کیا افغان امن مذاکرات واقعی مسئلے کا حل ہے؟

|تحریر: زلمی پاسون|

چھ ماہ کی تاخیر کے بعد افغان حکومت اور طالبان کے مابین بین الافغانی مذاکرات کا افتتاحی اجلاس 12 ستمبر کو ہفتے کے روز دوحہ میں ہوا۔ مذاکرات کے افتتاحی اجلاس میں متعدد بین الاقوامی عہدیداروں نے شرکت کی۔ آٹھ رکنی افغان وفد کی قیادت معصوم ستانکزئی نے جبکہ سات رکنی طالبان وفد کی قیادت عبدالحکیم حقانی نے کی۔ مذاکرات کے آغاز میں قیدیوں کی رہائی کے انتہائی متنازعہ معاملے پر کئی مہینوں کی تاخیر کے بعد عمل درآمد شروع ہوا۔ فروری میں امریکہ کے ساتھ طے پانے والے امن معاہدے کے ایک حصے کے طور پر، طالبان نے حکومت کو اپنے 5 ہزار جنگجوؤں کی رہائی کے عوض ایک ہزار افغان فوجی اہلکاروں کو رہا کرنے پر اتفاق کیا تھا۔ شدید دباؤ اور ہچکچاہٹ کے بعد افغان صدر اشرف غنی نے بالآخر حتمی 320 ”سخت“ طالبان قیدیوں کی رہائی کی اجازت دینے پر اتفاق کیا۔ جس کے بعد مذاکرات کا سلسلہ شروع ہوا۔ مذاکرات کے دوران افغانستان میں کُشت و خون کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ رواں ہے۔ مذاکرات کے اس عمل پر تفصیل سے نظر ڈالنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم دنیا بھر کے حالات کا جائزہ لیں اور عالمی معاشی، سیاسی اور سماجی صورتحال کے پیشِ نظر کوئی واضح موقف اختیار کریں۔

