فن کا ’’عرفان‘‘ رخصت ہوا

|تحریر: پارس جان|

میں ادب کا ایک ادنیٰ سا طالبعلم ہوں۔ فن کی ماہیت اور صحت کے بارے میں زیادہ جانتا تک نہیں۔ اور اگر جانتا بھی ہوں تو بس اتنا ہی کہ فن شاید علم نہیں طلسم ہے۔ یہ جاننے سے زیادہ جینے کا معاملہ ہے۔ یہ یقینا محض جسم کی نہیں بلکہ روح کی ورزش ہے۔ ہر انسان چاہے وہ کسی بھی شعبہ ہائے زندگی سے وابستہ ہو، چاہے پہاڑوں کا باسی ہو یا میدانوں کا، چاہے ساحلوں کا باشندہ ہو یا ریگستانوں کا، چاہے کسی بھی مذہب، نسل، فرقے اور حتیٰ کہ کسی بھی طبقے سے تعلق رکھتا ہو، اسے عرفانِ ذات کے لیے فن کے بے پایاں سمندر میں غوطہ زن ضرور ہونا پڑتا ہے۔ ویسے تو ہر شخص زندگی کے کسی نہ کسی مرحلے پر خود بھی کسی نہ کسی درجے کی کوئی نہ کوئی ادبی مشق ضرور کرتا ہے، وہ بھلے ہی اس مشق سے دستبردار ہو جائے مگر اس کے باطن میں اس فن کی مشک، کشش اور پیاس کبھی نہیں مرتی۔

سرمایہ دارانہ نظام نے تاریخ کے میدان میں قدم رکھتے ہی فن کو صنعت میں تبدیل کرنے کی بنا ڈال دی تھی اور فنکار کی ہر کاوش اور تخلیق سے بھی مزدور کی محنت کی طرح قدرِ زائد نچوڑ لینے کی خواہش اور امکانات مشین اور تکنیک کی ترقی کے ساتھ ساتھ پروان بھی چڑھتے گئے۔ حتیٰ کہ انسانوں کی بھاری اکثریت کو بھی آکسیجن خور مشینوں میں بدل دیا گیا۔ جسمانی اور ذہنی محنت کی تقسیم کی پیچیدگی ہی کم نہیں تھی کہ ذہنی سے ذہنی اور جسمانی سے جسمانی محنت کا بُعد (تفاوت) بھی انتہاؤں تک جا پہنچا۔ اس پیداواری عمل سے جنم لینے والی بیگانگی جب سماج کے رگ و ریشے تک سرایت کر گئی تو روحانی اور جسمانی طور پر بھوکا معاشرہ اس میکانکی معمول پر فخر کرنے لگا جہاں طعام میں سے ذائقے، مباشرت میں سے محبت اور فن میں سے لذت کی ضرورت کو ہی خیرباد کہہ دیا گیا۔ جمالیات کو سیاست اور معیشت کی لونڈی بنا دیا گیا۔ روحانی تسکین اور کردار کی تعمیر سے لاتعلق کیتھارسس اور افادے کے فن کو ایسے ہی معروضی اور موضوعی عوامل درکار تھے۔ اب فنکار کو ’ستارہ‘ اور فن کو ’برانڈ‘ بنا کر وہ مقصد بہت آسانی سے حاصل کیا جا سکتا تھا جو شروع دن سے ہی اس نظام کا مقصد و منشا تھا، یعنی زیادہ سے زیادہ منافع۔

