ہندوستان: عام انتخابات میں مودی کی کامیابی ایک نئی طبقاتی کشمکش کا آغاز کرے گی!

|تحریر: آدم پال، ترجمہ: ولید خان|

ہندوستان کے حالیہ عام انتخابات میں مودی کی قیادت میں عوام دشمن اور انتہا پسند بی جے پی کی دیو ہیکل کامیابی نے پوری دنیا کو حیران کر دیا ہے۔ کانگریس کے بعد بی جے پی دوسری پارٹی ہے جو دو مرتبہ تسلسل سے حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی ہے۔ ان انتخابات کو مودی سرکار اور BJP کے پانچ سالہ دورِ حکومت پر ریفرنڈم سمجھا جا رہا تھا اور عام انتخابات کی نوعیت صدارتی طرز انتخاب کی بن گئی تھی۔ ان پانچ سالوں میں مودی نے مزدور شمن اقدامات کے ریکارڈ قائم کیے اور پورے ملک کو رجعت اور تعصب کی جانب تیزی سے دھکیل دیا۔ اسی لیے کئی تجزیہ نگاروں اور دانشوروں کا خیال تھا کہ مودی کی مقبولیت میں کمی ہوگی اور 90 کروڑ رجسٹرڈ ووٹروں کا جمہوری حق استعمال کرنے کا نتیجہ حزبِ اختلاف کی مضبوطی کی صورت میں نکلے گا۔ لیکن ایک ماہ کے عام انتخابات میں پورے ہندوستان سے60 کروڑ سے زائد ووٹروں نے حصہ لیا جن کی اکثریت نے فیصلہ مودی کے حق میں دیا اور اب وہ سیاسی طور پر پانچ سال پہلے سے زیادہ مضبوط ہو کر ایک بار پھر وزیرِ اعظم بن چکا ہے۔ ٹرن آؤٹ  67.1 فیصد کے ساتھ تاریخی تھا جن میں نوجوانوں اور پہلی مرتبہ انتخابات میں حصہ لینے والوں کی اکثریت نے مودی کو ووٹ دیا۔

مودی کی قیادت میں قومی جمہوری اتحاد (NDA) لوک سبھا میں 545 نشستوں میں سے 353 جیتا۔ جبکہ 303 نشستوں کے ساتھ BJP سب سے بڑی پارٹی بن چکی ہے۔ یہ2014 ءکے انتخابات کے مقابلے میں 21 نشستوں کا اضافہ ہے۔ یہ نتائج کتنے اہم ہیں اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ حکومت بنانے کے لئے 272 نشستوں کی سادہ اکثریت درکار ہوتی ہے۔

ریاستوں کے لحاظ سے انتخابی نتائج سے واضح ہے کہ بی جے پی نے بیشتر ریاستوں میں کامیابی حاصل کی

انڈین نیشنل کانگریس نے بٹوارے کے 73 سالوں میں سے اکثریت سال حکومت میں گزارے ہیں لیکن اس مرتبہ پچھلے انتخابات میں44 نشستوں کے مقابلے میں وہ صرف 51 نشستیں ہی جیت پائے۔ اگرچہ پچھلی مرتبہ کی کارکردگی میں معمولی بہتری ہوئی ہے لیکن پھر بھی پانچ سال حزبِ اختلاف میں ہونے کے باوجو د یہ بہت بڑی شکست ہے۔ پچھلی مرتبہ شکست کا جواز پیش کیا گیا کہ یہ 2004ءسے 2014ءتک مسلسل اقتدارمیں رہنے کا خمیازہ ہے۔ لیکن اس مرتبہ کی تباہ کن کارکردگی نے 134 سال پرانی پارٹی کے مستقبل پر سنجیدہ سوال کھڑے کر دیئے ہیں۔ کانگریس کی قیادت میں UPA اتحاد صرف 91 نشستیں ہی جیت پایا۔

دیگر علاقائی پارٹیاں جیسے SP، BSP، YSRC اور لیفٹ صرف 99 نشستیں ہی جیت سکے۔ یہ علاقائی پارٹیاں روایتی طور پراپنے مخصوص علاقوں میں کافی مضبوط ہیں اور اپنی ریاستوں میں دہائیوں برسرِ اقتدار بھی رہی ہیں لیکن اس دیو ہیکل شکست نے نہ صرف ان کے گلے سڑے سیاسی پروگرام کو ننگا کیا ہے بلکہ ان کے مستقبل کو بھی شدید مشکوک کر دیا ہے۔

کمیونسٹ پارٹیاں CPI اور CPI(M) صرف پانچ نشستیں ہی جیت سکیں۔ 1952ءکے بعد پہلی مرتبہ لیفٹ فرنٹ دس نشستوں کا ہندسہ بھی عبورنہیں کر سکا۔ مغربی بنگال میں تمام نشستوں پر ان کے امیدوار ہار گئے۔ 2011ءمیں TMC کے ہاتھوں شکست فاش ہونے سے پہلے ان پارٹیوں نے 34 سال حکومت کی۔ لیکن اس شکست کے بعد بھی مغربی بنگال کی ریاست میں وہ حزبِ اختلاف کا کردار نبھاتے رہے۔ لیکن ریاست کی تاریخ میں پہلی مرتبہ وہ لوک سبھا کی کُل 42 نشستوں پر دوسری پوزیشن بھی حاصل نہیں کر سکے۔

یہ حقیقت واضح ہو چکی ہے کہ مغربی بنگال میں سٹالنسٹ بایاں بازو مکمل طور پر زوال پذیر ہو چکا ہے اور BJP پچھلے انتخابات میں 2 نشستوں سے اب 18 نشستیں جیت کر ایک مضبوط متبادل بن چکی ہے۔ انتخابات کے دوران دائیں بازو کی TMC اور بی جے پی کی شدید لڑائی بھی دیکھنے میں آئی اور سیاسی افق کے دونوں اطراف کئی سرگرم کارکن بھی قتل ہوئے۔ بی جے پی نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ کمیونسٹ پارٹیوں کے کئی ممبران اور ووٹر دیگر کے ساتھ ابBJP میں شامل ہو چکے ہیں۔ اس دعوے کو تقویت ان اعداوشمار سے بھی ملتی ہے جن کے مطابق ریاست میں BJP کو ملنے والے ووٹوں کی شرح17.2 فیصد سے بڑھ کر 40.1 فیصد تک جا پہنچی ہے جبکہ بائیں بازو کی پارٹیوں کے ووٹ کی شرح پچھلے انتخابات میں 23فیصد سے کم ہوکر صرف 6.28 فیصد رہ گئی ہے۔ نندی گرام اورسنگور کے واقعات آج بھی لیفٹ الائنس پر بھوت کی طرح منڈلا رہے جب انہوں نے احتجاجی کسانوں پر انتہائی سفاکی سے گولیاں چلوائیں۔ ٹاٹا کی کارساز صنعت کے قیام کے لیے زمینوں کے قبضے کیخلاف یہ جدوجہد بنگال میں بائیں بازو کے زوال کا آغاز ثابت ہوئی۔