عالمی مالیاتی بحران اور اُس کے اثرات

ہم بار بار ایک بات دہراتے رہتے ہیں کہ 2008ء کے مالی بحران کے بعد ایک نئے عہد کا آغاز ہوا، اور یہ سفر ایک عشرے میں دنیا بھر میں سطح پر ظاہر ہوا۔ دنیا بھر کے ممالک میں نئی تحریکیں اُبھرنے لگیں، جن کے نتیجے میں روایتی سیاست اور روایات تہس نہس ہو کر رہہ گئیں، مگر ساتھ ہی اس بحران کا سیاسی، سماجی اور معاشی اظہار غیر ہموار اور مشترکہ ترقی کے تحت ہونے لگا۔ جوں جوں وقت گزرتا گیا توں توں اس بحران سے پیدا ہونے والی خلیج وسیع تر ہونے لگی۔ 2008ء کے بحران کے آغاز سے اب تک ایک بھی مسئلہ حل نہیں ہوا ہے۔ 2008ء کے بعد عالمی معیشت میں اب تک کوئی بھی حقیقی بازیابی نہیں ہوئی، اور اب ہمیں دنیا بھر میں ایک اور کساد بازاری کا سامنا ہے۔ تاہم اس بار وہ تمام اقدامات جو معیشت کو کساد بازاری سے نکالنے کے لئے استعمال کیے جانے کے لئے تھے وہ پہلے ہی استعمال ہوچکے ہیں۔ اور یہاں یہ بتانا انتہائی ضروری ہے کہ کوروناوباء موجودہ معاشی بحران کی وجہ نہیں ہے، بلکہ معاشی بحران اس وباء سے پہلے بھی تیزی سے عالمی سطح پر بڑھ رہا تھا۔ لیکن اس وباء نے بلاشبہ پوری صورتحال کو پیچیدہ کر کے بحران کو اور گہرا کردیا ہے۔ جدلیاتی طور پر، وجہ اثر بن جاتی ہے اور اثر وجہ۔ معاشی بحرانات کے نتیجے میں پھر سیاسی اور سماجی تبدیلیوں جنم لیتی ہیں۔ اس حوالے سے یہ سمجھنا انتہائی اہم ہے کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد کا بنا ہوا ورلڈ آرڈرٹوٹ کر بکھر رہا ہے اور اس عرصے میں بننے والے اتحاد، اسٹیٹس کو، ریاستیں اور سیاسی پارٹیاں ختم ہو رہی ہیں او ر ان کی جگہ بالکل نئی تشکیلات جنم لے رہی ہیں۔ اس عمل میں اس پورے خطے کا محنت کش طبقہ بھی تاریخ کے بد ترین دور سے گزر رہا ہے اور کروڑوں لوگ بھوک، بیماری اور اذیت کی دلدل میں دھنستے چلے جا رہے ہیں۔ ایسے میں دنیا بھر کے اندر محنت کش طبقے کی تحریک ایک نئی کروٹ لے چکی ہے، جس کا اظہار 2019ء میں دنیا کے بیشتر ممالک میں مختلف احتجاجی تحریکوں کی شکل میں دیکھا گیا ہے۔ بالخصوص یہ تحریکیں افغانستان کے ہمسایہ ممالک ایران، انڈیا اور چائنہ کے زیرِ اہتمام ہانگ کانگ میں شدت سے اُبھری تھیں۔ کورونا وباء کے دوران یہ تمام تحریکیں ایک حد تک خاموش ہوئیں، مگر اس کے ساتھ کورونا وباء کے دوران ایسے نئے ممالک جہاں 2019ء میں کوئی عوامی تحریکیں نہیں تھیں، وہاں بھی احتجاجی تحریکوں کا آغاز ہوا، بالخصوص امریکہ میں سیاہ فام شہری جارج فلوئیڈ کے ریاستی قتل کے بعد جو تحریک اُٹھی وہ 1960ء کی دہائی کی احتجاجی تحریکوں سے زیادہ شدید تھی۔ گوکہ امریکہ میں نسل پرستی کا مسئلہ کافی پرانا ہے مگر اس دفعہ کی جو احتجاجی تحریک کی لہر اُٹھی اُس میں سرمایہ دارانہ نظام کے ظلم، جبر اور استحصال سے عوام نے تنگ آکر وباء کے دوران تمام تر احتیاطی تدابیر کو پسِ پُشت ڈال دیا اور تحریک کی شدت اتنی زیادہ تھی کہ امریکہ کے 200 شہروں میں کرفیو کا نفاذ ہوا مگر اس کے بوجود عوام نے ریاستی اداروں کے تمام تر ہتھکنڈوں کا پردہ چاک کرتے ہوئے بھرپور انداز میں احتجاجوں میں حصہ لیا۔ اس کے علاوہ احتجاجوں کا یہ سلسلہ یورپ سمیت لاطینی امریکہ تک پھیل گیا۔ جبکہ مشرقی یورپ اور لبنان میں احتجاجوں کا نیا سلسلہ شروع ہوا جس نے حکمران طبقے کو شکست دی۔ اس تمام تر بحث سے ہم یہ نتیجہ نکال سکتے ہیں کہ اس وقت عالمی سرمایہ دارانہ نظام اپنے نامیاتی بحران کی وجہ سے ٹوٹ کر بکھر چکا ہے جس کا اظہار ہم دنیابھر میں کورونا وباء کے بعد صحت، تعلیم، بیروزگاری، لاعلاجی، غربت، پسماندگی اور قدرتی آفات کے نتیجے میں ہونے والی تباہ کاریوں کی شکل میں دیکھ رہے ہیں۔ ایسی حالت میں افغانستان کی صورتحال ابتر سے ابتر ہوتی جارہی ہے۔

افغان طالبان اور خطے کی تبدیل ہوتی ہوئی صورتحال

دوسری عالمی جنگ کے بعد کے ورلڈ آرڈرکی ٹوٹ پھوٹ کے حوالے سے اگر مختصراََ اور مخصوص ضمن میں بات کی جائے تو یہ کہنا کافی ہوگا کہ اس وقت افغانستان کے ساتھ خطے میں جو تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں ان کے نتیجے میں انتہائی تیز رفتار کیساتھ ہمسایہ ممالک کی دشمنیاں دوستی میں اور دوستیاں دشمنی میں تبدیل ہورہی ہیں۔ خطے میں موقع پرستی کی بنیاد پرنئے اتحاد بن اور ٹوٹ رہے ہیں۔ ایک طرف چین، ایران، روس کاایک ممکنہ اتحاد نظر آرہا ہے جبکہ دوسری طرف انڈیا، جو پہلے امریکہ مخالف کیمپ میں تھا، وہ امریکی سامراج کے پلڑے میں آگیا جبکہ افغانستان میں طالبانوں پر اثر رسوخ جمانے والا ملک سعودی عرب پہلے سے موجود ہے۔ موجودہ صورت حال میں پاکستانی حکمران طبقے کو انتہائی کٹھن آزمائش کا سامنا ہے۔ پاکستانی حکمران طبقہ اس وقت امریکی و چینی سامراج کے درمیان لٹک رہا ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان کی بھکاری معیشت بھی شدید کمزوری کا شکار ہے جس میں آئی ایم ایف کے 2018ء میں دیے گئے قرضے اور اس قرضے کی سخت ترین شرائط بھی امریکی سامراج کے آشیرباد سے طے ہوئیں۔ آنے والے عرصے میں پاکستان چینی و امریکی سامراج کے درمیان ہچکولے کھاتا رہے گا کیونکہ سرمایہ دارانہ نظام کا خصی پن اسے کسی فیصلہ کن مقام تک نہیں پہنچنے دے پا رہا۔ اسی طرح خطے کے حوالے سے امریکی سامراج کی پالیسی بھی تقریباََ یکسر تبدیل ہو چکی ہے، جس میں خطے میں پاکستان کا ماضی والا کردار انڈیا کو دیا جاچکا ہے، جس کو کافی حد تک پاکستانی ریاست نے قبول کیا ہے مگر پاکستانی ریاست کے اندرونی تضادات اس عمل کو قبول کرنے میں گومگو کی کیفیت میں ہیں جس کی وجہ سے وہ اپنی واضح پالیسی کا اعلان نہیں کرسکتی۔