سینما شاید فن کو صنعت کا درجہ دینے کا سب سے بڑا میڈیم ثابت ہوا۔ جہاں موسیقی، کہانی اور شاعری نہ صرف یہ کہ باہم بغل گیر ہو گئے بلکہ محنت کی سماجی تقسیم کی جمالیاتی تجسیم بن کر ایک نئی شکل میں نمودار ہوئے۔ بے مثال اجتماعی تفریح کے سامان کے ساتھ ساتھ ایک ایسے ”پیلے“ آسمان کا جنم ہوا جہاں چند انسان ”ستارے“ اور باقی ماندہ کیڑے مکوڑوں میں تبدیل ہو گئے۔ مگر فن کی روح اس تمام تر گلیمر کے حبس میں بھی سانس لیتی رہی۔ شاید مزاحمت ہی فن کی جبلت ہے۔ اسی مزاحمت نے اس پیلے آسمان پر ستاروں کے جھرمٹ میں چند ایسے ستاروں کو بھی روشناس کرایا جو اس مشینی چکاچوند میں بھی زندگی کی سرخی بکھیرتے رہے۔ پیلے آسمان کا ایک ایسا ہی سرخ ستارہ آج ابدی نیند سو گیا۔ اس کا نام عرفان خان تھا۔ اس کی پھیلائی ہوئی زندگی کی نمائندہ سرخی اس کے بعد بھی نسلِ انسانی کو منور کرتی رہے گی۔

اداکاری اپنی نوعیت کا ایک یکسر منفرد فن ہے۔ ہم بدقسمتی سے ایک معاشرے میں رہتے ہیں جہاں اداکاری کو مکاری اور دھوکہ دہی کے مترادف گردانا جاتا ہے۔ جب کوئی شخص مذموم مقاصد کے تحت وہ بننے کی کوشش کرے جو کہ وہ نہ ہو تو متاثرہ فریق اس کے بارے میں یہی خبر نشر کرتا پھرتا ہے کہ ”فلاں سے بچو، وہ بہت بڑا اداکار ہے“۔ اس لیے عام لوگوں کی بھاری اکثریت صرف ”ہیرو“ کی تو پوجا کرتی ہے مگر ”اداکار“ کو کبھی بھی اس کا جائز مقام دینے پر آمادہ نہیں ہوتی۔ یہ الگ بات کہ ہیرو بھی ایک اچھا اداکار ہو سکتا ہے مگر ایک اچھے اداکار کا ہیرو بننا قدرے مشکل ہوتا ہے۔ عرفان خان کا طرہ یہ ہے کہ اسے ہمیشہ ایک ہیرو کی نہیں بلکہ ایک مستند اداکار کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ ایسا نہیں ہے کہ وہ یا کوئی بھی عظیم فنکار ”انسانیت کی خدمت“ کے جذبے سے فلمی صنعت یا کسی بھی فن سے تعلق قائم کرتا ہے بلکہ اسے وہ ایک کیریئر کے طور پر ہی منتخب کرتے ہیں۔ کیونکہ سرمایہ دارانہ سماج میں بہرحال زندگی کی بنیاد ضروریات اور سہولیات کی تکمیل کے لیے کچھ نہ کچھ ضرور کرنا پڑتا ہے۔ مزدور کے پاس محنت کرنے کی قوت ہوتی ہے، وہ اسے بیچ دیتا ہے جبکہ فنکار کے پاس تخلیق کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے وہ بھی اسے بیچے بغیر اپنی صلاحیتوں کو سماج سے روشناس نہیں کرا سکتا۔ تمام شعبہ جات کی طرح فن میں بھی شدید مسابقت کا ماحول موجود ہوتا ہے اور جوں جوں یہ صنعت بھی ترقی کرتی چلی جاتی ہے تو یہ مسابقت بڑی بڑی اجارہ داریوں کو جنم دیتی ہے۔ فلمی صنعت میں یہ اجارہ داریاں باقی فنون کی نسبت کہیں زیادہ واضح اور واشگاف حقیقت کے طور پر محسوس کی جا سکتی ہیں۔ بالی وڈ کی ہی اگر مثال لیں تو یہاں نسل در نسل ”ہیروگردی“ اپنے عروج پر نظر آتی ہے۔ ویسے تو بڑے بڑے پروڈکشن ہاؤسز اور کمپنیوں نے اپنی مرکزیت قائم کی ہوئی ہے مگر اس مرکزیت کے ساتھ مصنفوں، ہدایتکاروں، شاعروں، تکنیکی ماہرین اور اداکاروں کا ایک نیٹ ورک بھی منسلک ہوتا ہے۔ اس وقت بڑے ناموں میں سے زیادہ تر ہیرو ایسے ہیں جو اس شعبے کی دوسری یا تیسری نسل کی نمائندگی کرتے ہیں۔ اداکاری کی الف ب سے بھی نابلد ان ضدی اور شوقین لڑکے، لڑکیوں کی بھاری بجٹ سے لانچنگ کر کے انہیں ”ابھرتے ہوئے ستارے“ تسلیم کروا ہی لیا جاتا ہے۔ اور پھر درجن بھر فلمیں کرنے کے بعد تھوڑی بہت اداکاری کی سمجھ بوجھ آ جانا کوئی اچنبھے کی بات بھی نہیں ہوتی۔ اس مسابقت اور اجارہ داری کے ماحول میں بھی سچے اور ورسٹائل فنکار سخت محنت کے بعد اپنے فن کا لوہا منوا ہی لیتے ہیں۔ بالی وڈ میں گزشتہ دو دہائیوں میں ان سچے فنکاروں کا سرخیل عرفان خان تھا جو گلیمر کے اس جالے کو پھاڑ کر آگے نکلا اور کسی بیساکھی اور سہارے کے بغیر اپنے دم پر فن کی بلندیوں پر چمکتا رہا۔