تری پورہ کی چھوٹی ریاست میں لیفٹ اپنی آخری دو نشستیں بھی BJP سے ہار گیا جہاں ان کی کئی دہائیاں حکومت رہی، اگرچہ پچھلے سال وہ یہاں ریاست کی حکومت سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔ کیرالا میں کمیونسٹ پارٹیوں کی حکومت ہے لیکن وہاں پر بھی وہ صرف ایک نشست ہی جیت پائے جبکہ کانگریس کی قیادت میں UDF اتحاد نے اکثریت حاصل کرتے ہوئے BJP کو ایک نشست بھی جیتنے نہیں دی۔ لیفٹ تامل ناڈو میں 4 نشستیں اس لئے جیت سکا کیونکہ وہاں پر ان کا DMK(ایک علاقائی پارٹی جو کرپشن کے جرائم میں ملوث رہی ہے) اور کانگریس کے ساتھ اتحاد تھا۔

راجستھان، ہریانہ، اتراکھنڈ، ہماچل پردیش، مدھیہ پردیش، بہار، چھتیس گڑھ اور جھاڑکھنڈ سمیت زیادہ تر شمالی ریاستوں میں BJP اور اس کے اتحاد نے کلین سویپ کیا جبکہ آسام جیسی شمال مشرقی ریاستوں میں بھی کامیابی حاصل کی ہیں۔

کانگریس صرف تامل ناڈو اور کیرالا کی جنوبی ریاستوں اور پنجاب میں ہی جیت پائی ہے جس کی وجہ سے اس کو 51 نشستیں حاصل ہوئی ہیں۔ کرناٹکا کی جنوبی ریاست میں دارالحکومت بنگلور سمیت مختلف شہروں سے BJP نے 28 میں سے 25 نشستیں حاصل کی ہیں جبکہ یہاں ابھی بھی کانگریس کی اتحادیوں کے ساتھ حکومت ہے۔ دہلی میں دائیں بازو کی عام آدمی پارٹی (AAP) کی حکومت ہے لیکن یہاں پر بھی BJP تمام 7 نشستیں جیت گئی۔

یو پی میں کانگریس کو سب سے بڑا دھچکا بھی لگا ہے جہاں اس کا قائد راہول گاندھی امیٹھی میں اپنی آبائی نشست BJP کی سمرتی ایرانی کے ہاتھوں ہار بیٹھا۔

اتر پردیش کی سب سے بڑی ریاست کی سب سے زیادہ 80 نشستیں ہیں جن میں سے BJPنے 64 حاصل کیں جبکہ آپس میں شدید مخالف مقامی پارٹیوں سماج وادی پارٹی (SP) اور بھوجن سماج پارٹی( BSP) کا اتحاد 15 سیٹیں ہی جیت پایا۔ کانگریس کی صرف ایک نشست سونیا گاندھی ہی جیت سکی۔ اسی ریاست میں کانگریس کو سب سے بڑا دھچکا بھی لگا ہے جہاں اس کا قائد راہول گاندھی امیٹھی میں اپنی آبائی نشست BJP کی سمرتی ایرانی کے ہاتھوں ہار بیٹھا۔ کانگریس یہ نشست 1967ءسے جیتتی آئی ہے اور یہ شکست کانگریس پارٹی اور اس کے قائد کے لئے ایک شرمناک تذلیل ہے۔ ریاست کی نام نہاد سوشلسٹ پارٹیوں SP اور BSP کی بنیاد ریاست کی نچلی ذاتوں میں تھی اور انہوں نے یہاں دہائیوں حکمرانی کی ہے۔ انہیں گمان تھا کہ آپسی زہریلی دشمنی کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے گرینڈ الائنس کے قیام سے وہ بی جے پی کا مقابلہ کر سکیں گے۔ BSPدلتوں یا اچھوتوں کے ووٹوں پر سیاست کرتی ہے جوہندو مذہب کی سب سے نچلی ذات ہیں جبکہ SPدلتوں سے تھوڑا اوپر والی ذاتوں کی سیاست کرتی ہے جنہیں انڈیا میں OBCکہا جاتا ہے اور ان میں یادیو ذات کی بڑی تعداد موجود ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے اس الائنس میں جاٹوں کے ووٹ لینے کے لیے اجیت سنگھ کی پارٹی کو بھی شامل کر لیا۔ لیکن اس کے باوجود وہ 80 میں سے صرف 15 نشستیں ہی حاصل کر سکے۔ BJP نے پچھلے انتخابات میں 71 نشستیں جیتی تھیں اور چند سال پہلے ریاستی انتخابات میں جیتنے کے بعد انتہائی دائیں بازو کے ہندو بنیاد پرست یوگی ادیتیا ناتھ کو وزیر اعلیٰ بنا دیا تھا۔ لیکن اس کے باوجود بی جے پی کی یہاں سے چند نشستیں ہی کم ہوئی ہیں۔ بی جے پی کی عوام دشمن سیاست کا مقابلہ صرف نظریاتی سیاست سے ہی کیا جا سکتا تھا جو دور دور تک موجود نہیں تھی۔ ذات پات، مذہب اور دیگر مختلف تقسیموں کے ذریعے بی جے پی کا رستہ روکنے کا پروگرام بری طرح ناکام ہوا ہے۔ ان نتائج کو مقامی پارٹیوں اور ان کی ذات پات کی بنیاد پر سیاست کے لئے موت کا پیغام تصور کیا جا رہا ہے جنہوں نے کئی دہائیوں سے ہوشربا غربت اور محرومی میں زندگی گزارنے والے کروڑوں نچلی ذات کے افراد کے لئے کچھ بھی نہیں کیا۔

بی جے پی کی عوام دشمن سیاست کا مقابلہ صرف نظریاتی سیاست سے ہی کیا جا سکتا تھا جو دور دور تک موجود نہیں تھی۔ ذات پات، مذہب اور دیگر مختلف تقسیموں کے ذریعے بی جے پی کا رستہ روکنے کا پروگرام بری طرح ناکام ہوا ہے۔

مہاراشٹر میں دارالحکومت ممبئی سمیت BJP نے 23اور اس کی انتہائی دائیں بازو کے ہندو بنیاد پرست اتحادی شیو سینا نے 18 نشستیں جیتی ہیں جن میں کانگریس کو شکست ہوئی ہے۔ پچھلے چند سالوں میں اس ریاست میں لاکھوں کسانوں نے دیو ہیکل احتجاج کئے جن کی قیادت کمیونسٹ پارٹیاں کر رہی تھیں۔ لیکن کمیونسٹ پارٹیاں اس سیاسی تحرک کو انتخابی کامیابی میں تبدیل نہیں کر سکی اور زیادہ تر دیہی نشستیں شیو سینا نے جیت کر ریاست میں اپنی قوت کو اور زیادہ مستحکم کیا ہے۔ آندھرا پردیش وہ ریاست ہے جہاں BJP اور کانگریس دونوں ہی کوئی نشست جیت نہیں سکیں۔ یہاں پر علاقائی پارٹی YSRC نے 25 میں سے 22 نشستیں جیتی ہیں جبکہ دوسری قوم پرست پارٹی TDP نے تین جیتی ہیں۔