اس تمام تر صورتحال میں افغانستان مسلسل تباہی اور بربادی کا شکار ہے اور وہاں کے عوام بھوک، بیماری اور لاعلاجی سے مرنے کے ساتھ ساتھ سامراجی جنگ کا ایندھن بھی بن رہے ہیں۔ ایک طرف امریکی سامراج کی گماشتہ نام نہاد افغان حکومت ہے جو سامراجی ایجنڈے کے تحت عوام کے زخموں پر مسلسل نمک چھڑک Samiullah, 8 months old and malnourished, is held by his mother, Islam Bibi, 15, at a hospital in Lashgar Gar, in Helmand Province, in September 2013.رہی ہے جبکہ دوسری جانب طالبان کی خونی وحشت ہے جو امریکہ مخالف سامراجی طاقتوں کی حمایت سے افغانستان کے عوام پر دوبارہ مسلط کی جا رہی ہے۔ افغانستان کے محنت کش عوام سامراجی طاقتوں سے نفرت کرنے کے ساتھ ساتھ حکمران طبقات کے ان تمام دھڑوں سے بھی شدید نفرت کرتے ہیں اور کئی دفعہ ان کے خلاف اپنی نفرت کا کھل کر اظہار بھی کر چکے ہیں۔ سامراج کی خونی بیساکھیوں پر قائم افغان حکومت میں شامل افراد محنت کشوں کے خون کا سودا کر کے اپنی تجوریاں بھرتے چلے جا رہے ہیں اور اپنی مراعات یافتہ زندگیوں کے تحفظ کے لیے سامراجی طاقتوں کی بد ترین کاسہ لیسی کرتے نظر آتے ہیں۔ لبرل ازم کے عوام دشمن نظریات کو مسلط کرنے کی کوششوں میں انہیں بد ترین ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے جو عالمی سطح پر سرمایہ دارانہ نظام کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ امریکی سامراج کی ذلت آمیز شکست نے افغان حکومت میں شامل سامراجی گماشتوں کی مراعات یافتہ زندگیوں کو بھی داؤ پر لگا دیا ہے اور وہ اسے بچانے کی سرتوڑ کوششیں کر رہے ہیں۔

