ایران: پانی کی قلت کے خلاف کسانوں کے احتجاج؛ محنت کش ساتھیو، متحد ہو جاؤ!

|تحریر: ایسائس یاوری، ترجمہ: یار یوسفزئی|

22 مئی کو ایرانی صوبے اصفہان میں 1400 کسانوں نے پانی تک مستقل رسائی نہ ہونے کے خلاف احتجاج کیا۔ جس کے جواب میں حکومت کی جانب سے پولیس بھیج دی گئی، جنہوں نے کسانوں کو بے رحمی سے مارا پیٹا۔ کسانوں نے بھی اینٹ کا جواب پتھر سے دیا اور، پولیس اور ان کے بیچ شدید جھڑپیں دیکھنے کو ملیں۔ یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں تھا؛ کسان بہت بڑے پیمانے پر مسائل کا شکار ہیں، جس کا اظہار حالیہ عرصے میں خوزستان، سیستان و بلوچستان اور خراسان کے صوبوں اور دیگر علاقوں میں احتجاجوں کی صورت ہوا ہے۔

ایران کا موجودہ بحران، جہاں افراطِ زر دوسری جنگِ عظیم کے بعد بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے، مزدوروں اور کسانوں کو غربت میں دکھیل رہا ہے۔ اصفہان کے صوبے میں مظاہرے میں شرکت کرنے والے ایک عمر رسیدہ کسان کا کہنا تھا کہ:

”میرے پاس جو کچھ بھی تھا، میں زندہ رہنے کی خاطر اسے بیچنے پر مجبور ہوا۔ میرے پاس گائے، بکرے اور دنبے تھے۔ مجھے سب کو بیچنا پڑا۔ میرے پاس بیچنے کے لیے اب مزید کچھ نہیں بچا۔ میں نے اپنے بچوں کو شہر میں روزگار ڈھونڈنے کے لیے بھیج دیا مگر انہیں کوئی روزگار نہیں ملا۔ میں شوگر کا مریض ہوں مگر میں اپنا ٹیسٹ کروانے کا خرچہ تک نہیں اٹھا سکتا۔“

دہائیوں سے جاری سرمایہ دارانہ بد انتظامی

کئی دہائیوں سے جاری سرمایہ دارانہ بد انتظامی، کرپشن اور ماحولیاتی تبدیلیاں پانی کی شدید قلت کا باعث بنی ہیں۔ صرف 2021ء میں پچھلے سال کی نسبت بارش میں 53 فیصد کمی آئی ہے، اور اگر طویل مدتی اوسط سے اس کا موازنہ کیا جائے تو 41 فیصد کمی آئی ہے۔ عالمی تنظیم برائے موسمیات کے مطابق ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے 2025ء تک بارش میں 75 فیصد کمی کا امکان ہے۔ ماحولیاتی تبدیلی دراصل لا پرواہی سے جاری سرمایہ دارانہ استحصال کا نتیجہ ہے جو اس سیارے کو تباہ کر رہا ہے۔

ایرانی سرمایہ دار طبقہ بحران کی شدت کو کم کرنے کی بجائے دریاؤں کو روک کر ڈیم بنا رہا ہے، جس سے زیرِ زمین پانی اور جھیل خشک ہو رہے ہیں، وہ اس قسم کے اقدامات کے دور رس اثرات سے بالکل لا پرواہ ہیں۔ بہت بڑے پیمانے پر زیرِ زمین پانی کے استحصال کی وجہ سے، جو 2002ء سے 2015ء تک 20 فیصد سے بڑھ کر 2600 فیصد تک پہنچا ہے، زیرِ زمین پانی کے ذخائر سوکھ رہے ہیں اور وسیع پیمانے پر پانی کی قلت کا سامنا ہے۔

حکومت کے اپنے ماحولیاتی ماہرین اعتراف کر رہے ہیں کہ اگر کچھ نہیں کیا گیا تو ایران اپنی 70 فیصد زرعی زمین اگلے 20 سے 30 سال تک کھو دے گی۔ ابھی تک پانی کی قلت کی وجہ سے 30 ہزار گاؤں کو خالی کروایا جا چکا ہے۔

حکمران سرمایہ دار طبقے کی بوسیدگی اور بڑے پیمانے پر جاری کرپشن کے باعث حکومت کی جانب سے ڈیم کے منصوبوں اور زیرِ زمین پانی کے استحصال پر موثر قوانین لاگو کرنے کی ساری کوششیں مکمل طور پر بیکار رہی ہیں۔ سرکاری ادارے بھی اس عمل میں برابر کے شریک ہیں۔ زراعت اور آب پاشی سے متعلق منصوبے بھی اقربا پروری اور منافع خوری کا شکار ہیں۔

حکومتی کرپشن کا ایک اور اظہار سخت گرمیوں کے دوران قلیل مقدار میں موجود پانی کی ذخیرہ اندوزی سے ہوتا ہے، جس کا بڑا حصّہ حکومت کی حامی سرکاری و نجی کمپنیوں کو دیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر اصفہان کے صوبے میں سپاہِ پاسداران (ایرانی فوج کا ایک محکمہ) سے وابستہ سٹیل ملوں کو پانی مہیا کیا جاتا ہے۔