مودی یلغار؟
اس حیران کن انتخابی نتیجے کا سہرا مودی کی سحر کن شخصیت اور شاطر ٹیم کے سر باندھا جا رہا ہے جس کی قیادت مودی کا کارِ خاص امیت شاہ کر رہا تھا۔ زیادہ تر تجزیہ نگار اور مبصرین اس فتح کی حقیقی وجہ کرپشن کے پیسے کا بے دریغ استعمال اور شاندار میڈیا مہم بتا رہے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سوشل میڈیا پر تیزوتند مہم اور وسیع و عریض برِصغیر کے کونے کونے میں بینر اور پوسٹر آویزاں کرنے کے لئے اعلیٰ سطح کی منصوبی بندی اور بے پناہ پیسہ چاہیے تھا۔ ساتھ ہی ساتھ جہاں ضرورت پڑی وہاں BJP نے ذرائع ابلاغ کو ڈرا دھمکا کر کامیاب مہم بھی چلائی۔

2014ءمیں مودی کی مہم کا نعرہ ’ترقی‘ تھا لیکن اس کے برعکس تمام مہم انتہائی دائیں بازو متشدد ہندوتوا نظریات یا ہندو بنیاد پرستی پرکی گئی۔

مودی سرکار کے پچھلے پانچ سال صحافت کے لئے سب سے زیادہ خطرناک قرار دیے جا رہے ہیں جن میں چند ایک بائیں بازوکے صحافیوں کو دائیں بازو کے شدت پسندوں نے قتل بھی کیا ہے جن میں بنگلور کی ممتاز صحافی گوری لنکیش بھی شامل ہیں۔ پولیس اور دیگر ریاستی اداروں کو پورے ملک میں ووٹروں اور خاص طور پرنچلی ذات اور مذہبی اقلیتوں کو ڈرا دھمکا کر ووٹ ڈلوائے گئے۔ مودی گجرات میں 2002ءکے مذہبی فسادات کی وجہ سے بدنامِ ہے۔ اس وقت وہ ریاست کا وزیرِ اعلیٰ تھا۔ ان بلووں میں 2 ہزار سے زائد افراد قتل ہوئے جبکہ اس سے کہیں زیادہ زخمی ہو کر بے گھر ہو گئے۔ پچھلے پانچ سالوں میں انتہا پسند ہندوﺅں کے ہاتھوں سرِ عام مار پےٹ اور قتل کے کئی واقعات رونما ہو چکے ہے اور انتخابی مہم کے دوران اس خطرے کو بکثرت استعمال کیا گیا۔

ان انتخابات میں ہندوستانی الیکشن کمیشن کی غیر جانبداری پر بھی کئی سوالات نے جنم لیا کیونکہ اس کے کئی فیصلوں سے BJP کو بہت فائدہ پہنچا۔ ان میں سے ایک فیصلہ مدھیا پردیش کے دارالحکومت بھوپال سے پرگیا سنگھ ٹھاکر کو انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دینا تھا۔ پرگیا پر ایک دہشت گرد حملے میں ملوث ہونے کا الزام ہے جس میں 40 افراد قتل ہوئے تھے اور اس کا کیس ابھی عدالت میں زیرِ سماعت ہے۔ اس نے کھلم کھلا ایک اور ہندو بنیاد پرست نتھو رام گوڈسے کی تعریفیں بھی کی ہیں جو مہاتما گاندھی کا قاتل تھا۔ اگرچہ وہ ایک بڑے فرق سے کامیاب ہوئی ہے لیکن پھر بھی حزبِ اختلاف انتخابات میں اس کی شمولیت کو غیر قانونی قرار دے رہی ہے۔ کئی مخالف سیاسی قائدین نے الیکشن کمیشن پر کڑی تنقید کی ہے ۔

چاروں اطراف سے انتخابات میں فراڈ اور دھاندلی کے الزامات بھی لگ رہے ہیں اور خاص طور پر الزام لگایا جا رہا ہے کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشینیں (EVMs) ہیک کی گئی ہیں یا ان میں ردو بدل کر کے دھاندلی کی گئی ہے۔ بہار اور اتر پردیش کے کئی علاقوں سے جعلی ووٹ ڈالنے کی بھی خبریں آئی ہیں جنہوں نے مودی کی کامیابی پر سوالیہ نشان لگا دیے ہیں۔ ایک اور خبر رساں ویب سائٹ The Qunitکے مطابق 370 سے زائد حلقوں میں رجسٹرڈ ووٹوں اور ڈالے گئے ووٹوں میں مماثلت نہیں ہے اور الیکشن کمیشن سے جواب طلبی کا مطالبہ کیا ہے جس کا تاحال کوئی سرکاری جواب سامنے نہیں آیا۔ لیکن ان تمام تر الزامات کے باوجود یہ دیو ہیکل کامیابی اس حقیقت کی نشاندہی ہے کہ BJP کی انتخابی مشینری نے چاہے صحیح یا غلط، ہر طریقہ کار استعمال کرتے ہوئے اپنے تمام مخالفین کو چاروں شانے چت کر دیا ہے۔

2014ءمیں مودی کی مہم کا نعرہ ’ترقی‘ تھا جس میں کانگریس کے دس سالہ دور حکومت میں ہوشربا کرپشن اسکینڈلز اور معاشی تباہی کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ لیکن اس بار ان نعروں سے متعلق کوئی بات ہی نہیں کی گئی اور ملک میں بد ترین بیروزگاری اور افراطِ زر کے حوالے سے کوئی جواب نہیں دیا گیا۔ اس کے برعکس تمام مہم انتہائی دائیں بازو متشدد ہندوتوا نظریات یا ہندو بنیاد پرستی پرکی گئی۔ مودی اور اس کی پارٹی کی مہم میں زہریلی قوم پرستی اور پاکستان مخالف جنگی جنون نے بھی اہم کردار ادا کیا۔

انتخابات سے محض ایک ماہ پہلے فروری میں مودی سرکار نے پاکستان میں فضائی حملہ بھی کیاجن کا مشن بالاکوٹ پختونخوا میں ایک مدرسے پر بمباری کرنا تھا۔ اس جارحیت کی وجہ ہندوستانی مقبوضہ کشمیر میں پلوامہ کے مقام پر ایک خود کش حملہ تھا جس میں ہندوستانی پیرا ملٹری فورس کے 40 جوان مارے گئے تھے۔ مودی نے اس واقعے کو دشمن کے خلاف بڑی فتح بنا کر انتخابات مہم میں بھرپور انداز میں استعمال کیا گیا۔ مودی کی تمام تقریروں کو مرکز یہی نعرہ تھا کہ ”گھر میں گھس کر مارا“۔ اس نے انتخابات میں اپنا لقب ”چوکیدار“ رکھ لیا جبکہ اپوزیشن نے نعرہ دیا کہ ” چوکیدار چور ہے“۔ قوم پرستانہ زہر کے ساتھ ساتھ مذہبی نفرت کو بھی بھرپور استعمال کیا گیا اور مذہبی اقلیتوں کو نچلی ذات کے ہندوﺅں سمیت بالکل بند گلی میں دھکیل دیا گیا۔ ان نعروں نے تمام تر بحث کو معاشی بحران اور بیروزگاری کے بجائے کسی اور ہی سمت موڑ دیا اور BJP انتخابی کامیابی حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔

یہ بھی واضح ہے کہ BJPکو ہندوستانی سرمایہ داروں کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ مودی کی کامیابی کے اعلان کے دن ہندوستانی سٹاک مارکیٹ میں پچھلے تین سالوں کے مقابلے میں سب سے زیادہ اضافہ دیکھا گیا۔ مودی نے اپنے اقتدار میںان مزدور دشمن سرمایہ داروں کی دیو ہیکل مالیاتی مراعات بھی فراہم کیں جس کے باعث ان سرمایہ داروں کی دولت کے انباروں میں کئی گنا اضافہ ہوا۔ نوٹ بندی سے لے کر اپنے چہیتوں کو دیو ہیکل ٹھیکوں سے نوازنے تک مودی نے بورژوازی کو بہت بڑی مراعات دیں جبکہ مزدور طبقے کے خلاف اصلاحات کے نام پر معاشی جنگ مسلط کردی گئی۔ ان تمام اقدامات کی وجہ سے جہاں پر معیشت کو لوٹ مار کے لئے کھولا گیااور یہ دولت مند افراد اپنے خزانوں کو بے دردی سے بھرتے رہے وہیں پر مزید کروڑوں لوگ خطِ غربت سے نیچے جا گرے۔ مودی کے مردِ آہن کے تصور کو سفاکی سے استعمال کرتے ہوئے ہندوستان میں مزدور یونینز کو کچلا گیا اور مزدوروں کو زیادہ سے زیادہ اوقات کار میں کم سے کم اجرت میں کام کرنے پر مجبور کیا گیااور روزگار کے تحفظ کے تمام قوانین کو بتدریج ختم کیا گیا۔ ایسی صورتحال میں سرمایہ داروں نے منافعوں کا ڈھیر لگایا اور استحصال میں کئی گنا اضافہ ہوا۔ مودی سرکار کے دوسرے دور کا مطلب بھی مزدور طبقے پر مزید حملے ہیں تاکہ ہندوستانی بورژوازی کے منافعوں میں مزید اضافہ کیا جا سکے۔ یہ تمام امکانات ہی سٹاک مارکیٹ کی شاندار پرفارمنس کی وجہ ہیں۔
کئی بائیں بازو کے تجزیہ نگار اور حزبِ اختلاف کے قائد اس دائیں بازو کی کامیابی کو غلط طور پر ہندوستان میں فاشزم کی فتح قرار دے رہے ہیں اور اس کا جرمنی میں ہٹلر کی فتح سے موازنہ کیا جا رہا ہے۔ حزبِ اختلاف اور بہت سے مبصرین عوام کو اس تمام تر تباہ کن صورتِ حال کا قصور وار ٹھہرا رہے ہیں اور انتہائی مایوسی میں سر لٹکائے بیٹھے ہیں۔ لیکن اس تمام تر صورتحال کا ایک ٹھوس اور واضح تجزیہ ضروری ہے اور اس دائیں بازو کی انتہا پسند ی کی کامیابی کی بنیادیں خاص طور پر بائیں بازو اور عمومی طور پر پورے حزبِ اختلاف کے نظریاتی دیوالیہ پن میں تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ تمام الزامات کا بوجھ عوام کے سر ڈال کر انہیں ہندوستان کی سیکولر روایات سے غداری کا مرتکب قرار دے دینا یا یہ کہنا کہ عوام جاہل ہیں اور انہیں BJP کا تعصب اور عوام دشمنی نظر نہیں آئی حالات کو اور زیادہ تباہی کی طرف لے کر جائے گا اور کوئی بھی اس رجعتی حملے کا مؤثر حل تلا ش نہیں کر سکے گا۔

کانگریس نے سیکولرازم کے کھوکھلے نعرے پر اقتدار حاصل کرنے کی کوشش کی جوعوام کے لیے بے معنی ہے اور ان کے کسی بھی مسئلے کا حل پیش نہیں کرتا