دوسری جانب طالبان امریکی سامراج کو شکست دینے کا سہرا اپنے سر پر سجانا چاہتے ہیں لیکن انہیں اس میں کامیابی نہیں ہورہی۔ اپنے رجعتی اور بنیاد پرست نظریات کو عوام پرمسلط کرنے کے لیے انہیں اسی سرمایہ دارانہ نظام کی حمایت ہی درکار ہے جس کاسربراہ ابھی بھی دنیا میں امریکہ ہی ہے۔ طالبان کی تمام تر رجعتیت بھی اسی نظام کا ہی حصہ ہے اور ان کی بنیادافغانستان میں امریکی سامراج نے ہی رکھی تھی اور اس درندگی کی آبیاری بھی امریکی ڈالروں سے ہی ہوئی تھی۔ اپنے دور اقتدار میں بھی طالبان سرمایہ دارانہ نظام کی حدود میں ہی اپنی رجعتیت کو مسلط کر رہے تھے۔ 2001ء میں اپنے آقاؤں سے اختلافات کی صورت میں انہیں اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑے جس کے نتیجے میں انہوں نے اقتدار کی ہوس میں امریکہ مخالف قوتوں کی حمایت سے جنگ جاری رکھی۔ اس دوران اپنے زیر تسلط علاقوں سے لے کر پورے ملک کے اندر محنت کشوں کے خون کی ہولی بھی جاری رکھی گئی اور بے گناہوں کی قتل و غارت کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ اسی طرح فرقہ وارانہ تعصبات کو مسلط کرنے کی کوششیں بھی کی گئیں اور اقتدار میں واپسی کے بعد لوٹ مار میں حصے کے لیے مذاکرات بھی ہوتے رہے۔ اس حوالے سے امریکی سامراج کی پسپائی نے ان کودوبارہ سیاسی اہمیت فراہم کی گوکہ افغان عوام نے ان کو کئی دفعہ رد کیا ہے اور وہ کسی بھی طرح عوام کے نمائندے نہیں ہیں۔ موجودہ صورتحال میں افغانستان کے حکمران طبقات کے باہمی تضادات اور مفادات اب مزید شدت اختیار کر رہے ہیں جبکہ سامراجی طاقتوں کی لڑائی افغانستان میں کشت و خون کے ایک نئے دور کا آغاز کرنے جا رہی ہے جس کا خمیازہ پھر عام عوام بھگتیں گے جبکہ حکمران طبقات اپنی تجوریاں مزید بھرنے کی کوششیں کریں گے۔ خاص طور پر امریکی افواج کے انخلاسے مقامی طاقتوں کی لڑائی میں شدت آئے گی۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ افغانستان میں طالبان اب کسی صورت بھی پہلے والی حالت میں موجود نہیں اور ان میں بھی بہت سے باہمی تضادات موجود ہیں۔ اسی طرح اب وہ ماضی کی طرح صرف چند ممالک بالخصوص پاکستان اور سعودی عرب کی پراکسی کی طرح موجود نہیں ہیں بلکہ 2014ء میں افغانستان سے نیٹو افواج کے انخلاء کے بعد طالبان نے اپنے لیے مزید آقاؤں کی تلاش شروع کر دی تھی جس میں انہیں پاکستان کی جانب سے تھوڑے بہت رخنے ڈالنے کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ اس حوالے سے یہ سمجھنا کافی آسان ہوگا کہ اگر افغانستان میں طالبان اور کابل حکومت ایک مشترکہ حکومت کے قیام پر راضی ہوتے ہیں تو اس مد میں طالبان کے پاکستان سے تعلقات میں مزید تبدیلی آسکتی ہے اور طالبان خطے کے دیگر ممالک، جن کے ساتھ افغان مذاکرات کے دوران ملاقاتوں اور دوروں کا سلسلہ رہا ہے، سے تعلقات بنائیں گے جن میں روس، چین، انڈیا اور ایران نمایاں ہیں۔ اس حوالے سے طالبان کے خطے میں دیگر ممالک کیساتھ بننے والے تعلقات کا مختصراََ جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔

چین، طالبان اور افغانستان

Afghan Taliban team visits China | World News,The Indian Express

بیجنگ اور کابل کے مابین معاشی تعلقات بنیادی طور پر سیکورٹی خدشات کی وجہ سے منجمد یا تعطل کا شکار ہیں۔ افغانستان سے غیر ملکی افواج کا انخلا سیکورٹی کی موجودہ ابتر صورتحال کو مزید غیر یقینی بنا دے گا۔ افغان امن عمل کے ممکنہ نتائج سے چین کے حکمران افغانستان میں امن عامہ کی مزید خرابی، جبکہ کسی منظم قوت کی عدم موجودگی سے مبینہ خلاء کے نتیجے میں انتشار کے بڑھنے کے بارے میں خاصے پریشان ہیں۔ کیونکہ چین اپنے مالی مفادات کے تحفظ کے لیے افغانستان میں امن چاہتا ہے، اسی لیے چین نے طالبان کو یہ پیشکش کی ہے کہ امریکی فوج کے انخلاء کے بعد اگر وہ افغانستان میں امن کو یقینی بناسکتے ہیں تو وہ طالبان کے لئے ایک روڈ نیٹ ورک بنائینگے۔ اس حوالے سے چین کو افغانستان کے مظلوم عوام کی کوئی فکر نہیں ہے بلکہ اُس کے اپنے سامراجی عزائم ہیں جن کی بنیاد پر وہ افغانستان میں اپنی سرمایہ کاری کرنے کے کیساتھ ساتھ پاکستان میں جاری سامراجی سرمایہ کاری کی حفاظت اور تزویراتی گہرائی کی پالیسیوں کو دوام بخشنے کی دوڑ میں ہے۔ اگر امریکہ افغانستان سے مکمل طور پر نکل جاتا ہے اور چین کو استحکام کی کوششوں میں زیادہ زور سے سرمایہ کاری کرنا پڑتی ہے تو بیجنگ اپنی ترقیاتی امداد، سفارتکاری، فوجی امداد اور سیاسی مداخلت میں اضافہ کرے گا۔ تاہم افغانستان میں چین کی مداخلت کے حوالے سے نہ صرف چین اندرونی طور پر شکوک و شبہات کا شکار ہے بلکہ امریکی سامراج بھی افغانستان میں چینی مداخلت کوکم تر درجے پر رکھنا چاہتا ہے۔ اس کے علاوہ چین کی یہ بھی تشویش ہے کہ افغانستان میں امن و امان کی صورتحال اور عدم استحکام سے مذہبی بنیاد پرستی چین میں پھیل رہی ہے۔ اس چیلنج سے نمٹنے کے لئے چین کا مطالبہ ہے کہ وہ کابل اور طالبان دونوں کے ساتھ مل کر کام کرے۔ اس کے نتیجے میں بیجنگ نے مسلسل سیاسی شمولیت اور دونوں فریقوں کے مابین مفاہمت کی حمایت کی ہے۔ چین نے 2014ء میں نیٹو افواج کے انخلاء کے بعد طالبان کیساتھ تعلقات استوار کرنے شروع کیے۔ مزید برآں، چین کی جانب سے افغانستان میں ایغور عسکریت پسندوں کی محفوظ پناہ گاہوں کو ختم کرنے کی کوششوں اور طالبان کی جانب سے ایغور عسکریت پسندوں کے ساتھ تعلقات ختم کروانے کے دوران چین اور طالبان میں ایک لین دین کا رشتہ پیدا ہونا شروع ہوا۔ 2014ء میں طالبان کے وفود نے عوامی طور پر اور باقاعدگی سے چین کے دورے کرنے شروع کیے جسکے نتیجے میں چین نے ارمچی میں کابل اور طالبان کے مابین خفیہ بات چیت کرانے کے لیے سہولیات فراہم کیں۔ مختصراََ چین افغانستان میں امن اوراستحکام کا خواہاں ہے تاکہ افغانستان میں وہ اپنے سامراجی پنجے گاڑ سکے، مگر ساتھ ہی ساتھ وہ طالبان کے کردار کے حوالے سے بھی خدشات رکھتے ہیں کیونکہ طالبان کے پُرانے کردار پر چین راضی نہیں ہے اور وہ افغانستان میں رائج نام نہاد جمہوریت کیساتھ طالبان کے چلنے کا حامی ہے۔

