امریکہ: عوامی تحریک سےبزدل ٹرمپ خوفزدہ، سامراجی طاقت لرزنے لگی!

|تحریر: جارج مارٹن، جان پیٹرسن، ترجمہ: لقمان رحمانی|

پولیس کے ہاتھوں ایک نہتے سیاہ فام شخص جارج فلوئیڈ کے بہیمانہ قتل کے بعد احتجاجی لہر نے پورے مریکہ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ کئی شہروں میں یہ احتجاج بے قابو ہوچکے ہیں۔ احمد آربرے اور بری اونا ٹیلر کے قتل کے بعد ہونے والا یہ قتل، پولیس کے ہاتھوں کبھی نہ ختم ہونے والے قتل کے سلسلے میں وہ آخری تنکا ثابت ہوا جس نے اونٹ کی کمر توڑ کر رکھ دی اور امریکی سماج میں موجود ہر طرح کی نا انصافیوں کے خلاف پکنے والا لاوا پھٹ کر سطح پر آگیا۔ ضرورت نے اپنا اظہار حادثے کی شکل میں کیا، اگرچہ فلوئیڈ کا قتل کوئی حادثہ نہیں تھا۔

منیاپولس میں، پولیس نے پر امن مظاہرین کے خلاف منتشر کرنے والے ہتھیار (جیسے آنسو گیس، اسٹن دستی بم جو پھٹ کر تیز روشنی اور آواز سے حسیات کو تھوڑی دیر کے لیے سن کرتا ہے، وغیرہ) کا بے دریغ استعمال کیا، جس نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔آخرکار پولیس کو غصے سے ابلتے ہجوم کو چیرتے ہوئے تھرڈ پرسنکٹ (تھانہ) کو چھوڑ کر بھاگنا پڑ گیا اور مظاہرین نے تھانے کو جلا کر راکھ کر دیا۔ یہ وہی تھانہ تھا جہاں قاتل پولیس اہلکار تعینات تھا۔ پولیس کے اپنی گشتی گاڑیوں سے پارکنگ گیٹ توڑ بھاگنے کے مناظر نے اس واقعے کی یاد دلا دی جب سائیگون (ویتنامی شہر) میں امریکی سفارت خانے کو چھوڑ کر بھاگناپڑا تھا۔ مشتعل عوام کے سامنے امریکی سرمائے کے مسلح جتھے اپنی جان بچا کر بھاگنے پر مجبور تھے۔
منی سوٹا میں،مسلسل پانچ راتوں کے احتجاج کے بعد، مئیر نے کرفیو لگانے کا اعلان کیا جس کو احتجاجی مظاہرین نے فوری طور پر توڑ دیا۔ احتجاجوں میں آتش زنی اور لوٹ مار کے واقعات بھی سامنے آئے، مگراس بات کے واضح ثبوت ہیں کہ بیشتر واقعات میں پولیس کے ایجنٹوں اور انتہائی دائیں بازو کے انتہاپسندوں کا ہاتھ تھا تاکہ مزید سخت اقدامات کے لیے جواز فراہم کیا جا سکے۔ ففتھ پرسنکٹ تھانے کے باہر مجتمع احتجاجی عوام نے اس کو بھی جلانے کی دھمکی دی۔ اس تھانے کا دفاع اب مورچوں اور چھتوں پر موجود مسلح اہلکاروں سے کیا جا رہا ہے۔

نیشنل گارڈ (ریزرو فوج جس کو ہنگامی حالات میں استعمال کیا جاتا ہے) اور ریاستی پولیس بھی منیاپولس کے گلی کوچوں میں موجود ہے جو کرفیو کو نافذ کرنے اور حالات کو اپنے قابو میں کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں۔ شروع میں مینی سوٹا کے گورنر ٹم والز نے نیشنل گارڈ کے 500 اہلکاروں پر مشتمل دستے بھیجے جن کی تعداد بعد میں 1700 تک بڑھا دی گئی۔ امریکی کسٹم اینڈ بارڈر پروٹیکشن سروسز (کسٹم، تجارت اور امیگریشن پر نظر رکھنے والا ایک ادارہ) نے احتجاجی راستوں کی نگرانی کے لیے ڈرون کا بھی استعمال کیا۔
اگرچہ احتجاجوں کا مرکزمینی سوٹا ہی ہے مگر ان احتجاجوں کا سلسلہ 22 شہروں تک پھیل چکا ہے۔ ڈیٹرائٹ میں بڑے بڑے مظاہرے ہوئے جہاں پر ایک 19 سالہ احتجاجی نوجوان کو ایک شخص نے چلتی گاڑی سے گولی مار کر قتل کردیا، جو ممکنہ طور پر دائیں بازو کا کوئی شخص تھا۔ نیویارک شہر میں پولیس اور احتجاج کرنے والوں کے مابین جھڑپیں دیکھنے کو ملیں جب انہوں نے کرونا وائرس کی وجہ سے مظاہروں پر پابندی کو توڑا اور بروکلن میں پولیس وین کو آگ لگا دی گئی۔ کیلیفورنیا کے شہروں آکلینڈ، سان ہوزے اور لاس اینجلس میں مظاہرین نے کئی سڑکوں کو بلاک کر دیا اور پولیس کی گشتی گاڑیوں کو نشانہ بنایا۔