سیکولرازم
تعصب اور مذہبی منافرت کا ہندوستانی انتخابات میں استعمال پہلی مرتبہ نہیں ہوا۔ تمام سیاسی پارٹیوں نے ہمیشہ اس ہتھیار کو انتخابات جیتنے کے لئے استعمال کیا ہے اگرچہ پہلے اس کا استعمال نسبتاًکم تھا۔ اب فرق یہ ہے کہ BJP نے اس رجعتی ہتھیار کا کھلم کھلا اور جارحانہ انداز میں استعمال کیا ہے جبکہ پہلے اس کا استعمال مذہبی ہم آہنگی اور بھائی چارے کے بھونڈے لبادے میں کیا جاتا تھا۔ کانگریس نے ہمیشہ سیاسی طور پر ان نعروں کو استعمال کیا ہے اور عوام کو ڈرانے کے لیے یہ مؤقف اپنائے رکھا کہ اگر ان کو انتخابی کامیابی حاصل نہ ہوئی تو رجعتی اور بنیاد پرست قوتیں ملک پر قبضہ کر لیں گی۔ اس نعرے کا زیادہ تر نشانہ مذہبی اقلیتوں کا ووٹ ہوتا تھا۔ ہندوستان میں مذہبی ہم آہنگی کا نعرہ درحقیقت عوام کو مذہبی بنیادوں پر تقسیم کرنے اور توڑنے کا نعرہ ہے۔ اسی طرح نچلی ذاتوں کو خاص کوٹوں کے ذریعے برابر کے حقوق اور مواقع فراہم کرنے کا نعرہ بھی سفید جھوٹ ہے جس کے ذریعے ذات پات کے صدیوں پرانے نظام کو اکیسویں صدی کی سرمایہ داری میں بھی قائم و دائم رکھا جا رہا ہے۔
درحقیقت 1947ءمیں ہندوستان کا بٹوارہ بھی مذہبی بنیادوں پر ہوا تھا جس میں کانگریس کے قائدین نہرو اور گاندھی نے برطانوی سامراج کے ساتھ مل کر انتہائی زہریلا کردار ادا کیا تھا۔ اگرچہ بٹوارے کا الزام اکثر محمد علی جناح اور مسلم لیگ کے سر تھوپا جاتا ہے لیکن ان کا کردار محض اضافی تھا جبکہ اس بٹوارے کی قیادت کانگریس کے لیڈر انگریز حکمرانوں کے ساتھ گٹھ جوڑ سے کر ر ہے تھے۔ اس وقت سے آج تک نام نہاد سیکولرازم کا نعرہ انتہائی سفاکی سے محنت کش طبقے کو کچلنے کے لئے استعمال ہوتا آ رہا ہے۔ جب بھی محنت کش طبقے کی جانب سے کسی تحریک کا خوف ہوتا ہے تو مذہبی منافرت کو بے دردی سے استعمال کرتے ہوئے عوامی اتحاد کو توڑ دیا جاتا ہے تاکہ بڑے کاروبار اپنی لوٹ مار اور شرحِ منافع جاری رکھ سکیں۔ درحقیقت مذہبی بنیاد پرستی نے ہمیشہ محنت کش طبقے کی بائیں بازو کی تحریکوں کے خلاف بورژوازی کی مکمل حمایت سے ہی اپنا زہریلا پھن اٹھایا ہے جس میں کانگریس نے ہمیشہ سرمایہ دار طبقے کی حمایت کی ہے۔ مہاراشٹر میں شیو سینا اس کی ایک اہم مثال ہے کہ کس طرح 1970ءکی دہائی میں اس کو صنعتکاروں نے بنیادیں فراہم کی اور ممبئی کی صنعتوں میں ٹریڈ یونینزمیں موجود مضبوط کمیونسٹ لیڈرشپ کو اس کے ذریعے کچل ڈالا۔ یہ خوفناک عفریت اب کئی گنا بڑا ہو چکا ہے اور ایک طاقتور عوامی تحریک کے ذریعے ہی اسے کچلا جا سکتا ہے۔
ان انتخابات میں سیکولرازم کے نعرے کو BJP کے خلاف تمام قوتوں کو متحد کرنے کی کوشش میں استعمال کیا گیا۔ لیکن نتائج بتا رہے ہیں کہ یہ حکمت عملی بری طرح ناکام ہوئی ہے۔ درحقیقت مودی کی کامیابی کی ایک بنیادی وجہ یہ ہے کہ حزبِ اختلاف کی تمام پارٹیاں شدید انحطاط پذیر ہیں اور پرانے اور بوسیدہ طریقہ کار سے ایک نئے خطرے کا مقابلہ کرنے کی کوشش کرر ہی ہیں۔ یہ لوک سبھا کے پہلے انتخابات ہیں جن میں BJP اور BJP مخالف قوتیں آمنے سامنے تھیں جبکہ گزشتہ تمام عام انتخابات میں کانگریس بمقابلہ کانگریس مخالف قوتیں آمنے سامنے ہوتی تھیں۔
کانگریس نے سیکولرازم کے کھوکھلے نعرے پر اقتدار حاصل کرنے کی کوشش کی جوعوام کے لیے بے معنی ہے اور ان کے کسی بھی مسئلے کا حل پیش نہیں کرتا۔ درحقیقت کانگریس اپنی نعرے بازی میں BJP کے جال میں پھنستی چلی گئی اور کئی مرتبہ BJP سے زیادہ رجعتی اور ہندو بنیاد پرست پوزیشن پر کھڑی رہی۔ راہول گاندھی اور اس کی بہن پریانکا گاندھی نے پوری کوشش کی کہ کسی طرح ہندوﺅں کے مذہبی جذبات کو اپنے لیے ابھارسکیں اور مہم کے دوران کئی اہم مندروں کی یاترا بھی کرتے رہے۔ لیکن ان تمام تر کوششوں کے باوجود وہ اپنا ووٹ بینک 19.5 فیصد سے نہیں بڑھا سکے جو2014ءمیں 19.3 فیصد تھا۔ جبکہ BJP نے 2014ءمیں اپنا ووٹ بینک 31 فیصد سے بڑھا کر 2019ءمیں 37.4 فیصد کر لیا ہے۔ کانگریس نے متذبذب اندازمیں پچھلے پانچ سالوں میں BJP کی کرپشن کے سکینڈلوں اور معاشی ابتری کو بے نقاب کرنے کی کوشش بھی کی لیکن بہرحال وہ کوئی ٹھوس متبادل بن نہیں سکے۔ ایک پریس کانفرنس میں پنجاب سے کانگریس کے لیڈر نووجوت سنگھ سدھو نے مودی کی نجکاری پالیسی کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور پبلک سیکٹر کی برتری کو ثابت کرنے کی کوشش کی لیکن یہ بیانات کانگریس حکومت کے اقدامات کے منافی تھے۔ درحقیقت کانگریس کے پاس BJP کے مقابلے میں کوئی متبادل پروگرام موجود نہیں تھا اور نوجوان ووٹروں اور سرمایہ داروں ، دونوں کو ایسا لگا کہ وہ BJP کا ہی دم چھلہ ہیں۔ یا پھر یہ کہ کانگریس دراصل ایک ایسی بی جے پی ہے جو خون کی کمی کا شکار ہے۔
پاکستان کے حوالے سے بھی کانگریس اور تمام حزبِ اختلاف کی سیاسی پارٹیوں کے پاس کوئی متبادل پروگرام موجود نہیں تھا اور انہوں نے BJP کی حکمت عملی کی ہی انتہائی بھونڈی اور دوغلانہ پیروی کی۔ اگر علاقائی سیاسی پارٹیوں کے حوالے سے بات کی جائے تو SP اور BSP سمیت ان تمام کی حالت بھی انتہائی مخدوش ہے۔ یہ دونوں سیاسی پارٹیاں نہایت کامیابی سے کئی دہائیوں سے ذات پات کی سیاست کرتی آئی ہیں جس کا فائدہ صرف ان سیاسی لیڈروں کو ہی ہوا ہے جبکہ ان ذاتوں کی آبادی کی ایک بڑی تعداد شدید غربت اور پسماندگی میں انتہائی لاچار زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ ان پارٹیوں کی قیادت نے بارہا تعصب اور ذات پات کی نفرت کو اقتدار حاصل کرنے کے لئے استعمال کیاہے۔ لیکن BJP خوف، ڈراﺅ دھمکاﺅ، قتل و غارت، رشوت، جرائم پیشہ گروہوں کے استعمال، مذہبی اور ذات پات کی نفرت اور تعصب کو استعمال کرنے میں ان کی بھی باپ ثابت ہوئی اور ان طریقوں کو عروج پر لے جا کر انتخابی فتح حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی۔ ریاستی مشینری کو اپنے مفادات کے لئے استعمال کرنے کو بھی BJP نے ایک فن بنا دیا ہے۔ BJP نے درست طور پر تمام سیاسی پارٹیوں پر موروثی سیاست کا الزام لگا کر شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور اپنے آپ کو کمیونسٹ پارٹیوں کے علاوہ وہ واحد پارٹی ثابت کیا جس میں ایک عام ممبر طاقت اور اقتدار کے اعلیٰ ترین منصب پر فائز ہو سکتا ہے۔ درحقیقت 2014ءکے انتخابات میں مودی نے تمام مہم ہی طبقاتی تفریق پر چلائی تھی جس میں اس نے کہا کہ وہ ریلوے سٹیشن پر ایک معمولی چائے بیچنے والے کا بیٹا ہے جبکہ راہول گاندھی سابق وزرائے اعظم کا بیٹا، پوتا اور پڑپوتا ہے۔ مودی نے اس پر سیاسی شہزادے کا لیبل چسپاں کر دیا اور انتہائی عیاری سے کرپشن کے خلاف مہم چلائی۔ لیکن اس مرتبہ یہ نعرے کوڑے دان میں پھینکتے ہوئے تعصب اور نفرت کا بازار گرم کر دیا گیا۔ دونوں مرتبہ کانگریس کو ہی نقصان اٹھانا پڑا۔