انڈیا، افغانستان اور طالبان

India and Afghanistan: A Growing Partnership – The Diplomat

انڈیا کے افغانستان کے ساتھ موجودہ دور میں تعلقات کچھ بہتر ہوچکے ہیں، جس میں واضح طور پر امریکی سامراج کے آشیرباد کا نمایاں اثر موجود ہے۔ امریکی سامراج نے انڈیا سے افغانستان میں اپنی فوجیں بھیجنے کا مطالبہ کیا تھا، جسے انڈیا نے رد کرتے ہوئے صرف سرمایہ کاری کرنے اور اپنی سٹریٹیجک پالیسیوں کے تسلسل پر ہی اکتفا کیا۔ مگر انڈیا مخالفت میں طالبان کا اپنے پُرانے دور میں ایک واضح مؤقف تھا جبکہ حالیہ مذاکرات کے دور میں اس موقف میں نمایاں تبدیلی آئی ہے جس کا اظہار طالبان کی طرف سے انڈیا کیساتھ تعلقات بہتر بنانے اور مذاکرات کی پیشکش سے منسوب کیا جاسکتا ہے۔ انڈیا کی جانب سے اس آفر کے جواب میں کوئی واضح موقف سامنے نہیں آیا، مگر صرف یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس پورے عمل میں عالمی اور بالخصوص خطے میں تعلقات کی تبدیل ہوتی ہوئی صورتحال کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ چین اور انڈیا کے تضادات اور سرحدوں پر بڑھتا تناؤبھی یہاں پر اثرات مرتب کرے گا۔ چین پہلے ہی انڈیا کے ایران سے تعلقات کو محدود کر چکا ہے اور چاہ بہار کی بندرگاہ سے انڈیا کی تجارت کو ختم کرواچکا ہے۔ اس صورتحال میں افغانستان میں بھی چین انڈیا کے کردار کو محدود کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ طالبان کے انڈیا کے ساتھ تعلقات بنانے میں پاکستان کا مؤقف کیا ہوسکتا ہے؟ اس سوال کا جواب اوپر بحث میں مذکور ہے، کہ طالبان اب صرف پاکستانی ریاست پر انحصار نہیں کرتے جس کا آغاز امریکی ڈالروں سے ہونے والے جہاد میں ہوا تھا بلکہ اب انہوں نے پاکستان سے الگ اپنا آزادانہ کردار بنانے کی تگ و دو شروع کی ہے، جس میں وہ کسی حد تک کامیاب بھی رہے ہیں۔ مگر ساتھ ہی ساتھ پاکستانی ریاست یہ عمل برداشت نہیں کر پائے گی اور اسے کو روکنے کے لیے وہ اقدامات کرنے سے گریز نہیں کرے گی۔ مگر کامیابی ملنے کے امکانات بہت کم ہیں اور تضادات سے یہ بھرپور عمل دونوں فریقین کی مزید ٹوٹ پھوٹ اور کمزور ی کی شکل میں اپنا اظہار کرے گا۔

