتال کی وجہ سے بس سروس بند رہی۔ دہلی، ہریانہ اور راجھستان کے صنعتی مزدوروں نے بھی ہڑتال میں بھرپور حصہ لیا اور راجھستان سے مزدوروں اور پولیس کے درمیان تصادم کی خبریں بھی آتی رہیں۔ ٹائمز آف انڈیا کی ایک رپورٹ کے مطابق نیشنل فیڈریشن آف ایٹامک انرجی ایمپلائز بھی ہڑتال پر تھے۔
مغربی بنگال میں بھی ہڑتال تھی اور کئی مقامات پر CPI(M) کے قائدین اورپولیس میں جھڑپوں کی اطلاعات بھی موصول ہوئیں۔ جموں کشمیر کی شمالی ریاست میں CPI(M) کے مرکزی قائد یوسف تاریگامی نے ایک مظاہرے کی قیادت کی اور مودی سرکار کی عوام دشمن پالیسیوں پر کڑی تنقید کی۔
ملک کے بیشتر چھوٹے جزائر اور قبائلی علاقوں میں ہڑتال رہی جس سے اس ہڑتال کی وسعت اور قوت کا اندازہ ہوتا ہے۔ ٹریڈ یونینز کے 12 نکاتی مطالبات میں ایک مطالبہ یہ بھی ہے کہ لینڈ ایکویزیشن ترمیمی بل/آرڈیننس واپس لیا جائے۔ اس ترمیم کے منظور ہونے کے نتیجے میں قبائلی علاقہ جات میں رہنے والے 10 لاکھ سے زائد افراد متاثر ہو چکے ہیں اور مقامی اور بین الاقوامی کمپنیوں کو ان کے حقوق پامال کرتے ہوئے بغیر کسی معاوضے کے ان کی زمین پر قبضے کر رہی ہیں۔

سرمایہ دارانہ ’’ترقی‘‘ کا جھوٹ
مرکزی ٹریڈ یونینز کی جانب سے مودی سرکار کے خلاف یہ تیسری اور اب تک کی سب سے زیادہ طاقت ور ہڑتال ہے۔ پچھلے کچھ سالوں میں مودی سرکار کی مزدور دشمن پالیسیوں نے محنت کش طبقے کی وسیع تر پرتوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے اور ’’ترقی‘‘ کا فریب اپنی چکا چوند کھو چکا ہے۔ حالیہ ریاستی انتخابات میں مودی سرکار تین ریاستوں میں انتخابات ہار گئی جس سے بدلتے عوامی مزاج کا اندازہ ہوتا ہے۔ امراء کی دلال حکومت اب عوام کے سامنے ننگی ہو چکی ہے اور اس وجہ سے BJP کی قیادت میں حکومت شدت سے مذہبی منافرت کو ابھارتے ہوئے ملک پر حکومت کرنا چاہ رہی ہے۔لیکن اس ہڑتال نے ایک مرتبہ پھر طبقاتی یکجہتی کو ایجنڈے پر لا کھڑا کر دیا ہے۔ اس ہڑتال نے نہ صرف حکومت بلکہ کانگریس کی قیادت میں حزب اختلاف کی پارٹیوں کی عوام کو مذہبی بنیادوں پر تقسیم کرنے کی گھناؤنی سازش کو شدید مسائل سے دوچار کر دیا ہے۔
اپنے طویل دورِ حکومت میں کانگریس نے عوام کا ایک بھی بنیادی مسئلہ حل نہیں کیا اور نیو لبرل پالیسیاں لاگو کیں جس کا نتیجہ پورے انڈیا میں وسیع بیروزگاری، غربت اور افلاس نکلا۔ مودی انہی پالیسیوں کو زیادہ شدت سے لاگو کر رہا ہے جس کی وجہ سے عوامی غربت اور فاقوں میں مزید اضافہ ہورہا ہے۔
1990ء سے پہلے کانگریس کے تاج کا ہیرا ریاستی سرمایہ داری بھی اب اپنے منطقی انجام کوڑے کے ڈبے میں پہنچ چکی ہے۔ سوویت بیوروکریسی نے اس نہرو ماڈل کی تائید کرتے ہوئے اسے اپنی دوست معیشت کا درجہ دیاتھا۔ سوویت یونین کے انہدام کے بعد انڈیا پلٹی کھا کر معیشت کی لبرلائزیشن اور نجکاری کی ڈگر پر چل پڑا۔ ورلڈ بینک کے نوکر منموہن سنگھ کو پہلے وزیرِخزانہ اور پھر متواتر دو مرتبہ وزیرِ اعظم بنا کر معیشت کو بین الاقوامی کمپنیوں کی لوٹ مار کے لئے کھول دیا گیا۔ بیرونی سرمایہ کاری کو ہر بیماری کا علاج گردانا گیا لیکن نتیجہ یہ نکلاکہ طبقاتی خلیج میں دیو ہیکل اضافہ ہوا اور غربت و افلاس تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی۔ مودی سرکار نے نیو لبرل پالیسیوں کو عروجِ کمال پر پہنچا دیا ہے اور اب امیر غریب میں خلیج تاریخی سطح پر پہنچ چکی ہے۔ پچھلے مہینے انڈیا کے امیر ترین کاروباری مکیش امبانی نے اپنی بیٹی کی شادی پر اندازاًدس کروڑ ڈالر خرچ کیے جبکہ اس دوران کروڑوں بیمار اور بھوکے افراد شدید سردی میں ٹھٹھرتے ہوئے زندگی اور موت کی جنگ لڑتے رہے۔
اس ساری صورتحال نے محنت کش طبقے میں شدید غم و غصے اور نفرت کو ابھارا ہے جس کا اظہار ہمیں پچھلے کئی سالوں میں ہونے والے لاکھوں مزدوروں کی متعدد ہڑتالوں اور احتجاجوں میں نظر آتا ہے۔کمیونسٹ پارٹیاں بھی عوام کو اس بند گلی سے باہر کا راستہ دکھانے میں دلچسپی نہیں رکھتیں کیونکہ وہ گھٹیا پارلیمانی سیاست اور ہوشربا کرپشن میں ڈوب چکی ہیں۔ ان سٹالنسٹ پارٹیوں نے پچھلی چار دہائیوں میں مختلف ریاستوں میں حکومت کی ہے لیکن اس عرصے میں انہوں نے سرمایہ داروں کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے اورمحنت کشوں اور دیہی غریبوں پر کئی حملے کیے جس کے باعث عوام نے انہیں رد کر دیا۔
اس ہڑتال نے پھر پورے انڈیا میں ایسی سیاسی قیادت کا ایک سنجیدہ چیلنج کھڑا کر دیا ہے جو سماج کی سوشلسٹ تبدیلی کرتے ہوئے محنت کشوں کو سرمایہ دارانہ استحصال سے نجات دلائے ۔ کمیونسٹ پارٹیوں کی موجودہ قیادت مکمل طور پر گل سڑ چکی ہے اور ان کے پاس آگے بڑھنے کا کوئی راستہ موجود نہیں۔ یہ فریضہ آج کی نئی نسل کے نوجوانوں اور مزدوروں کا ہے کہ وہ متحد ہو کر مارکس، اینگلز، لینن اورٹراٹسکی کے نظریات سے روشناس ہوتے ہوئے درست بنیادوں پر سوشلسٹ انقلاب کی جانب پیش قدمی کریں۔

Comments are closed.