اب کانگریس اور دیگر تمام سیاسی پارٹیوں کے احیا کی بحث چھڑ گئی ہے جس میں کئی تجاویز سامنے آ رہی ہیں۔ زیادہ تر بحث کا محور BJP کا مقابلہ کرنے کے لئے بہتر طریقہ کارا ور بہتر میڈیا مہم اور نعروں کے ذریعے نوجوانوں کو اپنی طرف مائل کرنا ہے۔ راہول گاندھی نے مرکزی کمیٹی کو اپنا استعفیٰ پیش کردیا ہے لیکن واضح ہے کہ وہ پارٹی قیادت کا اہم حصہ رہے گا۔ دیگر سیاسی پارٹیوں میں بھی یہی صورتحال ہے۔

لیکن کوئی بھی یہ جرأت اور ہمت نہیں کر رہا کہ ہندوستان میں موجودہ سیاسی پارٹیوں سے باہر بھی کوئی امکانات دیکھ سکے۔ یہ درست ہے کہ انڈیا میں ہر روز درجنوں پارٹیاں رجسٹر ہوتی ہیں جن میں سے چند ایک ہی کچھ حمایت حاصل کر پاتی ہیں۔ لیکن ان انتخابات نے ایک بہت بڑے خلا کو آشکار کیا ہے اور ہندوستان کے سیاسی مستقبل کے حوالے سے بہت زیادہ بحث شروع ہو چکی ہے۔ بہت سے تجزیہ نگار کانگریس کے احیا کے خواہشمند ہیں اور چاہتے ہیں کہ کانگریس واپس اپنے پرانے عروج پر پہنچ جائے۔ اس کے لیے ماضی کے مختلف ادوار کا حوالہ دے رہے ہیں جب کانگریس کو انتخابات میں ناکامی دیکھنی پڑی تھی۔ لیکن وہ اس نئی صورتحال کو سمجھنے سے قاصر ہیں جس سے ہندوستان کے سماج کا سامنا ہے اور جس سے کانگریس اور اس کے بوسیدہ نظریات اورطریقہ کار مطابقت نہیں رکھتے۔ گوکہ اس وقت اپوزیشن کی تمام سیاسی پارٹیاں شدید غم اور دکھ میں مبتلا ہیں اور مایوسی میں غرق ہو چکی ہیں لیکن ساتھ ہی اس وقت ایک ایسے سیاسی مستقبل کو بھی زیر بحث لایا جا سکتا ہے جس میں تمام مروجہ سیاسی ڈھانچہ نئی پارٹیوں سے تبدیل ہو جائے۔
آنے والے حالات بھی ان دیوہیکل سیاسی تبدیلیوں کے لیے زمین تیار کریں گے اور علاقائی اور ملکی سطح پر بڑی تبدیلیاں دیکھنے کو ملیں گی جو بی جے پی کی رجعت کا مقابلہ کر سکے۔ حالیہ سالوں کی عام ہڑتالوں اور کئی ریاستوں میں کسانوں کے دیو ہیکل احتجاجوں نے بھی ثابت کیا ہے کہ نئی سیاسی پارٹیوں کے امکانات ابھر رہے ہیں کیونکہ موجودہ سیاسی پارٹیاں ان تحریکوں کو معاشی مطالبات سے سیاسی مطالبات تک لیجانے میں نااہل رہی ہیں۔ کروڑوں افراد کے احتجاجوں اور عام ہڑتالوں نے بارہا ثابت کیا ہے کہ عوام معاشی بحران سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتی ہے اور پوری قوت کے ساتھ سیاست کے عملی میدان میں اترنے کو تیار ہے۔ لیکن ان تنظیموں کی قیادت اور پارٹیاں آگے بڑھنے کا راستہ نہیں دے رہیں اور ان تحریکوں کو محض معاشی مطالبات تک ہی محدود رکھا ہوا ہے۔ آنے والے وقت میں یہ سب ایک زیادہ بڑے پیمانے اور بلند معیار پر دہرایا جائے گا جس سے موجودہ سیاسی پارٹیوں کا گلا سڑ ڈھانچہ زمین بوس ہونے کی جانب بڑھے گا۔ آنے والی انقلابی تحریکیں ہندوستان میں نئی سیاسی پارٹیوں اور تنظیموں کی آبیاری کریں گی جس کا پھل آنے والی نسلیں کھائیں گی۔ اگرچہ یہ طویل عمل ایک سیدھی لکیر میں آگے نہیں بڑھے گا اور تضادات سے بھرپور ہو گا جس میں وقتی طور پر کوئی پرانی پارٹی دوبارہ سطح پر تیرتی نظر آ سکتی ہے لیکن یہ محض اس کے غرق ہونے سے پہلے کا معمولی وقفہ ہو گا۔ حتمی طور پر یہ الیکشن پورے گلے سڑے مروجہ سیاسی نظام کی موت کا اعلان ثابت ہو گا۔
یہاں پر بہت سے لوگ عام آدمی پارٹی کی مثال دیں گے جس کا جنم دہلی میں دائیں بازو کی کرپشن کے خلاف 2011ءکی تحریک کے بطن سے ہوا تھا۔ لیکن اپنی بھونڈی سیاست اور پیٹی بورژوا کردار کی وجہ سے یہ بھی زوال پذیر ہو چکی ہے اور اس دفعہ یہ لوک سبھا میں صرف ایک نشست جیت سکی ہے جبکہ پچھلی دفعہ اس کی چار نشستیں تھیں۔ دہلی میں اس کی ریاستی حکومت بھی شدید بحران کا شکار ہے اور ممکن ہے کہ اگلے انتخابات میں یہ بھی BJP کے ہاتھوں شکار ہو جائے۔ آنے والے عرصے میں ایسی بہت ساری سیاسی پارٹیوں کا دائیں بازو سیاست سے جنم ہو سکتا ہے لیکن زیادہ امکانات بائیں جانب سے جنم لینے کے ہیں کیونکہ موجودہ بائیں بازو کی پارٹیوں کے زوال کے بعد ایک دیو ہیکل خلا پیدا ہو چکا ہے ۔

آنے والا پرانتشار عہد
مودی کے دوسرے دور حکومت کو بڑے کاروباری بھوکی نظروں سے دیکھ رہے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اس مرتبہ انہیں پہلے سے بھی زیادہ عوام کا شدید ترین استحصال کرنے کا موقع ملے گا۔ عالمی سطح پر بڑے کاروباریوں نے بھی مودی سرکار کا ایک بار پھر خیرمقدم کیا ہے اور امریکی چینی تجارتی طوفان میں وہ ہندوستان کو ایک نسبتاً پرسکون جزیرے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ ایپل سمیت بہت سی کمپنیاں منصوبہ بندی کررہی ہیں کہ اپنے کاروبار کو چین سے ہندوستان منتقل کر کے امریکی پابندیوں سے جان چھڑائی جائے۔ کئی ایک کو پچھلے پانچ سالوں میں ہندوستان کی بلند شرح نمو اور ہندوستانی کاروبار کے دیو ہیکل منافعے نظر آ رہے ہیں۔ لیکن اب ٹرمپ نے ہندوستان کی مصنوعات پر بھی اضافی ٹیرف لاگو کرنے کا اعلان کر دیا ہے جو عالمی تجارت کے ساتھ ساتھ ہندوستان کی معیشت کے لیے بھی ایک بڑا دھچکا ہے۔عالمی سطح کی سیاست اور معیشت آنے والے عرصے میں بھی اس صورتحال پر اہم اثرات مرتب کرتی رہے گی۔