ایران، طالبان اور افغانستان

تہران کے ساتھ قطر کے بہتر تعلقات نے ایران اور طالبان کے قریب تر ہونے میں مدد کی ہے۔

ایران ایک ایساعلاقائی سامراجی کھلاڑی ہے جس کو اپنے پیچیدہ ماحول کے بارے میں واضح فہم ہے۔ افغانستان کے ساتھ ایران کے تعلقات کی پیچیدہ نوعیت کے بہت سے عوامل ہیں مگر اس وقت افغانستان کے ساتھ ایران کے پیچیدہ تعلقات کا ایک حصہ امریکی سامراج (جوکہ کابل حکومت کا پاسدار ہے) سے اس کی قطعی مخالفت کے ساتھ منسوب کیا جاسکتا ہے۔ جبکہ شیعہ اکثریتی ملک کی حیثیت سے ایران کی افغان طالبان کے ساتھ فرقہ پرور اختلافات اور سیاسی دشمنی کی ایک لمبی تاریخ رہی ہے۔

تہران اور طالبان کے مابین تعلقات بننے کے بہت سے شواہد ہیں اوریہ تعلقات طالبان حکومت کے عہد کے بالکل برعکس ہیں۔ ماضی میں طالبان کو ایران کے حریف سعودی عرب کی سرپرستی بھی حاصل تھی، تاہم نائن الیون کے بعد کے عالمی منظرنامے میں تبدیل ہوتے ہوئے زمینی حقائق کے ساتھ ہی پرانے رویوں میں تبدیلی آئی۔ اس طرح کی ایک تبدیلی سعودی طالبان تعلقات میں دیکھی گئی۔اس عرصے میں سعودیوں کے لئے اپنے آقاامریکہ کی قیمت پر طالبان کی حمایت کرنا مشکل ہوگیا تھا۔ حالیہ برسوں میں قطر (جہاں طالبان کا اپنا سیاسی دفتر واقع ہے) کے خلاف سعودی عرب کا سخت مؤقف دیکھنے کو ملتا ہے۔ اس کے علاوہ تہران کے ساتھ قطر کے بہتر تعلقات نے ایران اور طالبان کے قریب تر ہونے میں مدد کی ہے۔ یہ افواہیں بھی موجود ہیں کہ روایتی طورپر پاکستان سے مضبوط تعلقات رکھنے کے لئے مشہورحقانی نیٹ ورک ایران کے بھی قریب تر ہوتا جارہا ہے۔ ایک طویل عرصے سے افغانستان میں امریکی سامراج کی موجودگی کو ایران خود کو گھیرنے کے مترادف سمجھتا ہے۔ اس امر نے ایران کو طالبان کے ساتھ مشترکہ بنیاد فراہم کی۔ پُرانی کہاوت ہے کہ ”دشمن کا دشمن دوست ہوتا ہے“، اسی کے مطابق دونوں فریقوں کے مابین تعلقات کو فروغ دینے کا ایک موقع پیدا ہوا۔ تہران اور طالبان، افغانستان میں داعش کی مقامی وابستہ شاخ اسلامی ریاست خراسان کے خلاف بھی مشترکہ دشمنی کا اظہار کرتے ہیں جس نے بھی دونوں فریقین کے مابین باہمی تعاون کو مزید معاونت فراہم کی۔ تاہم ان کے عارضی مشترکہ مفادات کے باوجود ایران اور طالبان کے تعلقات کے اور بھی عوامل ہیں۔ ایران کی جانب سے طالبان کی حمایت اُس کو طویل عرصے میں افغانستان میں حقیقی اثر و رسوخ مہیا کرے گی، خاص طور پراگر طالبان افغان حکومت کے ڈھانچے میں ضم ہوجائیں۔ مگر یہ کہنا مناسب ہوگا کہ ایران اور طالبان اتحاد بنیادی طور پر موقع پرست اور ایک حد تک سہولت کی شادی سمجھی جاسکتی ہے۔