قحط سالی کے علاوہ، ایران کو بارش کی وجہ سے آنے والے سیلابوں کا بھی سامنا ہے۔ 2019ء اور 2020ء کے دوران، 28 میں سے 31 صوبوں کے اندر سیلاب آئے۔ سیلابی پانی کو جمع کر کے اس کے ذخائر بنائے جا سکتے تھے۔ مگر ایرانی سرمایہ داری اس قسم کی منصوبہ بندی کرنے کی اہل نہیں ہے۔ ایرانی ماہرینِ ماحولیات سمندری پانی کو زیرِ استعمال لانے کی منصوبہ بندی کا مطالبہ بھی کر رہے ہیں، جس سے تمام ایرانی صنعت کی پانی کی ضرورت کو پورا کیا جا سکتا ہے، مگر ایرانی ریاست اس کی اہل بھی نہیں ہے۔

نا اہلی کی وجہ وسائل یا تکنیکی صلاحیتوں کی کمی نہیں ہے۔ اگر دیکھا جائے تو یہ حکومت ترقی یافتہ ایٹمی ہتھیار اور بیلسٹک میزائل تو بنا سکتی ہے، پھر بھی یہ پانی کی قلت کے اوپر قابو نہیں پا سکتی۔ قیمتی وسائل کے اوپر سرمایہ دار اور کرپٹ نیم سرکاری کمپنیاں قابض ہیں جو اپنی دولت کو مزید بڑھانے کے لیے کوشاں ہیں جبکہ مزدوروں، کسانوں اور غریبوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔

آب پاشی کے موجودہ منصوبے روکے جا رہے ہیں، جہاں مزدوروں کو کئی مہینوں سے اجرتیں نہیں دی جاتیں جبکہ نجی تعمیراتی کمپنیوں کو، نا مکمل یا غیر موجود منصوبوں کے لیے بھی لاکھوں روپے دیے جا رہے ہیں۔ اس سے ایرانی سرمایہ داری کی حقیقی خونخوار فطرت کی عکاسی ہوتی ہے۔

مزدورو اور کسانو، متحد ہو جاؤ!

ماضی کے اندر، روایتی طور پر زیادہ قدامت پرست اور مذہبی دیہی آبادی کے بیچ حکومت کو نسبتاً مقبولیت حاصل رہی تھی۔ مگر جیسے جیسے گزرتے وقت کے ساتھ ایرانی سرمایہ داری کا حقیقی چہرہ عیاں ہوتا جا رہا ہے، ان کے اندر بھی بے چینی بڑھتی جا رہی ہے۔ اپریل کے مہینے میں، اصفہان صوبے کے اندر ہونے والے پچھلے احتجاج کے دوران ایک کسان نے تقریر کرتے ہوئے کہا:

”کسی دوسرے صوبے کے ساتھ ہماری کوئی لڑائی نہیں ہے۔ ہماری لڑائی حکومت کے ساتھ ہے، جو پچھلے 20 سالوں سے ہمارے پانی کو بیچ رہی ہے۔ حکومت کے پاس ہمارے پانی کو صنعتوں کو بیچنے کا کوئی حق نہیں!“

اس نے اپنی بات کو یوں سمیٹا: ”اگر کسی ملک میں غربت پائی جاتی ہے تو وہ اس لیے کہ ان کے حکمران چور ہوتے ہیں، جیسا کہ ہمارے نام نہاد اسلامی جمہوریہ کے اندر دیکھا جا سکتا ہے۔“

انقلابی نوعیت کے یہ نتائج اخذ کرنے کی وجہ 2018ء سے چلے آ رہے کسانوں کے احتجاج ہیں، جس کے ساتھ مزدور طبقے کی جدوجہد بھی جاری ہے۔ بد قسمتی سے، یہ احتجاج ہر صوبے کے اندر ایک دوسرے سے الگ تھلگ موجود ہیں، جن کو اکثر اوقات حکومت پانی کی حصّہ داری کے لیے صنعتوں اور کسانوں کے آپسی تنازعے کا رنگ دے دیتی ہے۔

کسانوں کو آپس میں یا مزدوروں کے خلاف لڑ کر کچھ بھی حاصل نہیں ہوگا، اس کے برعکس سب کی ضروریات بیک وقت پوری کی جا سکتی ہیں۔ مزدوروں اور کسانوں کے بیچ یکجہتی کے مظاہرے بھی سامنے آئے ہیں۔ مثال کے طور پر، جون 2020ء میں سیستان و بلوچستان کے اندر آب پاشی کے منصوبے پر کام کرنے والے تعمیراتی مزدور مقامی کسانوں کے احتجاجوں کی حمایت میں ہڑتال پر چلے گئے، جس کے ساتھ انہوں نے اپنی غیر ادا شدہ اجرتوں کا مطالبہ بھی کیا۔