تمام فنون کی طرح فلم کا بھی اپنے عہد کے کردار کے ساتھ بہت گہرا اور جدلیاتی تعلق ہوتا ہے۔ جب سماج رجعت، جمود اور پسپائی کے عہد سے گزر رہا ہوتا ہے تو مذکورہ بالا سرمایہ دارانہ گرفت سماج کے ہر شعبے کی طرح فن کو بھی اور فن کے ہر شعبے کی طرح فلمی صنعت کو بھی مضبوطی سے جکڑے ہوئے ہوتی ہے۔ مگر وقت اور عہد ہمیشہ ایک جیسے نہیں رہتے۔ یہ رجعت اور جمود کا دور بھی بالآخر اپنے انجام کو پہنچ جاتا ہے۔ سماج میں ماضی کی فرسودگی کی نمائندگی کرنے والی ہر چیز کو نیا عہد پچھاڑ کر تاریخ کے کوڑے دان کا حصہ بنا دیتا ہے۔ وہی مسابقت کا اصول اب اپنی بقا کے لیے حقیقی فنکاروں کے راستے کے کانٹے صاف کرنا شروع کر دیتا ہے۔ مایوسی کے بادل چھٹ جاتے ہیں اور جوش، جذبہ اور امنگ نئے سماجی معمول کا بنیادی خاصہ بن جاتے ہیں۔ ادیبوں اور فنکاروں کی ایک نئی نسل پرانی کی جگہ لے لیتی ہے۔ گزشتہ صدی میں تیس، ساٹھ اور ستر کی دہائیاں برِصغیر کی فلمی صنعت کے حوالے سے اس عہد کی نمایاں مثال ہیں۔ اس عہد نے گرودت، دلیپ کمار، کشور کمار، محمد رفیع، لتا منگیشکر، سمیتا پٹیل اور اوم پوری جیسے عظیم فنکار پیدا کیے۔ اسی کی دہائی سے شروع ہونے والا زوال نوے کی دہائی میں اپنے منطقی انجام کو پہنچ چکا تھا۔ عرفان خان کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ وہ ایک انقلابی، ترقی پسند اور ابھار کے عہد کی پیداوار نہیں تھا بلکہ اس نے ایک جمود اور رجعت کے عہد میں بھی فن کی عمومی گراوٹ سے خود کو محفوظ رکھا اور ایک سچے فنکار کی طرح دھارے کے خلاف تیرتا رہا۔ اس نے جو مقام حاصل کیا اس میں معروضی امکانات سے زیادہ اس کے غیر معمولی ٹیلنٹ، جوش اور سخت محنت کا کردار تھا۔ یہی وجہ ہے کہ آج فن سے دلچسپی رکھنے والا ہر دل سوگوار اور ہر فلم بین آنکھ اشکبار ہے۔