اٹلانٹا میں بھی مظاہرین نے پولیس کی گاڑیوں کو نذر آتش کرد یا، جس کے بعد وہاں ایمر جنسی نافذ کر کے نیشنل گارڈ کو گلی کوچوں میں تعینات کر دیا گیا ہے۔ جریدے سی این این کی عمارت، جس میں پولیس تھانہ بھی موجود ہے، کے باہر مظاہرین اور پولیس اہلکاروں کے مابین جھڑپیں ہوئیں۔

واشنگٹن ڈی۔سی میں وائٹ ہاؤس کو تھوڑی دیر کے لیے لاک ڈاؤن کرنا پڑا اور ہفتے کے دن صبح سویرے مظاہرین اور خفیہ اداروں کے بیچ مورچوں کے سامنے تصادم جاری رہا۔ اور فینکس میں ڈیان جانسن، 28 سالہ سیاہ فام آدمی کے حق میں مارچ کیا گیا جس کو محکمہ برائے عوامی تحفظ کے ایک افسر مبینہ ”ردعمل“ میں قتل کردیا تھا۔

اسی طرح، لوئی ول شہر میں ایک اور قتل کے واقعے خلاف بڑے پیمانے پر احتجاج پھوٹ پڑے جہاں پر بری اونا ٹیلر، 26 سالہ سیاہ فام میڈیکل ٹیکنیشن کو اپنے اپارٹمنٹ میں سوتے ہوئے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ پولیس منشیات میں ملوث ایک آدمی کا تعاقب کر رہی تھی جو اس کے اپارٹمنٹ میں نہیں رہتا تھا، اور جس کا بعد میں پتہ چلا کہ وہ پہلے سے حراست میں لیا جا چکا تھا۔ جب پولیس ٹیلر کے اپارٹمنٹ میں بغیر کسی اطلاع کی داخل ہوئی تو اس کے بوائے فرینڈ نے اپنے بچاؤ میں گولی چلا دی۔ جواباً پولیس نے بیس سے زیادہ گولیاں فائر کیں جس میں سے آٹھ گولیاں ٹیلر کو لگی۔ اس کے خلاف غصے میں بھیڑ نے ہال آف جسٹس (پولیس ہیڈکوارٹر) کو آگ لگا دی۔

”یہ بلوے نہیں۔۔۔ انقلاب ہے!“

ریاست کے بھونڈے اور وحشت ناک ردعمل نے محض جلتی پر تیل کا کام کیا۔ منیاپولس میں، پولیس کی جبلی نسل پرستی کا خصوصی مظاہرہ سامنے آیا جب انہوں نے سی۔این۔این ایک سیاہ فام لاطینی صحافی کو آن ائیر گرفتار کر لیا جو وہاں کے احتجاجوں کی کوریج کر رہے تھے۔ اسی دوران دوسری نیوز ٹیم، جس کی سربراہی سفید فام رپورٹر کر رہا تھا، وہاں پر موجود اسی احتجاج کو ریکارڈ کر رہی تھی اور ان کو کچھ بھی نہیں کہا گیا۔ لوئی ول میں پولیس نے مظاہرین کے خلاف آنسو گیس اور ایک خاتون صحافی کے خلاف ربڑ کی گولیوں کا استعمال کیا جبکہ وہ آن ائیر تھی۔

مظاہرین میں نمایاں طور پر سیاہ فام اور سفید فام دونوں موجود ہیں، جو کہ زیادہ تر نوجوانوں پر مشتمل ہے، ٹھیک اسی طرح جب بلیک لائیوز میٹر کی تحریک اپنے عروج پر تھی۔ البتہ سیاسی مزاج ماضی کی نسبت بلند درجے پر ہے جس کی وجہ کروڑوں امریکیوں کے اوپر نازل ہونے والی معاشی تباہی ہے۔ ماضی میں پولیس کو لازمی جسمانی کیمروں اور کمیونٹی ریویو بورڈز وغیرہ کے ذریعے زیادہ ذمہ دار بنانے کے حوالے سے کافی بحث چلتی رہی ہے۔ مگرکوئی ایک مسئلہ بھی حل نہیں ہوا۔ بلکہ اس کے برعکس پچھلے چھے سالوں میں پولیس کے ہاتھوں نہتے سیاہ فام لوگوں کے قتل کا سلسلے میں شدت آئی ہے۔ اب کی بار احتجاجی مظاہرین نے پولیس تھانے کو جلا کر رکھ دیا، جو کہ فی الحقیقت ایک باغیانہ فعل ہے۔ منیاپولس میں احتجاج کے منتظمین نے واضح کیا ہے کہ ”یہ بلوہ نہیں، یہ انقلاب ہے!“