افغان امن مذاکرات اور ممکنہ حل

سوال یہ ہے کہ مذاکرات کا ایجنڈا کیا ہے؟ توقع کی جارہی ہے کہ مذاکرات میں مستقل جنگ بندی، خواتین اور اقلیتوں کے حقوق اور ملک کے متعدد ملیشیا گروپوں اور مسلح طالبان کے تخفیفِ اسلحہ کی شرائط شامل ہوں گی۔ مزید وسیع پیمانے پر دونوں فریق طویل مدتی آئینی انتظامات کے ساتھ ساتھ ان کے مابین اقتدار میں شراکت کے ممکنہ انتظام پر بھی تبادلہ خیال کریں گے۔ مذاکرات کے افتتاحی اجلاس میں اگرچہ افغانستان سے گئے ہوئے افغان حکومتی وفد کی سب سے پہلی ترجیح جنگ بندی تھی لیکن طالبان وفد کے لیے جنگ بندی سے زیادہ اہم کچھ اور مسائل تھے جو اُن کے مطابق جنگ بندی سے پہلے حل ہونے چاہئیں۔ بی بی سی پشتو کے ساتھ ایک انٹرویو میں طالبان کے سابق ترجمان اور مذاکراتی ٹیم کے رکن سہیل شاہین نے کہا کہ جنگ بندی سے پہلے وہ عوامل ختم کرنے ہوں گے جس کی وجہ سے جنگ جاری ہے۔ یاد رہے کہ افغانستان میں قیام امن کے لیے امریکہ اور طالبان نے رواں برس 29 فروری کو قطر میں ایک نام نہاد معاہدے پر دستخط کیے تھے جس کے تحت طالبان اور افغان حکومت کے قیدیوں کی رہائی، بین الافغان مذاکرات اور پھر عالمی سطح پر بات چیت کے ذریعے ایک قومی حکومت کا قیام عمل میں لانا تھا۔ مگر اس ضمن میں پاور شیئرنگ کے حوالے سے افغان صدر اشرف غنی نے حال ہی میں مقامی نامہ نگاروں کو بتایا تھا کہ”امن کا مطلب اقتدار میں شراکت کا سیاسی معاہدہ نہیں ہے“۔ اس بات چیت کا ایک اہم حصہ ممکنہ طور پر اس بات کا مرکز بنے گا کہ آیا جنگ بندی سے پہلے یا بعد میں سیاسی تصفیہ نافذ کیا جائے گا۔ افغان حکومت پہلے ہی کہہ چکی ہے کہ وہ پہلے ایک سیاسی تصفیہ دیکھنا چاہتی ہے۔ لیکن کم سے کم اپنے سیاسی مقاصد کے حصول سے قبل طالبان کی جانب سے مسلح سرگرمی ختم کرنے کا امکان نہیں ہے۔ دونوں فریقین ان امور پر کوشش کے لئے عبوری حکومت کے تقرر پر اتفاق کرسکتے ہیں۔ امن مذاکرات کے دوران تشدد کا سلسلہ جاری ہے، جبکہ یہ مذاکرات پورے ملک میں جاری تشدد کے پس منظر کے خلاف ہو رہے ہیں۔ گزشتہ ہفتے افغانستان میں اقوام متحدہ کے اعلیٰ عہدیدار نے متنبہ کیا تھا کہ خونریزی اور تشدد کافی بلند سطح پر آگیا ہے اور ان وجوہات کے باعث مذاکرات کو پٹڑی سے اتارنے کی دھمکی دی گئی ہے۔ ہفتہ کو مذاکرات کے آغاز سے چند گھنٹے قبل طالبان نے ملک بھر میں سرکاری تنصیبات پر حملوں کی ایک نئی لہر کاآغاز کیا اور افغان سیکورٹی فورسز نے ہفتہ کے روز ملک کے کچھ حصوں میں ہوائی اور زمینی حملے کیے۔ یہ صورتحال ان مذاکرات کی کھوکھلی حیثیت کو واضح کرنے کے لیے کافی ہے۔

افغان وزارت دفاع کے ترجمان نے بتایا ”بین الا افغان مذاکرات کے آغاز کے ساتھ ہی ہم توقع کر رہے تھے کہ طالبان اپنے حملوں کی تعداد کو کم کردیں گے لیکن بدقسمتی سے ان کے حملوں کی تعداد ابھی بھی زیادہ ہے“۔ تشدداور مذاکرات کے حوالے سے حکمران طبقات کی میڈیا پرجو رائے موجود ہے، کہ طالبان مذاکرات کے دوران دہشتگردی کا سلسلہ اس لیے ختم نہیں کر رہے ہیں تاکہ اپنی زیادہ سے زیادہ شرائط منوائی جائیں، میں سو فی صد درستی نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ طالبان اس وقت شدید کمزور اور باہمی تضادات اور اختلافات کا شکار ہیں اور خاص کر مذاکرات کے حوالے سے اُن میں شدید تناؤ اور پھوٹ موجود ہے جس کا اظہار طالبان کی آپسی لڑائیوں میں دیکھا جاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ دوسرے علاقائی سامراجی ممالک امریکی سامراج کے خصی پن اور خطے کے حوالے سے صورتحال میں تبدیلی کی وجہ سے اس کھیل میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں جن میں ایران، روس اور چین کی موجودگی واضح ہے۔ لہٰذا امن مذاکرات کے حوالے سے یہ واضح ہے کہ یہ مذاکرات کچھ بھی حل نہیں کر سکیں گے اور نہ ہی افغانستان کی مفلوک الحال عوام کو اس سے کسی بھی قسم کی کوئی امید ہے۔