مودی کی فتح ردِ انقلاب کا وہ چابک ہے جس سے انقلابی عوام کا جمِ غفیر تاریخ کے میدان میں اترے گا اور اپنی تقدیرکے فیصلے خود کرے گا۔

چین نے بھی مودی کو مبارک باد پیش کی ہے اور وہ بھی اپنے تعلقات بہتر کرتے ہوئے اس دیو ہیکل منڈی تک رسائی حاصل کرنے کے خواہش مند ہے۔ ابھی بھی ہندوستان کے ساتھ تجارت میں چین کا بہت بڑا تجارتی منافع موجود ہے اور امریکہ کے ساتھ بڑھتی ہوئی تجارتی جنگ کے نتیجے میں وہ ہندوستان کے ساتھ باہمی تجارت کو مزید فروغ دینا چاہتا ہے۔ دوسری طرف خطے میں چین اور ہندوستان کے درمیان علاقائی کنٹرول کے حصول کے لیے سامراجی چپقلش بھی بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ یہ تما م صورتحال تضادات کو مزید گہرا کرتے ہوئے آنے والے عرصے میں اس پورے خطے کی سیاست پر دوررس اثرات مرتب کرے گی۔
اس نظام میں محنت کش طبقے کا ایک ہی مستقبل ہے اور وہ ہے معیارِ زندگی میں مزید گراوٹ، مزید استحصال اور معیشت کی مزید لبرلائزیشن۔ مودی اس دیو ہیکل کامیابی کو بھرپور استعمال کرتے ہوئے پوری کوشش کرے گا کہ محنت کش طبقے کو کچل سکے اور سرمایہ کاروں کو ہر رکاوٹ سے پاک ایک ”دوستانہ“ ماحول فراہم کیا جائے۔ نجکاری کے عمل کو تیز تر کیا جائے گااور مالیاتی شعبے سمیت دیو ہیکل عوامی اداروں کو نجی سرمائے کی بھینٹ چڑھا دیا جائے ۔
اس کا ایک ہی منطقی انجام ہے اور وہ ہے طبقاتی جنگ جو آنے والے عرصے میں شدت اختیار کرے گی۔ اس وقت بیروزگاری ملک میں گزشتہ 45 سالوں کی بلند ترین شرح 6.1 فیصد پر ہے جبکہ معیشت کی شرح نمو جنوری سے مارچ کے درمیان گزشتہ سال 6.6 فیصد سے کم ہو کر 5.8 فیصد رہ گئی ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ عالمی معیشت کے بحران کے ہندوستان پر کیا اثرات پڑ رہے ہیں۔ مودی سرکار کے پچھلے پانچ سالوں میں تاریخ کی سب سے بڑی عام ہڑتالیں دیکھی گئیں جن میں 20 کروڑ مزدور ایک دن میں متحرک ہوئے۔ پورے ملک میں کسانوں کے احتجاج بڑھتے چلے جا رہے ہیں جبکہ سماج کی مختلف پرتیں اپنے حقوق کے لئے احتجاج میں اتر رہی ہیں۔ ان چند سالوں میں طلبہ تحریک بھی توانا ہوئی ہے اور وہ اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لئے نئے نظریات اور حکمت عملی تلاش کر رہے ہیں۔ وہ تمام خواتین و حضرات جو اس دائیں بازو کی حکومت کے برسرِ اقتدار میں آنے پر سر پٹخ رہے ہیں انہیں چاہیے چند ماہ اور سال انتظار کریں اور وہ دیکھیں گے کہ تاریخی واقعات ان کے سامنے رونما ہو ں گے۔ درحقیقت مودی کی فتح ردِ انقلاب کا وہ چابک ہے جس سے انقلابی عوام کا جمِ غفیر تاریخ کے میدان میں اترے گا اور اپنی تقدیرکے فیصلے خود کرے گا۔ درحقیقت ہندوستان میں طبقاتی کشمکش کا نیا سورج طلوع ہو رہا ہے۔

آگے بڑھنے کا راستہ؟
کمیونسٹ پارٹیوں کی بدترین شکست درحقیقت سٹالن ازم کی تاریخی شکست ہے جو حقیقی نظریات سے منحرف ہو کر پارلیمانی موقع پرستی، علاقائی گٹھ جوڑ اور کرپشن میں ڈوب چکی ہیں۔ بائیں بازو کی سیاست کو زندہ کرنے کی تمام تر کوششیں ایک بار پھر اس حقیقت کو عیاں کر چکی ہیں کہ ٹھوس نظریاتی بنیادوں کے بغیر کسی قسم کا احیا ممکن نہیں۔ کئی صاحبان انتخابی حکمت عملی میں تبدیلی کے مشورے دے رہے ہیں۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی شخص سطح سے نیچے دیکھنے سے عاری ہو چکا ہو۔ پارٹیوں میں نئے خون کو شامل کرنے کی تجویز بار بار دہرائی جا رہی ہے جس کا حقیقی مطلب یہی ہے کہ موجودہ پارٹی قیادت کے بچوں اور رشتہ داروں کو پارٹی سے بھر دیا جائے۔ کئی دہائیاں ریاستوں اور مرکز میں حکومت کا حصہ رہنے کے بعد ان بائیں بازو کی پارٹیوں نے مکمل طور پر دیگر بورژوا پارٹیوں کے نظریات اور طریقہ کار اپنا لئے ہیں اور اب ان سب میں فرق کرنا بہت مشکل ہو چکا ہے۔

کانگریس کے نام نہاد سیکولرازم کے متبادل میں بائیں بازو کی پارٹیوں کے پاس کوئی پروگرام موجود نہیں ہے جبکہ کئی جگہوں پر یہ دونوں انتخابی اتحاد میں موجودتھے۔ اسی طرح دیگر ممالک بشمول پاکستان کے محنت کش طبقے کے ساتھ ان کی طبقاتی جڑت کی کوئی پالیسی موجود نہیں بلکہ ان پارٹیوں نے دیگر کی طرح قوم پرست راستہ اپناتے ہوئے ہندوستانی قوم پرستی کا ہر ممکن دفاع اپنا نصب العین بنایا ہوا ہے۔ اس وجہ سے بی جے پی کی قوم پرستانہ اور پرتشدد انتخابی مہم کا ان کے پاس کوئی جواب نہیں تھا اور وہ ان کے جھانسے میں پھنس گئے یا پھر اس جنگ کا شکار ہو گئے۔