اس تحریک کی اہمیت اور اس میں پوشیدہ خطرات سے حکمران طبقہ اچھی طرح واقف ہے۔ جریدے واشنگٹن پوسٹ نے لکھا: ”صحت اور معاشی ایمرجنسی کے ہنگام میں اٹھنے والی یہ شورش ملکی تاریخ میں 1930ء کی دہائی کی عالمی کساد بازاری اور 1968ء کے سماجی دھماکوں جیسی ایک ڈارمائی اور فیصلہ کن موڑ ثابت ہوسکتی ہے“۔

یقینا امریکہ میں یہ مناظر کوئی عام بات نہیں ہے۔ اگر آپ بغیر سیاق و سباق کے یہ ویڈیوز دیکھیں، تو آپ یہ یہی سمجھیں گے کہ یہ سب دنیا کی سب سے بڑی سامراجی طاقت کے اندر نہیں بلکہ شاید چلی، لبنان یا الجزائر کے مناظر ہیں۔ ہماری آنکھوں کے سامنے ہونے والے یہ واقعات، در حقیقت، ایک لمبے عرصے سے سلگتے غم و غصے کا اظہار ہیں جو کہ ایک چنگاری سے بھڑک اٹھا اور جس کو کرونا وبا نے مزید شدید کر دیا تھا۔ اس صورتحال کا موازنہ تیونس میں بو عزیزی کی خود سوزی کے واقعے سے کیا جا سکتا ہے، ایک واقعہ جس سے عرب بہار کا آغاز ہوا اور جس نے بے شمار نا انصافیوں کے خلاف ابلتے ہوئے غصے کے لیے راستہ کھول دیا جو مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں جمع ہو چکا تھا۔

بورژوا میڈیا نے عمارات کو پہنچنے والے نقصان اور لوٹ مار کو خوب کوریج دی تاکہ رائے عامہ کو مظاہرین کے خلاف موڑا جا سکے۔ مئیر جیکب فرے نے آج منیاپولس میں توہین آمیز اور منافقانہ تقریر کی، اور مظاہرین کو برا بھلا کہتے ہوئے کہا: ”اپنے شہر کو جلانا کوئی اعزاز کی بات نہیں۔ لوٹ مار میں کوئی فخر کی بات نہیں۔“

مگر منظم محنت کش طبقہ اس ابلتے عوامی غم و غصے کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کر رہاہے۔ مثلاً یونین میں منظم بس ڈرائیوروں نے پولیس کے ساتھ معاونت کرنے سے انکار کر دیا، جو ان کی گاڑیاں مظاہرین کو بڑے پیمانے پر گرفتار کرنے کے لیے استعمال کرنا چاہتے تھے۔ اس طرح کا ایک واقعہ نیویارک میں سامنے آیا جہاں پر ڈرائیور نے بس چلانے سے انکار کر دیا جس کو پولیس نے قبضہ کر لیا تھا اور اس میں قیدیوں کو منتقل کر رہی تھی۔

آتش گیر مواد

حسب عادت، ٹرمپ حالات کو مزید بھڑکا رہا ہے۔ انتخابات کو مد نظر رکھتے ہوئے سماج کی رجعتی پرتوں میں اپنی حمایت کو بڑھانے کی ایک واضح کوشش میں ٹرمپ نے اپنا سارا وزن قانون نافذ کرنے والے اداروں کے پلڑے میں ڈال دیا۔ اپنی ٹویٹ میں اس نے مظاہرین کو ”بدمعاش“ کہہ کر پکارا جو ”جارج فلوئیڈ کی یاد کی بے عزتی کر رہے ہیں۔“ اس نے بدنام زمانہ نسل پرست میامی پولیس چیف، والٹر ہیڈلے کے الفاظ جو اس نے 1967ء میں بکے تھے، دہراتے ہوئے کہا ”جب لوٹ مار شروع ہوگی، (تو ساتھ ہی) فائرنگ(بھی) شروع ہو جائے گی۔“