امریکی خواہشات کے مطابق افغانستان میں اس نام نہاد مذاکرات کے عمل کے دوران طالبان کے مسلح گروپوں کو مکمل طور پرغیر مسلح نہیں کیا جا سکے گالیکن ساتھ ہی اس عمل کے دوران طالبان کے کمزور ہونے کا عمل شدت اختیار کر سکتا ہے جو مزید خونریزی کا باعث بنے گا۔ مگر ساتھ ہی ساتھ یہ بھی واضح ہے کہ یہ عمل اتنا سادہ بھی نہیں ہوسکتا، کیونکہ امن مذکرات کے بعد اگر امریکی فوج کا مکمل انخلاء سامنے آتا ہے تودیگر عالمی و علاقائی سامراجیوں کو کھل کر کردار ادا کرنے کا موقع ملے گا، جس میں نہ صرف طالبان کو اپنے سامراجی عزائم کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے بلکہ افغانستان میں موجود وار لارڈز بھی ان علاقائی و عالمی سامراجیوں کی نیلامی کے زیرِ اثر آسکتے ہیں۔ مذاکرات کے اس عمل میں دونوں اطراف سے مذاکراتی وفود کو عوامی حمایت حاصل نہیں ہے، گوکہ مظلوم افغان عوام امن کو ترس رہی ہے مگر اس طرح کے امن مذاکرات افغانستان میں جاری کُشت و خون کو روکنے میں دائمی طور پر ناکام ثابت ہوں گے۔

A suicide bomber struck near a hotel in Kabul in December 2009, killing at least eight people and wounding dozens.

افغانستان میں امن کا سوال اس سرمایہ دارانہ نظام کے اُکھاڑنے سے بلاواسطہ منسلک ہے جوملک کی حدود کے اندر رہتے ہوئے ممکن نہیں۔ افغانستان کی محنت کش عوام کی تقدیر کا فیصلہ خطے کے دیگر ممالک کے محنت کش عوام کیساتھ جڑا ہوا ہے۔ مظلوم افغان عوام کے پاس اس وقت ایک ہی راستہ ہے اور وہ راستہ سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف قوتوں کو تعمیر کرنے کا ہے۔ آج افغانستان میں زندگی ایک جہنم سے کم نہیں جہاں سامراجی دہشت گردی، بد امنی، بھوک، افلاس، غربت، بیروزگاری، لاعلاجی، ناخواندگی اور بنیادی سہولیات کی عدم موجودگی کے سوالات انتہائی دردناک حالت میں موجود ہیں۔ ایک اور بنیادی سوال یہاں اُٹھتا ہے کہ کیا افغانستان کے موجودہ پُر انتشار حالات میں عوامی تحریک کا اُٹھناممکن ہے؟ اس سوال کے جواب میں صرف یہ کہنا مناسب ہوگا کہ افغان سماج کے اندر لاوا کئی دہائیوں سے پک رہا ہے۔ اس کا اظہار ہم نے افغانستان میں مختلف احتجاجوں کی شکل میں دیکھا ہے اور ان احتجاجوں میں طالبان، نیٹو اور افغان فوج، تینوں کے خلاف نفرت دیکھی گئی ہے۔ جبکہ خواتین کی جانب سے طالبان کے گڑھ لشکر گاہ (ہلمند) میں جنگ مخالف دھرنے اور ہلمند سے کابل تک جنگ مخالف لانگ مارچ کیا گیا، جسے عوامی سطح پر خاطر خواہ حمایت ملی۔ مگر یہ بات واضح ہے کہ افغان عوام کی تقدیر کا حتمی فیصلہ خطے کے محنت کش طبقے کی انقلابی جدوجہد سے جڑا ہے۔ اگر افغانستان کے ہمسایہ ممالک میں کسی ایک ملک کے اندر محنت کش طبقہ اس ظالم اور جابر نظام کے خلاف جدوجہد کے لیے اُٹھے گا تو اُن کی ایک للکار پر مظلوم افغان عوام لبیک کہتے ہوئے افغان حکمران طبقات سمیت عالمی و علاقائی سامراجیوں کو ایسی مات دے گی کہ تاریخ یاد رکھے گی۔

 

Comments are closed.