کمیونسٹ پارٹیوں کی بدترین شکست درحقیقت سٹالن ازم کی تاریخی شکست ہے جو حقیقی نظریات سے منحرف ہو کر پارلیمانی موقع پرستی، علاقائی گٹھ جوڑ اور کرپشن میں ڈوب چکی ہیں

مارکسزم یا تو بین الاقوامی ہے یا پھر کچھ نہیں اور مارکس نے پوری دنیا کے محنت کشوں کے اتحاد کا نعرہ بلند کیا تھا۔ لیکن ہندوستان کا بایاں بازو اس نعرے کے جوہر کو بھول چکا ہے اور ریاستی سیاست کے لئے بین الاقوامیت کو فراموش کر چکا ہے۔ اس وجہ سے انہیں مغربی بنگال میں تاریخی شکست ہوئی جہاں کچھ مارکسی نظریات ایک طویل عرصے سے نصاب کا حصہ بھی رہے ہیں۔ بی جے پی اس ریاست میں بائیں بازو کی پارٹیوں کے ووٹروں کو اپنے مذہبی منافرت کے نعروں پر صرف اس وجہ سے مبذول کرنے میں کامیاب ہوئی کیونکہ بائیں بازو کی پارٹیوں کے پاس طبقاتی یکجہتی کا کوئی واضح پروگرام موجود نہیں تھا۔

قومی سوال پر بھی ان پارٹیوں کی پوزیشن دیگر پارٹیوں سے مختلف نہیں اور ان کی نگاہ ہندوستانی بورژوا ریاست کی تنگ نظری سے آگے ہی نہیں بڑھتی۔ کشمیر میں ہندوستانی ریاست کے ظلم و جبر کے خلاف پچھلے دو سالوں سے ایک دیو ہیکل تحریک جاری ہے جس میں لاکھوں افراد شامل ہیں۔ پاکستانی ریاست بھی اس تحریک کو مذہبی منافرت کے ذریعے زائل کرنے کی بھرپور کوشش کر تے ہوئے دہشت گردی کی طرف دھکیلنے کی کوشش کر رہی ہے لیکن انہیں 1990ءکی دہائی کی طرح خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہو ئی۔ کشمیر کے عوام نے نہ صرف ہندوستانی ریاست کے تسلط کو مسترد کر دیا ہے بلکہ پاکستان کے رجعتی کردار کو بھی ماننے سے انکار کر دیا ہے۔ لیکن کمیونسٹ پارٹیاں ہندوستان میں کوئی ایسا طبقاتی پلیٹ فارم مہیا نہیں کر سکیں جس سے اس تحریک کے ساتھ یکجہتی کرتے ہوئے اسے جیتا جا سکتا۔ اس تحریک کا غم و غصہ ان انتخابات میں بھی واضح تھا کیونکہ وادی کشمیر میںکل ووٹوں کی شرح صرف 9 فیصد رہی اور بھاری اکثریت نے انتخابات کا بائیکاٹ کیا۔ اسی طرح بائیں بازو کی پارٹیاں شمال مشرقی ریاستوں میں کوئی متبادل پیش نہیں کر سکیں جہاں بی جے پی حیران کن طور پر کانگریس کو پچھاڑ کر سب سے بڑی پارٹی بن چکی ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ سٹالن ازم قومی سوال کو حل کرنے میں مکمل طور پر بانجھ ہے۔

یہ وقت بائیں بازو کا اپنے آپ سے تلخ سوالات کرنے کا ہے خاص طور پر نوجوانوں کے لیے کیونکہ نہ صرف روایتی کمیونسٹ پارٹیاں ناکارہ ثابت ہوئی ہیں بلکہ مسلح جدوجہد اور ماﺅازم کے غلط نظریات بھی ناکام ہو چکے ہیں۔ مسلح جدوجہد کا غلط طریقہ کار نہ صرف ریاست کو ننگا جبر کرنے کا بہانہ فراہم کرتا ہے بلکہ محنت کش طبقے کو بھی جدوجہد سے دور کر دیتا ہے۔ ان سیاسی پارٹیوں کا زرعی سوال پر مبالغہ آرائی کی حد تک اصرارمزدور طبقے کے کردار کو کمتر کرتاہے اور پیچھے دھکیلتا ہے جبکہ ہندوستان کا محنت کش طبقہ دنیا میں حجم کے اعتبار سے دوسرے نمبر پر ہے۔

وقت آ گیا ہے کہ ٹراٹسکی کے انقلابِ مسلسل کے نظریے کا ازسرِ نو مطالعہ کیا جائے اور لینن کے بالشویک پارٹی کی تعمیر کے طریقہ کار کو اپنا کر اس بحران سے نکلا جائے۔ اس وقت واحد امید نوجوان ہیں جو بیروزگاری، غربت اورجہالت کے تاریک مستقبل کے خلاف جدوجہد کرنے کو تیار ہیں۔ انہیں اپنے آپ کو دیو ہیکل واقعات کے لئے تیار کرنا ہے جو سیاست کو اوپر سے نیچے تک جھنجھوڑ ڈالیں گے۔ آگے کا راستہ پارٹیوں کے اندر مفادات کی سیاست اور سازشوں میں نہیں بلکہ درست نظریاتی بنیادوں پر نئی بحث کا آغازاور مارکسزم کے بین الاقوامی نظریات کا احیا ہے جس میں لینن اور ٹراٹسکی کے نظریات مشعل راہ ہیں۔

بی جے پی کی کامیابی ہندوستانی محنت کش طبقے کی شکست نہیں ہے۔ اور فاشزم ابھی نہیں آیا اگرچہ کالے بادل افق پر منڈلا رہے ہیں۔ درحقیقت بی جے پی کی یہ کامیابی بورژوا جمہوریت کی تاریخی شکست ہے۔ ہندوستانی آئین اور بورژوا ریاست کی حدود ان انتخابات میں واضح ہو چکی ہیں۔ یہ بورژوا ریاست اپنے آغاز سے لے کر اب تک کروڑوں افراد کو خوفناک غربت، بیماری اور ذلت سے نکالنے میں ناکام رہی ہے لیکن اب یہ اپنی عوام اور بورژوا جمہوریت کے بنیادی جمہوری حقوق کی حفاظت کرنے سے بھی قاصر ہے۔ ترقی کے کھوکھلے نعرے بارہا ناکام ہو چکے ہیں۔ ریاستی سرمایہ داری اور نیو لبرل پالیسیوں کے ذریعے اس ریاست کو چلانے کے تمام تجربات بھی ناکام ہو چکے ہیں۔ آگے بڑھنے کا واحد راستہ ایک انقلاب کے ذریعے سماج کی سوشلسٹ تبدیلی ہے جس میں محنت کش طبقہ کلیدی کردار ادا کرے گا۔ صرف ایک منصوبہ بند معیشت کے ذریعے ہی اس طبقاتی نظام کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے اور 1.3 ارب افراد کو سرمایہ داری کی ہولناکی سے آزاد کرایا جا سکتا ہے۔ہندوستان کا سوشلسٹ انقلاب عالمی انقلاب کا محض آغاز ہو گا جس کے ذریعے انسان سرمائے کی حکمرانی سے نجات حاصل کرے گا۔

Comments are closed.