یہ کوئی خالی خولی دھمکی نہیں۔ کرونا وائرس سے ہونے والی اتھل پتھل سے قبل ہی، امریکی حکمران طبقہ سرمایہ داری کے گہرے ہوتے بحران کی وجہ سے بڑھتی ہوئی عوامی بے چینی کا مقابلہ کرنے کے لیے خود کو تیار کر رہا تھا۔ اپنی حاکمیت برقرار رکھنے کے لیے یہ ہر ذریعے، چاہے قانونی ہو یا غیر قانونی، کو استعمال کرے گا۔ پولیس کے مظالم کے ساتھ ساتھ، دائیں بازو کے رجعتیوں کی جانب سے تشدد کے واقعات بھی سامنے آئے ہیں، جیسا کہ ڈیٹرائٹ میں چلتی گاڑی سے گولیاں چلائی گئیں۔

پینٹاگون سے جاری ہونے والے غیرمعمولی احکامات میں متعدد اڈوں پر ملٹری پولیس اور فوجی دستوں کو ہوشیار رہنے کا کہا گیا۔ شمالی کیرولائنا کے فورٹ براگ اور نیویارک کے فورٹ ڈرم کے سپاہیوں کو خبردار کیا گیا ہے کہ اگر ان کو بلایا جائے تو چار گھنٹوں کے اندر اندر تعیناتی کے لیے خود کو تیار رکھیں۔ ان افواج کو 1807ء کے بغاوت کے قانون کے مطابق استعمال کیا جائے گا، جو صدر کو اختیار دیتا ہے کہ ”کسی بھی بغاوت، کسی ریاست میں تشدد قابو سے باہر ہو جانے، غیر قانونی اجتماع، یا سازش“ سے نمٹنے کے لیے وفاقی فوجی دستوں کو کسی بھی ریاست میں تعینات کیا جا سکتا ہے۔ آخری دفعہ اس قانون کو 1992ء میں عوامی مزاحمت کو دبانے کے لیے نافذ کیا گیا تھا جب لاس اینجلس میں روڈنی کنگ کو تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد پولیس کو بری کر دیا گیا تھا۔

مگر اکثر اوقات، رد انقلاب کا کوڑا عوام کو پیچھے دھکیلنے کے برعکس ان کو آگے دھکیل دیتاہے، جیسا کہ ہم نے پچھلے سال چلی، کولمبیا، لبنان وغیرہ کے بے شمار احتجاجوں میں دیکھا۔
2008ء کا وہ واقعہ قابلِ ذکر ہے جب مینی سوٹا کے چھوٹے سے شہر سینٹ پال میں ریپبلکن نیشنل کنونشن کے دوران مظاہرین کو قابو کرنے کے لیے سارے ملک سے پچاس ہزار پولیس اہلکار بلوائے گئے مگر پھر بھی ان پر پوری طرح قابو نہیں پایا جا سکا۔ حکمران طبقے کے پاس سارے ملک کو قابو کے لیے پولیس یا افواج ناکافی ہیں۔

یہ حقیقت کہ ڈیرک شاوین (پولیس افسر جس نے جارج فلائیڈ کا قتل کیا) کو بر طرف کر دیا گیا اور اس کے اوپر تیسرے درجے کے غیر ارادی قتل کی دفعات لگائی گئی ہیں، نے مظاہرین غصے کو ٹھنڈا کرنے میں ناکام رہا۔ عوام پہلے بھی اس سب سے گزر چکے ہیں۔ مسئلہ ایک یا دو ”کالی بھیڑوں“ کا نہیں بلکہ پورے بوسیدہ نظام کا ہے۔

یہ ناکافی ہے کہ جارج فلوئیڈ کے قاتلوں کو ”بر طرف کیا گیا“ اور ان میں سے ایک پر فرد جرم عائد کی گئی ہے۔ وہ سب، جو اس نظام کے ہاتھوں استحصال کا شکار اور اسی کے ہاتھوں شہید ہوئے ہیں، کو حقیقی انصاف دلانے کے لیے سرمایہ داروں کو لازمی طور پر ”ذرائع پیداوار کی ملکیت سے بر طرف کرنا ہوگا۔“ مزدور تحریک کو ان مظاہرین کے ساتھ جڑنا چاہیے اور ایک ساتھ اس تحریک کو پروان چڑھا کر اس کو منظم بنیادیں فراہم کرنی چاہیے۔ سماج کو جڑوں سے تبدیل کرنے کے لیے ایک پروگرام درکار ہے۔ امریکہ اور دنیا بھر میں، صرف اور صرف سوشلسٹ انقلاب ہی ظلم و استحصال کے اس وحشت ناک سلسلے کو ختم کرے گا۔

Comments are closed.