زرعی صنعت میں کام کرنے والے محنت کش بھی، جیسا کہ چینی کے سب سے بڑے کارخانے میں کام کرنے والے ہفت تپہ کے لڑاکا محنت کش، پانی کی قلت کا شکار ہیں اور 30 مئی سے ہڑتال پر ہیں؛ جو نوروز (20 مارچ) سے تنخواہوں کی ادائیگی کا مطالبہ کر رہے ہیں اور پانی کی قلت کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ انہیں خوزستان اور دیگر صوبوں کے مزدوروں اور کسانوں کے ساتھ جڑت قائم کرنا ہوگی اور حکومت کے خلاف ایک متحدہ جدوجہد کرنی پڑے گی۔

مزدور تنظیموں کی جانب سے لگائے جانے والے ”روٹی، آزادی اور کونسلز“ کے مشہور نعرے کو؛ جس میں 1979ء کے انقلاب کی مطالبات کی گونج سنائی دیتی ہے، دیہی آبادی کے اندر بھی پھیلانا ہوگا۔ کسانوں اور مزدوروں کو طبقاتی جدوجہد میں ایک مشترکہ پروگرام کے ذریعے متحد ہونا پڑے گا، جس میں افراطِ زر کے مطابق وظیفہ جات اور سبسڈیوں کی بڑھوتری، تمام ایرانیوں کی مفت علاج اور تعلیم تک مساوی رسائی اور ہڑتال، احتجاج اور اکٹھ جیسے بنیادی سیاسی حقوق کے مطالبات شامل ہونے چاہئیں۔

اس کے علاوہ، سرکاری طور پر فوری روزگار مہیا کرنے کے منصوبے کا مطالبہ بھی شامل ہونا چاہیے، جو بے روزگاری کا خاتمہ کر کے آب پاشی، سمندری پانی کو استعمال کے قابل بنانے اور زمینوں کو بنجر ہونے سے بچانے کے منصوبوں کے ذریعے پانی کی قلت کا خاتمہ کرے گا۔

اس قسم کے منصوبوں کے نفاذ کے لیے ضروری ہے کہ ان پر مجرم حکومت اور بد معاش سرمایہ داروں کا قبضہ نہ ہو۔ چنانچہ تمام تعمیراتی اور انجینئر نگ کمپنیوں کو محنت کشوں کی کونسلز کے قبضے میں لینا ہوگا۔ پانی کی حصّہ داری سمیت ان تمام معاملات کی نگرانی مزدوروں اور کسانوں کی ایک قومی سطح کی کونسل کے پاس ہونی چاہئیے۔

اسلامی جمہوریہ مردہ باد! سرمایہ داری مردہ باد!

حکومت کے پاس عوام کو دینے کے لیے کچھ نہیں ہے، جس کی نا اہلی کا اظہار 2018ء سے شروع ہونے والے مسلسل احتجاجوں کے مطالبات پورے نہ کرنے سے ہوتا ہے۔ 18 جون کو ہونے والے صدارتی انتخابات بھی کسی مذاق سے کم نہیں ہیں۔ اس سے پہلے کم از کم مقابلہ بازی کا دکھاوا تو کیا جاتا تھا جب حکومت کی جانب سے مختلف رجحانات سے وابستہ امیدواران کو اجازت دی جاتی۔ البتہ اس دفعہ، حکومت نے محض سات امیدواروں کو اجازت دی ہے، جن سب کا تعلق شدید قسم کے قدامت پسند دھڑے سے ہے۔

یہ اقدام طاقت کی نہیں بلکہ کمزوری کی نشانی ہے۔ کئی دہائیوں تک، حکمران طبقہ شدت پسند اور معتدل یا لبرل حکومتوں کو یکے بعد دیگرے موقع دیتی رہی ہے۔ یہ سماجی بے چینی کو انتخابات کے ذریعے دبانے کا ایک طریقہ تھا۔ مگر حکمرانوں کی آپسی لڑائی بڑھنے اور سماجی و معاشی بحران گہرا ہونے کی وجہ سے، حکومت کی جانب سے آنے والے انتخابات کو دبایا جا رہا ہے تاکہ کسی تحریک کے ابھرنے کے امکانات کو ختم کیا جا سکے۔

2018ء سے سامنے آنے والی تمام عوامی تحریکیں، بغاوتیں اور موسمِ خزاں کے اندر خود رو ملکی سطح پر رونما ہونے والی ہڑتالیں قیادت اور ملکی سطح پر جڑت کے فقدان کی وجہ سے ناکام ہونا پڑا۔ یہ محنت کش طبقہ ہی ہے جو ایران کو وباء، ماحولیاتی تباہی اور موجودہ معاشی بحران کی تباہ کاریوں سے بچا سکتا ہے۔ یہ سب سرمایہ داری کی نہ ختم ہونے والی وحشت کا حصّہ ہیں۔ ایک انقلابی پروگرام کے ذریعے، محنت کش، حکومت کے خلاف تمام مظلوم عوام کو اپنے بینر تلے متحد کر سکتے ہیں۔ اسی صورت میں متحد محنت کش عوام بوسیدہ ایرانی سرمایہ داری کا تختہ اُلٹ سکتے ہیں!

Comments are closed.