عرفان خان کا تعلق راجستھان کے ایک قدرے متوسط گھرانے سے تھا۔ شہرت کی بلندیوں پر پہنچنے اور بہت سارے ایوارڈ اور اعزازات جیتنے کے باوجود اس کے ساتھی فنکار اسے ایک خوش مزاج اور باذوق انسان کے طور پر جانتے تھے۔ اس نے شاید ہی کوئی چھچھورا اور کم تر کردار نبھایا ہو گا۔ اس کے کرداروں کے انتخاب سے ہی اس کی شخصیت کا ایک مثبت اور خوشگوار تاثر قائم ہو جاتا ہے۔ اس نے چند ایک منفی کردار بھی نبھائے مگر ان کرداروں میں بھی اس نے اپنے مخصوص انداز اور اسلوب سے ایک ایسی روح پھونکی کہ وہ کردار بھی دیکھنے والوں کے دلوں میں اتر گئے۔ ”حاصل“ اور ”مقبول“ کو اس حوالے سے مثال کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔ اپنے کیرئیر کے آغاز میں جدید اردو شاعروں کی زندگی پر بننے والی ایک ٹی وی سیریز ’کہکشاں‘ میں عرفان خان نے ترقی پسندشاعر اور کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے رہنما مخدوم محی الدین کا کردار بھی نبھایا۔ لیکن پان سنگھ، مداری اور حیدر جیسی فلموں میں اس کے نبھائے گئے کردار امر ہو چکے ہیں۔ ان کرداروں کی سب سے بڑی خوبی ان کا مخصوص طبقاتی پسِ منظر اور سیاسی و نفسیاتی تاثر تھا جنہیں عرفان خان کی اداکاری نے یادگار بنا دیا۔ پان سنگھ کے کردار میں جس طرح عرفان خان نے خود کو سمویا ہے اس کی بہت ہی کم مثالیں موجود ہیں۔ عرفان خان اپنی اداکاری کے ذریعے دیکھنے والوں کو مجبور کر دیتا تھا کہ وہ اس کے ساتھ ساتھ چلیں، وہ ہنسے تو ہنسیں، وہ روئے تو اس سے بھی زیادہ روئیں۔ مداری فلم کا وہ سین جب عرفان خان اپنے بچے کی لاش لینے ہسپتال جاتا ہے شاید اس کی زندگی کی بہترین پرفارمنس تھی۔ اگر وہ سین پتھر کو بھی دکھا دیا جائے تو وہ بھی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے۔ عرفان خان نے شاید دانستہ طور پر اپنے لیے زندگی کے نمائندہ کردار منتخب کیے۔ یہ کردار کئی سالوں تک ہمارے ساتھ سانس لیتے رہیں گے۔ عرفان خان کے بولے گئے حیدر فلم کے یہ ڈائیلاگ بالی وڈ میں تا دیر گونجتے رہیں گے، ”تم مر جاؤ گے ڈاکٹر میں نہیں مروں گا، کیونکہ تم جسم ہو اور میں روح، تم فانی ہو میں لافانی ہوں، میں دریا ہوں، پہاڑ ہوں، نہ میں شیعہ ہوں نہ میں سنی، میں لافانی ہوں، میں نہیں مروں گا“۔

وقت کی روح میں اتر گیا ہے
فن کا اوتار کوچ کر گیا ہے

ذہن میں چل رہی ہے یخ آندھی
سارے لفظوں کا رنگ اتر گیا ہے

مرہمی آنکھ بند ہو گئی ہے
دائمی زخم خوں سے بھر گیا ہے

اک ثمر بار شاخ کٹ کے گری
ساتھ اک فاختہ کا گھر گیا ہے

آسماں تیری سسکیاں برحق
تیرا فنکار بھی تو مر گیا ہے

Comments are closed.